عبدالعزیز
11دسمبر 2019ء کو راجیہ سبھا میں شہریت ترمیمی بل 105 ووٹوں کے مقابلے میں 125 ووٹوں سے پاس ہوا۔ دوسرے روز صدر جمہوریہ نے سی اے اے پر اپنی مہر ثبت کردی۔ نوٹیفیکیشن کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس کے بعد ہی سے ’سے اے‘ اور’این آر سی‘ کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کا سلسلہ شروع ہوا۔ آسام اور دیگر علاقوں میں غیر معمولی احتجاج سے متاثر ہوکر وزیر اعظم نریندر مودی نے این آر سی کے سلسلے میں رام لیلا میدان دہلی میں سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہاکہ لوگ این آر سی کے بارے میں بلا وجہ پریشان ہیں جبکہ این آر سی لاگو کرنے کے سلسلے میں نہ کوئی چرچا ہوا اور نہ کہیں اس کے نفاذ پر بات کی گئی اور نہ بحث و مباحثہ ہوا۔ حالانکہ ان کے خاص الخاص اور سائے کی طرح ان کے ساتھ رہنے والے امیت شاہ نے بیسیوں بار بیانات دیئے کہ این آر سی ملک بھر میں لاگو ہوگا اور چن چن کر دراندازوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی انھوں نے بیان دیا۔ دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدر جمہوریہ نے بھی اپنے خطبے میں این آر سی کے نفاذکا ذکر کیا۔ اتنے بڑے جھوٹ کے بعد ایسا لگتا تھا کہ حکومت پیچھے کی طرف ہٹ رہی ہے، لیکن رام لیلا میدان میں سفید جھوٹ بولنے کے بعد دوسرے ہی دن ’این پی آر‘ کو پاس کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ مودی حکومت چور دروازے سے این آر سی کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کے اس اقدام کے بعد عوام میں بے چینی اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف جو احتجاج اور مظاہرے ہو رہے تھے اس میں تیزی آگئی اور وہ زور پکڑتا گیا۔
ایک ڈیڑھ ماہ ہونے کو آیا ہندستان کا پورا ماحول بدل گیا اور حکومت کے مزاج میں بہت حد تک تبدیلی آگئی۔ بات چیت کا انداز بھی بدل گیا۔ پاگل پن کے ساتھ ساتھ ہوش ٹھکانے بھی لگنے لگے۔ اتنی بڑی تبدیلی کیسے آئی؟ دیکھا جائے تو یونہی نہیں آئی۔ اس تبدیلی کیلئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آگ کا دریا تھا جسے پار کرنا تھا۔ وہ دریا پار کرنے کیلئے موجودہ ظالم حکومت کا سامنا تھا۔ کشمکش شروع ہوئی، پولس مظالم کا سلسلہ دراز ہوا۔ گولی اور پستول کے استعمال کے ساتھ ساتھ دھمکیوں اور گرفتاریوں کے ذریعہ ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ ان سب کے باوجود تحریک اور احتجاج کرنے والوں کے پاؤں لڑکھڑائے نہیں۔ ثابت قدمی کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ شاہین باغ جیسا احتجاج پورے ملک میں شہر شہر، گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ ہونا شروع ہوا۔ صرف یوپی میں پچیس سے تیس افراد شہید ہوئے۔ دوسری جگہوں میں چند لوگوں نے شہادت کا جام نوش کیا ہے۔ اس بڑی تبدیلی جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں کیا گیا ہے خون و پسینے کا ثمر ہے۔ احتجاج اور مظاہرہ اتنا زور دار ہوگا نہ حکومت کے علم میں تھا اور نہ عوام کے دل و دماغ میں یہ بات تھی۔ اچانک اس کی شروعات ہوئی اور دیکھتے دیکھتے عوامی تحریک اور جدوجہد آج اس مقام پہ پہنچ چکی ہے کہ جو لوگ سیاسی حالات سے نابلد رہتے تھے ان کی بے خبری اس حد تک ہوتی تھی کہ سب کچھ گزر جانے کے بعد بھی وہ سمجھنے سے قاصر رہتے تھے کہ ملک میں کیا ہوا اور ہوگیا ہے۔ اب ایسے لوگ بھی اپنے گھروں، اپنے حجروں سے باہر آگئے۔ فلم انڈسٹری جو ملکی حالات سے لاتعلق تھے وہ بھی ان مظاہروں میں حصہ لینے لگے اور مظلومین کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے کہ مشہور تجزیہ نگار اور سماجی کارکن یوگیندر یادو سے خاکسار نے کہاکہ ان کی سمجھ میں یہ بات آرہی ہے کہ ہم لوگ آگے بڑھے ہیں اور احتجاج اور مظاہرین کے دشمن کچھ پیچھے ہٹے ہیں۔ یوگیندر یادو نے کہاکہ بات صحیح ہے لیکن لڑائی لمبی ہے۔
آج (18جنوری) کے ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ میں مشہور کہانی نگار، مصنف اور صحافی چیتن بھگت کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ جس کا عنوان ہے: "Why NRC must be shelved: It will be an expensive, gargantuan, pointless exercise that could trigger civil war in the worst case.” (کیوں نہ این آر سی کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جائے۔ یہ انتہائی خرچیلا، بے معنی، بے فائدہ عمل ہے جو خرابیِ حالات میں خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہے)۔ مضمون کے پہلے ہی پیرا گراف میں چیتن بھگت لکھتے ہیں کہ "NRC has caused huge controversy, polarised opinion, created massive anxiety and made people come out on the streets. The government is now on the back foot. However, it hasn’t done what it should – to officially withdraw it or put it in long-term cold storage.” (این آر سی کی وجہ سے زبردست تنازعہ، خیالات میں انتشار اور بے پناہ بے چینیاں اور اضطراب پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں۔ حکومت اس وقت بیک فٹ پر آگئی ہے۔ بہر کیف اسے یہ سب نہیں کرنا تھا اور اب اسے کیا کرنا چاہئے؟ اسے آفیشیلی واپس لے لینا چاہئے یا بہت دنوں تک اسے سرد خانے میں رکھ دینا چاہئے)۔
انھوں نے اپنے مضمون میں موجودہ حکومت کے بہت سے کاموں پر تنقید کی ہے اور اسے غلط اور بے فائدہ کام بتایا ہے۔ این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کی مشق کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔ آخر میں لکھا ہے کہ "We have an economy to work on, that’s exciting enough and needs to be the number one priority. NRC needs to take a rest for now, officially.” (ہم لوگوں کو معیشت کیلئے بہت کچھ کرنا تھا جو ہمارے لئے بہت جذباتی چیز ہے جو ترجیح اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ این آر سی کو آفیشیلی آرام دینے کی ضرورت ہے)۔
مسٹر چیتن بھگت ان لوگوں میں سے ہیں جو مودی جی کے بہت گن گاتے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی مودی جی سے متنفر ہوگئے۔ ان کے بے معنی اور بے سود عمل سے ان کو اب چڑ سی ہوگئی ہے۔ اس طرح بہت سے صحافی اور رائٹر ہیں موجودہ حکومت سے متنفر سے ہوگئے ہیں۔ دانشوروں اور سرکاری افسران میں بھی بہت سے لوگ مودی -شاہ کی جوڑی کو ملک اور دستور کیلئے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ ان کے کاموں کو انسانیت کی تقسیم اور خانہ جنگی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
عدلیہ کا رویہ بہت دنوں سے نامناسب اور مایوس کن تھا، لیکن دو چار دنوں سے عدلیہ میں اور اس کی سوچ میں لگتا ہے کچھ تبدیلی آئی ہے۔ سی اے اے، این آر سی، این پی آر کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں 22جنوری کو سماعت ہے۔ سپریم کورٹ اگر آزادانہ ماحول میں بغیر کسی دباؤ اور اثر کے شہریت ترمیمی ایکٹ کو دستور ہند کی روشنی میں جائزہ لے گی تو اس قانون یا ایکٹ کو بغیر کسی پس و پیش کے رد کر دے گی۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ مودی جی شاید سمجھ چکے ہیں کہ ان کے تعلق سے لوگوں کے اندر جو مقبول جذبہ(Popular Sentiment) تھا جو باقی نہیں رہا، لہٰذا Face Saving (بدنامی سے بچنے) کیلئے حکومت عدلیہ سے کچھ اس طرح رجوع کرسکتی ہے کہ اس پر روک (Stay)لگا دی جائے۔ اس طرح حکومت اپنے لوگوں کو یہ سمجھا سکے گی کہ اس نے تو کوشش میں کوئی کمی نہیں کی لیکن عدالت کے فیصلے کی وجہ سے وہ مجبور ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے دوسری تاریخ دے دی جائے۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے اس کا اثر عوامی تحریک کو قبول نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ لڑائی مودی اور شاہ سے نہیں ہے یا ان کے کسی عارضی کاموں سے نہیں ہے بلکہ ان کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس سے ہے۔ آر ایس ایس کا ایجنڈا ’ہندو راشٹر‘ قائم کرنے کا ہے۔ اقوام متحدہ (UNO) نے آر ایس ایس کے بارے میں یہ رائے دی ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس بین الاقوامی ادارے کی رائے بے بنیاد نہیں ہے۔ آر ایس ایس سے منسلک افراد نے 17مقامات پر بم بلاسٹ کئے ہیں۔ سترہ عدالتوں میں آر ایس ایس کے ان لوگوں کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ (حوالہ: آر ایس ایس ہندستان کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم- مہاراشٹر کے پولس کے ریٹائرڈ آئی جی ایس ایم مشرف)۔
ایس ایم مشرف صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ ان کی کتاب کو شائع ہوئے پانچ سال سے زیادہ ہوگئے۔ ان کی کتاب کئی زبانوں میں شائع ہوئی ہے، پھر بھی اس کے مندرجات کو کسی نے چیلنج نہیں کیا ہے۔ بعض وجوہ سے آر ایس ایس کے لوگوں کے خلاف زیر سماعت مقدمات کے فیصلے میں دیر یا کوتاہی ہورہی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر عوامی تحریک کو اس وقت تک جاری رہنا چاہئے جب تک کہ آر ایس ایس کے اثرات زائل نہ ہوجائیں یا اس کے کالے کرتوتوں کو دنیا اچھی طرح سے سمجھ نہ لے۔ ایک دلت لیڈر نے صحیح کہا ہے کہ مودی یا شاہ تو آر ایس ایس کے مہرہ ہیں۔ یہ ہٹ بھی گئے تو آر ایس ایس کسی اور مودی-شاہ کو بٹھا دے گا۔
عوامی تحریک کی خصوصیت: اس تحریک کی مقبولیت اور شہرت پر دو رائے نہیں ہے لیکن اسے مزید مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس تحریک میں تعداد میں پہل اور پیش قدمی کے لحاظ سے مسلمان زیادہ نظر آتے ہیں۔ اس میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب شامل ہیں۔ یہ کسی ایک فرقہ یا ایک مذہب کی تحریک یا ایجی ٹیشن نہیں ہے بلکہ سارے مذاہب اور فرقوں کی تحریک ہے۔ مسلمان مرد اور عورتیں، یہاں تک کہ بچے، جوان اور طالب علم زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے اسے مسلمانوں کی تحریک دشمنانِ جمہوریت یا دشمنانِ تحریک بتانے یا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نریندر مودی نے جو بیان دیا تھا کہ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں ان کو کپڑوں سے پہچانا جاسکتا ہے۔ ان کا اشارہ اسی طرف تھا کہ یہ مسلمانوں کی تحریک ہے۔ لیکن دوسرے مذاہب اور فرقوں کے لوگوں کی شمولیت کی وجہ سے ان کی یا ان کے لوگوں کی بات بے وزن ثابت ہورہی ہے۔ اس تحریک کی سب سے بڑی خوبی یا خاصیت یہ ہے کہ دلتوں کا طبقہ آگے آگے دکھائی دے رہا ہے۔ تعداد میں کمی ہوسکتی ہے لیکن ان کے نوجوان لیڈر بے خوف و خطر اس تحریک کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہی چیز مودی اور شاہ کیلئے بڑی الجھن کا باعث بنا ہوا ہے۔ دلتوں کے علاوہ سکھوں نے بھی بحیثیت مجموعی اس احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔شاہین باغ کے خواتین کے احتجاج کی یکجہتی کیلئے ریاست پنجاب سے ڈیڑھ سو مرد اور خواتین شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ آئے۔ دلتوں کی شمولیت جذباتی طور پر نہیں ہے بلکہ ان کے ذہن میں یہ بات آگئی ہے کہ سب سے زیادہ غریب اور کمزور طبقہ ہے متاثر ہوگا۔ این آر سی یا این پی آر سے سب سے زیادہ دشواری یا تکلیف دلتوں کو ہوگی۔ یہ پہلا موقع ہے جب دلتوں اور مسلمانوں کے اتحاد کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہونے لگے ہیں۔
گزشتہ روز ایک کرکٹ میچ کے دوران ممبئی کے اسٹیڈیم میں ہندو مسلم نوجوانوں نے ایک ساتھ مل کر کالے قانون کے خلاف کھڑے ہوکر ایک انوکھا پر امن احتجاج کیا جسے دیکھ کر لوگ حیرت میں پڑگئے۔ ان کے سب کے کپڑے No NRC, No CAA, No NPR لکھا ہوا تھا۔ بہت سے لوگ مسلمانوں کی شمولیت پر چیں بہ جبیں ہیں لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمان ہی کالے قانون کے سب سے زیادہ شکار ہوں گے۔ جس پر حملے ہوتے ہیں اس کو اپنے بچاؤ یا دفاع کا پورا حق ہے۔ دلتوں پر جب حملے ہوتے ہیں تو دلت اپنے بچاؤں کیلئے آگے آتے ہیں۔ آدیباسیوں پر حملے ہوتے تو آدیباسی اپنے تحفظ کیلئے سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بھی طبقہ خواہ مزدوروں کا ہو یا کسانوں کا ہو جب وہ مصیبت کا شکار ہوتا ہے تو اپنے بچاؤ کیلئے سامنے آتے ہیں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے ذریعہ جو مظاہرے ہوں گے ان کا اثر اچھا خاصا ہوگا لیکن مسلمانوں کے مظاہرے کو Under Estimate (کمتر) کرنا صحیح نہیں ہے۔ آزادی سے پہلے آزادی کی لڑائی میں خلافت کی تحریک میں مسلمان پیش پیش تھے اور آزادی کی تحریک میں بھی پیش پیش تھے جس کی وجہ سے تحریک کو زبردست تقویت حاصل ہوئی تھی۔ اس وقت کم و بیش وہی مناظر ہیں۔ اتحاد و اتفاق کے ان مناظر کو خدا نظر بد سے بچائے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068