افغانستان میں تیزی سے بدلتے حالات نے جنوبی ایشیائی
ممالک کے لیے ایک بار پھر خطرات کی گھنٹیاں بجادی ہیں، یہ ٹاپک پورے بیس پچیس سال سے کروڑوں انسانوں کے لیے تحیر انگیز اور ہر لمحہ چونکانے والا رہا ہےـ آپ دیکھیے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے القاعدہ کا بھوت پکڑنے کے لیے افغانستان کا رخ کیا،جو اسے پاکستان میں ملا، مگر وہ یہاں بیس سال تک جما رہا، پہلے سے ہی غریب و نادار ملک کو نوچتا کھسوٹتا رہا اور پھر اچانک اسے خیال آیا کہ اب یہاں سے کوچ کرنا چاہیے اور چند ماہ کے اندر ہزاروں امریکی فوجیوں کا افغانستان سے نکل جانا طے ہوگیاـ مذاکرات کے کئی دور چلے، جن میں امریکہ سمیت افغان حکومت اور تیسرا فریق طالبان بھی موجود رہا، پڑوسی ممالک بھی ادھر ادھر حاشیے پر موجود رہےـ اب جبکہ اس مذاکرات کے مطابق امریکہ اور نیٹو اتحاد کی افواج افغانستان خالی کر رہی ہیں، تو پھر سے افغان فوج اور طالبان میں کشت و خون کا ماحول زوروں پر ہے، روزانہ کی بنیاد پر طالبان کی فتوحات کی خبریں ایسے آرہی ہیں کہ گویا انھوں نے کسی ملک پر حملہ کیا ہے اور ایک کے بعد دوسرے قلعے فتح کرتے جا رہے ہیں ـ دوسری طرف پاکستان دم بخود ہے، بھارت سرگرداں، ایران بھی نظریں گڑائے ہوئے ہے،چین و روس غالبا کسی نئی تدبیر میں مصروف اور امریکہ کسی تازہ موقعے کی تاک میں ـ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر امن مذاکرات کی تکمیل کے بعد امریکہ نے جانے کا فیصلہ کیا تھا تو پھر اس کے جاتے ہی یہ مار دھاڑ کیوں ہو رہی ہے؟
جمعرات کو ہندوستان کے ابھرتے ہوئے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی قندھار میں افغان فون اور طالبان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران جاں بحق ہوگئے ـ عام طورپر خبریں آئیں کہ طالبان نے انھیں مارا اور آج یہ خبر بھی آئی کہ طالبان نے ان کی لاش ریڈکراس کو سونپ دی ہے اور اب اسے ہندوستان ان کے اہل خانہ کو سونپنے کا انتظام کیا جا رہا ہےـ میڈیا کی ممکنہ جانب داری یا تعصب سے قطع نظر دانش جیسے عالمی سطح کے ابھرتے صحافی کے قتل سے مجموعی طور پر طالبان کی شبیہ کو ہی نقصان پہنچاہے اور وہ طبقہ جو ان کے لیے کسی قدر نرم گوشہ رکھتا ہے، وہ بھی اس حرکت کی کسی طور حمایت نہیں کر سکتاـ گوکہ محاذِ جنگ پر پتا نہیں چلتا کہ کون دشمن کا بندہ ہے اور کون محض تماشائی یا صحافی اور اخباری نمایندہ، اسی وجہ سے طالبان نے دانش کی موت پر اظہارِ افسوس کیا ہے اور ان کے ترجمان نے کہا ہے کہ وار زون میں آنے والے صحافی ہمیں مطلع کریں، ہم ان کا دھیان رکھیں گے،مگر سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ اگر مذاکرات میں قیامِ امن کی شرطوں پر بات چیت ہوچکی تھی، تو پھر امریکہ کے نکلتے ہی آخر افغان حکومت اور طالبان آپس میں کیوں مرنے مارنے پر اتارو ہوگئے؟ کیا مذاکرات کا عمل محض ایک ڈرامے بازی تھی اور امریکہ کسی طرح جان چھڑا کر نکلنا چاہتا تھا؟
افغان حکومت کا رویہ بھی عجیب و غریب ہے، صدر صاحب پاکستان پر طالبان نوازی کا الزام لگا رہے ہیں، دوسری طرف بھارت سے فوجی امداد لینے کے امکان کا اظہار ہو رہا ہےـ مگر کیا بھارت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ کسی ملک کی فوجی مدد کر سکے، جب سے افغانستان میں نئی صورت حال پیدا ہوئی ہے، ہمارے وزیر خارجہ اور مشیر برائے قومی سلامتی خود یہاں وہاں بھاگے پھر رہے ہیں اور حکومت اندرونی طور پر ایسے اندیشے سے دوچار ہے کہ پتا نہیں کل کیا ہوجائے؟ عمران خان کا بھی دلچسپ بیان میڈیا میں گردش کر رہا ہے، جس میں انھوں نے خطے میں امن و امان کے قیام میں رکاوٹ آرایس ایس کی آئیڈیا لوجی کو قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ عمران کا یہ بیان محض اپنے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہے، ورنہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خطے میں قیامِ امن کی راہ میں آر ایس ایس کے علاوہ مزید کونسے کونسے اور کہاں کہاں کے روڑے حائل ہیں ـ
بش کا بیان بھی دو دن قبل آچکا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے جانے کا فیصلہ غلط کیا ہے اور اس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گےـ یوں تو امریکہ کے رہتے ہوئے بھی افغانستان کے حالات ابتر ہی تھے، مگر نئے سرے سے جو خوں ریزی کا دور شروع ہوا ہے، وہ بڑا دردناک ہےـ بندگانِ اقتدار کی ہوس کے شکار نہ جانے کتنے معصوم ہوچکے اور آنے والے دنوں میں نہ معلوم اور کتنے بے گناہ ان کی درندگی کی نذر ہوں گےـ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان میں طالبان تو خیر اپنی حکومت کیا قائم کریں گے، مگر جنوبی ایشیا ایک نئی اور بڑی آفت سے دوچار ہوگا، جس میں کئی ملک اور ان کے عوام کے لیے تباہی و تاراجی لکھی ہوگی ـ واللہ اعلم
امریکہ
امریکہ میں تین نومبر کو ہونے والے انتخابات کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ امریکہ کی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہیں۔ امریکہ سیاسی اور سماجی دونوں اعتبار سے منقسم ہے اور ملک میں وبا کے باعث ایک لاکھ 95 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں افراد بے روزگار ہیں۔ متعدد شہروں میں بلیک لائف میٹرز تحریک کے مظاہروں کا اختتام تشدد اور پولیس کارروائی پر ہوا۔تین نومبر کو متعدد مقامی اور ریاستی انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ بی بی سی کے نامہ نگار ونیت کھرے نے چند پاکستانی اور انڈین نژاد خواتین کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جو ان انتخابات میں اپنی قسمت آزمائیں گی۔
ثوبینہ ظفر: سان رامن سے میئر کے لیے امیدوار
سان رامن سان فرانسیسکو سے 35 میل مشرق کی جانب ایک خوبصورت شہر ہے۔ پاکستانی نژاد ثوبینہ ظفر سان رامن میں وائس میئر کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں اور اب میئر کا انتخاب لڑنے جا رہی ہیں۔ ان کے والد راجہ شاہد ظفر نے پاکستان میں بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں وفاقی وزیر کے طور پر کام کیا تھا۔ ثوبینہ ظفر نے زوم پر بی بی سی کو بتایا: ’میں انھیں (بے نظیر) کو سراہتے ہوئے بڑی ہوئی ہوں۔‘
وہ شادی کے بعد امریکہ چلی گئیں اور سان رامن جیسے 82000 نفوس کی متنوع آبادی والے شہر میں رہنے لگیں۔ثوبینہ ظفر پہلی ایشیائی امریکی ہیں جو سٹی کونسل کی اہلکار ہیں۔ وہ بتاتی ہیں: ’شہر میں 52 فیصد افراد سفید فام نہیں ہیں اور یہ سب گذشتہ 10 سے 15 برسوں میں ہوا ہے۔‘
وہ سیاست میں کیسے آئیں؟ ثوبینہ کا کہنا ہے کہ سات برس قبل کانگرس رکن ایرک سوال ویل کے لیے ان کی خدمات نے خدمت خلق کے ان کے جذبے کو بڑھایا۔‘انھیں ایمرج کیلیفورنیا کے نام سے ایک پروگرام میں ڈیمو کریٹک خواتین کو عہدوں پر کام کرنے کی تربیت دیے جانے کا علم ہوا۔ اس تربیت میں مختلف پس منظر رکھنے والی 40 خواتین تھیں۔ثوبینہ کے بقول ’اس میں آپ اس بڑے ایکوسسٹم سے منسلک ہوتے ہیں کہ کیسے دفتر چلایا جاتا ہے، کیسے سرکاری عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کے ساتھ تعلقات بنائے جاتے ہیں۔‘
’اس تربیت کے بعد میرے دماغ میں جو سوال آیا وہ یہ نہیں تھا کہ کب بلکہ تھا کہ کیسے؟‘۔ انھوں نے سنہ 2018 میں سٹی کونسل میں پہلی کامیابی حاصل کی اور نومبر 2019 میں ایک سال کے لیے ڈپٹی میئر تعینات ہوئیں۔ کاپریٹ اور ٹیکنالوجی میں ان کا تجربہ ان کے کام آیا۔
ان کا کہنا تھا ’مجھے کچھ بھی کہنے سے پہلے سیکھنا اور سننا پسند ہے۔ یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی آواز اس وقت بلند کریں جب کچھ کہنا ضروری ہو اور وہ آپ کے دل کے قریب بھی ہو۔‘تحفظ، علاقائی ٹریفک، ماحولیاتی تبدیلی ان کے کچھ مقامی مسائل میں سے ایک ہیں جنھیں وہ حل کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’ہم سب اس ملک میں پناہ گزین ہیں۔ چاہے آپ یہاں 11 نسلوں سے ہیں یا محض ایک نسل پہلے سے ۔ یہ زمین ہم سب کی ہے۔ ‘’یہ بہت اہم ہے کہ خاص طور پر اب جنوبی ایشیائی برادریوں کے لیے کہ ان کی آواز سنی جائے۔‘
رادھیکا کونال: نیواڈا کے لیے ریاستی اسمبلی کی امیدوار
رادھیکا ایک سائنسدان ہیں جنھیں 11 ستمبر 2011 کا دن اچھی طرح یاد ہے۔’میں کسی کو ٹیکسٹ کر رہی تھی، یہ منگل کا دن تھا، میں ایک تجربہ کرنے جا رہی تھی، میں نے اپنے لیب کے ساتھوں کو چلاتے ہوئے سنا۔ اوہ میرے خدایا، اوہ میرے خدایا۔ پوری دنیا میں ٹیلیوژن پر ٹوئن ٹاورز سے اٹھے دھوئیں کے بادلوں کے مناظر نشر ہو رہے تھے۔‘
’اس کے بعد میں نے یہ بیانیہ بھی سنا کہ اپنے ملک واپس چلے جاؤ۔ وہی ہمسائے جو پہلے بہت دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اب ویسے نہیں رہے تھے حتیٰ کے انھوں نے اپنے دروازے ہم پر بند کر لیے۔‘رادھیکا کی سیاست میں آنے کی یہی وجہ بنی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس کا مجھ پر اس قدر اثر ہوا کہ میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت حساس ہو گئی۔‘
رادھیکا سنہ 1996 میں اپنی مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی کرنے امریکہ آئیں ان کا تھیسز کینسر بائیولوجی پر تھا۔ ان کی سیاست میں آنے کی ایک دوسری وجہ قانون سازوں میں سائنسدانوں کی کمی تھی۔ وہ کہتی ہیں ’اگر ہمارے فیصلہ سازوں میں سائنسدان نہیں ہوں گے تو ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ لیبارٹری میں تخلیق ہونے والی سائنس کو صحیح طور پر بیان کیا جائے گا۔ ہمارے پاس ایسے فیصلہ ساز نہیں ہیں جو سمجھ سکیں کہ اسے بیان کیسے کرنا ہے۔‘ رادھیکا چاہتی ہیں کہ ریاست کے تنوع میں اضافہ ہو اور صحت اور تعلیم تک لوگوں کی رسائی بڑھے۔
فرح خان: کیلیفورنیا میں اروائن شہر کے میئر کے لیے امیدوار
فرح تین سال کی عمر میں امریکہ آئیں۔ ان کی والدہ کا تعلق لاہور سے ہے اور والد کا تعلق کراچی سے ہے۔ وہ شکاگو اور سان فرانسیسکو میں پلی بڑھیں جس کے بعد وہ 2004 میں جنوبی کیلی فورنیا منتقل ہو گئیں۔
غیر منافع بخش امدادی اداروں کے ساتھ کام کرنے کے بعد انھوں نے سٹی کونسل کے رکن کے لیے انتخاب لڑا۔ وہ سنہ 2016 میں ہار گئی۔ یہ ان کے لیے ایک تجربہ تھا۔
فرح کا کہنا ہے ’جب آپ کسی عہدے کے امیدوار ہوتے ہیں لوگ سمجپتے ہیں یہ بہت شاہانہ ہے لیکن درحقیقت ہے بہت ظالمانہ ہے۔ آپ کو ایسی باتیں بھی سننا پڑتی ہیں کہ شاید یہ شہر اتنے تنوع کے لیے تیار نہیں۔ آپ سے پوچھا جاتا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ فرح پہلی ایشین خاتون ہیں جو یہاں کونسل کے انتخاب کی امیدوار تھیں۔ان کے بقول ’آپ کو یہ بھی سننا پڑتا ہے کہ آپ جیسے ناموں والے لوگ شاید ناقابل قبول ہیں۔‘
’ان سب سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے بعد آنے والے لڑکے لڑکیاں کیا سوچتے ہیں؟ انھیں کیسا محسوس ہوتا ہے جب وہ سیاست میں اپنی عدم نمائندگی دیکھتے ہیں۔‘فرح کا کہنا ہے ’اس چیز نے مجھے دھکیلا اور سنہ 2018 میں دوبارہ انتخاب لڑا اور جیت گئی۔‘ فرح کے مطابق حالیہ میئر کو علم نہیں کے سماج کس قدر منتوع اور ترقی پسند ہو چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرا مقصد ہے کہ میں لوگوں کو قریب لانے کے لیے پل بنوں۔‘
پدما کوپا: میشی گن میں ٹوری اینڈ کلسن کی امیدوار
پدما کی والدہ 70 کی دہائی میں ان کے والد کے پاس امریکہ آئیں۔ پدما ایک کتابی کیڑا تھیں، ایک مصنف اور ریاضی دان۔ جب ان کے والد نے 1981 میں واپس انڈیا جانے کا فیصلہ کیا تو انھیں لگا کے ان سے مواقع چھین لیے گئے ہیں۔ وہ اس وقت 16 برس کی تھیں۔ لیکن وہ سنہ 1988 میں اپنے ماسٹرز کے لیے پھر سے امریکہ گئیں، ان کے والدین اور بھائیوں نے بھی پی ایچ ڈی کر رکھی تھیں۔ پدما کہتی ہیں ’جب میں میشی گن آئی تو یہاں لوگ دوسری تہذیبوں کے لوگوں سے آشنا نہیں تھے۔‘
ایک انجینیئر اور تجربہ کار پراجیکٹ مینیجر کی حیثیت سے انھوں نے آٹوموٹیو، فنانس اور آئی ٹی کی صنعتوں میں کام کیا۔ پدما نے بین المذاہب خدمات سرانجام دیں اور مقامی سطح پر بھارتیہ ٹیمپل آف میٹرو ڈیٹرائٹ کے لیے رضاکار کے طور پر کام کیا۔ ’میں نے مندر کے لیے رضاکارانہ خدمات دیں کیونکہ میں چاہتی تھی کہ بچے اپنی اقدار سے جڑے رہیں۔ کیونکہ جب آپ ایسی جگہ جاتے ہیں جہاں سب گندمی رنگت کے ہیں تو آپ کو محسوس ہوتا ہے آپ الگ نہیں، سکون اور وابستگی کا احساس ہوتا ہے۔‘
پدما کہتی ہیں ’میں چاہتی تھی کہ وہ ہندوازم کو مجموعی طور پر سمجھیں اس طرح جیسے ہم گھروں میں بات نہیں کرتے۔‘ انھیں مقامی سیاستدانوں کے لیے گھر گھر جاکر ملاقاتیں کر کے اہم تجربہ بھی حاصل ہوا تھا۔ انھوں نے سنہ 2018 میں انتخاب جیتا اور اسی نشست کے لیے وہ پھر سے میدان میں ہیں۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پانے سے متعلق اچانک اعلان پر ہکّا بکّا رہ گئی ۔انھوں نے یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کیا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں میں امن معاہدے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔اب اس کو آئندہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران میں مکمل کیا جائے گا۔
اس معاہدہ کی خبر سے عرب دنیا اور خود امریکا میں بھی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور بہت سے لوگ ہنوز حیرت زدہ ہیں کہ یہ سب کیوں کرممکن ہوا ہے۔یہ اس وقت ہی کیوں ہوا ہے؟ یہ ڈیل کتنے عرصے سے ’’پک ‘‘ رہی تھی اور اس کے کیا مضمرات ہوں گے؟ماضی میں امن کے لیے کاوشوں، بشمول ۱۹۹۲ء میں میڈرڈ کانفرنس، ۱۹۹۰ء کے عشرے میں کیمپ ڈیوڈ معاہدوں کے عمل اور اسرائیل کے مصر، اردن اور تنظیم آزادیِ فلسطین (پی ایل او) کے ساتھ طے شدہ معاہدوں اور سمجھوتوں کی طرح ’’معاہدۂ ابراہیم‘‘ کے لیے مذاکرات عوام کی نظروں میں نہیں ہوئے ہیں اور یہ میڈیا کی بھی اسکروٹنی کے بغیرہوئے ہیں۔بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ مذاکرات ابھی ہوئے ہیں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس میں ان کی ٹیم نے فوری طور پر اس معاہدے کی ’’نقاب کشائی‘‘ کردی ہے۔
اب تک جو کچھ میں جانتا ہوں، وہ یہ کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ڈیل کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس کے زیادہ وسیع تر پہلو ہیں۔ان کا معاہدے پر دستخطوں کے بعد باری باری انکشاف ہوگا۔
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اور صدر ٹرمپ کے حلقے میں یہ آئیڈیا کیسے پروان چڑھا تھا؟ اور اس پر کتنے عرصے سے کام ہورہا تھا؟
میں ذاتی طور پر صرف اس امر کی تصدیق کرسکتا ہوں جو میں جانتا ہوں۔باقی تو تجزیہ اور اس پر ردعمل ہے۔
صدر ٹرمپ کے ناقدین نے یہ عاجلانہ دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے اس معاہدے اوراس کے اعلان میں عجلت کا مظاہرہ کیا ہے۔انھوں نے دراصل اس معاہدے کے ذریعے ایک طرح سے امریکا میں نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے راتوں رات ہی اس کا حکم دے دیا تھا۔
لیکن میں یہ بات جانتا ہوں کہ یہ دعویٰ درست نہیں۔ انھوں نے مجھ سے پانچ سال قبل ایک نئے عرب، اسرائیل امن معاہدے کے قابل عمل ہونے کے بارے میں پوچھا تھا۔ انھوں نے دسمبر ۲۰۱۵ء میں متحدہ عرب امارات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کسی ممکنہ امن ڈیل کا امیدوار ہو سکتا ہے۔ تب میری ٹرمپ ٹاور میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اس کے بارے میں برسوں سے سوچ رہے تھے اور وہ اس ڈیل کے خالق بننا چاہتے تھے۔ ۲۰۱۶ء میں صدارتی انتخاب کے لیے مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسی کسی ڈیل کی پیشگوئی کی تھی۔ انھوں نے ستمبر ۲۰۱۶ء میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کی تھی۔صدر منتخب ہونے کے بعد انھوں نے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید النہیان سے ملاقات کی تھی۔ یہ کوئی پانچ سال پرانی بات ہے۔
اسرائیلی ربع صدی قبل اردن کے ساتھ امن معاہدہ پر دستخط کرنے کے بعد سے کسی اور ملک سے بھی معاہدہ طے کرنے کی تاک میں تھے۔جہاں تک متحدہ عرب امارات کی قیادت کا تعلق ہے، میں اس امر کی تصدیق کرسکتا ہوں کہ شیخ محمد اور ان کے بھائی امارات کے وزیر برائے خارجہ امور اور بین الاقوامی ترقی شیخ عبداللہ بن زاید نے ۲۰۱۶ء میں ذاتی طور پر مجھے بتایا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ایسی کسی ڈیل کے بارے میں سوچ رہے ہیں، لیکن وہ فلسطینیوں کو بھی ملحوظ رکھیں گے۔
اس معاہدہ کی جڑ بنیاد تو پرانی ہے، لیکن اس کا آئیڈیا بتدریج پروان چڑھا ہے۔امریکا میں اس کی شرائط توقع سے کہیں زیادہ کم وقت میں طے پائی ہیں۔
ریاض سربراہ اجلاس میں شرکت کے بعد ۲۰۱۷ء میں صدر ٹرمپ کا اس طرح کی ڈیل کے بارے میں کیا منصوبہ تھا؟
وائٹ ہاؤس میں اپنی آمد کے فوری بعد صدر ٹرمپ نے متعدد عرب ممالک کے لیڈروں سے بات چیت کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان میں مصر، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، بحرین اور اردن کے لیڈر شامل تھے۔ان سے ملاقاتوں کا مقصد ایک عرب اتحاد کی تشکیل تھا۔خارجہ پالیسی کی ایک مقصدی مہم کے نتیجے میں یہ اتحاد تشکیل پایا تھا۔اس کا مقصد امن عمل کو آگے بڑھانا تھا۔ امریکی صدر سے آج جو کچھ سنا گیا ہے، اس پر برسوں سے کام جاری تھا۔ اسرائیلی اور اماراتی دونوں ہی یقینی طور پراس تاریخی راستے پر چلنے کے مشتاق تھے لیکن اس کے لیے انھیں امریکا کی اسپانسرشپ درکار تھی۔
اس معاہدہ میں تاخیر کیوں ہوئی ہے؟یہ ۲۰۲۰ء کے موسم گرما میں کیوں طے پائی ہے اور ۲۰۱۷ء کے موسم بہار میں کیوں نہیں؟
جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی ۲۰۱۷ء میں ریاض میں ۵۰ سے زیادہ عرب اور مسلم ممالک کے لیڈروں سے خطاب کیا تھا تو انھوں نے ان کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑنے اور عرب اسرائیل تنازع کے حل کی غرض سے آگے بڑھنے اور امن معاہدوں کے لیے حوصلہ افزائی کی تھی۔اس وقت عرب اتحادیوں کی جانب سے اْسی سال موسم گرما میں ڈیل کے لیے کسی اقدام کی توقع کی گئی تھی لیکن چند لوگوں ہی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ سابق صدر اوباما کے دور کی افسر شاہی ٹرمپ انتظامیہ کے تحت بھی کام کررہی تھی۔اس نے نہ صرف وائٹ ہاؤس کو توازن سے دوررکھا تھا اور قومی سلامتی پر تندوتیز تحقیقات کی تھیں بلکہ خطے میں صدر ٹرمپ کے عرب اتحادیوں کو میڈیا کے ذریعے بے توقیر کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ وائٹ ہاؤس اور کانگریس میں اس کے اتحادیوں کو ان نام نہاد تحقیقات اور مواخذے کی مہم کی دلدل سے باہر نکلنے میں قریب قریب تین سال لگے ہیں۔اس کے بعد چھ ماہ کورونا وائرس کی وَبا کی نذر ہوگئے ہیں۔ان تمام تر تاخیری وجوہات کے باوجود امن معاہدے کا اعلان ہوچکا ہے اور اب یہ خود اپنی زندگی جی رہا ہے۔
اس معاہدے سے کس نے کیا حاصل کیا؟
اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل کا ایک خواب شرمندۂ تعبیر ہوا چاہتا ہے۔ وہ یوں کہ اس کو خلیج عرب کی ایک بڑی معیشت تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔اس کی عرب دنیا کے سب سے جدید ملک کے ساتھ شراکت داری قائم ہوجائے گی۔ متحدہ عرب امارات کو اسرائیل کی زراعت سے دفاعی شعبے تک جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ دونوں ممالک خود کو اگر ایک مخالف خطے میں پاتے ہیں تو ان کے درمیان فوجی تعاون کھیل کا پانسہ پلٹنے کے لیے اہم عامل ثابت ہوگا۔
دوسری جانب ابو ظہبی قطر پر اس مقصد کے لیے دباؤ ڈالے گا کہ وہ بھی اس کی پیروی کرے یا پھر وہ بظاہر امریکی عوام کی نظروں میں امن کا مخالف سمجھاجائے گا۔ فلسطینی یا کم سے کم اعتدال پسند حلقے امریکا کی گزشتہ دو سال کے دوران اسرائیل نواز پالیسی سے مطمئن نہیں ہیں،انھیں اب ایک نیا موقع مل جائے گا کہ وہ اپنی حتمی ریاست کے قیام کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کرسکیں۔انھیں خلیج کی جانب سے خاطر خواہ اقتصادی امداد مل سکتی ہے۔
اوّل تو یہ کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے کے بعد اسرائیل غرب اردن کے سرحدی علاقے کو قومیانے کے منصوبے کو منجمد کردے گا۔یہ ایک معجزہ ہی ہے لیکن فلسطین کی سول سوسائٹی اور نوجوانوں کے لیے اس سے بھی بڑا معجزہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو دبئی کے غربِ اردن سے کاروباری رابطے کے نتیجے میں کافی اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔
کون اس کی مخالفت کرے گا؟
ایران اور اخوان المسلمون بلاشبہ ایسے کسی معاہدے کی مخالفت کریں گے کیونکہ ایسا معاہدہ ان کے امور/ لوگوں کو ریڈیکل بنانے ، فلسطینی نصب العین (کاز) اور یروشلم کے بارے میں پتوں کی بڑے مؤثر انداز میں فعالیت کو کم کردے گی۔اماراتی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے اس مقدس شہر کے دروازے کھولیں گے۔ترکی کی حکمراں جماعت آق بھی اس امن معاہدے کی مخالفت میں آیت اللہ صاحبان کی صف میں شامل ہوگئی ہے لیکن اس کے لیے ضرررساں امر یہ ہے کہ استنبول میں سیکولر حضرات اور کاروباری افراد اس طرح کی جارحانہ خارجہ پالیسی سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ نتیجتاً اسرائیلی کاروباری اپنے کاروبار کو ترکی سے خلیج کی منڈی میں منتقل کردیں گے کیونکہ انھیں ترکی میں امن عمل کی مخالف ایک جارحانہ حکومت کا سامنا ہے۔
ایک اور خلیجی ملک بحرین بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرسکتا ہے کیونکہ اس نے تو اسرائیلیوں کے ساتھ برسوں قبل بین المذاہب مکالمے کا آغاز کردیا تھا۔ عمان اور کویت اس معاملے کو دیکھیں گے، لیکن سب سے بڑا تحفہ، جو مشرقِ وسطیٰ میں بنیاد ہی کو تبدیل کرکے رکھ دے گا، وہ سعودی عرب کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید النہیان کے دوست اور اتحادی ہیں۔نوجوان سعودی ولی عہد نے پہلے ہی مملکت کی تاریخ میں اصلاحات کا سب سے بڑا منصوبہ شروع کررکھا ہے۔ ریاض سربراہ اجلاس کے بعد انھوں نے ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر خلیج میں سفارتی نشاۃ ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر انھیں خود بڑی احتیاط سے اپنے ملک میں دور رس نتائج کی حامل اصلاحات کو عملی جامہ پہنانا ہوگا تا کہ وہ خود یروشلم کی جانب جانے والی شاہراہ پر چلنے کے لیے عرب اتحاد کی قیادت کرسکیں اور وہاں امن کی دعا کرسکیں۔
(بشکریہ معارف ریسرچ جرنل)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
تاریخ کے واقعات ماضی کی داستان ہی نہیں،عبرت آموز اسباق بھی ہیں ـ مسعود جاوید
تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ ذاتی شوق کی بنا پر ہو یا نصاب تعلیم کے لازمی یا اختیاری مضمون کی حیثیت سے، بلاشبہ ماضی کے خوشگوار واقعات اور تکلیف دہ حادثات سے ہمیں واقف کراتا ہے۔
تاریخ میں موجود اجداد و اسلاف کی سنہرے حروف میں لکھی جانے والی حصولیابیاں اور کارنامے پڑھ کر اور سن کر ہمیں بجا طور پر فخر کا احساس ہوتا ہے لیکن اس کا ایک مفید پہلو یہ بھی ہے کہ ان غلطیوں لغزشوں اور وقتی مفادات کے حق میں لیے گئت فیصلوں اور ان کے برے انجام سے سبق لیتے ہوئے ان غلطیوں کو دہرانے سے احتراز کرتے ہیں۔
کسی قوم ، برادری، قبیلہ کو نیست و نابود کرنے، اس پر ظلم و بربریت کا پہاڑ توڑنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ قوم ختم نہیں ہوتی؛ بلکہ اپنی بچی کھچی تعداد اور اثاثہ کو سمیٹ کر راکھ میں بچی بجھتی چنگاری کے سہارے نئے سرے سے زندگی گزارنے کے وسائل پر محنت کرتی ہے۔
جاپان جنگ عظیم دوم کے بعد کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا تھا، امریکہ اور حلیف طاقتیں جاپان کو عسکریت پسندی اور توسیعی سرگرمیوں کی سزا دے رہی تھیں، مگر امریکہ، برطانیہ، روس اور چین مل کر بھی جاپانیوں کی قوت ارادی سلب نہیں کر پائے۔ انہوں نے کھنڈرات اور ملبوں میں بچی ہوئی چنگاریوں سے اپنے اندر محنت کی آگ سلگائی اور باقی ماندہ مادی وسائل اور ذہنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروے کار لانے کے لئے اپنی ڈکشنری سے Leisure Period وقفہ استراحت مسخ کر دیا۔ اور عدیم النظیر سرعت سے اپنی معیشت کو پہلے سے بہتر بنا لیا۔
پچھلے چھ سالوں سے بالخصوص شہریت ترمیم بل اور قانون کے خلاف مزاحمتی جلسوں کے اسٹیج سے ایک بات بار بار دہرائی گئی کہ ہٹلر کے نقش قدم پر یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہٹلر نے جنگ عظیم دوم ١٩٤١ سے ١٩٤٥ کے دوران جرمنی اور جرمنی کے تحت یورپین ممالک میں یہودیوں کی نسل کشی کی، ٦٠ لاکھ یہودیوں یعنی یورپ میں موجود دو تہائی یہودیوں کو منظم طور پر قتل کیا گیا۔ ہولوکاسٹ اور گیس چیمبرز اسی نسل کشی میں استعمال ہوئے تھے اور بطور استعارہ آج بھی نسل کشی کے موقع پر استعمال ہوتے ہیں۔ جو یہاں سے بھاگ نکل کر دوسرے ممالک میں پناہ گزیں ہوئے اور پھر بڑی طاقتوں کی مدد سے فلسطین میں بسائے گئت اور رفتہ رفتہ فلسطینیوں کی زمین غصب کرتے رہے اور ملک اسرائیل بنا لیا۔ ان یہودی پناہ گزینوں نے ہٹلر کی بربریت کی اتنی تشہیر کی کہ پوری دنیا کی ہمدردیاں اپنی جھولی میں ڈال لیں۔ یہودی نسل کشی ہولوکاسٹ اور گیس چیمبرز کی صحیح تعداد یا ریسرچ کے نام پر کوئی سوال اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اگر کسی نے اس کے خلاف کچھ لکھنے یا بولنے کی جرأت کی تو پوری دنیا خاص طور پر امریکہ و یورپ میں وہ سزا کا مستحق ہوگا۔ مظلوموں کے ساتھ ہمدردی قابل ستائش ہے، امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے خلاف پھبتی کسنے کی سزا مقرر ہے، ان کو ابے اوے ، نیگرو ،کالیا کہنا آپ کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے لئے کافی ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں دلت اتیاچار قانون کے تحت دلتوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی بدتمیزی قابل مواخذہ جرم ہے اور لوگ جیل کی ہوا کھاتے رہے ہیں۔ کیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہتک آمیز باتیں کرنے والوں کے خلاف بھی کبھی کوئی قانون بنے گا ؟
آمدن بر سر مطلب یہ کہ ہٹلر کے حوالے سے ہمارے مقررین بات کرتے ہیں، صحافی حضرات لکھتے ہیں، لیکن ہمیں اس کی ترغیب نہیں دیتے کہ ایسی سختی اور بے سروسامانی کے باوجود یہودیوں نے ساری توانائی تعلیم اور ریسرچ پر مرکوز کی اور اس قابل ہوگئے کہ نہ صرف اسلحہ سازی بلکہ مختلف میدانوں میں خود کفیل ہی نہیں ترقی پذیر ممالک کو جدید ترین اسلحے اور جنگی لوازمات ایکسپورٹ کرنے لگے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنی ترقی کر لی کہ دوسرے ممالک ان سے حاصل کرتے ہیں۔
جب ہم ہر میدان میں پچھڑے ہوئے ہیں، ہمارا وجود داؤ پر ہے، تو کیا ضروری ہے کہ راکھ بن جانے کے بعد ہی چنگاری کو بجھنے سے بچانے کی کوشش کریں۔ تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ہم ابھی سے ہی اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ کے اہل بنانے کے لئے بہار اور مہاراشٹر میں رحمانی ٣٠، جنوبی ہند میں شاہین اور الامین کے طرز پر رہائشی کوچنگ سنٹرز کا جال بچھا دیں۔ نئی نسل کی ترجیحات روایتی گریجویشن پوسٹ گریجویشن ادب جغرافیہ اور تاریخ میں ایم فل اور پی ایچ ڈی نہ ہو، ان کا مطمح نظر اسپیس ریسرچ،ISRO، عبدالکلام اور بھابھا ہو،جدید ترین پروفیشنل کورسز ہوں۔