ایک آدمی نے اپنے لیے لکڑی کا ایک بڑا صندوق منتخب کیا جب اسے اٹھانے لگا تو وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلا۔ ایک شخص نے جسے شاید اپنے مطلب کی کوئی چیز مل ہی نہیں رہی تھی، صندوق اٹھانے کی کوشش کرنے والے سے کہا:
“میں تمھاری مدد کروں؟”
صندوق اٹھانے کی کوشش کرنے والا امداد لینے پر راضی ہوگیا۔ اس شخص نے جسے اپنے مطلب کی کوئی چیز مل نہیں رہی تھی، اپنے مضبوط ہاتھوں سے صندوق کو جنبش دی اور اٹھا کر اپنی پیٹھ پر دھر لیا، دوسرے نے سہارا دیا، دونوں باہر نکلے۔ صندوق بہت بوجھل تھا۔ اس کے وزن کے نیچے، اٹھانے والے کی پیٹھ چٹخ رہی تھی، ٹانگیں دوہری ہوتی جارہی تھیں۔ مگر انعام کی توقع نے اس جسمانی مشقت کا احساس نیم مردہ کردیا تھا۔
صندوق اٹھانے والے کے مقابلے میں صندوق کو منتخب کرنے والا بہت ہی کمزور تھا۔ سارا رستہ وہ صرف ایک ہاتھ سے سہارا دے کر اپنا حق قائم رکھتا رہا۔ جب دونوں محفوظ مقام پر پہنچ گئے تو صندوق کو ایک طرف رکھ کر ساری مشقت برداشت کرنے والے نے کہا۔ “بولو، اس صندوق کے مال میں سے مجھے کتنا ملے گا؟۔”
صندوق پر پہلی نظر ڈالنے والے نے جواب دیا۔ “ایک چوتھائی۔”
“بہت کم ہے۔”
“کم بالکل نہیں، زیادہ ہے، اس لئے کہ سب سے پہلے میں نے ہی اس پر ہاتھ ڈالا تھا۔”
“ٹھیک ہے، لیکن یہاں تک اس کمر توڑ بوجھ کو اٹھا کے لایا کون ہے؟”
“آدھے آدھے پر راضی ہو؟”
“ٹھیک ہے، کھولو صندوق۔”
صندوق کھولا گیا تو اس میں سے ایک آدمی باہر نکلا، ہاتھ میں تلوار تھی۔ باہر نکلتے ہی اس نے دونوں حصے داروں کو چار حصوں میں تقسیم کردیا۔