میں نے بچپن میں اردو بس اتنی پڑھی تھی کہ پوسٹ کارڈ پر اپنے والدین کو خط لکھ لیتا تھا، اس میں کچھ بہتری تب آئی جب میں درس نظامی کا با ضا بطہ طالب علم بنا، لیکن وہاں بھی اردو کی جو کتابیں داخل درس تھیں وہ اسلامیات یا پھر مختصر اسلامی تاریخ پر تھیں۔ جب دہلی کی سر زمین پر قدم رکھا تووہاں جن لوگوں سے ابتدائی دور میں میری ملاقات ہوئی ا ن میں ایک اہم نام حقانی القاسمی کا ہے۔یہ انہی دنو ں کی بات ہے جب اردوکی کچھ ادبی تحریں پڑھنے کا موقع ملا۔ میں نے ان دنوںانگریزی صحافت میں نیا نیا قدم رکھا تھا اور میرے مراسلے انگریزی کے بڑے اخبارات میں گاہے بگا ہے شائع ہوا کرتے تھے۔
ان دنوں جناب حقانی القاسمی نے مجھے دو یا تین کتابیں عنایت فرمائی تھیں جس میں سے ’’تکلف بر طرف‘‘ کو میں ازاول تا آخر پڑھ گیا۔ کتاب کا انداز بیاں دل چھو لینے والا تھا، مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس میں ایک تحریر 402نمبر بس پر بھی تھی جس سے میں بہت لطف اندوز ہواتھا۔ ماہ دسمبر(2020) کا شگوفہ کا پرفیسر خالد محمود نمبر پڑھا تو اس میں’’ سٹی بس کا سفر‘‘ نامی ایک خاکہ پڑھا جس نے حقانی صاحب کے مضمون کی یاد تازہ کردی۔ تکلف بر طرف کا اندازِ بیاں ہو یا اندازِ بیاں کا کتابی سلسلہ ،میرے لئے یہ صرف ادب نہیں بلکہ میری علمی جستجو کی تسکین اور سیرابی کا ذریعہ ہیں۔
میں نے انداز بیاں کے اس سے پہلے کے دونوں شمارے پڑھے ہیں، پہلا شمارہ اس معنی میںبہت عمدہ تھا کہ اس میںجہاں مجھے تانیثی ادب پر اردو میں پہلی مرتبہ اتنے خوبصورت مضامین پڑھنے کوملے، تو وہیں دوسرے شمارہ میں پولس کے جبروتی تصور سے پرے اس کی ایک تخلیقی جہت سے شناسائی ہوئی۔
انداز بیاںکا تازہ سلسلہ جو کہ میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات پر ہے، اس میں میرے ذوق کو جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کا وہ پہلو ہے جہاں اس شعبہ سے متعلق کچھ قلمکاروں نے اپنے شعبے سے اردو ادب میں نیا علمی اضافہ کیا ہے، جس کی ایک بہترین مثال بلند اقبال ہیں۔ بلند اقبال پر اس میں دو مضامین شامل ہیں، پہلا مضمون مشرف عالم ذوقی کاہے، ذوقی نے بلند اقبال کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے ان کے افسانوں کا وہ پہلو اجاگر نہیں ہو تا جو میرے لئے اہم ہے۔ ذوقی نے اقبال کے کچھ افسانوں کے اقتباسات ضرور پیش کئے ہیں جن سے ان کی ادبیت کی ایک جھلک تو ملتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایک مختصر تحریر میں اس سے زیادہ کی گنجائش بھی نہیں ہے، لیکن اس سے ان کا امتیاز کھل کر سامنے نہیں آتا۔ہاں انہوں اس بات کی طرف اشارہ ضرور کیا ہے کہ وہ زندگی کا طلب گار ہے اس لئے اس کا قلم انسانیت کوتلاش کرتے ہوئے مذہب اور انسانی Genesکی ترتیب تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ راہ کتنی دشوار ہے کیوں کہ بلند اپنے پائوں تخلیق کے اس بنجر ریگستان میں رکھ چکے ہیں جہاں قدم رکھنے والے تو ہزاروں ہیں لیکن کامیاب ہونے والے دو چند۔امریکی ناولسٹ ارنیسٹ ہیمنگوے کیThe old man and the seaکا حوالہ اسی جرأت کا استعارہ ہے۔
مگر در اصل میری معلومات میں زیادہ اضافہ ڈاکٹر ہمایوں اشرف کا مضمونـ ـــ’’ بلند اقبال اور فرشتے کے آنسو ‘‘کی وجہ سے ہوا۔یہ مضمون جہاں بلند اقبال کا تعارف قاری سے کراتا ہے، وہیں اس کے مختلف افسانوں کا ذکر بھی اس میں خوب ہے، اور جب میں نے ان افسانوں کے عنوانات پڑھے اور ان کے مختصر تعارفی تبصرے دیکھے تو مجھے revolutionary biologistیول نوا ہراری کی کتاب Sapiens: A Brief History of Human Kind کی گونج اردو میں سنائی دینے لگی۔
’’شکوہ‘‘ میں جب ایک آرٹسٹ خدا سے کہتا ہے کہ ’’میری تخلیق تو آرٹ گیلری میں محض ایک بار بکتی ہے اور تمہاری تخلیق یہاں دنیا میں بار بار۔۔۔‘‘ تو اس کی ذو معنوی حیثیت مجھے چونکا دیتی ہے، یا پھر’’ سہاگ رات‘‘ میں ایک سجی ہوئی اور تیار بیوی سے جب شوہر کہتا ہے کہ میں بھی غسل کرکے آتا ہوں کہ مباشرت سے پہلے واجب ہے تو اس سے کتنے مذہبی اور اخلاقی نوعیت کے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔اسی طرح’’ یہ کیسی بے وفائی‘‘ میںہم جنس پرستی کے غیر فطری رشتہ سے میاں بیوی کے جائز رشتہ پر جو کاری ضرب پڑتی ہے ، ان جیسی کہانیوں کی تخلیق ایک فزیشین ہی صحیح ڈھنگ سے کر سکتا ہے۔ ’’بیوی دوسرے کی‘‘ اور’’ ادھورا کافر‘‘ انسانی نفسیاتی پیچیدگیوں کی بہترین عکاس ہیں۔
مصنوعی ذہانت اور سائنس اورٹیکنالوجی کی نئی دریافتوں نے جو صرف سماجی اور معاشرتی ہی نہیں بلکہ اخلاقی، قانونی ، طبی اور نفسیاتی مسائل کھڑے کیے ہیں ان پر اردو افسانہ نگار خاموش نظر آتے ہیں ۔ شکر ہے کہ اردو کی گود میں بلند اقبال جب پل کر بڑے ہوتے ہیں اور اپنے پیشے کی معلومات کو ارد و ادب کا حصہ بناتے ہیں تو شکوہ، کارٹون، سہاگ رات،ادھورا کافر، میوٹیشن، آدھا مرد ، فورتھ ڈائمنشن اور خدا کا بت جیسی درجنوں کہانیوں کو صحیح تناظر ملتا ہے اور مجھ جیسے قاری کو اردو ادب میں ہیکب بارسیگیان جیسے جدید فلسفی اور ہراری جیسے ما ہر حیاتیات کے تصورات سے ملتی جلتی کئی چیزیں اردو کی گود میں پھلتی پھولتی نظر آتی ہیں اور اس کا سہرا حقانی القاسمی کو جاتا ہے ،جن کا تخلیقی ذہن وقت کی رفتار اور حالات کی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے سوالات کونہ صرف سمجھتاہے بلکہ بر وقت انہیںاپنے ادبی کینوس میںاتار لیتا ہے۔
ویسے یہ بات پروفیسر خالد محمود نے شاہد علی خاں صاحب کے لئے لکھی ہے ،مگر اس میں تھوڑی ترمیم کے ساتھ میں اسے حقانی القاسمی صاحب کے لئے کہنا چاہوں گا کہ ان کی دو بیویاں ہیں ، ایک نزہت (صاحبہ)اور دوسری اردو، جہاں پہلی سے انہوں نے نکاح کیا ہے دوسری سے انہوں نے عشق کیا ہے اور عشق اگرچہ اذیت آمیز ہو، لذت اسی میں ہے۔میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات پر جو کہ حقانی القاسمی کی یک موضوعی عشق کی تیسری اولاد ہے ان کو دل کی گہرائی سے مبارکباد۔
نوٹ: یہ مختصرمضمون فورم فار انٹلیکچول ڈسکورس کے ذریعے حقانی القاسمی کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلہ’’ اندازِبیاں‘‘ کے میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات نمبر پر 9جنوری2021بروز ہفتہ منعقد مذاکرہ کے دوران پڑھا گیاتھا۔