جی ، معروف فوٹوجرنلسٹ، پلترز ایوارڈ یافتہ، محنتی، جفاکش، سرگرم، فعال، مضبوط، اپنے کام سے جنون کی حد تک عشق کرنے والا، چاق وچوبند، نڈر، بے باک، بے خوف، سختی جھیلنے والا، اعلیٰ تعلیم یافتہ، فخر صحافت، اپنے کیمروں سے لی ہوئی تصاویر کو تاریخ کے صفحات میں محفوظ کرانے والا، دانش صدیقی ہوں ، میری پیدائش ۱۹۸۰ میں مہاراشٹر کی راجدھانی ممبئی میں والد اختر صدیقی کے ہاں ہوئی ، میرے والد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک شعبے کے سابق ڈین ہیں، میری ابتدائی تعلیم دہلی کے کیمبرج اسکول میں ہوئی، اس کے بعد شہر آرزو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی خواہش اور دیرینہ شوق صحافت سے منسلک ہوگیا۔اپنے کیرئر کی ابتدا ہندوستان ٹائمز کے نمائندے کی حیثیت سے کی پھر ٹی وی ٹوڈے نیٹ ورک سے منسلک رہا ۲۰۱۰ میں معروف برطانوی نیوز ایجنسی روئٹرز کے لیے بطور فوٹو جرنلسٹ کام کرنے لگا اور ہندوستان میں روئٹرز کی پکچر ٹیم کا ہیڈ بن گیا۔ میری شادی جرمنی کی رہنے والی ایک نیک سیرت خاتون سے ہوئی جس سے میری دو اولاد ہیں، ایک چھ سال کا لڑکا اور تین سال کی لڑکی ہے۔
ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے اپنے کیمرے سے دنیا کو سچ دکھایا، جہاں تک حکومت اور عوام کی نظریں نہیں پہنچیں، وہاں میں پہنچ کر دنیا کے سامنے سچ آشکار کیا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے ۲۰۱۵ میں نیپال میں آئے بھیانک زلزلے کی تصاویر کھینچی اور تباہی وبربادی کے مناظر کے عکس اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر کے دنیا کو متوجہ کیا، ہاں میں وہی ہوں جس نے مشرق وسطی میں جاری بھیانک خانہ جنگی کی تصاویر کھینچی، جس نے ہانگ کانگ سورش کو کوور کیا تھا۔ ہاں میں نے ہی۲۰۱۶۔۱۷ روہنگیا مسلمانوں کے مظالم کی تصاویر دنیا کے سامنے پیش کی، ساحل سمندر ، حالات سے مجبور روہنگیائیوں کی تصاویر جو ملتجی نگاہوں سے دنیا سے سوال کررہی تھیں کہ میرا جرم کیا ہے، میں کیوں بے گھرہوں ان لاچارو بے بس کی تصاویر کھینچی اور روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہے ظلم کی انتہا کو اپنے کیمرے میں قید کیا اور جدید دنیا کے سامنے پیش کیا کہ لو یہ تمہارا مکروہ چہرہ ہے جہاں تم انسانیت کی باتیں کرتے ہو؛ لیکن انسانیت سے عاری ہو۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جسے روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہے مظالم کی تصویر کشی کے لیے ۲۰۱۸ میں صحافت کے آسکر پلتزر ایوارڈ سے نوازاگیا تھا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے سی اے اے تحریک کے محرک شاہین باغ والوں کی تصاویر کھینچی اور سی اے اے کے مستقبل میں پڑنے والے خطرناک اثرات دنیا کے سامنے پیش کیا ، ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے دہلی فسادات میں مارے جارہے مظلوموں کی داد رسی کی، اور ایسی جگہوں سے تصاویر کھینچی جسے بطور ثبوت پیش کیاگیا۔ آپ نے میرے کیمرے سے لی گئی وہ دو تصاویر ضرور دیکھی ہوں گی جس میں ایک انسان سفید کرتا پہنے امن کی دہائی دیتے ہوئے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑے دوزانوں ہوکر زمین پر اوندھا پڑا ہوا ہے اور بلوائیوں کا ہجوم لاٹھی ڈنڈوں سے جمہوریت کے خون کے چھینٹے اڑا اڑا کر اسے پیٹ پیٹ کر قتل کررہا ہے اور دوسری تصویر وہ جب جامعہ ملیہ میں ایک اندھ بھکت گولی چلارہا ہے اور پیچھے پولس والے حصار بنائے کھڑے ہیں ان کے علاوہ سینکڑوں ایسی تصاویر ہیں جنہیں میں نے کھینچی اور دنیا کے سامنے پیش کیاجسے اگر میں شاید نہ کلک کرتا تو شاید دنیا کو اس کا علم تک نہیں ہوپاتا ۔
ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جب ملک میں اچانک لاک ڈاؤن کا نفاذ کیاگیا تو مزدور طبقے پریشان ہو اٹھے ، میلوں کا سفر اپنے شیر خوار بچوں کو کاندھوں پر لیے کررہے تھےان کی تصاویر کھینچی اور ملک کے عوام کو ہورہی پریشانیوں سے دنیا کو آگاہ کیا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جب کورونا کی دوسری لہر آئی، ہر طرف موت رقصاں تھی، شمشان میں لاشوں کوجلانے کےلیے مردوں کو مرنے کے بعد بھی انتظار کرنا پڑرہا تھا، ان کی تصاویر کھینچی، گنگا کنارے مدفون کورونا مہلوکین کی تصاویر کھینچی اور حکومت کو آئینہ دکھایا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جو اپنے کام میں مخلص اور اپنے جنون میں حد تک گزرجانے والا تھا، میں حال ہی میں افغانستان کی شورش کو کور کرنے گیا تھا وہاں طالبان اور افغانستان فورسیز کے مابین جھڑپوں کی تصویر کشی کررہا تھا ۱۵ جولائی کو قندھار کے اسپین بولدک میں حالات ناسازہوگئے اور میں ان جھڑپوں کی زد میں آگیا میرے سر میں گولی آلگی اور میں جاں بحق ہوگیا۔ میرے انتقال کی خبریں جیسی ہی عام ہوئی ایک کہرام برپا ہوگیا، ہر کوئی میرے تئیں ہمدرد تھا، میرے دشمن بھی میری تعریف کرنے کو مجبور تھے، یہاں تک کہ جن پر میرے قتل کا الزام عائد کیاگیا وہ بھی میرے قتل پر افسوس کا اظہار کررہے تھے۔دو دن بعد میری لاش طالبان نے ریڈ کراس کے حوالے کی اور جسد خاکی ایئر انڈیا کی فلائٹ سے ۱۸ جولائی ۲۰۲۱ کی شام دہلی پہنچا اور میری تدفین دیار شوق جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں عمل میں آئی۔ لوگوں نے میرے قتل ناگہاں کو صحافت کا عظیم نقصان قرار دیا، میرے چاہنے والے میرے کام کی ستائش کررہے ہیں اور خراج عقیدت پیش کررہے ہیں ، پوری دنیا میں میرے چاہنے والوں کی آنکھیں نمناک ہیں اور مجھے یاد کررہے ہیں اور ان شاء ا للہ رہتی دنیا تک جب جب میرے ذریعے کھینچی ہوئی تصاویر ان کے سامنے آئیں گی مجھے یاد رکھاجائے گا۔ اللہ میری مغفرت فرمائے اور میرےاہل خانہ سمیت مداحوں کو صبر سے نوازے، اور میری ہی طرح کوئی اور جرنلسٹ امت مرحوم کو نوازے جو حقائق کا علمبردار ہو اور سچائی دنیا کے سامنے پیش کرنا اپنا فریضہ سمجھے۔ آمین۔
افغانستان
افغانستان میں تیزی سے بدلتے حالات نے جنوبی ایشیائی
ممالک کے لیے ایک بار پھر خطرات کی گھنٹیاں بجادی ہیں، یہ ٹاپک پورے بیس پچیس سال سے کروڑوں انسانوں کے لیے تحیر انگیز اور ہر لمحہ چونکانے والا رہا ہےـ آپ دیکھیے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے القاعدہ کا بھوت پکڑنے کے لیے افغانستان کا رخ کیا،جو اسے پاکستان میں ملا، مگر وہ یہاں بیس سال تک جما رہا، پہلے سے ہی غریب و نادار ملک کو نوچتا کھسوٹتا رہا اور پھر اچانک اسے خیال آیا کہ اب یہاں سے کوچ کرنا چاہیے اور چند ماہ کے اندر ہزاروں امریکی فوجیوں کا افغانستان سے نکل جانا طے ہوگیاـ مذاکرات کے کئی دور چلے، جن میں امریکہ سمیت افغان حکومت اور تیسرا فریق طالبان بھی موجود رہا، پڑوسی ممالک بھی ادھر ادھر حاشیے پر موجود رہےـ اب جبکہ اس مذاکرات کے مطابق امریکہ اور نیٹو اتحاد کی افواج افغانستان خالی کر رہی ہیں، تو پھر سے افغان فوج اور طالبان میں کشت و خون کا ماحول زوروں پر ہے، روزانہ کی بنیاد پر طالبان کی فتوحات کی خبریں ایسے آرہی ہیں کہ گویا انھوں نے کسی ملک پر حملہ کیا ہے اور ایک کے بعد دوسرے قلعے فتح کرتے جا رہے ہیں ـ دوسری طرف پاکستان دم بخود ہے، بھارت سرگرداں، ایران بھی نظریں گڑائے ہوئے ہے،چین و روس غالبا کسی نئی تدبیر میں مصروف اور امریکہ کسی تازہ موقعے کی تاک میں ـ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر امن مذاکرات کی تکمیل کے بعد امریکہ نے جانے کا فیصلہ کیا تھا تو پھر اس کے جاتے ہی یہ مار دھاڑ کیوں ہو رہی ہے؟
جمعرات کو ہندوستان کے ابھرتے ہوئے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی قندھار میں افغان فون اور طالبان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران جاں بحق ہوگئے ـ عام طورپر خبریں آئیں کہ طالبان نے انھیں مارا اور آج یہ خبر بھی آئی کہ طالبان نے ان کی لاش ریڈکراس کو سونپ دی ہے اور اب اسے ہندوستان ان کے اہل خانہ کو سونپنے کا انتظام کیا جا رہا ہےـ میڈیا کی ممکنہ جانب داری یا تعصب سے قطع نظر دانش جیسے عالمی سطح کے ابھرتے صحافی کے قتل سے مجموعی طور پر طالبان کی شبیہ کو ہی نقصان پہنچاہے اور وہ طبقہ جو ان کے لیے کسی قدر نرم گوشہ رکھتا ہے، وہ بھی اس حرکت کی کسی طور حمایت نہیں کر سکتاـ گوکہ محاذِ جنگ پر پتا نہیں چلتا کہ کون دشمن کا بندہ ہے اور کون محض تماشائی یا صحافی اور اخباری نمایندہ، اسی وجہ سے طالبان نے دانش کی موت پر اظہارِ افسوس کیا ہے اور ان کے ترجمان نے کہا ہے کہ وار زون میں آنے والے صحافی ہمیں مطلع کریں، ہم ان کا دھیان رکھیں گے،مگر سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ اگر مذاکرات میں قیامِ امن کی شرطوں پر بات چیت ہوچکی تھی، تو پھر امریکہ کے نکلتے ہی آخر افغان حکومت اور طالبان آپس میں کیوں مرنے مارنے پر اتارو ہوگئے؟ کیا مذاکرات کا عمل محض ایک ڈرامے بازی تھی اور امریکہ کسی طرح جان چھڑا کر نکلنا چاہتا تھا؟
افغان حکومت کا رویہ بھی عجیب و غریب ہے، صدر صاحب پاکستان پر طالبان نوازی کا الزام لگا رہے ہیں، دوسری طرف بھارت سے فوجی امداد لینے کے امکان کا اظہار ہو رہا ہےـ مگر کیا بھارت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ کسی ملک کی فوجی مدد کر سکے، جب سے افغانستان میں نئی صورت حال پیدا ہوئی ہے، ہمارے وزیر خارجہ اور مشیر برائے قومی سلامتی خود یہاں وہاں بھاگے پھر رہے ہیں اور حکومت اندرونی طور پر ایسے اندیشے سے دوچار ہے کہ پتا نہیں کل کیا ہوجائے؟ عمران خان کا بھی دلچسپ بیان میڈیا میں گردش کر رہا ہے، جس میں انھوں نے خطے میں امن و امان کے قیام میں رکاوٹ آرایس ایس کی آئیڈیا لوجی کو قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ عمران کا یہ بیان محض اپنے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہے، ورنہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خطے میں قیامِ امن کی راہ میں آر ایس ایس کے علاوہ مزید کونسے کونسے اور کہاں کہاں کے روڑے حائل ہیں ـ
بش کا بیان بھی دو دن قبل آچکا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے جانے کا فیصلہ غلط کیا ہے اور اس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گےـ یوں تو امریکہ کے رہتے ہوئے بھی افغانستان کے حالات ابتر ہی تھے، مگر نئے سرے سے جو خوں ریزی کا دور شروع ہوا ہے، وہ بڑا دردناک ہےـ بندگانِ اقتدار کی ہوس کے شکار نہ جانے کتنے معصوم ہوچکے اور آنے والے دنوں میں نہ معلوم اور کتنے بے گناہ ان کی درندگی کی نذر ہوں گےـ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان میں طالبان تو خیر اپنی حکومت کیا قائم کریں گے، مگر جنوبی ایشیا ایک نئی اور بڑی آفت سے دوچار ہوگا، جس میں کئی ملک اور ان کے عوام کے لیے تباہی و تاراجی لکھی ہوگی ـ واللہ اعلم
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی چند سال پہلے آنے والی بائیو گرافی ”آئی ایم ملالہ “ نے ہلچل مچائی تھی، اس پر بہت کچھ لکھا گیا۔ تنقید میں زیادہ اور توصیف میں قدرے کم۔ بدقسمتی سے زیادہ تر نے کتاب پڑھے بغیر صرف میڈیا میں آنے والے اس کے اقتباسات پڑھ کر لکھا ۔ یوں کتاب کی تنقید اور تعریف میں لکھے گئے مضامین ازخود یک رخے ہوگئے۔ ہم اردو میڈیم لکھنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اردو کتابوں میں تو چلو کچھ دال دلیہ کر لیتے ہیں،انگریزی کتابیں پڑھنے کی رفتار کوشش کے باوجود زیادہ تیز نہیں ہوپاتی۔ اس کے لیے بہت زیادہ مشق کی ضرورت ہے۔ بہتر یہی ہوتا ہے کہ پڑھنے کے بعد ہی لکھا جائے تاکہ سیاق وسباق سامنے رہے۔
اب ایک بار پھر سے ملالہ یوسف زئی کے مشہورمغربی فیشن اینڈ لائف سٹائل میگزین ووگ(Vogue)میں دیے گئے انٹرویو کی بازگشت پاکستانی اور عالمی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی سنائی دے رہی ہے۔اس کا حال بھی پہلے جیسا ہے کہ اکثر لوگوں نے پڑھے بغیر ہی بحث چھیڑ رکھی ہے۔ ووگ بہت مشہور فیشن میگزین ہے، سوا سو سال سے یہ شائع ہورہا ہے اور اس میگزین میں کسی شخصیت کا انٹرویو یا اس پر مضمون شائع ہونا اہم بات سمجھی جاتی ہے۔ ووگ کے ٹائٹل پر عام طور سے مشہورو معروف حسین ماڈلز، ایکٹریسز اور سیلبریٹیز کو چھاپا جاتا ہے۔ کرکٹ کی دنیا میں مشہور برطانوی کرکٹ میگزین وزڈن کے ٹائٹل پر آنا بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا، آج کل بھی وزڈن کی جانب سے سال کے بہترین کھلاڑی کے طور پر جس کانام آئے ، وہ خود کو خوش نصیب سمجھتا ہے۔ اسی طرح ووگ کے ٹائٹل پر کسی خاتون سیلبریٹی کا آنا اس کا اعزاز اور کامیابی تصور ہوتی ہے۔ ملالہ یوسف زئی ووگ (یوکے) کے جولائی2021 کے شمارہ کے ٹائٹل پر آئی ہیں۔ یہ جریدہ چارجون یعنی آج سے برطانیہ میں سٹالز پر دستیاب ہوگا، مگر اس کے مندرجات شائد ای میگزین فارمیٹ کی وجہ سے ہر طرف گردش کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ووگ میگزین کی ٹارگٹ آڈینس بیس سے چالیس سال کی خواتین ہیں ، خاص کر جو خوبصورت اور کامیاب ہیں اور جو فیشن اور سٹائل کی دنیا کے تازہ ترین رجحانات سے باخبر رہنا چاہتی ہوں۔
ملالہ یوسف زئی کے انٹرویو کے مندرجات گزشتہ رات وقت لگا کر پڑھے ، مقصد یہی تھا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی سنسنی خیز سرخیوں کے بجائے اصل مواد تمام تر سیاق وسباق کے ساتھ پڑھا جائے ۔ خاکسار کو یہ خاصا طویل انٹرویو پڑھنے کا موقعہ ملا بلکہ ووگ ہی میں چھپنے والی ایک دو پرانی سائیڈ سٹوریز بھی پڑھ ڈالیں۔ ملالہ یوسف زئی نے غالبا دو سال پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنا ایک سال مکمل ہونے پر تاثرات ووگ کے نمائندے سے شیئر کیے تھے۔ملالہ یوسف زئی کے والد ضیا الدین یوسف زئی کا ایک ٹویٹ سوشل میڈیا میں گردش کر رہا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملالہ نے کوئی متنازع بات نہیں کی ، صحافی نے اسے سیاق وسباق کے بغیر شائع کیا۔ ووگ کا انٹرویو پڑھنے کے بعد نہایت آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب ضیا یوسف زئی کی بات درست نہیں۔ انہوں نے اپنی صاحبزادی کی کہی نہایت متنازع بات کو کمزور دفاع کرنے کی کوشش کی۔ جو فقرہ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے،وہ اپنے سیاق وسباق کی روشنی میں وہی ہے جو بیان کیا گیا۔ بات بڑی واضح اور غیر مبہم ہے ،اس کا دفاع کرنے کے بجائے اس پر معذرت کر لینی چاہیے تھی یا یہ کہ ان کی بیٹی درست لفظوں کا انتخاب نہیں کر پائی یا یہ اس نے لڑکیوں کی مخصوص شوخی اور لاابالی پن سے یہ کہا ۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ اس سے ملالہ کی اس دیوقامت شخصیت کا امیج متاثر ہوتا ہے، جسے محترم ضیا الدین صاحب نے بڑے جتن سے بنایا تھا۔
ملالہ کے اس متنازع جملے پر بات کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ملالہ یوسف زئی کی شخصیت کے حوالے سے اپنا تاثر اور رائے واضح کر لیں۔ میرے نزدیک ملالہ یوسف ایک نہایت خوش نصیب لڑکی ہے، جسے دنیا میں وہ کچھ ملا جس کے لئے اس نے محنت نہیں کی تھی ، اس کی توقعات، خوابوں سے ہزاروں گنا زیادہ اسے ملا ہے۔ مغربی دنیا میں ملالہ یوسف زئی کا امیج ایک ایسی لڑکی کا ہے جس نے بچیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کی اور اسے طالبان نے اس لیے گولی ماری کیونکہ وہ سوات میں بچیوں کی تعلیم کے لئے لڑ رہی تھی۔ ملالہ کو دنیا کے اہم ترین ایوارڈز ملے بلکہ اس پر اعزازات کی بارش ہوگئی، اسے نوبیل انعام بھی مل گیا۔ انجلینا جولی جیسی نامور اداکارہ نے ملالہ پر نیوز ویک میگزین میں کالم لکھا اور بقول انجلینا جولی اس نے اپنے بچوں کو ملالہ کی کہانی سنائی تھی۔
یہ کہانی ملالہ یوسف زئی نے اپنی کتاب میں بڑے ڈرامائی انداز میں بیان کی۔ اصل قصہ مگر مختصر ، سادہ اور چند سطروں پر مشتمل ہے۔ ملالہ کی گل مکئی کے قلمی نام سے چند ڈائریاں بی بی سی اردو میں شائع ہوئیں۔ اس لیے کہ بی بی سی کے صحافی ملالہ کے والد کے دوست تھے ۔سوات میں ٹی ٹی پی کے فضل اللہ گروپ کا زور تھا، انہوں نے بچیوں کے سکول بند کر دیے تھے ۔ بی بی سی نے ایک سیریز چھاپی جس میں ایک بچی اپنے سکول بند ہونے کے المیہ کو سادہ الفاظ میں بیان کر رہی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ڈائری ملالہ نے نہیں بلکہ بی بی سی کے اس صحافی نے لکھی تھی۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، اس میں بعض خیالات ایسے ہیں جو کسی بارہ تیرہ سالہ بچی کے ذہن کی پیداوار ہیں۔ بچے، بچیاں اپنے مخصوص انداز میں چیزوں کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ الحمد للہ چار بچوں کا والد ہونے کے ناتے مجھے اس کا اندازہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ گل مکئی کی ڈائری ملالہ کی تخلیق ہی تھی، اسے سنوارنے کا کام بعد میں کیا جاتا ہوگا جو کہ فطری بات ہے۔
خیر آرمی نے سوات میں آپریشن کر کے ملا فضل اللہ گروپ کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا۔ حالات نارمل ہوئے تو گل مکئی کا اصل نام سامنے آیا۔ عسکری قیادت اورحکومت کو ٹی ٹی پی کے خلاف سافٹ امیج کی ضرورت تھی ،ملالہ نے وہ خلا پر کیا۔ ملالہ کو حکومتی سطح پر ایوارڈ ملے، ان کی خاصی تشہیر ہوئی ، میڈیا نے بھی کوریج دی۔ بہت خوب۔ ملالہ کو اس کا حق ملا ۔ اس کے بعد ملالہ کا کردار ختم ہوگیا تھا۔ وہ اپنی سکول کی تعلیم میں مگن ہوگئی ۔ تین سال بیت گئے۔ سوات میں مکمل امن قائم ہوگیا۔ تب سوات میں کوئی سکول بند نہیں تھا، کسی قسم کا جبر نہیں تھا بلکہ نام نہاد پاکستانی طالبان وہاں سے مکمل طور پر پسپا ہوگئے تھے۔ اگر یہی حالات رہتے تو دو تین سال کے بعد ملالہ میٹرک کر لیتی ، پھر سوات یا پشاور وغیرہ میں کسی کالج میں داخلہ لے کر حسب توفیق تعلیم حاصل کر تی۔
تب اصل ڈرامہ ہوا۔ ٹی ٹی پی اپنی پسپائی پر برہم تھی۔ وہ سوات میں دوبارہ انٹری چاہتے تھے، انہیں کسی دھماکہ دار خبر ، اخبار کی لیڈ کی ضرورت تھی۔ انہوں نے ملالہ یوسف زئی کو نشانہ بنانے کا سوچا۔ ملالہ کوہدف بنانا عسکری قیادت کو پیغام دینا بھی تھا کہ ہم نے آپ کی پروردہ بچی کو اڑا دیا ہے۔ ملالہ پر سکول سے واپسی پر حملہ کیا گیا۔خوش قسمتی سے طالبان کا نیٹ ورک اتنا کمزورہو چکا تھا کہ حملہ آور ملالہ کو شکل سے بھی نہیں جانتا تھا،اس کے پاس کلاشن کوف بھی نہیں تھی۔ پستول سے فائرنگ کی گئی، ملالہ شدید زخمی ہوئی۔ گولی سر میں لگی ۔ملالہ کو خوش قسمتی سے فوری طبی امداد ملی ۔ فوجی قیادت کی دلچسپی سے اس کا بہترین ہنگامی علاج ہوا۔ ملالہ کوچونکہ طالبان نے نشانہ بنایا تھا، اس لیے افغانستان میں طالبان سے نبرد آزما مغربی افواج کے لیے وہ اچانک اہم ہوگئی۔ برطانیہ نے ملالہ اور اس کی پوری فیملی کو بلا کر اس کا مکمل علاج کرایا اور پھر وہیں برمنگم ہی میں انہیں رہائش دے دی گئی۔
ملالہ چونکہ ایک بچی/لڑکی تھی، اسے خواتین کی تعلیم کے مخالف طالبان(ٹی ٹی پی)نے نشانہ بنایا،وہ مرتے مرتے بچی، ملالہ اس سے پہلے بچیوں کی تعلیم کے حق میں لکھ چکی تھی ،اس کی تحریریں بی بی سی میں شائع ہوئیں، اس کے والد ایک سیکولر غیر مذہبی پشتون تھے، ملالہ خود فیمنزم کی علامت بن سکتی تھی۔ یہ سب فیکٹر اکٹھے ہوئے اور ملالہ عالمی شہرت یافتہ کردار بن گئی۔چند ماہ میں وہ سب کچھ مل گیا ، جس کے لیے لوگ عمر بھر جدوجہد کرتے ہیں۔ ملالہ نے گولی لگنے سے پہلے خواتین کی تعلیم کے لیے کسی بھی قسم کی عملی جدوجہد نہیں کی نہ وہ اپنی کم عمری کے باعث کر سکتی تھی۔ وہ ایک عام سکول کی طالبہ کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ ٹی ٹی پی کے سفاکانہ حملے نے اس کی زندگی اور تقدیر بدل دی۔ اسے خوش قسمتی بلکہ معجز آفریں خوش بختی نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟
یہ نہ سوچیں کہ میں ملالہ کے خلاف لکھ رہا ہوں۔ اس سب میں ملالہ کا کوئی قصور نہیں۔ کسی کو بھی اتنی شہرت، عزت، مقبولیت ملے تو وہ اسے خوش دلی سے قبول کرے گا۔ خاص کر جب اس پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس کی جان جاتے جاتے بچی ہو۔ ملالہ کے متنازع انٹرویو پر بات رہ گئی، اس پر اگلی نشست رکھ لیتے ہیں۔
افغان امن مذاکرات:کیا قطر میں ہونے والے مذاکرات کی کامیابی انڈیا اور افغانستان کو اور قریب لے آئے گی؟ – کملیش
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات میں انڈیا بھی گہری دلچسپی رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں۔ شاید اسی لیے افغان حکومت اور طالبان کے مابین قطر میں جاری مذاکرات میں کی آن لائن افتتاحی تقریب میں انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی حصہ لیا اور انہی کے جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ اس وقت قطر کے دارالحکومت میں انڈیا کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے مذاکرات کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا اور افغانستان کے مابین تاریخی تعلقات اور تعاون پر بات کی۔ انھوں نے زور دیا کہ امن مذاکرات میں افغان خواتین اور اقلیتوں کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
یہ مذاکرات افغانستان اور اس کے ہمسائیوں سمیت انڈیا کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ افغانستان میں طالبان کا مضبوط ہونا انڈیا کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے۔ تاریخی طور پر طالبان کی پاکستان کے ساتھ قربت ہے اور انڈیا، پاکستان کے سرد تعلقات کوئی راز کی بات نہیں۔امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات میں پاکستان کا کردار بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کوششوں کی وجہ سے وہ دن آ گیا جس کا برسوں سے افغان عوام کو انتظار تھا۔
انڈیا کے لیے افغانستان کی اہمیت:
انڈیا نے برسوں سے افغانستان میں تعلیم، صحت، بنیادی سہولیات کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے اور نئی دہلی نےیہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔افغانستان میں پارلیمان کی نئی عمارت بنانے کے علاوہ انڈیا وہاں ڈیموں، سڑکوں، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے منصوبوں سے بھی وابستہ رہا ہے۔
انڈین وزارت خارجہ کے مطابق افغانستان میں اس وقت تقریبا 1700 انڈین موجود ہیں جو وہاں واقع ہسپتالوں، بینکوں اور سکیورٹی اور آئی ٹی کے شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سٹریٹجک سطح پر اور ملک کی سلامتی کے لحاظ سے بھی افغانستان میں انڈیا کی گرفت کمزور ہونا مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔
انڈیا کے ساتھ تعلقات پر اثرات:
افغان امن مذاکرات میں جنگ بندی اور امن کے بعد کے انتظامات پر فیصلہ ہونا ہے۔
افغانستان میں بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کو مذہبی آزادی، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور صحافت کی آزادی جیسی اپنی کامیابیوں کا طالبان کے ساتھ مذاکرات میں دفاع کرنا چاہیے۔ لیکن طالبان کا ان امور پر موقف سخت ہے اور وہ شریعت کے نفاذ کے حق میں ہیں۔ اس کے اشارے اس بات سے بھی مل رہے ہیں کہ طالبان کی نمائندگی ایک مذہبی عالم شیخ عبدالحکیم کر رہے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر طالبان اسلامی قانون کے نفاذ کے اپنے مطالبے پر قائم رہے یا اگر اس پر اتفاق رائے ہوا تو یہ انڈیا کے لیے بہت بری خبر ہوگی۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سینٹر برائے ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے کے بھاردواج کا کہنا ہے ‘طالبان ہمیشہ سے ہی اسلامی قانون کے نفاذ کے حق میں رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ جنگ بندی پر راضی ہوں لیکن جمہوری آئینی حکومت کے لیے ان کا تیار ہونا مشکل ہے۔ ایسی صورتحال میں دونوں ممالک کے باہمی تعاون پر اثر پڑے گا اور ساتھ ہی ساتھ انڈیا کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہوگا۔
‘انڈیا ہمیشہ سے ہی انتہاپسندی کا شکار رہا ہے اور طالبان نے بھی انڈیا مخالف انتہا پسند دھڑوں کی حمایت کی ہے۔ اگر افغانستان میں سخت گیر طاقتیں مضبوط ہوتی ہیں تو انڈیا کے ساتھ باقی جنوبی ایشیاء کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہ ممالک پہلے بھی انتہا پسندی کا سامنا کرتے رہے ہیں۔’
انڈیا اور طالبان کا بدلتا موقف:
انڈیا یہ کہتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں ایک پرامن، مستحکم، محفوظ اور جمہوری حکومت چاہتا ہے اور دہلی نے ان مذاکرات کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔ لیکن انڈیا نے یہ بھی کہا کہ یہ مذاکرات افغان حکومت کی قیادت اور کنٹرول میں ہونے چاہییں۔
انڈیا اور افغانستان کے درمیان ایک طویل عرصے سے دوستانہ تعلقات ہیں لیکن انڈیا ہمیشہ ہی طالبان حکومت کا مخالف رہا ہے۔ انڈیا نے کبھی بھی طالبان سے ملنے کی حمایت نہیں کی کیونکہ اس کا موقف ہے کہ اچھے طالبان اور برے طالبان جیسا کچھ نہیں ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں طالبان کے بارے میں انڈیا کے رویہ میں تبدیلی آئی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے اور کیا اس تبدیلی سے دونوں کے تعلقات پر کوئی اثر پڑے گا۔
سابق سفیر اشوک سججنہار کا کہنا ہے کہ اب صورتحال بدل رہی ہے اور طالبان کا رویہ پہلے کے مقابلے میں بھی نرم ہے اور انڈیا کے رخ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اس کا آغاز نومبر سنہ 2018 میں ہوا تھا جب روس میں طالبان کو بلایا گیا تھا۔ اس کے بعد انڈیا سے دو رٹائرڈ سفارتکار مبصر کی حیثیت سے اس میں شامل ہوئے تھے۔
اشوک سجنجہار نے کہا: ‘اب جو طالبان ہیں وہ 1990 کی دہائی کے طالبان سے مختلف ہیں۔ وہ ایک اسلامی ملک بھی چاہتے ہیں اور اس میں دوسروں کی شمولیت کی بات بھی کرتے ہیں۔ انھیں بھی بین الاقوامی قبولیت کی ضرورت ہے۔ پھر انڈیا کو افغانستان میں زمینی سطح پر لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ کوئی دوسرا ملک وہ کام نہیں کر سکے گا جو انڈیا نے وہاں کیا ہے۔ اگر دوسری حکومت بھی آجائے تو وہ اس چیز کو نظرانداز نہیں کرسکے گی۔’
دوسری جانب سنجے بھاردواج کا خیال ہے کہ یہ ساری چیزیں ایسی حکومت کے لیے درست ہیں جو جمہوری ہے اور جو جوابدہ ہے۔ لیکن اگر طالبان اسلامی قانون کی پیروی کرتا ہے اور آمرانہ رویہ اپناتا ہے تو اس کی جوابدہی نہیں ہوگی۔ ایسی صورتحال میں مذاکرات کون سا رخ اختیار کرتی ہے یہ بات اہم ہوگی۔
چین سے متعلق تشویش:
انڈیا کی تشویش نہ صرف طالبان اور ان کے تعلقات کے بارے میں ہے۔ ان تعلقات میں پاکستان اور چین کا کردار بھی اہم ہوجاتا ہے۔ چین بھی افغانستان میں تانبے اور لوہے کی کانوں میں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے۔ وہ ون بیلٹ ون روڈ اسکیم کے تحت بہت سارے ممالک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ چین-پاکستان اور طالبان-پاکستان کی قربت بھی واضح ہے۔ ایسی صورتحال میں چین پاکستان کی مدد سے طالبان کے ساتھ قربت بڑھا سکتا ہے جو انڈیا کے لیے بڑا چیلنج بن ہوگا۔
اشوک سجنہار بھی اس سے کسی حد تک متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘چین یقینی طور پر افغانستان میں ایک کھلاڑی ہوگا۔ نئے نظام میں وہ بھی افغانستان میں اپنا اثروروسخ بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ چین نے ماضی میں وہاں سرمایہ کاری کی ہے لیکن وہاں زیادہ کام نہیں کر سکا ہے۔ جبکہ انڈیا نے زمینی سطح پر کام کیا ہے۔ انڈیا دوسرے ملک کی فکر کیے بغیر اپنی طاقت پر کام کرے گا۔’
پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے اشوک سججنہار کا کہنا ہے کہ اگر طالبان بالکل پاکستان کی خواہش کے مطابق کام کرتا ہے تو انڈیا کے لیے پریشانی پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن میرا خيال ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کچھ رواداری برتے گا اور وہ اپنے مطابق حکومت چلائیں گے۔ کسی بھی حکومت کی طرح وہ بھی دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہے گا۔ ان سب کے درمیان کچھ ماہرین یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ان مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ امریکی انتخابات سے قبل یہ محض ایک مشق ہے۔ کیونکہ نائن الیون کا سامنا کرنے کے بعد امریکہ افغانستان کو کبھی بھی طالبان کے حوالے نہیں کرے گا۔
(بہ شکریہ بی بی سی اردو)