عام کہاوت ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن بابری مسجد شہید کرانے میں نامزد زندہ بچے ہوئے سبھی بتیس ملزمان کو با عزت بری کرنے و الے سی بی آئی کورٹ کے اسپیشل جج ایس کے یادو نے ثابت کردیا کہ اگر قانون اندھا ہوتا ہے تو عدالتوں میں بیٹھے جج ان کی طرح بہرے ہوتے ہیں۔جنہیں چشم دید گواہان کی باتیں سنائی نہیں دیتیں۔ ایس کے یادو نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، اوما بھارتی، نتیہ گوپال داس اور ونئے کٹیاروغیرہ نے بابری مسجد توڑنے کے لئے کسی کو بھڑکایا نہیں تھا۔ سماج اور قانون دشمن عناصر نے مسجد توڑی تھی یہ لوگ تو گرانے والوں کو روکنے کا کام کررہے تھے۔ عدالت نے کہا کہ ملزمان کے خلاف معقول ثبوت نہیں ہے سی بی آئی نے جو آڈیو اور ویڈیو ثبوت عدالت میں پیش کئے ان کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ جج یادو نے اپنے بہرے ہونے کا ثبوت خود ہی پیش کرتے ہوئے کہا کہ جو آڈیو سی بی آئی نے عدالت میں پیش کئے وہ صاف سنائی نہیں دیتے۔ اٹھائیس سال بعد مقدمہ کا فیصلہ آیا ہے۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران تین سو اکیاون گواہوں کے بیان ہوئے جن میں سے بیشتر نے اڈوانی، جوشی اور اوما بھارتی سمیت تمام ملزمان کے خلاف ہی گواہی دی۔ اب جج صاحب بے چارے تو بہرے تھے اس لئے انہوں نے گواہان کے بیانات سنے ہی نہیں۔ ثبوت کے طور پر چھ سو سے زیادہ دستاویزی ثبوت عدالت میں پیش کئے گئے۔ ان کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ قانون تو اندھا ہے۔ ایودھیا پر سپریم کورٹ نے گزشتہ سال جو فیصلہ دیا تھا اس میں صاف کہا تھا کہ بابری مسجد کا توڑا جانا غیر قانونی اور ملک کے آئین اور قانون کی ربریت بھری خلاف ورزی تھی اس کے ذمہ داران کو سخت سزا دی جانے چاہیئے۔
سی بی آئی کے اسپیشل جج ایس کے یادو نے اس قسم کا فیصلہ دے کر انصاف، قانون، آئین اور عدلیہ میں یقین رکھنے والوں خصوصاً ملک کے مسلمانوں کا بھروسہ توڑا ہے۔ اگر وہ ان ملزمان کو ایک دن کی علامتی سزا سناتے ہوئے کہہ دیتے کہ یہ علامتی سزا ہے اس لئے ملزمان کو جیل بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تب بھی لوگوں کا عدلیہ میں یقین قائم ر ہتا۔ فیصلہ سنانے کے فوراً بعد جج یادو رٹائر بھی ہوگئے۔ ان کا رٹائرمنٹ تو ایک سال پہلے تیس ستمبر کو ہی ہوگیا تھا لیکن انہیں اسی فیصلےکے لئے ایک سال کی توسیع دی گئ ی تھی۔
فیصلہ آتے ہی لال کرشن اڈوانی جئے شری رام کہتے ہوئے میڈیا کے سامنے آگئے۔مرلی منوہر جوشی نے اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا ملک کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے ’ستیم وجئتے) ٹوئٹ کرکے اپنی خوشی ظاہر کی۔ اپنی زہرلی تقاریر کے لئے بدنام رہے دو ملزمان خود کو اچاریہ بتانے والے راجستھان کے دھرمیندر اور ونئے کٹیار نے فیصلہ سننے کے فوراً بعد کہا کہ اب متھرا اور کاشی کی تحریک شروع کی جائے گی۔بی جے پی کے لوگوں نے پورے ملک میںپٹاخے داغ کر اور گھروں پر روشنی کرکے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ کئی مقامات پر وشو ہندو پریشد اور وشوہندو پریشد کے لوگوں نے غیرضروری نعرہ بازی کرکے مسلمانوں کو چڑھانے اور بھڑکانے کی بھی کوششیں کں لیکن مسلمانوں نے ہوشمندی سے کام لیا اور کہیں بھی ٹکراؤ نہیں ہونے پایا۔
مسجد توڑے جانے کے سلسلے میں چھ دسمبر ۱۹۹۲ کو ہی دو مقدمات درج کرائے گئے تھے۔ ایک مقدمہ شام کو سوا پانچ بجے نا معلوم کار سیوکوں کے نام تھا تو اس کے فوراً بعد پانچ بج کر پچیس منٹ پر دوسرا مقدمہ لکھوایا گیا جس میں اڈوانی، جوشی سمیت انچاس لوگوں کو نامزد کیاگیا ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا کہ ان کے ساتھ ہزاروں کار سیوک بھی تھے۔ ملزمان میں اب جو بتیس بچے تھے انہیں جج ایس کے یادو نے بری کردیا ان میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، رتمبھرا دیوی، سچانند ساکشی، برج بھوشن سنگھ، پون کمار پانڈے، ستیش پردھان، جئے بھگوان گوئل، کلیان سنگھ، رام چندر کھتری، سدھیر ککڑ، سنتوش دوبے، امرناتھ گوپال، پرکاش شرما، جئے بھان سنگھ پبیا، دھرمیندر سنگھ گوجر، رام جی گپتا، للو سنگھ، چپت رام، کملیش ترپاٹھی، گاندھی ی ادو، اوم پرکاش پانڈے، ونئے کمار رائے، وجئے بہادر سنگھ، نوین بھائی شکلا، اچاریہ دھرمیندر دیو، آر این شریواستو، رام ولاس ویدانتی، دھرم داس اور مہنت نرتیہ گوپال داس جن سترہ ملزمان کی سنوائی کے دوران موت ہوگئی ان میں وجئے رادھے سندھیا، بالا صاحب ٹھاکر، اشوک سنگھل، وشنو ہری ڈالمیا، موریشور ساٹھے، رام نارائن داس، مہا منڈلیشور، جگدیش مونی، ونود کمار وتس، لکشمی نارائن داس، رمیش پرتاپ سنگھ، ڈی وی رائے، مہنت اودیدھناتھ، بیکنٹھ لال شرما، پرم ہنس رام چندر داس، ستیش کمارناگر اور ہر گووند سنگھ۔
مسجد کی شہادت کے سلسلے میں دو کریمنل کیس درج کئے گئے تھے۔ پہلاایف آئی آر نمبر ۱۹۷ اور دوسرا ایف آئی آر نمبر ۱۹۸۔ ۱۹۷ والے ایف آئی آر میں لاکھوں کار سیوکوں کے خلاف کیس درج کیا گیا، جس میں آئی پی سی کی دفعہ ۱۵۳ اے(مذہبی بنیاد پر دشمنی پھیلانا)، ۲۹۷(قبرستان میں قبضہ کرنا)، ۳۳۲(سرکاری ملازمین کو اس کے فرائض سے ڈگمگانے کے لئے جان بوجھ کر چوٹ پہونچانا)، ۳۳۷(دوسروں کی زندگی اور نجی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا)، ۳۳۸(زندگی خطرے میں ڈال کر سنگین چوٹ پہونچانا)، ۳۹۵(ڈکیتی) اور ۳۹۷(لوٹ پاٹ، موت کی وجہ بننے کی کوشش کے ساتھ ڈکیتی) کے تحت کیس درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر نمبر ۱۹۸ میں آٹھ لوگوں کے نام تھے: لال کرشن اڈوانی، ایم اے جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، سادھوی رتمبھرا اور وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل، گری راج کشور اور وشنو ہری ڈالمیا کا نام ہے۔ ان لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ ۱۵۳ اے(مذہب کی بنیاد پر دشمنی پھیلانا)، ۱۵۳-بی(دنگا کرانے کے ارادے سے بھڑکا حرکتیں کرنا) اور ۵۰۵ (لوگوں کو بھڑکانے کے لئے بھڑکاؤ بیان دینے) کے تحت کیس درج کرایا گیا تھا۔
فیضان مصطفیٰ: حیدرآباد واقع نیلسار لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلرفیضان مصطفیٰ نے بی بی سی نمائندہ دویا آریہ سے بات چیت میں کہا کہ یہ فیصلہ مایوس کن ہے اور بھارت کی کریمنل جوڈیشیل سسٹم کے لئے ایک دھکا ہے۔ انہوں نے کہا،’بی جے پی شیو سینا کے لیڈران کے اس وقت کے بیانات موجود ہیں، تب جو دھرم سنسد منعقد ہورہی تھیں، ان میں دیئے نعرےدیکھے جاسکتے ہیں، جو کارسیوک اس دن آئے تھے وہ کلہاڑی، پھاوڑے اور رسیوں سے لیس تھے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سازش تھی۔ پروفیسر مصطفیٰ کہتے ہیں کہ اتنے بڑے جرم کے لئے کسی کا گناہ گار نہ پایا جانا ملک کے نظم و نسق کے لئے اچھا نہیں ہے۔ انہو ں نے کہا،’اس سے لگتا ہے کہ سی بی آئی اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرپائی کیونکہ اتنے آڈیو، ویڈیو ثبوت اور ساڑھے تین سو سے زیادہ چشم دید گواہان کے بیانات کے باوجود ٹھوس ثبوت نہ مل پانے کی بات سمجھ نہیں آتی۔ پروفیسر مصطفیٰ کے مطابق جانچ ایجنسی اور پراسیکیوشن کا الگ الگ اور آزاد ہونا ضرور ی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جانچ ایجنسی، سی بی آئی ، وزارت داخلہ، بھارت سرکار کے تحت آتی ہے۔
اسد الدین اویسی : بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں فیصلہ آنے کے بعد اے آئی ایم آئی ایم کے صدر لوک سبھا ممبر اسد الدین اویسی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے۔جب مجرمان کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آخری فیصلہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ کورٹ کے فیصلے سے متفق نہ ہونا عدالت کی توہین نہیں ہے۔ آپ ہی کی چارج شیٹ میں لکھا ہے کہ اوما بھارتی نے کہا ایک دھکا اور دو، کلیان سنگھ نے کہا تعمیر پر روک ہے توڑنے پر نہیں، یہ تاریخ کا کالا دن ہے۔ آج مجرمین کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ سی بی آئی اپیل کرے گی یا نہیں یہی دیکھنا ہے اسے اپنی آزادی برقرار رکھنا ہے تواپیل کرنی چاہئیے۔ اگر وہ نہیں کریں گے تو ہم مسلم پرسنل لاء بورڈ سے کہیں گے کہ اس کے خلاف اپیل کریں۔ اس دن جادو ہوا تھا کیا؟ آخر کس نے یہ کیا؟ بتائیے ہماری مسجد کو کس نے شہید کیا؟ بابری مسجد کے توڑنے کے گناہ گاروں کو بے گناہ قرار دے کر پیغام دیا گیا ہے کہ کاشی متھرا میں بھی یہی کرتے چلو رول آف لاء کی فکر نہیں ہے وہ کرتے جائیں گے کلین چٹ ملتی جائے گی۔ دلتوں اور مسلمانوں کے معاملات میں انصاف نہیں ہوتا ہے پوری دنیا کے سامنے ہوا چھ دسمبر اگر کوئی کہتا ہے کہ بھول جاؤ آگے بڑھو کیسے بھول جائیں کیا پیغام دے رہے ہیں ہم فیصلے سے؟
پرشانت بھوشن: سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے بی بی سی نمائندے دتیا آریہ سے کہا اس فیصلے سے یہی مانا جائے گا کہ عدالتوں میں انصاف نہیں ہوتا ہے بس ایک بھرم رہتا ہے کہ انصاف کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہی ہونا متوقع تھا کیونکہ مسماری کے کیس میں فیصلہ آنے سے پہلے ہی زمین کے مالکانہ حق پر فیصلہ سنا دیا گیا وہ بھی اس فریق کے حق میں جو مسجد ڈھائے جانے کا ملزم تھا۔ پرشانت بھوشن کے مطابق اس سے مسلمان طبقے میں نفرت میں اضافہ ہوگا کیونکہ کوئی بھی فیصلہ انہیں اپنے حق میں نہیں لگے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان طبقہ کو دوئم درجہ کا شہری بنایا جارہا ہے۔ ان کے سامنے اس وقت اور بڑی چنوتیاں ہیں جیسے جیسے ہندو راشٹر کی تعمیر کی کوششیں ہورہی ہیں ویسے ویسے ان میں مایوسی پیدا ہورہی ہے۔
سنجئے راؤت: شیو سینا کے راجیہ سبھا ممبر سنجئے راؤت نے بابری مسجد کی شہادت معاملے میں آئے فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال رام جنم بھومی معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بابری مسجد توڑنے کے معاملے کی اہمیت ہی ختم ہوگئی تھی۔ اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہو ںنے کہا کہ خصوصی عدالت کا یہ مقدمہ پچھلے سال آئے سپریم کورٹ کے فیصلے اور وزیراعظم کے ہاتھوں بھومی پوجن کرنے کے بعد بے معنی ہوچکا تھا۔ انہو ںنے ساتھ ہی کہا کہ اگر بابری مسجد کو نہیں ڈھایا گیا ہوتا تو ایودھیا میں رم مندر کا بھومی پوجن نہیں ہوپاتا۔ سنجئے نے کہا کہ اب ہمیں اس معاملے کو بھول جانا چاہئیے۔
پاکستان نے کہا شرمناک: اس فیصلے کے بعد پاکستان کو بھی بولنے کا موقع مل گیا۔پاکستان نے بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں آئے فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو بری کئے جانے کو شرمناک بتایا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکہا ہے اگر دنیا کے مبینہ سب سے بڑے جمہوریہ میں انصاف کا تھوڑا بھی احساس ہوتا تو وہ لوگ جنہوں نےکھل کر ایک مجرمانہ حرکت کی تھی ڈینگیں ہانکی تھیں وہ بری نہیں ہوئے ہوتے۔ بیان میں اس فیصلے کو بی جے پی- آر ایس ایس کی حکومت میں ایک کمزور عدلیہ کی ایک اور مثال بتایا ہے۔ جہاں جارح ہندوتو نظریات انصاف اور بین الاقوامی اصولوں کے سبھی اصولوں پر بھاری پڑتی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے لکھا ہے کہ بھارت کے سپریم کورٹ نے پچھلے سال بابری مسجد کی زمین کو انہی لوگوں کو رام مندر بنانے کے لئے دینے کا فیصلہ دے کر ایک غلط راہ دکھا دی تھی جنہو ںنے تاریخی مسجد کو گرا دیا تھا۔ اور آج کا فیصلہ اس فیصلے کے بھی خلاف ہے جس میں یہ بات درج کی گئی تھی کہ مسجد کو توڑنا انصاف اور قانون کی سخت مخالفت تھی۔ اس نے لکھا ہے کہ ایودھیا کے فیصلے سے جوش میں آکر ہندو کٹرپنتھی اب سرکار میں بیٹھے آر ایس ایس کی شہ پر متھرا میں کرشن مندر کے بغل میں و اقع شاہی عید گا ہ مسجد کو بھی ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان نے بھارت سرکار سے اپیل کی ہے کہ وہ اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات اور اسلامی مقامات کی سلامتی یقینی بنائیں۔ ساتھ ہی پاکستان نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور دیگر انٹرنیشنل تنظیموں سے بھی توقع کی ہے کہ وہ بھارت میں اسلامی دھروہروںکی حفاظت کے لئے اپنا رول نبھائیں گے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)