یکے از خاکپاے اکابر
کرونا وائرس سے جہاں انسانیت کا بہت بڑا طبقہ متاثر ہوا، وہیں ان میں سب سے زیادہ جو بیروزگاری اور مفلسی و بے کسی کے شکار ہوئے، وہ مدارس کے اساتذۂ کرام اور مساجد کے ائمۂ کرام ہیں، جو تقریباً پچھلے سات ماہ سے بری طرح افلاس و بیروزگاری کی قید میں بند اپنی زندگی جینے پر مجبور ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ، کوئی انہیں اپنے کاروبار شروع کرنے کے مشورہ دیتا ہے، تو کوئی انہیں یوں ہی صبر کرکے گھٹ گھٹ کر اپنی زندگی بسر کرنے کا مشورہ۔
مگر کوئی ان پر دست شفقت رکھنے کو تیار نہیں ،کوئی ان کی مالی مدد کرنے کو تیار نہیں ، کیونکہ یہ عام غربا کی طرح دست دراز نہیں کرسکتے، یہ الگ بات ہے کہ یہی علما نونہالان قوم کے لیے، مہمانانِ رسول کے لیے، طلباے عظام کے لیے ، اپنی عزت نفس کو طاق پر رکھ کر خوب چندہ کرکے تعلیم دین کی اشاعت کرنے میں لگے ہوئے ہیں، مگر لاک ڈاون کے بعد سے ان کی حالت بد سے بدتر ہوچکی ہے، جو مدارس بڑے ہیں، جن میں چندہ خوب اٰتا ہے ، یا یوں کہے کہ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہونے کے بعد بھی امداد کا سلسلہ جاری ہے اور وہ اپنے اساتذہ کو تنخواہ دے سکتے ہیں، تو ان میں سے کچھ بڑے ادارے تنخواہ دے رہے ہیں، مگر 80٪ فیصد چھوٹے اور متوسط درجہ کے اداروں کے پاس نہ ہی تو فنڈ موجود ہے، اور نہ ہی چندہ پہنچ پا رہا ہے، تو ایسی صورت میں وہ تنخواہ اپنے اساتذہ کو دیں بھی تو کیسے؟ مگر مدارس کے اساتذہ اور مساجد کے ائمۂ کرام بھی تو اٰخر ہیں انسان ہی، ان کے بھی بشری تقاضے ہیں، کسی کی اہلیہ بیمار ہیں،کسی کی والدہ بیمار ہے،کسی کا بیٹا بیمار ہے، اور بھی بہت سارے عذر ہیں، اور نہ گھر میں کھانے کے لیے کوئی سامان مہیا ہے، نہ علاج کے لیے پیسے،
کچھ علما نے حالات سے بہت مجبور ہوکر مزدوری تک کرنی شروع کردی مگر ناتجربہ کاری کے باعث وہ خود کسی بیماری کے شکار ہوگئے یا فوت ہی ہوگئے، جیسا کہ گجرات کے کسی علاقہ کے ایک حافظ صاحب مٹی بھرتے ہوئے ایک چٹان کے نیچے دب کر وفات پا گئے، حال ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق کسی شہر کی جامع مسجد کے امام ریڑھی پر میں سامان بیچ کر اپنا گھر چلانے پر مجبور ہیں۔
اب جو مسلم تنظیمیں ہیں، انہیں تو ان علماے کرام و ائمہ کرام کی کوئی فکر نہیں ، انہیں تو بس اس کی فکر ہے کہ کہاں فساد ہو، یا کہاں باڑھ آجائے اور بس کچھ مکان بنوادو، کچھ مساجد کی مرمت کرادو، کچھ رفاہی کام کرادو ، کچھ مقدمات لڑلو، کسی کو رہا کرادوبس۔ ان باتوں کو بیان کرکے ان تنظیموں کی تنقیص کرنا اور کیچڑ اچھالنا میرا مقصد نہیں ہے، بلکہ یہ سب کام قابل تعریف ہیں، مگر اب حالات امت مسلمہ کے سب سے اعلیٰ طبقہ کے افراد پر پیش آٰ رہے ہیں، تو ان کی فکر بھی تو کچھ ہونی چاہیے، خیر وہاں سے کچھ زیادہ امید نہیں کی جاسکتی!
میری گزارش ملک ہندوستان کے ہر صوبہ و ضلع کے مسلم لیڈران، مسلم ایم پی، ایم ایل اے، ایم ایل سی، اور بڑے بڑے کاروباری علماے کرام سے ہے کہ اب آٰپ سے کچھ آٰس و امید لگی ہے، اٰپ ان علماے کرام و ائمۂ کرام کے سر پر دست شفقت رکھتے ہوئے، یا تو ان کے ماہانہ وظائف (مالی تعاون) جاری فرمائیں، اکثر و بیستر سب کے پاس اکاونٹ ہوتے ہیں، آٰپ ان کے اکاونٹ نمبرات حاصل کرکے ڈائریکٹ ان کے کھاتے میں کچھ نقد پہنچوائیں، جب تک یہ حالات ہیں اور مدارس کھلتے ہیں، کیونکہ 7 ماہ سے مدارس بند ہیں اور آٰگے بھی جلدی مدارس کا کھلنا ممکن نہیں ہے، نہ معلوم کتنے ماہ لگیں اور مساجد میں ان کو امامت کی جگہ رہے یا نہ رہے۔ یا پھر ان کو کسی کاروبار میں بطور ملازم رکھوائیں یا ان کا پرسنل کوئی کاروبار شروع کروادیں، کیونکہ سیرت النبی صلوسلم عل سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے۔ ایک صاحب حضور کی خدمت میں ایک کٹورا لیکر بھیک مانگنے آئے۔ آٰپ علیہ السلام نے ان کا وہ کٹورا فروخت کراکے ان کو کلہاڑی خرید کر دی اور ان سے کہا کہ لو اس کو لے کر جنگل جاؤ اور لکڑی کاٹ کر لاکر فروخت کرو اور اپنا گزارا کرو، بھیک مت مانگو۔
چوں کہ ان ائمۂ کرام اور علماے کرام کے پاس اسباب و ذرائع تو ہیں نہیں کاروبار شروع کرنے کے لیے ، تو ان کی کچھ مالی مدد کرکے ان کو کسی کاروبار پر بھی لگاکر ان کی مدد کی جاسکتی ہے، خالی مشورہ دینے سے کوئی کام نہیں بن سکتا۔ کچھ ہمت و حوصلہ کرکے ان علما پر نظر کرم فرمائی جائے۔
یقیناً اگرآٰپ نے ان علما و ائمہ پر یہ احسان کردیا تو تاقیامت یہ مثال قائم ہوجائے گی، اور آٰپ کے اس عمل کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا،ورنہ یاد رہے، پہلے ہی امت مسلمہ میں دینی تعلیم سے بے توجہ پائی جاتی ہے، اگر یہی حالات رہے تو کوئی بھی غلطی سے اپنی اولاد کو حافظ قراٰن اورعالم دین نہیں بنائے گا، بلکہ خود یہ ائمہ و علما بھی اپنی اولاد کو مدارس میں پڑھانے کے بجائے دنیاوی تعلیم دلوائیں گے، تاکہ ان کی اولادوں کو کسی مسجد کا ملا اور کسی مدرسہ کا مدرس بن کر اپنی زندگی کو خراب نہ کرنا پڑے، دو وقت کی روٹی کے لیے کئی کئی روز کے فاقے برداشت نہ کرنے پڑیں۔ کوئی مجھے اب زیادہ صوفیت میں آٰکر حضرات صحابہ کرام کے تقویٰ و طہارت کی مثالیں دے سکتا ہے، تو اس کا جواب پہلے ہی دے رہا ہوں کہ وہ صحابہ کرام تھے، ان کے ایمان بڑے مضبوط تھے، اب کے افراد کا ایسا ایمان نہیں ہے، اس لیے یہ مثال دینا ہی درست نہیں ہے۔ بس اس کو پڑھ کر اٰپ ان پڑھا نہ کردیں، بلکہ امت مسلمہ کے سب سے اعلیٰ طبقہ کی حالت پرتوجہ دیں اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی طرف دستِ تعاون بڑھائیں۔
ایم ایل سی
شمیم اکرم رحمانی
سیاسی جماعتوں کے مسلم لیڈران کاہمیشہ سے یہ المیہ رہاہے کہ یہ لوگ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یا کسی سیاسی عہدہ پر براجمان ہوجانے کے بعد مسلمان نہیں رہتے ؛بلکہ پارٹی کے وفادار غلام بن زندگی گزارتے ہیں ،ان کے لیے خدا ،رسول، قرآن اور ایمان بہت بعد کی چیزیں ہوتی ہیں یا وہ بھی نہیں ہوتیں، ان کا چلنا ،بیٹھنا، اٹھنا، بولنا اور خاموش رہنا پارٹی کے طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہوتاہے اور وہ بھی ایمان کی قیمت پر، قوم ملک اور ملت کےلئے ہرگزنہیں ،دو تین لوگوں کے استثنا کے ساتھ یہی اب تک کی تاریخ رہی ہے۔
تازہ معاملہ نتیش کمار کے ایک مسلم ایم ایل سی صاحب کہاہے ،جناب مولانا یاسر ندیم الواجدی کے شو میں تشریف لائے والےتھے ،جہاں لائیو انہیں این آرسی کے تعلق سے گفتگو کرنی تھی؛ لیکن جب پروگرام کا وقت ہوا، تو اچانک معذرت خواہ ہوئے، وجہ یہ بتائی کہ اس معاملے میں پارٹی کااسٹینڈ کلیر نہیں ہے؛ بلکہ اس سے آگےبڑھ کر ڈھٹائی سے یہ بھی کہا کہ این آرسی مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے، مولانا واجدی نے اس ریکارڈنگ کو ایک وڈیو کی شکل میں اپنے فیسبک پر اپلوڈ کردیا ہے، جسے ہر کوئی دیکھ اور سن سکتاہے۔
موصوف جس انداز سے ایم ایل سی منتخب ہوئے تھے، اس کی وجہ سے ان سے ایسی قبیح حرکت کی امید نہ تھی، ان کی پہلے کی دوچار گفتگو سے اندازہ بھی ہورہاتھا کہ جناب عالی مسلمانانِ ہند کے روشن مستقبل کے لئے جدجہد کررہےہیں اورکریں گے بھی؛ لیکن کیا کیاجائے کہ اس دنیا میں زیادہ ترچیزوں کا وجود خلافِ توقع ہی ہوتارہاہے، بالخصوص مسلمان ہند کےساتھ:
نہیں منّت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
اقبال
نام لئے بغیر ہم جس ایم ایل سی صاحب کی بات کررہےہیں ،وہ تنہا نہیں ہیں ؛بلکہ جے ڈی یو میں موجود دوسرے مسلم لیڈرز بھی وہی کچھ کہیں گے، جو ہمارے ایم ایل سی صاحب نے کہا ہے، پرشانت کشور نام کا کوئی شخص تو بہتر رخ اپناسکتاہے ؛لیکن پارٹی میں موجود خالداور غلام رسول نام کے لوگ نہیں؛ کیونکہ پارٹی نے اگر انہیں باہرکاراستہ دکھادیا،تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشناکردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اقبال
مولانا محمود مدنی کے این آرسی پر دیے گئے بے تکے بیانات کے ساتھ ساتھ مذکورہ واقعے نے بھی ہمیں جھنجھوڑ کررکھ دیاہے۔ این آر سی جیسے خطرناک معاملے پر ایم ایل سی صاحب کی خاموشی؛ بلکہ دبے لفظوں میں حمایت نے ایک بار پھر ہمیں سبق دیاہے کہ ہمیں کسی بھی سوکالڈ سیکولرجماعت اور اس کے چمچے پراعتماد کرنے سے نہ صرف بازرہناہوگا؛بلکہ کسی طرح کی چھوٹی موٹی قیادت کھڑی کرنی ہوگی یا پہلے سے کھڑی قیادت کے گرد جمع ہوناہوگا اور اس ڈر کو ختم کرناپڑے گا کہ ہمارے متحدہونے سے ہندوبھائی بھی متحدہوجائیں گے ؛اس لئے کہ وہ تو متحدہوچکے ہیں ،دستور ہند کے باقی رہتے ہوئے اگر ہم نے متحدہ سیاسی محاذ کی تشکیل نہ کی اور مسلکی یا ذاتی مفادات کو بالائے طاق نہ رکھا، تو آنے والےایام مزید سخت ہوںگے اور یکے بعد دیگرے ہرطرح کےمسلک و مشرب سے منسک مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، پھریہ کہ ہمارےاتحاد کی بنیاد کسی مذہب کی دشمنی نہیں ہونی چاہیے؛ بلکہ سیاسی ناانصافیوں کے خلاف جدجہد ہونی چاہیے، جس کی اجازت آئین ہند نے ہمیں دےرکھی ہے ،مجھے پتہ ہے کہ یہ اتحاد عوام سے نہیں، خواص کے چاہنےاور ہرطرح کی قربانیاں دینےکےلیے تیار رہنےسےہوگا ،عوام کی حیثیت ہمیشہ اس جانور کی سی رہی ہے ،جس کورسی پکڑکرچرواہاجدھر چاہتاہے ،لےجاتاہے!