جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعلان کے مطابق بہار اسمبلی انتخابات تین مرحلوں میں ہوں گے، 28/اکتوبر تا 7/نومبر، 10/نومبر، کو نتائج سامنے آئیں گے ، اور وینر پارٹی کے ہاتھوں میں پانچ سال کے لئے چند عہد وپیمان کے ساتھ (خواہ اس پر عمل پیرا ہو یا نہ ہو) اہل بہار کی باگ ڈور دے دی جائے گی۔
اعلان کے بعد، بلکہ اس سے قبل ہی سے ہر پارٹی کے کارندے میدان میں اترچکے ہیں، ہر ایک یہاں کے باشندوں کو نئے نئے خواب دکھانے میں لگ چکے ہیں، ہر پارٹی سیکولرازم کی دہائی دینے لگی ہے، ہر پارٹی بہار واسیوں کے لئے مسیحا بن کر سامنے آنے لگی ہے۔
ایسی صورت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں کی ہر داخلی پارٹی کو مسلم ووٹ کی ضرورت ہے، کیونکہ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق بہار میں ساٹھ 60/اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں کے امیدواروں کی قسمت مسلمانوں کی رائے دہی فیصلہ کرتی ہے۔
دو مرتبہ سے مشہور مسلم لیڈر بیرسٹر اسدالدین اویسی بھی بہار اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے لگے ہیں۔
پچھلے مرتبہ مہاگٹھ بندھن کو کامیابی ملی اور نتیش کمار کے سر پر تاج بہار رکھا گیا، لیکن انھوں نے بہار واسیوں سے اتنی بڑی غداری کی جس کا زخم اہل بہار نہیں بھول پارہے ہیں ۔
اس مرتبہ پھر بہار میں دو اتحادیوں ”این ڈی اے“اور آرجے ڈی (مہاگٹھ بندھن) کے درمیان معرکہ ہے، ان دو کے علاوہ مجلس بھی اسی صف میں ہے،اس کے علاوہ پپویادو وغیرہ بھی ہیں۔
ایسی صورت میں بہار کے مسلمانوں کے لئے معاملہ کچھ زیادہ ہی پیچیدہ ہوگیا ہے، اب ان کو کیا کرنا چاہئے؟
اس سلسلے میں چند باتیں بندہ کے ذہن میں ہیں ، جن کو اپنانے میں ہمارے بہار واسیوں کو کچھ فائدہ ہوسکتا ہے۔
پہلی بات، اب کی بار این ڈی اے اور آر جے ڈی (مہاگٹھ بندھن) کا مقابلہ ہے۔(خیال رہے اس مہاگٹھ بندھن کی کشتی سے اب کی بار نتیش کمار جی چھلانگ لگا کر سمندر میں کود چکے ہیں،اور سمندر ہر چیز کو کھارا کرکے ملیا میٹ کردیتا ہے،اس لئے جو بھی لوگ ان کے ساتھ ہیں خاص طور سے مسلم لیڈران اور بالخصوص ہمارے سابق ایم پی علی اشرف فاطمی صاحب وغیرہ ، وہ اپنے مستقبل کو سوچ لیں، ابھی بھی وقت ہے درست راہ کی جانب آجائیں )
دوسری بات، اب کی بار بی جے پی کے ساتھ جو بھی پارٹی ہے اسے بھی معلوم ہوچکا کہ کیا ہونے والا ہے ایسی صورت میں وہ مجبوراً اس کے ساتھ ہے، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، اس لئے مسلم لیڈران جو ایسی پارٹیوں میں ہیں یا ان کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں وہ اپنے مستقبل کو دیکھ لیں۔
تیسری بات ، بی جے پی کے مقابلے میں کوئی پارٹی اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، ایسی صورت میں جہاں کہیں مسلم کنڈیڈیٹ ہو خواہ وہ کسی پارٹی سے ہو اسی کو کامیاب کرنے کی کوشش کریں۔
چوتھی بات، اسد الدین صاحب بھی آگئے ہیں جن پر یہ الزام ہے کہ وہ بی جے پی کے آدمی ہے یہ کہاں تک درست یا غلط ہے معلوم نہیں تاہم اگر وہ آتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ دس سے بارہ کنڈیڈیٹ ہی اتاریں اور وہیں اتاریں جہاں سے کامیاب ہونے کی امید ہو، اور یہ خود ان کا تجربہ ہے جس پر وہ تلنگانہ میں عمل کرتے ہیں۔
پانچویں بات، اس مرتبہ مقامی لیڈران زمینی طور پر کام کریں، اور ”دلت،مہادلت،او بی سی“ وغیرہ کو آگاہ کریں کہ مقامی لیڈران ہی صوبے میں کام کرتے ہیں، سینڑ والے تو صرف حکومت کرنا چاہتے ہیں، خواہ کانگریس ہو یا بی جے پی، جس صوبے میں ان کی حکومت ہے وہاں کچھ کام نہیں ہوتا، اس وقت پڑوسی اسٹیٹ ”اترپردیش“کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
چھٹی بات ، جہاں کہیں جس پارٹی کے امیدوار مضبوط ہوں(سیکولرازم) وہاں مسلم انہی سے جڑ جائیں (بلکہ حصہ دار بن جائے) اور یہ نہ دیکھیں کہ مسلم کنڈیڈیٹ ہے یا نہیں ہےـ
شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)