آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے مسلمانوں کے تعلق سے گزشتہ 4جولائی کو جوعدیم المثال بیانات دئے‘ کہا جارہا ہے کہ ان کا سبب مشہور مسلم مفکرڈاکٹر خواجہ افتخاراحمد کی وہ ہمہ جہت اور جامع تقریر بنی جو انہوں نے موہن بھاگوت کے ذریعہ اپنی نئی کتاب کے اجرا سے پہلے کی تھی ۔خواجہ صاحب سے میرا تعلق تین دہائیوں پرانا ہے۔میں نے بہت قریب رہ کر بھی انہیں پرکھااور دور جاکر بھی۔ان کے جو بھی سیاسی نظریات رہے ہوں ان کی ایک خوبی نے مجھے بے حد متاثر کیا۔وہ 1992کے بعد ہر وزیر اعظم کے انتہائی قریب رہے لیکن میں نے کبھی انہیں’’ہاتھ پھیلاتے‘‘ ہوئے نہیں دیکھا۔ انہوں نے بابری مسجد کے انہدام کے بعدہندوستانی مسلمانوں کو پیش آنے والے مسائل کی سنگینی کو بھانپ کرایک طرف جہاں اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہاراو کے سامنے پوری قوت کے ساتھ نہ صرف مسائل رکھے بلکہ ان کا حل بھی پیش کیاتو دوسری طرف بی جے پی کی حکومت کے دوران وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی کے سامنے بھی ان کا یہی رویہ قائم رہا۔انہوں نے مسلمانوں کے جذباتی مسائل کے تناظر میں حکومت سے نہ تو ٹکراو کا راستہ اختیار کیا اور نہ ہی ذاتی مفادات کیلئے حکومت کے سامنے خود سپردگی کی۔انہوں نے زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلایا۔انہوں نے جو کچھ بھی کیا اسے دستاویز کی شکل دے دی۔ان کے اسی فقیدالمثال رویہ نے انہیں دونوں قائدین کے سامنے سرخرو اور قوم کے سامنے بے داغ رکھا۔4جولائی کو اپنی نئی کتاب کے اجرا کے موقع پر آر ایس ایس سربراہ کے سامنے انہوں نے ایک گھنٹے کی جو تقریر کی اس میں مسلمانوں کے حوالہ سے ایسی ایسی باتیں بھی پوری جرات کے ساتھ کہہ ڈالیں کہ اگر موہن بھاگوت مسلمانوں کے پلیٹ فارم پر آجائیں تو کسی بڑے سے بڑے قائد میں بھی وہ بات کہنے کی ہمت پیدا نہ ہو۔بہر حال اس نئی صورتحال پرمیں نے ان سے کچھ سخت سوالات پر مبنی گفتگو کی ہے۔
خواجہ افتخارکی مذکورہ کتاب ’دی میٹنگ آف مائنڈس‘ اے بریجنگ انی شئیٹوکے تین حصے ہیں۔اس میں1920سے2020تک کے درمیان تمام تر سیاسی وسماجی واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔پہلے حصہ میں خواجہ افتخار نے 1920سے1947‘ تقسیم ہند‘آزاد ہندوستان ‘ سیکولر سیاست کے عروج وزوال پر سیر حاصل بحث کی ہے۔دوسرے حصہ میں مسلم قیادت ‘ان کی کامیابیوں‘ناکامیوں‘سیاسی لغزشوں اور بالغ نظری کے فقدان کا احاطہ کیا گیاہے۔تیسرے حصہ میں سنگھ پریوار پر مکمل بحث کی گئی ہے۔مسلمانان ہند اور سنگھ کے مابین ہر حساس مسئلہ کو‘جو ہمارے نزدیک ہے اور جو ان کے نزدیک ہے‘ زیر بحث وتجزیہ لایا گیا ہے۔اس کتاب کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ تمام متنازعہ مسائل کا باوقار حل پیش کرتی ہے۔
اس سلسلہ میں ہم نے ڈاکٹر افتخار احمد سے تفصیلی بات چیت کی۔انہوں نے کہاکہ آر ایس ایس تنظیم سے زیادہ ایک نہایت منظم نظریاتی جماعت ہے جو اجمالی طورپر ثقافتی مگر عملاً قومی وبین الاقوامی امور میں فیصلہ سازی کے عمل کو قطعیت کے ساتھ متاثر کرنے کے حوالے سے ایک تھنک ٹینک کی شکل میں زیادہ دیکھی جانی چاہئے۔یہ کہنا کہ محض میری تقریر کے جواب میں سرسنگھ چالک جی کی تقریر تھی درست نہ ہوگا۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ جن موضوعات اور نکات کو ایمانداری سے میں نے اٹھایا انہوں نے اسی جذبہ کے ساتھ اپنے خیالات اور آر ایس ایس کے نظریات کی روشنی میں جوابات دیے۔اس سوال پرکہ کیا آپ کو سنگھ پریوار کے قول وعمل میں کوئی تضاد محسوس نہیں ہوتا؟انہوں نے کہا کہ قول وعمل میں تضاد ایک فطری وفکری عمل ہے۔مکمل مماثلت شاید عملاً ممکن ہی نہیں۔البتہ نیت میں اظہار اور پیغام کے حوالہ سے متعلقہ فریقین کو اپنی بات کو جس اسلوب اور جس بیانیہ کے ساتھ کہنا چاہئے اگر ایسا ہو تو اس کا خیر مقدم ہونا چاہئے۔جہاں سنگھ پریوار سے ہمیں شکایتیں ہیں وہیں ادھر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔سنگھ پریوار اپنے واضح ایجنڈے کے مطابق کام کر رہا ہے۔وہاں ابہام نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ مکالمہ ہی مہذب معاشروں کے مابین مفاہمت کے حصول کا واحد راستہ ہے۔مخاصمت سے مسائل مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔یہ عمل سنجیدہ ہونا چاہئے۔ماضی ‘حال اور مستقبل کے تقاضوں اور تبدیل ہوتی زمین کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکمت عملی اور خیال سازی کے عمل کو آگے بڑھاناچاہئے۔ سابقہ سات دہائیوں میں جوسیکولر پارٹیاں اقتدار میں رہیں ان کے دور میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ قائم رہا ‘تفتیش کے حوالہ سے جو کمیشن بنائے گئے ‘ان کی سفارشات اور متن کو عام نہیں کیا گیا‘ یہ سمجھا جاتا رہا کہ فسادیوں کا تعلق سنگھ سے ہے۔لیکن یہ محض بیانیہ ہی رہا۔اور آج بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ 6 دسمبر کو بابری مسجد کی شہادت کے دن سنگھ ہر سال شوریہ دوس مناتا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اس سال نہ منانے کا جب فیصلہ ہواتو پورے ملک میں کہیں اس کو لے کر کوئی جشن اور تقریب نہیں ہوئی۔اس سے سنگھ کے اثر ورسوخ کو سمجھا جاسکتا ہے۔
خواجہ صاحب کا کہنا ہے کہ ہر تنظیم ‘ادارے‘ جماعت‘ معاشرے اور قوم میں ہر طرح کے عناصر ہوتے ہیں۔میرا نظریہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس اکثریت کو اخلاقی ومادی حمایت دے کرجو اعتدال اور مفاہمت کے راستے کو ترجیح دیتی ہے‘ اس کے ساتھ اشتراک عمل کو بڑھاکراس طرح کے چیلنج کا بہتر مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ باجپائی مفاہمت کے قائل تھے۔ان کے یہاں بڑی گنجائش تھی۔انہوں نے نہ صرف سابقہ روایات واقدامات کو آگے بڑھایابلکہ مسلمانان ہند کے جذبات واحساسات کے حوالہ سے واضح موقف رکھا۔خواجہ افتخارنے بتایاکہ جب میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اٹل بہاری باجپائی کے ہاتھوں باب سرسید کے افتتاح کی تجویز ان کے سامنے رکھی تو انہوں نے فوراً قبول کرلی اور کہا کہ مجھے کیا کرنا ہوگا۔میں نے کہا کہ یونیورسٹی کیمپس سے اتر پردیش سنچائی وبھاگ کالونی کی منتقلی‘میڈیکل وڈینٹل کالج کے متعلقہ مسائل کا حل اور سیٹوں میں اضافہ اور ڈھائی سو کروڑ کی خصوصی گرانٹ کا اعلان کرنا ہوگا۔وہ ان سب پر راضی ہوگئے۔لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا وہ دور اندیشی نہ تھی۔
خواجہ افتخار کا خیال ہے کہ پورا سنگھ‘ مع بی جے پی کے اچھے اور خوشگوار تعلقات چاہتا ہے۔شرائط پر گفتگو ہوسکتی ہے رشتے قائم نہیں ہوسکتے۔متنازعہ اشوزچھوڑنے کا عمل بھی دو طرفہ ہے یکطرفہ نہیں۔من حیث القوم ہم ردعمل کو حکمت عملی سمجھتے آئے ہیں۔جبکہ مثبت وتعمیری جوابات‘ خوشگوار پہلیں‘بیانات اور اقدامات کہیں زیادہ بہتر رویہ ورجحان ہیں۔ہمیں Reaction نہیں بلکہ Response کی طرف بڑھنا چاہئے۔ ہمارے یہاں قائدین کا ایک جم غفیر ہے ۔میں ان کو ذمہ داران ملت تصور کرتا ہوں۔بیشتر ان میں وہ افراد ہیں جن کا کم یا زیادہ حلقہ اثر ہے۔کچھ سیاسی جماعتیں بھی ہیں جن کا ریاستی سطح پر اثر ورسوخ ہے۔باہمی اشتراک عمل کو شعار بناکر‘ خالص پہل کو مسلم نہ رکھ کر‘ معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ لیتے ہوئے اورمخالفین کو بھی ساتھ رکھ کر‘ قومی وملی معاملات میں توازن اور امتزاج قائم کرکے حکمت عملی تشکیل دی جاسکتی ہے اورخاطر خواہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔کسی کو قطعی دوست اور کسی کو دشمن سمجھ کر مسائل کا حل نہیں نکلتا۔
میں نے پوچھاکہ آپ نے اپنی کتاب کے اجرا کیلئے آر ایس ایس کا اسٹیج کیوں چنا اور کیوں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے اس کا اجرا کرایا؟انہوں نے کہا کہ اس کتاب کے ذریعہ آج کی نسل کو صحیح تاریخ سے آگاہ کرنے‘ سیکولر سیاست کے عروج وزوال اور اس کی بحالی کے راستے پر سیر حاصل بحث اورمسلم قیادت سے سیدھی اور دو ٹوک بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کے علاوہ سنگھ کے سامنے اپنے موقف کے اظہار میں کسی بے جا مصلحت سے کام نہیں لیا گیا ہے۔سنگھ اور مسلمانان ہند کے مابین جو اختلافات ہیں ان کے حل کیلئے ان کی قیادت کے ساتھ بیٹھنا‘مکالمہ کرنا اور افہام وتفہیم کو فروغ دینا ضروری ہے۔لہذااس حوالے سے ضروری تھاکہ سنگھ کی قیادت کو ہی اس کتاب کے اجرا کیلئے مدعو کیا جائے۔بنیادی بات آر ایس ایس سربراہ کا اس کتاب کے اجرا کی درخواست کو قبول کرناہے اور 95سال میں ایسا پہلی بار ہونا اور ان کا اس بے باکی کے ساتھ اپنی بات کو رکھنامیرے اس فیصلہ کی حقانیت کو تسلیم کرنے کیلئے کافی ہے کہ یہ فیصلہ درست بھی تھا اور بروقت بھی۔
خواجہ صاحب کا خیال ہے کہ مسلمانان ہند موجودہ وزیر اعظم نریندرمودی کو آج تک نہیں سمجھ پائے۔ان کی ہر پہل کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ان کے بیانات کا مذاق بنانا‘ان کو سنجیدگی سے نہ لینا‘بے جا الزام تراشی اور ہر وقت گجرات فسادات کا رونا رونا‘اس سے آگے نہیں نکل پائے۔میں اس طرز عمل کو درست نہیں مانتا۔مودی صاحب ایک ایسے وزیر اعظم ہیں جن سے وہ کام لیا جاسکتا ہے جوشاید اس سے قبل کسی سے نہیں لیا جاسکا۔سنجیدگی کی ضرورت ہے!ان پر مکمل اعتماد کرکے‘ان کے خیالات سے ہم آہنگ ہوکر ان کی پہل کا خیر مقدم کرکے ‘ان کی یقین دہانیوں پر اعتبار کرکے‘ اپنے رشتوں میں ایک نئے باب کو رقم کیا جاسکتا ہے ۔ہمارا Track غلط ہے!ہم اپنے قبلہ کو درست کریں!ہر مسئلہ کا حل ممکن ہے!دلوں میں گنجائش دو طرفہ ہونا چاہئے!یہ عمل یکطرفہ نہیں ہوسکتا! موہن بھاگوت کے اس تاریخی بیان پر اگر مسلمانان ہند نے ریسپونس نہ دیا تو یہ وہ غلطی ہوگی جس کے تدارک کیلئے شاید پھر صدیاں درکار ہوں۔اس مرتبہ 95برس لگے۔آگے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔موصوف نے جس جرات کا مظاہرہ کیا ہے وہ کوئی انتہائی درجہ کا مدبر‘مفکر اور عاقل قائد ہی کرسکتا ہے۔اتنا واضح موقف جو ہر قسم کے ابہام وپہلوتہی سے پاک وصاف ہو‘اس کے بعد مسلمانان ہند اور ان کے ذمہ داران کی جانب سے پس وپیش میری نظر میں ایک طرف توسیاسی ‘اخلاقی اور نفسیاتی کوتاہ نظری ہوگی اور دوسری طرف متعلقہ ِشخصیات کی قائدانہ صلاحیت پر بھی سوال اٹھیں گے۔اس ایک فرد واحد کی تنہا کوشش وکاوش کا اتنا نتیجہ ہے۔پوری قوم اور اس کے ذمہ داران کا اگرساتھ ہو تو پھر !