ایم ودود ساجد
آج میڈیا اسٹار ورلڈ پر انتقامی سیاست کے عذاب پر بات کرنے کا موقع ملا، یہ انٹرویو کل نشر ہوگا، اس انٹرویو میں’ میں نے بتایا ہے کہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں موجودہ دور انتقامی سیاست کا سب سے بدترین دور ہے۔
ہندوستان میں انتقامی سیاست کوئی نئی چیز نہیں ہے،لیکن جس بے شرمی اور کھلی غنڈہ گردی کے ساتھ 26 مئی 2014 کے بعد سے اس کا استعمال ہورہا ہے اور جس طرح آئینی اور حکومتی اداروں کو اس کے لئے استعمال کیا جارہا ہے وہ تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے۔
وزیراعظم نے ہندوستان کو علانیہ طور پر کانگریس سے پاک کرنے کا جو بیڑا اٹھایا تھا وہ اپوزیشن سے پاک ہندوستان کے عملی اقدامات تک پہنچ گیا ہے۔ اپوزیشن اس حد تک لاغر ونحیف ہے کہ اب خود اپنے دفاع سے بھی قاصر ہے۔اب بی جے پی اور آر ایس ایس ہندوستان کو ‘مسلمانوں سے پاک’ کرنا چاہتی ہیں؛ لیکن یونیورسٹیوں کے طلبہ نے احتجاج کی آندھی چلا کر بے دم اپوزيشن میں بھی کچھ حرکت پیدا کردی ہے۔حکومت بہر حال اس صورتحال سے کچھ خائف لگتی ہے۔
انتقامی سیاست کا سب سے خوفناک چہرہ یوپی کے وزیر اعلی کا ہے۔ انہوں نے مظاہرین سے بدلہ لینے کی جو دھمکی دی تھی یوپی پولیس اس پر پوری شدت اور خوفناکی کے ساتھ عمل کر رہی ہے۔ یوپی پولیس کا جو شرمناک چہرہ سامنے آیا ہے اس نے روح میں لرزہ پیدا کردیا ہے۔
مجھے حال ہی میں آندھرا پردیش کے شہر وجے واڑہ کے سفر کا موقع ملا۔ وہاں چندرا بابو نائیڈو کی پارٹی کو شکست دے کر وائی ایس جگن موہن ریڈی نے سرکار بنائی ہے۔ ان کی پارٹی YSR Congress کو 175 میں سے 151 سیٹیں ملی ہیں، لہذا اب جگن موہن ریڈی بھی بھیانک قسم کی انتقامی سیاست کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں ـ
نئی ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد حیدر آباد تلنگانہ کی راجدھانی ہوگیا۔ لہذا آندھرا پردیش کی راجدھانی کے لئے نائیڈو حکومت نے 15 لاکھ کی آبادی والے شہر وجے واڑہ کو منتخب کیا۔ نئی مجوزہ راجدھانی کے مقام کو امراوتی کا نام دیا گیا۔کرشنا ندی کا بیراج امراوتی اور وجے واڑہ شہر کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔شدید گرمی مگر کم فضائی آلودگی اور پُرسکون ماحول کے لئے مشہور وجے واڑہ کے کسانوں سے راجدھانی کی تعمیر کے لئے زمینیں خرید لی گئیں ۔
لیکن جگن موہن ریڈی کی انتقامی سیاست نے وجے واڑہ کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ میں جس روز وہاں ایک پروگرام میں شریک تھا شہر کا چپہ چپہ پولیس اور پیرا ملٹری فورس کے تسلط میں تھا۔ ٹائمز آف انڈیا نے لکھا تھا کہ تمام اپوزیشن لیڈر گھروں میں نظر بند کردیے گئے ہیں اور سیکیورٹی کی وہی صورت ہے جو کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمہ سے پہلے ہوگئی تھی؛ کیوں کہ وزیراعلیٰ اپنی کابینہ کے ساتھ میٹنگ کر رہے تھے جس میں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ نئی راجدھانی کہاں بنائی جائے ۔میرے ڈرائیور نے ایک روز پہلے ہی تاریخی کرشنا بیراج دکھاتے ہوئے بتایا تھا کہ چندرابابو نائیڈو نے بیراج کے ستونوں پر جو خوبصورت قمقمے لگوائے تھے جگن ریڈی نے انہیں ہٹوادیا ہے۔یہ قمقمے ہزاروں خاندانوں کے کسب معاش کا ذریعہ بن گئے تھے اور سیاح دور دور سے انہیں دیکھنے آتے تھے۔ اب جگن ریڈی ہر اس نشانی کو مٹانا چاہتے ہیں جو نائیڈو نے قائم کی تھی۔
آپ جگن ریڈی کی انتقامی ذہنیت کا کرشمہ دیکھئے کہ یہ کہہ کر وجے واڑہ کی مجوزہ راجدھانی کی حیثیت کو ختم کردیا گیا کہ چندرا بابو نائیڈو اور ان کے لیڈروں نے ڈیڑھ لاکھ کروڑ کی بے نامی زمینیں خرید رکھی ہیں ۔ اب اپوزیشن کے ساتھ ساتھ وہ کسان بھی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں جن سے راجدھانی کی تعمیر کے لئے حکومت نے زمینیں خرید لی تھیں ۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ جگن ریڈی کی کابینہ نے کیا احمقانہ فیصلہ کیا ہے :
1- اسمبلی کی عمارت وجے واڑہ میں تعمیر ہوگی۔
2- سیکریٹریٹ یعنی وزراتوں کے دفاتر وشاکھا پٹنم میں تعمیر ہوں گے۔
3- اور ریاست کی ہائی کورٹ کرنول میں قائم ہوگی۔
وشاکھا پٹنم’ وجے واڑہ سے 347 کلو میٹر دور ہےـ
کرنول’ وجے واڑہ سے 344 کلو میٹر دور ہے،جبکہ وشاکھا پٹنم’ کرنول سے 691 کلو میٹر دور ہے۔
یعنی اسمبلی’ سیکریٹریٹ اور ہائی کورٹ جیسے ایک دوسرے سے منسلک ادارے اب ایک دوسرے سے دور تین مختلف شہروں میں ہوں گے۔ یہاں کے عام لوگوں’ وکیلوں’ موکلوں’ متاثرہ لوگوں’ سیاستدانوں اور دوسرے طبقات کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ان کا بس تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ انتقامی سیاست کا کتنا کریہہ چہرہ ہے!
انتقامی سیاست کا یہ جذبہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ووٹر کسی ایک پارٹی کو سادہ اکثریت سے بھی زیادہ اکثریت دیدیتے ہیں ۔ اس وقت پورا ملک پریشان ہے۔ وہ ہندو طبقات بھی پریشان ہیں جنہوں نے بی جے پی کو عدیم المثال اکثریت سے دوسری بار حکومت سونپ دی تھی۔ ایسے میں مسلمانوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ وہ اپنے قول وعمل میں اس کا خیال رکھیں کہ جو ہندو حکومت سے ناراض ہوگئے ہیں وہ ہماری کسی بے احتیاطی کے سبب پھر منحرف نہ ہوجائیں ۔