اس بات میں اب کوئی شک نہیں ہے کہ انڈیا میں 2014 سے برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی اس وقت ملک کے سیاسی پس منظر کی سب سے طاقتور جماعت ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں اس نے دو عام انتخابات فیصلہ کن انداز میں جیتے ہیں اور اگرچہ اس نے ریاستیں کھوئی ہیں، تاہم اس کی انڈیا پر سیاسی گرفت مضبوط ہوتی رہی ہے۔حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگریس کا کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے، ماضی کی طاقتور علاقائی جماعتیں اپنے سارے حربے آزما چکی ہیں اور نریندر مودی کے خلاف کوئی حقیقی چیلنجر سامنے نہیں آیا ہے۔
ماہرِ سیاسیات سوہاس پلشکر اسے انڈیا میں دوسرا پارٹی حاوی نظام کہتے ہیں جہاں اندرا گاندھی کی کانگریس نے نصف صدی سے زیادہ پہلے ایک پارٹی کے حاوی رہنے والے نظام کو چلایا۔ بی جے پی وہ واحد جماعت ہے جس نے 1984 کے انتخابات میں کانگریس کی واضح کامیابی کے بعد پہلی مرتبہ ملک کے عام انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی ہے۔ سوہاس پلشکر کہتے ہیں کہ اندرا گاندھی کے بعد نریندر مودی وہ واحد رہنما ہیں جو ملک بھر میں مقبول ہیں۔ بی جے پی کی کامیابی کا سہرا مودی کی شخصیت، مذہبی سیاست، اور سخت قوم پرستی کو جاتا ہے۔ ان کی سیاسی مہم میں ان تھک محنت کرنے والے بہت سے کارکن ہیں جو کہ ان کی نظریاتی بنیاد رکھنے والی جماعتوں آر ایس ایس یا وی ایچ پی سے منسلک رہے ہیں۔ وی ایچ پی کو تجزیہ کار آر ایس ایس کا عسکری ونگ تصور کرتے ہیں۔
گذشتہ چند سالوں میں بی جے پی کو کافی زیادہ عطیات بھی دیے گئے ہیں جن کی تفصیلات منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔ ساتھ میں اس جماعت کو میڈیا کی شدید حمایت حاصل رہی ہے۔ مگر ماہرِ سیاسیات ونے سیتاپاتی اپنے آئندہ آنے والی کتاب ’جگل بندی: مودی سے پہلے کی بی جے پی‘ میں یہ خیال پیش کر رہی ہیں کہ اگر ہم ایک لمحے کو رک کر دیکھیں کہ بی جے پی کے پاس ایسا کون سا گُر ہے کہ وہ کامیاب رہی ہے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس کی وجہ اس کی قومی اتحاد سے نہ ہٹنے والی توجہ ہو سکتی ہے۔
اشوکا یونیورسٹی کی پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں ’بہت چھوٹی سی عمر سے آر ایس ایس میں بچوں کو ایک مخصوص قسم کی ہندو تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس میں شاندار ہندو معاشرہ ایک دوسرے کی کمر میں چاقو مار مار کر تباہ ہو گیا اور وہ ناکام ہی اس لیے ہوا کیونکہ وہ متحد نہیں تھا۔‘ ’ان کو مزید پختہ کرنے کے لیے مشقیں کروائی جاتی ہیں جو کہ صرف ورزش نہیں بلکہ جماعت میں ورزش ہے۔‘ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اکھٹے مارچ کریں، اور ایک دوسرے کے ساتھ کھیلیں، جیسے نجی کمپنیوں میں ٹیم سازی کی مشقیں ہوتی ہیں۔ ’اس سب کا مقصد اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہی یکساں یقین تنظیمی رویہ بن جاتا ہے۔ یہ دیگر جماعتوں کی طرح نہیں ہے۔‘
پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں کہ بی جے پی کی کوشش ہے کہ وہ ہندوؤں کو متحد کر لے جو کہ انڈیا کی آبادی کا 80 فیصد سے زیادہ ہیں اور ایک ساتھ ووٹ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ذات پات کی بات نہیں کرتے جو کہ روایتی طور پر ہندوؤں کو منقسم کرنے کی وجہ تھی۔ اسی لیے وہ اسلام مخالف آواز اٹھاتے ہیں اور قدیم ہندو کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں۔‘ مگر دیگر جماعتوں کی طرح بی جے پی میں اپنے حصے کی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ابھی اسے اقتدار میں آئے صرف 12 سال ہوئے ہیں مگر ان کی انتخابی عمر 40 سال پرانی ہے۔ اقتدار میں نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔
جماعت کے اعلیٰ ترین رہنماؤں اٹل بہاری واجپئی اور لال کرشنا اڈوانی کے درمیان تعلقات اکثر کشیدہ رہتے تھے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ کیسے واجپئی اور ان کی کابینہ کے کچھ لوگ مودی کے گجرات میں 2002 میں مسلم مخالف فسادات کے بعد وزیراعلیٰ رہنے کے خلاف تھے۔ ان مسائل کے دوران بھی پارٹی متحد رہی۔ پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں کہ وہ ایک ایسی فیملی کی طرح ہے جو ایک دوسرے سے ناراض ہو کر بھی ایک ساتھ ہی رہتی ہے۔ ان کے اتحاد کی وجہ انڈین معاشرے کے مسائل کی گہری سمجھ بوجھ ہے۔‘ سیاسی جماعت عموماً مفادات کا اتحاد ہوتا ہے جو کہ ہمیشہ ایک ہی سمت نہیں ہوتے۔ انھیں کرشماتی شخصیت والے رہنما اکھٹا رکھتے ہیں، کچھ نظریات جوڑتے ہیں، تنظیمی ڈھانچہ کارآمد ہوتا ہے اور انڈیا کے معاملے میں ذات بھی متحد رکھتی ہے۔ مگر تفریقِ رائے، یا پارٹی کے اندر کشیدگی ایک عام سی بات ہے۔ انڈیا کی جماعتیں لیڈران کی انا کے مقابلوں اور دھڑے بندیوں کی وجہ سے تقسیم ہوتی رہتی ہیں۔ کئی رہنما کانگریس سے علیحدہ ہو کر کامیاب علاقائی جماعتیں بنا چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک بی جے پی میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
پہلے واجپئی اور اڈوانی اور اب مودی اور امت شاہ کی قیادت اور آر ایس ایس کی حمایت نے اسے جوڑے رکھا ہے۔ پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں کہ ’میں جب کہتی ہوں کہ بہت سے بی جے پی کے رہنما مودی کو پسند نہیں کرتے تو کوئی خفیہ راز افشا نہیں کر رہی ہوتی۔ بہت سے بی جے پی، آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے رہنما جن کے میں نے انٹرویو کیے ہیں مسٹر مودی کے نظریے سے مخلص ہونے اور انتخابات جیتنے کے طریقے کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے انھیں بے رحم، خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والا اور دوسروں سے کٹا ہوا سمجھتے ہیں۔‘
میلان ویئشناو کے الفاظ درست لگتے ہیں کہ بی جے پی ایک ’غیر معمولی جماعت‘ ہے۔ پرفیسر ویشناؤ واشنگٹن میں قائم کارنیگی اینڈؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینیئر فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہندو قوم پرست تنظیموں کے ستاروں کے بڑے جھرمٹ کا ایک سیاسی بازو ہے۔ یہ بہت مشکل ہے کہ اس کے سیاسی وجود کو اس سے منسلک اتحادی اور برائے نام سیاسی اداروں سے علیحدہ کیا جا سکے۔ پھیلے ہوئے جال کے ماڈل کا مطلب ہے کہ بی جے پی نچلی سطح کی تنظیموں سے بہت طاقت حاصل کرتی ہے اور کہہ سکتے ہیں کہ اس کے گھنے نیٹ ورک لوگوں کو اس کی چھتری تلے ہی رکھتے ہیں۔‘
ایسا نہیں ہے کہ اختلافِ رائے رکھنے والوں نے بی جے پی کو کبھی نہیں چھوڑا۔ سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اور کتاب ’آئیڈیالوجی اینڈ آئڈینٹٹی‘ کے شریک مصنف راہول ورما کہتے ہیں کہ ’پہیلی یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر زندہ نہیں رہ سکتے اور پارٹی میں واپس آ جاتے ہیں۔ شاید وجہ یہ ہے کہ بی جے پی ایک انتہائی نظریاتی جماعت ہے اور نظریاتی گوند اسے جوڑ کر رکھتی ہے۔ اور آپ ایسا دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں میں بھی پائیں گے۔‘ ایسی پیشنگوئی کرنا مشکل ہے کہ کیا بی جے پی ہمیشہ اکٹھی رہے گی؟ اس کے ’جارحانہ اور بے رحم‘ سیاست کے انداز کا مطلب ہے کہ انھوں نے اپنے دروازے دوسری جماعتوں کے اختلافِ رائے رکھنے والوں کے لیے، جن میں سے کئی داغدار بھی ہوتے ہیں، کھول رکھے ہیں۔ یہ نظریاتی پاکیزگی کے ناگزیر تضادات کی طرف لے جاتا ہے۔ ورما سوال کرتے ہیں کہ ’آپ کب تک تضادات کو سنبھالتے رہیں گے؟‘ یقیناً اس وقت تک جب تک پارٹی جیت رہی ہے۔ اسی وجہ سے بی جے پی کی بقا کے لیے انتخابات بہت ضروری ہیں۔ ورما کہتے ہیں کہ بی جے پی کی سماجی بنیاد پھیل رہی ہے لیکن اس کی قیادت ابھی بھی زیادہ تر اونچی ذات کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک تضاد ہے جس کا سامنا مستقبل میں پارٹی کو کرنا پڑ سکتا ہے۔
نقادوں کا خیال ہے کہ بی جے پی کی اکثریتی سیاست ’انڈیا کے نظریے‘ کو بدل رہی ہے جو کہ سیکیولر اقدار کی وجہ سے زیادہ روادار اور باخبر تھا۔
پروفیسر سیتا پاتی کہتی ہیں کہ ’ان کا خیال جیت گیا تھا کیونکہ انھوں نے ایک ہو کر کام کیا تھا۔‘
(بشکریہ بی بی سی اردو)
امیت شاہ
فیصل فاروق
مہاراشٹر میں راتوں رات دیویندر فرنویس کی حلف برداری اور ڈرامائی انداز میں حکومت سازی کے خلاف داخل کی گئی عرضی پر سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں تاریخی فیصلہ سنایا۔ کورٹ نے مہاراشٹر میں نہ صرف اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا اندیشہ ظاہر کیا بلکہ جمہوری قدروں کے تحفظ کی وکالت کی اور عام شہری کے اُس حق کو تسلیم کیا کہ اُسے اچھی اور بہتر حکومت فراہم کی جاۓ۔ سپریم کورٹ نے منگل کو جیسے ہی کہا کہ بدھ کی شام ۵/بجے تک دیویندر فرنویس کو اکثریت ثابت کرنی ہوگی، تو اُن کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد پہلے نائب وزیراعلیٰ اجیت پوار نے استعفیٰ دیا۔ اُس کے بعد یہ کہتے ہوئے کہ اُن کے پاس اکثریت نہیں ہے، فرنویس کو بھی استعفیٰ دینا پڑا۔
بی جے پی نے اجیت پوار کے بھروسے ہی مہاراشٹر میں حکومت بنانے کا قدم اٹھایا تھا اور اُسے پوری اُمید تھی کہ اجیت پوار اپنے ساتھ این سی پی کے کچھ اراکین اسمبلی کو توڑ کر لائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بی جے پی آخر تک اقتدار اور ای ڈی، سی بی آئی جیسی ایجنسیوں کی طاقت پر منحصر رہی۔ صدر جمہوریہ اور مہاراشٹر کے گورنر تک کا ’استعمال‘ کیا گیا اور راتوں رات ’غیر مماثل شادی‘ کرا دی گئی۔ اتنا ہی نہیں صبح صبح گھر کے بڑوں، وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے ٹویٹر کے ذریعہ سے اپنا ’آشیرواد‘ بھی دے دیا تھا۔
مہاراشٹر میں شیوسینا، بی جے پی کے مابین وزیراعلیٰ کا عہدہ تنازعہ کا باعث رہا۔ اِسی تنازعہ کو لے کر مہاراشٹر میں سیاست کا ’ ہائی وولٹیج مہا ڈرامہ‘ چلا۔ واضح رہے کہ مہاراشٹر کی ۲۸۸/اسمبلی نشستوں کیلئے ۲۱/اکتوبر کو انتخابات ہوئے تھے۔ نتائج کا اعلان ۲۴/اکتوبر کو کیا گیا تھا۔ ریاست میں حکومت بنانے کیلئے کسی پارٹی یا متحدہ محاذ ’مہا وکاس اگھاڑی‘ کا دعویٰ نہ پیش کرنے کے سبب ۱۲/نومبر کو صدر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ شیوسینا اور بی جے پی نے ساتھ مل کر یہ الیکشن لڑا تھا لیکن جب شیوسینا نے وزیراعلیٰ کے عہدے کا مطالبہ کیا تو بی جے پی کے ساتھ شیوسینا کا ۳۰/سالہ قدیم اتحاد ختم ہو گیا اور اِس طرح مہاراشٹر میں سیاسی بحران پیدا ہوا۔
مزے کی بات یہ رہی کہ لوگوں نے صبح اخبار میں پڑھا تو اُدھو ٹھاکرے وزیراعلیٰ تھے اور جب ٹیلیویژن دیکھا تو پتہ چلا کہ کوئی اور وزیراعلیٰ بن چکا ہے۔ لوگ نیند کی آغوش میں تھے اور تختہ پلٹ دیا گیا۔ مہاراشٹر میں ایسا سیاسی ڈرامہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ پہلے کبھی اِس طرح طاقت کے بنیاد پر جمہوریت کا مذاق نہیں بنایا گیا تھا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر احمد پٹیل جنہوں نے کانگریس، این سی پی اور شیوسینا میں اتحاد کیلئے گفت و شنید میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، نے اِس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اُنہوں (بی جے پی) نے غیر قانونی طریقہ سے اقتدار حاصل کرنے کیلئے جس طرح ہمارے آئین اور اعلیٰ عہدوں کو نقصان پہنچایا ہے، اُس کی تلافی کیلئے دہائیاں درکار ہوں گی۔‘‘
ہر شہری کو آئین کی پاسداری کرنی چاہئے خاص طور پر آئینی عہدوں پر فائز افراد کو۔ میڈیا نے بھلے ہی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی غیر آئینی اور غیر جمہوری حرکت کو ’کوشیاری کی ہوشیاری‘ کہا ہو لیکن حقیقت میں یہ گورنر موصوف کی ’ذہانت‘ کا کمال نہیں تھا بلکہ اُس ’ذہنیت‘ کا نتیجہ تھا جو اُنہیں ’شاکھا‘ سے حاصل ہوئی ہے۔ آدھی رات کو آئین کی روح کے منافی فیصلہ کرتے ہوئے موصوف کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اِس وقت وہ ’پرچارک‘ یا ’شاکھا پَرمُکھ‘ نہیں ہیں بلکہ ملک کی ایک اہم ریاست کے پُروقار عہدے پر فائز ہیں۔ اپنی غلطی مان کر کوشیاری جی کو کچھ اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
مہاراشٹر میں حکومت بنانے کیلئے تمام تر حربوں کا سہارا لینے کے بعد بھی بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ اِس سے پہلے ہریانہ میں بی جے پی زور شور سے ریاست کی ٩٠/میں سے ۷۵/سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہی تھی لیکن اُسے ۴٠/سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا اور نئی نئی وجود میں آئی دشینت چوٹالہ کی جَن نایک جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کانگریس سے پاک ہندوستان کا نعرہ بلند کرنے والی بی جے پی خود ہندوستان کے نقشہ سے اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ بی جے پی کی حکومت ابھی بھی ۱۷/ریاستوں میں ہے مگر رقبہ کے لحاظ سے بڑی اور خصوصی ریاستیں ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔
امیت شاہ کی قیادت میں بی جے پی کے سامنے یہ پہلا موقع ہے جب وہ اتنی نشستیں جیتنے کے بعد بھی اقتدار سے باہر ہوگئی۔ امیت شاہ اب اِس خوش فہمی سے باہر نکلیں کہ اُنہیں کوئی ہرا نہیں سکتا، وہ ناقابلِ شکست ہیں۔ مہاراشٹر سے قبل بی جے پی گوا اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں اکثریت سے دور ہونے کے باوجود حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی۔ کرناٹک میں بی جے پی نے حکومت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن مہاراشٹر میں شرد پوار کی سیاسی پختگی نے اُس کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مہاراشٹر میں شہ اور مات کے کھیل میں شرد پوار نے ثابت کر دیا کہ وہ مہاراشٹر کی سیاست کے مردِ آہن ہیں۔
بہرحال، مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ہوا اُس سے بی جے پی کی شبیہ کو نقصان ہوا ہے بلکہ اُس کی وجہ سے پارٹی کے وقار اور وزیراعظم کی شبیہ کو بھی زبردست دھکا لگا ہے۔ اِس سیاسی اُٹھا پٹخ میں شیوسینا سب سے زیادہ فائدے میں رہی اور بی جے پی نقصان میں۔ کل تک شیوسینا کو نائب وزیراعلیٰ کا عہدہ نہیں مل رہا تھا لیکن اب وزارت اعلیٰ کی کرسی مل گئی جبکہ اُس کے ارکان اسمبلی کی تعداد این سی پی کے ارکان اسمبلی سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کی اِس ذلت آمیز شکست سے دیویندر فرنویس پر مرزا صادق شرر دہلوی کا یہ شعر صادق آتا ہے:
نہ خدا ہی مِلا نہ وصالِ صَنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے