انقرہ:ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فرانسیسی صدر کا اسلام کے بارے میں حالیہ بیان خطرناک اشتعال انگیزی کے مترادف ہے۔اردگان نے ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں مسجد اور مذہبی کارکنوں کے ایک اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے یہ کہا۔انھوں نے کہاکہ فرانسیسی صدر کا اسلام کی ’’تشکیل نو‘‘ والا بیان ہتک آمیز اور گستاخانہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ گذشتہ جمعہ کو میکرون نے نام نہاد "اسلامی علیحدگی پسندی” کے خلاف متنازعہ منصوبے کا اعلان کیا تھا۔مغربی پیرس کے نواحی علاقے لیس ایموروکس(ایک بڑی مسلم آبادی والے علاقے ) میں ایک تقریر میں میکرون نے دعویٰ کیا کہ ’’اسلام کو پوری دنیا میں بحران کا سامنا ہے”۔اس بیان سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے انھیں تنقیدوں کا سامنا ہے ۔ اردگان نے زور دے کر کہا کہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنانا یورپی سیاست دانوں کا خاص حربہ بن گیا ہے۔ اردگان نے میکرون پر زور دیا کہ وہ نوآبادیاتی گورنر ہونے کی بجائے ایک ذمے دار سیاست دان کی طرح کام کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے مغربی ممالک میں خود ریاست کی جانب سے نسل پرستی اور اسلامو فوبیا کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔
اسلام
معلوم نہیں مسلمانوں کے باشعور طبقہ کو بھی اس بات کا احساس ہے یانہیں کہ سرزمین ہندمیں ان کے خیموں کی طنابیں آہستہ آہستہ اکھڑتی جارہی ہیں۔مسلمانوںکا سب سے بڑا خیمہ جسے قلعہ کہنا چاہئے دینی مدارس تھے اب ان کے بند ہونے کی خبریں آرہی ہیں،یہ اسلامی قلعے آہستہ آہستہ زمیں بوس ہورہے ہیں ۔ مسلمانوں کا ایک بڑا خیمہ مسلم پرسنل لابورڈ تھا ،کئی سال سے نہ اس کا سالانہ جلسہ ہوا ہے نہ کوئی نیا انتخاب نہ اس کی کار گذاری نہ کوئی نقل وحرکت نہ کوئی بیان نہ کوئی اعلان، کچھ اپنی غلط اندیشی کچھ حکومت کی دشمنی کی وجہ سے چاروں خانے چت ۔حالات کا دباو اتنا سخت ہے کہ نہ کہیں فکر امروز ہے نہ اندیشہ فردا کا سراغ ہے ۔ تبلیغی جماعت مسلمانوں کی سب سے بڑی اصلاحی اور تربیتی جماعت تھی، اب نظام الدین میں اس کا دروازہ مقفل اورسارا کام معطل ہو چکا ہے، وہاں سے اب نہ کوئی جماعت جاتی ہے نہ وہاں آتی ہے ، جو جماعتیں آئی تھیں ان پر عدالتوں میں مقدمات درج ہیں،حکومت نے جو چارج شیٹ داخل کی ہے اورتبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد سے حکومت نے جو منقمانہ سوالات کئے ہیں ویسے سوالات آج تک کسی تنظیم سے نہیں کئے گئے ان سوالات کا جواب آسان نہیں یعنی اب برسوں تک جماعت کے ذمہ دار کو الجھا کر رکھنا ہے اور تبلیغی سرگرمیوں کولا محدود مدت تک بندر کھنا ہے، نظام الدین کی تبلیغی جماعت کی جو متوازی تبلیغی تنظیم ہے جسے شوری گروپ کہا جاتا ہے اس نے بھی خود کوحالات کی وجہ سے تقریبا لاک ڈاون کرلیا ہے ۔ دار المصنفین بہت اہم علمی اور تصنیفی ادارہ ہے اس کا سفینہ گرداب میں ہے ،ندوہ اور دیوبند کے بارے میں نہ جانے کب کیا خبر آجائے ،مسلمانوں کے سارے ادارے موت اور زیست کی کشمکش سے دوچار ہیں،خوف کا یہ عالم ہے کہ محض استمالت کے لئے اورمحض اظہار وفاداری کے لئے ایک شہر میں عیدین کے امام کے ایک مدرسہ میں مسٹر مودی کے خم ابرو کودیکھ کراور نگاہ خشمگیں سے ڈر کر اور خاطر داری اور خوشنودی کے لئے تھالیاں بجائی گئیں اور دیپک جلائے گئے اور حکومت کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے کے لئے جلسہ کا انعقاد ہوا ،اب امت کا سفینہ موج حوادث کی زد میں ہے ، خزاں نے مسلمانوںکے ایک ایک چمن پر چھاپہ مارا ہے، خوف ہے کہ مسلمانوں کی دینی تعلیمی ادارے یادگا رونق محفل بن کر رہ جائیں گے جن کاذکرآئندہ تاریخ کی کتابوں میں ہوگا اور مسلمانوں کی تہذیبی آثار کو دیکھ کر غم وحسرت کے ساتھ ،دیدہ گریاں کے سا تھ کوئی شخص اقبال کا یہ شعر پڑھے گا:
آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
نہ جانے اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کارواں
ایسا لگتا ہے مسلمانوں میں نہ کوئی مفکر ہے نہ دانشور، نہ کوئی منصوبہ سازقائد، نہ حالات کا تجزیہ نگار مبصر، اور نہ قرآن وحدیث اور تاریخ کی روشنی میں رہنمائی کرنے والا کوئی عالم دین ۔ البتہ اب بھی کچھ لوگ ہیں جو اپنی قامت کی درازی ثابت کرنے کے لئے اپنے نام کے ساتھ القاب کا طرہ پرپیچ وخم لگاتے ہیں ، صورت حال یہ ہے کہ دہلی میں سڑکوں کا نام تک بدلا جارہا ہے شہروں کے نام جن سے اسلامیت کی خو اور بو آتی تھی منسوخ کئے جارہے ہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ اورمسلم یونیورسیٹی علی گڑھ کا تاریخی اور اسلامی کردار بھی اب اس دھوپ کی طرح ہے جو آفتاب کے ساتھ جاتی ہے ۔بابری مسجد جس پر اب دیدہ خونابہ بار کے آنسو کبھی نہیں رکیں گے تاریخ کے اوراق کے حوالہ ہے ، چار مینار کے شہر میں ایک مینار نما شخصیت ہے مگر وہ کب تک اور اس کی درازیاں کب تک ۔درسگاہ جہاد وشہادت کا ایک تناور درخت تھا جو آخری دم تک تیزوتند ہواوںکا مقابلہ کرتا رہا آخر کار وہ بھی پیوند زمیں ہوگیا،اس کا بیٹا ناصر بن نصیرصید زبوں ہے، اسیر زنداں ہے ، جو باپ کے جنازہ میں بھی شریک نہیں ہوسکا۔ عہد حاضر کے سب سے بڑے محدث بلکہ امیر المومنین فی الحدیث مولانا محمد یونس جونپوریؒ کہا کرتے تھے ’’ اس وقت ہندوستان میں مسلمان مکی دور سے زیادہ سخت حالات سے گذر رہے ہیں وہاں مکہ والوں کے پاس حکومت نہیں تھی فوج نہیں تھی ، بس قبائل تھے جواپنے بل بوتے پر مخالفت کرتے تھے ، یہاںپوری حکومت ہے فوج ہے ، سازشیں ہیں منصوبے ہیں ، اس لئے بہت احتیاط سے رہنے کی ضرورت ہے ‘‘۔( شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری مرتبہ محمود حسن حسنی ندوی ص ۳۰۵) موجودہ ہندوستان کے بارے میں اقبال کا شعر صادق آتا ہے:
دیو استبداد ہے جمہوری قبا میں پایہ کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
واقعہ ہے کہ یہاں گجرات اور دیگر فسادات میں مسلمانوں پر جو گذری وہ مکی زندگی کے مصائب سے زیادہ ہے ۔وہ ہندوستان جس کے چپہ چپہ پر مسلمانوں کی تہذیب وتمدن کی نشانیاں ہیں اس کو ہندو استھان بنا یا جارہا ہے۔ جب مسلمانوں کی عزت اور عظمت کی تمام نشانیاں اس ملک میں مٹادی جائیں گی اور صرف کھنڈرات باقی ر ہ جائیں گے اور اسپین کی تاریخ دہرائی جائے گی تومستقبل کے سیاحوں کے لئے جو گائیڈ ہوگا وہ تاریخ کا حوالہ دے کر کہے گا:
چمن میں تخت پر جس دم شہ گل کا تجمل تھا
ہزاروں بلبلیں تھیں باغ میں اک شور تھا غل تھا
کھلی جب آنکھ نرگس کی نہ تھا جز خار کچھ باقی
سناتا باغباں رورو یہاں غنچہ یہاں گل تھا
مستقبل کی منصوبہ بندی ضروری ہے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو سمجھیں ، اگر ہم اپنی غلطیوںکونہیں جانیں گے توصحیح منصوبہ بندی نہیں کرسکیں گے۔ہمارے قائدین نے غلطی کو نہیںسمجھا۔ غلطی کو چند لفظوں میں بیان کریں تو ہم کہیں گے کہ اسلام جو ایک دعوتی مشن تھا اس کی گاڑی پٹری سے اترگئی ہے یہاں کوئی شخص پوچھ سکتا ہے گذشتہ صدیوں میں آخرجو اسلامی خدمات انجام دی گئیں وہ آخرکیا تھیں ،اان کا تعلق دعوتی مشن سے کیا نہیں تھا ۔ ذیل کی چند سطروںمیں علماء دین کی ان خدمات کا ذکر کیا جارہا ہے جو ہماری تاریخ کا جلی عنوان ہیں ۔
بلا شبہ ہندوستان مسلمانوں کی دعوتی تجدیدی اور اصلاحی کوششوں کا مرکز رہاہے ہندوستان کی اسلامی تایخ کے ابتدائی دور میں کاروان اہل دل نے اسلام کی اشاعت کا کام کیا اور ہزاروں اورلاکھوں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوے مسلم سلاطین کی سرپرستی میں یہ ملک مسلمانوںکے لئے گلشن بے خار بن گیا ۔یہ داستان فصل گل راقم سطور نے اپنی کتاب ’’ دعوت اسلام، اقوام عالم اور برادران وطن کے درمیان ‘‘ میں بڑی خوش دلی اور فرحت وانبساط کے ساتھ بیان کی ہے ۔ہندوستان میں مشائخ روحانی اور علماء ربانی کے ذریعہ اور ان سے پہلے مسلمان تاجروں کے ذریعہ یہ کام انجام پایا۔ایک عرصہ کے بعد علماء دین نے محسوس کیا کہ ہندوستان کے قدیم مذاہب اور تہذیبوں کے خیالات وعادات بھی مسلمانوں پر اثر انداز ہور ہے ہیں اس لئے دعوتی اور تبلیغی کام کا رخ حفاظت دین اور تطہیر عقائد، رد بدعات واصلاح رسوم کی طرف مڑ گیا ۔یعنی اب دفاعی نوعیت کے کام کی طرف مسلمان علماء متوجہ ہوگئے ۔دعوتی کام یا اقدامی نوعیت کا کام پس پشت چلا گیا ۔اس وقت سے لے کر اب تک بحیثت مجموعی مسلم علماء اور قائدین کے کام کا رخ یہی رہا ہے ،بعد میں سیاسی تحریکیں بھی مسلمانوں میں اٹھیں لیکن برادران وطن کے درمیان دعوتی فکر کا زمانہ واپس ہی نہیں آیا ۔ صورت بایں جا رسید کہ دیوی دیوتاوں کی کثرت اور ان کی عبادت اور شرک کے طوفان کو دیکھ کر بھی اہل دین میں وہ بے چینی پیدا نہیں ہوئی جو ہونی چا ہئے اور جو پیغمبروں کو ہوتی تھی اور جس کا ذکر بار بارقرآن میں آیا ہے کہ کیا آپ ان ( مشرکوں )کے ایمان نہ لانے سے خود کو ہلاک کرڈالیں گے۔ انسان فورا عملی اقدام نہ کرسکے یہ بات قابل معافی ہے لیکن شرک کی گرم بازاری کو دیکھ کر دل کی بیچینی کا نہ ہونااور صرف مسلمانوں کے درمیان اصلاحی کام پر مطمئن ہوجانا ایمان کے کمزورہو جانے کی علامت ہے ،دل کی بیچینی اگر ہوگی تو انسان سوچے گا اور کام کا منصوبہ بنائے گا لیکن شرک کے طوفان اور کفر کے سیلاب کو دیکھ کوئی پریشانی دل کونہ ہو یہ ایمان کی صحت مندی کی علامت نہیں ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کا ابتدائی دور دعوت وتبلیغ کا دور رہا ہے اس کے بعد مسلمانوں کی تاریخ کے سارے ابواب یا تو سیاست وحکومت کے ابواب ہیں یا علماء کی جانب سے حفاظت دین کے ابواب ہیں، حفاظت دین کے ا بواب میں علم حدیث کی ترویج واشاعت اور ان کی تدریس کا کام بھی ہے اور طریقت کو شریعت پر ترجیح دینے کے فلسفہ اور وحدۃ الوجوداور وصول الی اللہ کے غیر اسلامی طریقوں کے خلاف جہاد بھی ہے جس کی نمائندگی امام ربانی اور مجدد الف ثانی کرتے ہیں حفاظت دین کے ابواب میں قرآن وحدیث کی تعلیمات کی اشاعت اور قرآن وسنت سے براہ راست واقفیت کی تحریک بھی ہے اوراس باب کا معروف نام اور جلی عنوان حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کا خانوادہ ہے جنہوں نے قرآن مجید کے ترجمے کئے ،صحاح ستہ کے درس کو رواج دیا ۔حفاظت دین کے ابواب میں مشرکانہ عقائد وتہذیب اور بدعات ورسوم کے مقابلہ کی تحریک بھی ہے جس کی نمائندگی سید احمد شہید اور حضرت اسماعیل شہید کرتے ہیں ۔ حفاظت دین کے ابواب میں مدارس دینیۃ کا قیام اور علوم دینیہ کی اشاعت کا کام بھی ہے جس کا دور دار االعلوم دیوبند سے شروع ہوتا ہے جس کے بانی مولانا قاسم نانوتوی تھے۔ حفاظت دین کے ابواب میں مسلمان عوام وخواص تک اور شہر ودیہات تک دین کی بنیادی باتیںپہونچانے کی تحریک بھی ہے جس کے قائد مولانا الیاس کا ندھلوی تھے ،حفاظت دین کے ابواب میں مسلمانوں میں روحانیت پیدا کرنے اور عشق الہی کی چنگاری کو شعلہ بنا دینے کا کام بھی ہے جو خانقاہوں نے انجام دیا آخر زمانہ میں یہ کام سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے ذریعہ انجام پایا ء حفاظت دین کے ابواب میں مغربی تہذیب ، کمیونزم اور الحاد کے مقابلہ اور مسلمانوں کو احساس کمتری سے بچانے کی تحریک بھی ہے جس کی قیادت علامہ اقبال اور مولانا ابو الاعلی مودودی نے کی ۔ حفاظت دین کے ابواب میں اردوزبان میں اعلی درجہ کے اسلامی لٹریچر کی اشاعت کا کام بھی ہے جس کی سربراہی علامہ شبلی اور ان کے شاگردوں نے کی ہے حفاظت دین کے ابواب میں سائنس اور مذہب کی کشمکش میں مذہب کی طاقتور حمایت کا کام بھی ہے یہ کام ڈاکٹر رفیع الدین ، مولانا عبد الباری ندوی اور وحید الدین خان نے بہتر طور پر انجام دیا مسلمانوں کی حفاظت کے ابواب میں مسلمانوںکو عصری تعلیم سے آراستہ کرنے کا کام بھی ہے جسے سرسید احمد خاں اور ان کے رفقاء نے انجام دیا ۔ یہ سب ہندوستان کی تاریخ میں ہمارے کاموں کا مختصرطائرانہ منظرنامہ ہے۔ یہ سارے کام مسلمانوں میں دین کی اشاعت کے کام بھی تھے اور دفاعی نوعیت کے کام بھی انہیں کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اس پوری تاریخ میں برادران وطن تک دین توحیدکی اشاعت کے کام کا خلا ہے بہت مختصر طور بات کہی جائے تو اس طرح کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ بحیثیت مجموعی مشرکین کو دعوت الی اللہ دینے کے بجائے پشتینی مسلمانوںکو رجوع الی اللہ کی دعوت دینے کی تاریخ ہے یا مسلمانوںکو فکری اورنظریاتی حملوں سے بچانے کی تاریخ ہے۔ ابتداء میں مسلمان تاجروں خاص طور پر چشتی سلسلہ کے بزرگان دین نے دعوت دین کا جو شاداب درخت لگایا تھا جو برگ وبار لایا تھا وہ بعد میں خزاں رسیدہ بن گیا اور مسلمانوں کو آج جن حالات سے سابقہ پڑ رہا ہے وہ دعوت کے اسی بنیادی کام کے چھوٹ جانے کی وجہ سے پید ہوے ہیں دعوت کے بنیادی کام سے مراد وہ کام ہے جو پیغمبروں کی کوششوں کا محور رہا ہے ۔ یہ کام بے توجہی کا شکار کیوں ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان علماء کے سامنے نمونہ حجاز کی سرزمین تھی اور خلافت کی مرکزی حکومت تھی وہاں دعوت کا یہ کام نہیں ہوتا تھا وہاں یہ کام اس لئے نہیں ہوتا تھا کہ وہاں غیر مسلم تھے ہی نہیں جو غیر مسلم چھوٹی سی اقلیت میں تھے وہ ذمی کی حیثیت سے رہتے تھے لیکن جہاں مسلمان ایسی سرزمین میں رہتے ہوں جہاں غالب اکثریت غیر مسلموں کی ہو وہاں نمونہ قرن اول کی مکی زندگی ہے اس زندگی کو مسلمانوں نے نمونہ اسپین سسلی ہندوستان کہیں نہیں بنایا اور کہیں دعوت کا کام نہیں کیا ۔ حالات کے رخ کو اگر اپنے فائدہ اور غلبہ کی طرف موڑنا ہے اور پیغمبروں کے اسوہ پر عمل کرنا ہے اور آخری پیغمبر ﷺ کی زندگی کو نمونہ بنانا ہے توہمیں دعوت کا نیامحاذ اس ملک میں قائم کرنا ہوگا۔کہ یہی انبیاء کا اصل محاذ ہے ، اس ضروری اور بنیادی کام کی طرف جو تمام انبیاء کرام کا اور پیغمبر آخر الزمان ﷺکا اصل کام رہاہے سب سے زیادہ توجہ اس دور میں( لٹریچر کی اشاعت کی حد تک) جماعت اسلامی نے کی ہے کہ اس نے ہندوستان کی تمام زبانوں میں قرآن کے ترجمے شائع کئے اور اسلامی لٹریچر تیار کیا۔غیر مسلموں میں کام کے اس خلا کی طرف علماء کو متوجہ کرنا مشکل اس لئے ہے کہ علماء حقیقت پسندی سے زیادہ عقیدت مندی کا مزاج رکھتے ہیں ہر مسئلہ میں وہ اس طرح سوچتے ہیں کہ واقعی یہ کام ضروری ہے تو ہمارے بزرگوں نے کیوں نہیں کیا ۔ ہندوستان کے علماء میں اس کام کی ضرورت کا سب سے زیادہ احساس مولانا ابو الحسن علی ندوی کو تھا کہ سیرت کا مطالعہ ان کی زندگی کا اورھنا بچھونا تھا انہیں برادران وطن کے درمیان کام کے خلا کاشدت کے ساتھ احساس تھا اور یہ احساس ہر اس شخص کو ہونا چاہئے جس نے انبیاء کرام کا اورسیرت نبوی کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہو، انبیاء اکرام پر ان کی کتاب النبوۃ والانبیاء فی ضوء القرآن ہے اورسیرت نبوی پر ان کی ایک نہیں متعدد کتابیں عربی اور اردو دونوں زبانوں میں ہیں، اللہ تعالی نے انہیں حکمت نبوی کا خوشہ چیں بھی بنایا تھا انہیں محسوس ہوا کہ قرن اول میں صحابہ کرام اور مشرکین مکہ کے درمیان روابط اور تعلقات موجو دتھے رشتہ داریاں بھی تھیں اور لسان قوم بھی ایک ہی تھی، سب ایک دوسرے کے شناسا تھے،اس لئے دعوت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن ہندوستان میں تعلقات کا یہ سارا پلیٹ فارم جس پر دعوت کی بنیاد رکھنی تھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے اس لئے پہلے اہل وطن کو مانوس کرنے اور اسلام اور مسلمانوں سے ان کی اجنبیت دور کرنے کی ضرورت ہے اس لئے سوچ سمجھ کر انہوں نے پیام انسانیت کے نام سے تحریک شروع کی اور پورے ہندوستان میں شہر بشہر جلسے کئے اور برادران وطن کو خطاب کیا، مولانا عبد الکریم پاریکھ ان کے رفیق اور معاون خاص تھے ۔تصنیف وتالیف کے علاوہ دینی تحریکات کی رہنمائی مولانا کا میدان تھا،مولانا علی میاں کی سرگرمیاں عرب وعجم تک پھیلی ہوئی تھیں ، ان سب کے ساتھ ہندوستان برادران وطن سے مسلسل خطاب۔ اس قد وقامت کی کوئی شخصیت بر صغیر میں ماضی میں اور حال میں معاصرین میں اور متقدمین میں نہیں ملتی ہے ۔
ہجرت حبشہ کے زمانہ میں حضرت جعفر طیار نے نجاشی کے دربار میں دین اسلام کا جو تعارف کرایا تھا اسے غور پڑھئے انہوں نے کہا تھا:
’’اے بادشاہ ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے بتوں کو پوجتے تھے مردا رکھاتے تھے بدکاریاں کرتے تھے ہمسایوں کو ستاتے تھے،بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا زبردست زیر دستوں کوکھا جاتے تھے اس اثناء میں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا س نے ہم کو سکھایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑدیں سچ بولیں خونریزی سے باز آئیں یتیموں کا مال نہ کھائیں ہمسایوں کو آرام دیں ۰۰۰ ‘‘
یہ ہے دعوت اسلام کی تصویر اور مکی زندگی میں مسلمانوں کے کاموں کی جھلک ۔کوئی شخص انصاف سے بتائے کہ کیا ہماری تصویرہندوستان میں اس تصویر کے مطابق ہے یا ماضی میںاس کے مطابق رہی ہے اور اگر نہیں ہے تو ہم یہ حکم لگانے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام کی گاڑی پٹری سے اتر گئی ہے اور صدیوں سے اتر گئی ہے ۔ آج بتوں کو پوجنے سے روکنا کتنا مشکل ہوگیا ہے اس لئے کہ جب روکنا اورلوگوں کو سمجھاناآسان تھااورہماری حکومت تھی اس وقت ہم نے یہ کام نہیں کیا۔
مسلمانوں کی اس ملک میں بہت سی تنظیمیں اور جماعتیں موجود ہیں بہت سے دار العلوم اور تعلیمی ادارے موجودہیں اگر ان کی تعداد کئی گنی ہوجائے اور ان کے کاموں کا دائرہ کئی گنا وسیع ہوجائے جب بھی صورت حال میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع نہیں ہوگی جب تک کہ اس غلطی درست نہیں کیا جائے جو ہم کئی سو سال سے کرتے آرہے ہیں بحیثت ہم نے دفاعی نوعیت کے کام انجام دئے ہیں ہم نے مسلمانوں کی اصلاح کی تحریکیں اٹھائی ہیں ان کی افادیت اپنی جگہ پر لیکن یہ وہ مکمل دعوتی کام نہیں ہے جو انبیاء نے انجام دیا ۔برادران وطن کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنے کا کام اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا کام جو دعوت اسلام کا پہلا زینہ ہے فورا شروع کرنے کی ضرورت ہے یہ کام صرف کسی ایک ادارہ اور تنظیم کے کرنے کا نہیں ہے اورنہ اس کی کوئی ایک متعین شکل ہے اس کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں ’’ہر گلے را رنگ وبوئے دیگرست‘‘جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین سے استدعا ہے کہ وہ اپنے کو عقل کل سمجھنا چھوڑ دیں اور ان کے معتقدوں نے انہیں جس فلک چہارم کی زرکار کرسی پر جلوس افروز کردیا اس سے نیچے اتریں اور ہم جیسے فقیر راہ نشیں اور غم امروز و فردا سے رنجور وحزیں شخص کی بات بھی سن لیا کریں ۔ اس وقت برادران وطن کے سماج میں فجاسوا خلال الدیار کے انداز میں ہر دروازہ پر دستک دینے کی ضرورت ہے ہر شخص کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے اور ہر مسلم نظیم کو اس بات کو حرز جان بنانے کی ضرورت ہے کہ سب کے ساتھ الفت ومحبت سے پیش آنا بلا تفریق مذہب سب کے ساتھ انصاف کرنا اور مخلوق خدا کی نفع رسانی کے لئے سرگردان ہونا اس کی بڑی فضیلت ہے اور اللہ کے نزدیک یہ محبوب عمل ہے ۔ مولانا علی میاں نے اگرپیام انسانیت کے نام سے تحریک شروع کی تھی تو خدمت خلق کے عنوان سے دوسری جگہ دوسری تحریک شروع ہوسکتی ہے ۔ مقصد ایک ہے برادران وطن کے دلوںکو جیتنا اور ان کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنا اور روابط کے استحکام کے بعد دین توحید کوان کے دلوں تک پہونچانا ۔ یہ کام مسلم دور حکومت میں آسان تھا اور اب ہندو احیائی تحریکوں کے عروج کے زمانہ میں مشکل ہوگیا ہے ظاہر ہے اس کام کا اجر بھی اب زیادہ ہوگیا ہے لیکن اب بھی تعلقات اور مراسم استوار کئے بغیر یہ کام نہیں انجام پاسکتا ہے، کوششوںکا اتنا فائدہ تو ضرور حاصل ہوگا کہ نفرتیںکم ہوں گی اور اگر روابط مضبوط ہوجائیں گے تو جانے کتنے کیمیاگرداعی ہوںگے جن کی کوششیں رنگ لائیں گی اور جو کسی یار مہرباں کے بارے میں کہیں گے:
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
ضروری ہے کہ یہ دعوتی شعور عام ہو اور مسلمانوں کا ہر مدرسہ چھوٹا ہو یا بڑا’’ لسا ن قوم‘‘ میں مہارت والے علماء تیار کرنے کی کوشش کرے اور غیر مسلموں سے مکالمہ کی اور ان کے درمیان لسان قوم میں تقریروں کی مشق طلبہ کو کرائے۔ برادران وطن کی تہذیب اور ر مذہب کے مطالعہ کو کورس میں داخل کرے ۔اور صرف ایسے ہی مدارس کو اہل شعور کا اور بالغ نظر علماء کا مدرسہ سمجھا جائے ۔صحاح ستہ پڑھانے والے علماء اور شیوخ الحدیث کو بھی یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اصل حدیثی خصوصیت جو امت کو ملنی چاہئے وہ پیغمبرانہ دعوتی کردار ہے جو آنحضرت ﷺ کی مکی اور مدنی زندگی میںنظر آتا ہے ۔لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔ جماعت تبلیغ کے بزرگوںکویہ بات دین اسلام کی روشنی میں کہنے کی تھی کہ تبلیغ کے چھ اصول اگرچہ کہ صحیح ہیں لیکن منزل من اللہ نہیں ہیں کہ ان میں معمولی تبدیلی بھی نہ ہوسکے ۔ غیر مسلموں کوبراہ راست دعوت نہ سہی اگر اکرام مسلم کے اصول کے ساتھ برادران وطن کے ساتھ خدمت خلق اور خدمت انسانیت کی ایک شق کا کا اضافہ کرلیا جاتا تو آج تبلیغی جماعت کی بدولت لاکھوں غیر مسلم مسلمانوں کے قدراں ہوچکے ہوتے اورآج جو افسوسناک معاملہ تبلیغی جماعت کے ساتھ پیش آیاوہ پیش نہ آتا۔ لیکن ہندوستان کے مسلم قائدین نے گویا طے کر رکھا ہے کہ اپنی کسی غلطی کوتسلیم نہیں کریں گے۔اور غلطی پر غلطی کرتے چلے جائیں گے ۔
ملا کو یہ زعم ہے کہ وہ دین کا عالِم ہے اور مسٹر کو یہ گھمنڈ کہ وہ دنیا کا جانکار ہے۔ سچ یہ ہے کہ دونوں ایک سخت خوش فہمی کا شکار ہیں اور یہی خوش فہمی جہل کا اصل سبب ہے۔ علم کے اصل محور و مرکز اور مخزن سے دور دونوں اپنے اپنے علم کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ البتہ ملا کو مذہب کا ایڈوانٹیج مل جاتا ہے۔ اسی کا فائدہ وہ اٹھا تا آیا ہے۔ آہ ! اس فائدے کے طوفان میں امّت کے کیسے کیسے مخلص داغدار کر دئے گئے !
وضاحت کرتا چلوں کہ ملا سے میری مراد صرف وہی علما ہیں جو مسلکی اور گروہی تعصب کے علمبردار ہیں۔ اب چاہے وہ نام ہزار گز کا کیوں نہ ہو۔
اکثر علما کی عادت ہے کہ وہ مسلمانو ں کو علما کی عظمت و فضیلت سمجھاتے رہتے ہیں۔ پتا نہیں انہیں اسکی ضرورت کیوں پڑتی ہے ؟ حالانکہ اگر وہ ‘علما’ کی فضیلت سمجھانے کے بجاۓ علم کی فضیلت سمجھاتے تو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
یہ بات سہی ہے کہ اللہ کی عدالت میں کوئی یہ کہکر نہیں بچ سکے گا کہ ‘مجھے معلوم نہیں تھا’ ۔ جیسے دنیا میں کوئی مجرم عدالت میں یہ کہکر نہیں بچ سکتا کہ اسنے قانون کی کتاب پڑھی ہی نہیں تھی ، اس لئے اس سے یہ جرم سرزد ہو گیا۔
بلکہ قبر میں ہونے والے بنیادی سوالات کا جواب دے دینے والے شخص سے اس کے source of knowledge کے بارے میں بھی پوچھا جاۓ گا۔ اور ناکام شخص سے یہی پوچھا جاۓ گا کہ اسے دنیا میں ان سوالات کے جوابات ہر ممکن صورت میں مہیا کرا دئے گئے تھے، تو اس نے ان سے آنکھیں موند لی تھیں اس لئے آج اس انجام کو پہنچا ہے۔
وہاں یہ سنی سنائی باتوں سے کام نہیں چلے گا۔ مولوی صاحب ، شیخ صاحب اور پیر جی سے سنا ہوا علم قبر میں ہی مصیبت کا ناگ بن کر نمودار ہوگا۔ پھر وہاں کوئی کام نہیں آ پاۓ گا۔ اس لئے لازم ہے کہ چار دن کی ملازمت اور تنخواہوں کے لئے اپنے اندر professional qualification پیدا کرنے کی جیسی جی توڑ کوششیں ہم یہاں کرتے ہیں، ان سے زیادہ کوشش، توجہ اور محنت اس دنیا کی کامیابی کے لئے کرنے کی ضرورت ہے جس کے بارے میں ہمارا ایمان و عقیدہ ہے کہ وہی اصل اور کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے۔
اب اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے تو دل پہ ہاتھ رکھ کے سوچے کہ آخر کیوں ممکن نہیں ہے ؟ دنیا کے مشکل ترین موضوعات کو اسکول سے لیکر یونیور سٹی تک سمجھا جا سکتا ہے پھر قرآن و سیرت کیوں نہیں ؟ دنیا کی ہر زبان سیکھی جا سکتی ہے تو عربی کیوں نہیں ؟ دنیا کی تاریخ پڑھی اور سمجھی جا سکتی ہے تو اسلام کی تاریخ و تہذیب کیوں نہیں ؟ دنیا میں مشکل سے مشکل سبجیکٹ پڑھا اور سمجھا جا سکتا ہے مگر صرف اللہ کی کتاب ہی ایک کتاب ہے جسے سمجھا نہیں جا سکتا ؟
دنیا کے جز وقتی ہیروؤں کی biographies پڑھی جا سکتی ہیں اور رسول اللہ کی سیرت معاذاللہ اس لائق بھی نہیں ؟؟؟ صرف جمعہ کے خطبوں ، جلسوں، میلادوں اور سیمیناروں میں انہیں سنکر ہم اپنے اصل قائد و رہنما کو سمجھ لینگے ؟ یہ خیال اگر دل میں ہے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کے اندر ایک گستاخ رسول بیٹھا ہوا ہے اور خود آپ کے وجود کے اندر قرآن کی عظمت اور اس کی ضرورت کا ایک منکر چھپا بیٹھا ہے!
سچ یہی ہے کہ ہم نے خود بھی کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور ملا بھی صرف درس نظامی سمجھتا اور سمجھاتا رہا، خود اسنے بھی دین کو صرف مدرسے کا نصاب سمجھ کر پڑھا۔ قرآن کو تو اس نے بھی ٹھیک سے نہیں سمجھا۔ بلکہ اسے علم الکلام کا اکھاڑہ بنا رکھا ہے۔
اسی لئے امت مسلک اور عقیدے کے جھگڑے میں آج تک پڑی ہوئی ہے ۔ اور انہیں بانٹنے والے مذہبی رہنما انکے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی محبّت کوٹ کوٹ کر بھرنے کے بجاے مولوی اور پیر و شیخ کی عظمت اور فضیلت بھر رہے ہیں۔ انکے دلوں میں قرآن کی عظمت بٹھانے اور انکے اندر قرآن فہمی کی پیاس پیدا کرنے کے بجاۓ انہیں اپنے مسلک و منہج کی کتابوں سے باندھتے ہیں۔ گویا ان سے کہتے ہیں کہ تمہاری جنت کا راستہ ہمارے دار العلوم سے گزرتا ہے۔ اپنے نام نہاد اداروں، جماعتوں، جمیعتوں اور دار العلوموں کی ‘عظیم خدمات’ کی رٹ لگاتے ہیں ۔ یعنی یہ خاندان اسلام کے ‘آذر’ ہیں جو اپنے تراشے ہوئے بتوں کو فرزندان اسلام کا ‘خدا’ بنا رہے ہیں۔
اور یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ مولوی بھی کتاب ھدایت کے اصل روحانی استفادے سے محروم ہے۔ قرآن توحید اور رسالت کی دلیل ہے، لیکن آج علما کی غالب اکثریت نے اسے بہر تجارت اپنی قابلیت کی دلیل بنالیا ہے اسلئے انکی زبان سے وہ سب نہیں نکل پاتا جو اس کتاب ہدایت کا اصل اعجاز ہے۔ بھلا قرآن کو سمجھنے والا کبھی اپنے علم و تقویٰ کے فریب میں مبتلا ہو سکتا ہے؟ اور کیا وہ اس قدر تنگ دل، تنگ ذہن اور تنگ نظر ہو سکتا ہے جتنا آج ہم اپنے ‘بڑوں’ کو دیکھ رہے ہیں ؟؟؟
مدرسے کے یہ %٩٩ علما دنیا کے معاملے میں اتنے ہی جاہل اور لا علم ہیں جتنے انگریزی تعلیم یافتہ لوگ دین کے علم و فہم سے بے خبر اور جاہل ہیں۔
قرآن ام الکتاب ہے، زندگی کے صرف پانچ سال اس پر لگا کے دیکھئے، اسے سمجھنے کی کوشش کیجئے، پھر دیکھئے کہ علم کا یہ سمندر (قرآن پاک ) آپ کو علم کے موتیوں سے کیسے سجا دے گا۔ مدرسے کے فارغین کے لئے یہ راہ تو اور بھی آسان ہے۔
خدا کی قسم ! دین و دنیا کی کامیابیوں کے تمام راستے اسی کتاب ہدایت کی رہنمائی میں ملیں گے۔ مولوی ہو یا مسٹر ، جو اس کتاب کو پکڑے گا، کامیابی اسے ہی ملے گی!!!
نبی پاک ﷺکی بعثت سے قبل انسانیت فکری، عملی اور اخلاقی اعتبار سے خوف ناک تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی اورزندگی کے ہرموڑپر گھٹاٹوپ اندھیروں میں کھوئی ہوئی تھی،نہ اس کے پاس آسمانی ہدایت کی روشنی تھی، نہ ہی علم ومعرفت سے کسی قسم کی آگہی۔کفروشرک کی دبیز چادروں نے ذہن انسانی کوبری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، چار سونفسانیت و شیطنت رقص کناں تھی، دجل، فریب، جھوٹ اور منافقت پر مبنی انفرادی طرز عمل اور اجتماعی رویوںنے انسانی وقار کی بحالی کی ہر خواہش کو نسیاًمنسیاً کردیا تھا،جہالت و بے دینی نے خودساختہ توہمات و رسومات کے دروازے کچھ اس طرح وا کیے تھے کہ اب ان کے بندہونے کی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی۔خود کو عرب کہنے والی مضبوط قوم اس درجہ ضعیف الاعتقادی کا شکار تھی کہ نظر بد سے بچنے،بیماریوں سے محفوظ رہنے اورسحرآسیب کی روک تھام کے لیے مختلف قسم کے تعویذات (مثلاً ہڈیوں،جانوروں کے کھُروںاور کاغذ وغیرہ پر منتر لکھ کر) گھر کے دروازوں کی پیشانیوں،دیواروں اورجسم کے مختلف حصوں پر لٹکاتی اور باندھتی تھی۔نیز ان کا یہ بھی نظریہ تھا کہ جس اونٹنی کے پانچ بچے ہو چکے ہوں اور پانچواں نر ہو،وہ بحیرہ ہے،جس کا کان چھید کر چھوڑ دیاجاتاکہ وہ جہاں چاہے چرتا پھرے، کوئی اس سے تعرض نہیں کرتا تھا۔ اگر بھیڑ کے نر بچہ پیداہوتا اس کو بتوں پر چڑھا دیتے،مادہ ہوتا تو اپنے لیے رکھ لیتے، اگر دو بچے نر ومادہ پیدا ہوتے تو اس کی قربانی نہیں کرتے اس کا نام وصیلہ ہوتا تھا۔ جس نر اونٹ کی جفتی سے دس بچے پیدا ہو چکے ہوتے اس کی بڑی عزت کرتے، نہ اس پر بوجھ لادتے نہ خودسوار ہوتے اور سانڈ کی طرح آزاد چھوڑ دیتے تھے ،اس کا نام حام ہوتاتھا۔بتوں کے سامنے یا بت خانوں کی ڈیوڑھی پر تین تیر رکھے رہتے تھے‘ ایک پر ’’لا‘‘ دوسرے پر’’نعم‘‘ لکھا ہوتا‘ اور تیسرا خالی ہوتا‘یہ تیر ایک ترکش میں ہوتے‘ جب کوئی خاص اور اہم کام درپیش ہوتا تو جاتے اور ترکش میں سے ایک تیر نکالتے اگر ’’لا‘‘ والا تیرنکل آتا تو اس کام سے باز رہتے۔ ’’نعم‘‘ والا نکلتا تو اجازت سمجھتے‘ خالی تیرنکلتا تو پھر وہ دوبارہ تیر نکالتے یہاں تک کہ ’’لا‘‘ اور ’’نعم‘‘ میں سے کوئی ایک نکل آتا۔
رتم ایک خاص قسم کا درخت تھا جب کہیںسفر میں جاتے تو جاتے وقت رتم کی کسی باریک شاخ میں گرہ لگا جاتے،سفر سے واپس آ کردیکھتے کہ اس شاخ میں گرہ لگی ہوئی ہے یا کھل گئی، اگر گرہ لگی ہوئی دیکھتے توسمجھتے کہ ہماری بیوی پاک دامن رہی ہے،اگر گرہ کھلی ہوئی پاتے تو یقین کر لیتے کہ عورت نے ہماری غیر موجودگی میں ضروربدکاری کی ہے۔
جاہلانہ توہمات و رسومات اور من گھڑت اوہام وخیالات کی اس دنیا میں سرکار دوعالم ﷺایمان کامل اور یقین صادق کی روشنی لے کر آئے اور جہنم کے دہانے پر کھڑی جاہلیت زدہ انسانیت کو عقل و شعور کی گراں مایہ دولت سے نوازا۔آپ نے ان کے سامنے اس حقیقت کو واشگاف فرمایا کہ دین حق میں بدفالی کی کوئی حقیقت نہیں،توہم پرستی کا کوئی اعتبار نہیں،نحوست کی کوئی گنجائش نہیں۔ہاں نیک فالی اور اچھاشگون لیناجائز؛بل کہ مستحسن و مطلوب ہے۔بزرگان دین فرماتے ہیں کہ فالِ نیک اللہ رب العزت کی ذات سے حسن ظن کا سبب ہے؛جب کہ فال بد اللہ سے بدگمان کردیتا ہے۔حضرت حکیم الامت ؒ فرماتے ہیں:بدفالی سے اثر نہ لینا چاہیے اس لیے کہ وہ یاس (مایوسی)ہے اور یاس کی ممانعت ہے، برخلاف نیک فالی کے کہ وہ رجا (امید)ہے اور رجا کا حکم ہے، یہ فرق ہے فال نیک میں کہ جائزہے اور طیرہ یعنی فال بد میں کہ ناجائز ہے، ورنہ تاثیر کا اعتقاد دونوں جگہ ناجائزہے۔
بدشگونی کی ممانعت اور اس کا علاج:
بدشگونی حرام ہے، نبی کریم ﷺ نے بدشگونی کو واضح طورپر ناجائز قرار دیا ہے، چنانچہ کئی روایات میں آپ ﷺسے اِس کی قطعی ممانعت منقول ہے۔ علماء کرام نے اِس کے حکم کی تفصیل میں لکھا ہے کہ بدشگونی کفرہے؛جب کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ فلاںچیزنحوست کو سببِ مؤثر کے طور پر پیدا کرتی ہے۔اور مکروہ ہے؛جب کہ یہ عقیدہ ہو کہ نحوست تو اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتے ہیں؛لیکن عادۃ ً وہ نحوست اُس شیء میں ہوتی ہے۔یعنی اگرکسی چیز کو بدشگونی کے پیدا ہونے میں مؤثر بالذات سمجھا جائے بایں معنی کہ وہ چیز نحوست کے پیدا کرنے کا حقیقی اور اصلی سببِ مؤثر ہے تو یہ کفر ہے؛ کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی صفتِ تدبیر میں دوسروں کو شریک کرنا ہے۔اور اگر سببِ مؤثرنہ سمجھاجائے؛ بلکہ کرنے والی ذات تو اللہ تعالیٰ ہی کو تسلیم کیا جائے،لیکن تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر صرف یہ گمان قائم کیا جائے کہ فلاں چیز میں نحوست عام طور پر ہوتی ہے تو یہ کفر تو نہیں،البتہ مکروہ ہے۔(الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ:4/81بحوالہ کتاب الطب)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کوئی بیماری متعدی نہیں، بدفالی اور بد شگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔ نہ الو کا بولنا (کوئی برا اثر رکھتا)ہے اور نہ ہی ماہ صفر (منحوس)ہے۔‘‘ (صحیح البخاری:5757)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بد فالی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے (بتقاضائے بشریت)ایسا وہم نہ ہوتا ہو؛ مگر اللہ رب العزت توکل کی وجہ سے اس کو ہم سے رفع فرمادیتا ہے۔‘‘ (سنن ابی داود:3910)
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جوشخض اپنے کسی کام سے بد فالی کی بنا پر رکا اس نے شرک کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا اس کا کفارہ کیا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:اس کا کفارہ یہ دعا ہے ’’یا اللہ! تیری بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں۔ اور تیرے شگون کے علاوہ کوئی شگون نہیں۔ اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘‘۔(مسند احمد:2/ 220)
نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ بدشگونی،حسداور بد گمانی، یہ تین چیز یں میری امت کے لئے لازم ہیں،یعنی ضرور پائی جائیں گی۔ ایک شخص نے کہا جس شخص میں یہ چیزیں ہوں وہ ان کو کیسے دور کرسکتا ہے؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:جب تمہیں حسد ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو، اور جب تمہیں کسی کے بارے میں بد گمانی لاحق ہو تو اُس کی تحقیق مت کرو اور جب کسی چیز میں تمہیںنحوست اور بدشگونی کا عقیدہ ہونے لگے تو تم اُس کام کو کر گزرو، اُس کے کرنے سے مت رکو۔(طبرانی کبیر: 3227)
کیا تین چیزوں میں نحوست ہے؟
حضرت ابوہریرہؓ،حضرت ابن عمر ؓ اورحضرت سہل بن سعدساعدیؓ وغیرہم سے الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ مختلف کتب حدیث میں یہ روایت منقول ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تین چیزیں منحو س ہیں: گھوڑا، عورت اور مکان۔’’اس روایت سے ملحدین یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام بھی عورت کو حقیر سمجھتا ہے اور اسے منحوس و قابل ترک شیٔ گردانتاہے۔حالانکہ یہ سراسر بہتان و الزام ہے،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
حدیث پاک پر ہونے والے اس اشکال کے متعدد جوابات دیے گئے ہیں۔ ایک جواب تو یہ ہے کہ یہاں نحوست سے مراد ان چیزوں کا انسان کے لئے فتنہ ہونا ہے، اور اس بات میںکس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ عورت فتنہ ہے، سواری یا گھر (مال و دولت) فتنہ ہیں،اور ان کے فتنہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ یہ دل لبھانے والی، زیب و زینت اور آرائش سے بھرپور چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں انسانوں کے لئے خوب کشش رکھی ہے۔ اور یہی کشش ان کے فتنہ ہونے کا باعث ہے۔یا نحوست سے ان کا ناموافق ہونا مراد ہے کہ اگر یہ تین چیزیں موافق نہ آئیں تو پھر مختلف مسائل وحالات پیدا ہوں گے جن کی تکلیف لمبے عرصے تک چلتی رہے گی۔ چنانچہ عورت کی نحوست اس کا بد زبان، بد اخلاق،شوہر کی ناپسندیدہ اوربانجھ ہونا وغیرہ ہے۔گھوڑے کی نحوست(اس میں آج کی تمام سواریاں شامل ہیں) اس کا شوخی کرنا،سواری کا دشوار ہونا،مالک کا ناپسندیدہ ہونا وغیرہ ہے۔اور گھر کی نحوست اس کاتنگ اور چھوٹاہونا، اس میں تازہ ہوا اورروشنی کا نہ ہونا وغیرہ ہے۔خلاصہ کلام یہ ہواکہ یہاں نحوست سے حقیقی نحوست مراد نہیں؛بلکہ ان کا فتنہ ہونا یا نا موافق ہونا مرادہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ آپﷺ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ بالفرض اگر کسی چیز میں کوئی نحوست ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی؛لیکن جب ان چیزوں میں نحوست نہیں ہے تو ان کے علاوہ کسی بھی چیز کو منحوس سمجھنا درست نہیں ہے۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس دو شخص آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ نحوست تین چیزوں میںہوتی ہے، عورت،سواری(گھوڑے) اور گھر میں(یہ سن کر وہ) کبھی آسمان کی طرف دیکھتیںاور کبھی زمین کی طرف، (یعنی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ناراضگی ظاہر فرمائی)اورفرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے ابو القاسم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرقرآن نازل کیا ہے، آپ اس طرح نہیں فرماتے تھے؛بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو یہ فرمایا کرتے تھے کہ(اہل جاہلیت یہ کہتے تھے کہ نحوست عورت،گھر اور گھوڑے میں ہے)پھرعائشہ صدیقہؓ نے یہ آیت تلاوت کی،ترجمہ:کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔(الحدید)(مسند احمد، حدیث نمبر:26088)اس روایت کی مزید وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت ذکر کی گئی توحضرت عائشہؓ نے فرمایا ابوہریرہ کے آنے سے قبل آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا: اللہ یہودیوںکو ان کے اس قول پر غارت کرے کہ(وہ کہتے ہیں) نحوست تین چیزوں میں ہے عورت،گھراور گھوڑا۔ اس طرح انھوں نے آپؐ کے ارشاد کا آخری حصہ سنا اور پہلا نہ سنا۔(مسندابو داؤد طیالسی 3ج/124 حدیث:1630)
نیک فالی کی ترغیب:
نیک فال لینا جائز و مستحسن ہے،مثلاًجب کوئی مریض کسی سے سنے ’’یا سالِم‘‘یا کوئی تلاش کرنے والا کسی کو ’’یا واجِدُ‘‘کہتا ہو دیکھے تو اُس سے نیک فال لے سکتا ہے کہ میں صحت یاب ہوجاؤں گا یا مجھے گم شدہ چیز مل جائے گی۔قافلہ کو بھی اِسی لئے ’’قافلہ‘‘ کہا جاتا ہے کیونکہ قافلہ کا مطلب ہے ’’لوٹنے والا‘‘ گویا کہ اِ س لفظ میں قافلہ والوں کے بہ خیریت واپس لوٹ کر آنے کانیک فال لیا گیا ہے۔(رد المحتار:2/166)نبی کریم ﷺ سے قولی اور عملی طور پر نیک فال لینا ثابت ہے، ذیل میں چند روایات ملاحظہ ہوں:
نبی کریمﷺکا ارشاد ہے کہ:مجھے نیک فال پسند ہے،صحابہ کرام نے سوال کیا کہ یارسول اللہ! نیک فال کیا ہوتا ہے؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا:اچھی بات۔ یعنی کسی بات کو سن کر اُس سے اچھا مطلب مرادلیا جائے۔(بخاری: 5756)
نبی کریمﷺجب کسی حاجت کے لئے نکلتے توآپ کو یہ سننا اچھا لگتا تھا کہ ’’اے راشد! اے نجیح!‘‘یعنی اے ہدایت پانے والے اور اے کامیاب۔(ترمذی:1616)
ایک دفعہ نبی کریمﷺ نے کوئی اچھاکلمہ سنا، آپ کو پسند آیا، آپﷺنے ارشاد فرمایاکہ ہم نے تمہارے منہ سے نیک فال لے لیا۔(ابوداؤد: 3917)
نبی کریمﷺکا ارشاد ہے کہ نحوست کی کوئی حیثیت نہیں، ہاں! فال لینا اچھی چیز ہے اور فال لینے کا یہ مطلب ہے کہ کوئی اچھی بات جو تم میں سے کوئی سنے (اور اُس کا اچھا مطلب مراد لے)۔(بخاری:5755)
حضرت بُریدہ اَسلمی ؓستر سواروں کے ساتھ رات کو نبی کریمﷺکے ساتھ ملاقات کے لئے آئے، آپﷺنے پوچھا: کون؟ اُنہوں نے جواب دیا:’’بُریدہ‘‘۔ نبی کریمﷺنے حضرت ابوبکر صدیق کی جانب متوجہ ہوکر فرمایا: ہماری جنگ کا معاملہ ٹھنڈا ہوگیا اور صلح ہوگئی،(عربی میں برد کے معنی ٹھنڈک کے ہیں)پھر آپﷺنے سوال کیا کہ کِس قبیلہ سے تعلّق رکھتے ہو؟ اُنہوں نے فرمایا: قبیلۂ اسلم سے۔آپﷺنے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے فرمایا: ہم محفوظ ہوگئے، پھر آپﷺ نے سوال کیاکہ بنو اسلم میں سے کِس شاخ سے تعلْق رکھتے ہو؟ اُنہوں نے کہا:میں بنو سہم سے تعلّق رکھتا ہوں، آپﷺنے حضرت ابوبکر صدیق سے فرمایا: تمہارا حصہ نکل آیا(عربی میں سہم کے معنی حصے کے ہیں)۔(الاستذکارلابن عبدالبر:8/514)
خلاصۂ کلام:
آج کل ہمارے معاشرہ میں بہت سے ایسے توہّمات عام ہیں جو شرعاً ممنوع ہیں، مثلاً کالی بلی سامنے سے گذر جائے تو راستہ بدل لینا چاہیے، چھُری گرے یا خالی قینچی چلائی جائے تو لڑائی ہوجاتی ہے، کوا بولے تو مہمان آجاتا ہے، دائیں آنکھ پھڑکے تو اچھی اور بائیں آنکھ پھڑکے تو بری خبرملتی ہے، ہتھیلی میں کھجلی ہو تو دولت آجاتی ہے، جوتی پر جوتی چڑھ جائے تو سفر پیش آتا ہے، وغیرہ۔اس طرح کی تمام بد شگونیوں اور بدفالیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔نیز ماہ صفر کو منحوس سمجھنا بھی انہی اوہام و خیالات کا حصہ ہے؛جس کی احادیث میں تردید کی گئی ہے۔
مختصر یہ کہ بَدشگونی سے بلاوجہ رَنج و تردُّد پیدا ہوتا ہے،اورانسان توہمات کے سایہ تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتاہے، بَدشگونی سے مایوسی،سُستی اور کاہلی پیدا ہوتی ہے جوتَنَزُّلی کی طرف لے جاتی ہے؛جب کہ نیک فالی انسان کو کامیابی، حرکت اور ترقی کی طرف گامزن رکھتی ہے۔
(بیویوں، بیٹیوں اور گھر کی دیگرخواتین کے لیے نہایت اعلیٰ دینی تعلیم کی فکر)
چند روز قبل محترم مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام صاحب ندوی کی ایک تحریر بعنوان: ‘‘خادماتِ صحیح بخاری’’ نظر نواز ہوئی، اس تحریر میں انھوں نے ایک عربی کتاب ‘‘صفحات مشرقۃ من عنایۃ المرأۃ بصحیح الإمام البخاري’’ (از ڈاکٹر محمد بن عزوز) کا تذکرہ کیا، کتاب کے مباحث کا خلاصہ چند نکات کی صورت میں پیش کیا اور پھر کتاب میں مذکور ان گیارہ خواتین کا مختصر تذکرہ تحریر فرمایا جنھوں نے زندگی کا بڑا حصہ صحیح بخاری کا درس دیتے ہوئے گزارا، اور ان سے بے شمار مردوں وخواتین نے درس لیا۔
مولانا کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعد براہ راست مذکورہ کتاب حاصل کرنے اور اس سے استفادہ کی خواہش ہوئی، اللہ کا احسان کہ کتاب آنلائن دستیاب ہوگئی، اب جو اس سے استفادہ کیا تو اس کے شروع کے دو مباحث (فصلوں) نے مسلم تاریخ کے روشن دورکا ایک نہایت زریں ورق سامنے رکھ دیا، یہ زریں ورق گو کہ نہایت تابناک ہے لیکن افسوس کہ دوسروں کا تو تذکرہ کیا ہمارے جیسے ان بہت سے لوگوں کو بھی اس کی خبر نہیں جو بہر حال کسی نہ کسی درجہ میں دینی علوم سے وابستہ ہیں، مصنف نے کتاب کے اس حصے میں تاریخ اسلامی کے ممتاز علما اور ائمہ کے بارے میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ وہ کیسے اپنی بیویوں، بیٹیوں، بھتیجیوں، بھانجیوں اور پوتیوں وغیرہ (یعنی اپنے گھر کی خواتین) کی نہایت اعلیٰ اور گہری دینی تعلیم کی فکر فرماتے تھے، انھیں عظیم علما وائمہ کے درس کے حلقوں میں شریک کرتے، اور اس بات کی کوشش کرتے کہ وہ بھی گھر کے مردوں کی طرح دین کا گہرا علم حاصل کریں، ہمارے اس زمانے میں جب دینی اعتبار سے ممتاز سمجھے جانے والے گھرانوں میں بھی خواتین اور بچیوں کے لیے بنیادی دینی تعلیم کو نہایت کافی سمجھا جاتا ہے اور اس بات کی بالعموم کوشش نہیں ہوتی کہ گھر کی خواتین مردوں کی مانند گہرا شرعی علم حاصل کریں تو ہمارے روشن دور کے ائمہ کا یہ اسوہ ہمارے لیے نہایت اہم ہے جو ہمیں بہت کچھ سوچنے اور اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانے کی دعوت دیتا ہے۔
کتاب کے اس حصے میں بہت سے ایسے علما وائمہ بالخصوص محدثین کا تذکرہ کیا گیا ہے جو اپنے گھر کی خواتین اور بچیوں کی تعلیم کی بہت فکر فرماتے اور ان کو زمانہ کے عظیم ائمہ کے حلقۂ درس میں شریک کرتے، نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ خواتین بھی اپنے زمانہ کی ممتاز محدثات وعالمات ہوتیں۔ ذیل میں کتاب میں درج چند مثالیں اختصار کے ساتھ ذکر کی جاتی ہیں:
۱۔ امام سعید بن مسیب عظیم تابعی محدث وفقیہ تھے، ان کی صاحب زادی اپنے والد کے علوم کی بہترین وارث وامین تھیں، امام موصوف نے ان کا نکاح اپنے ایک شاگرد سے کیا تھا، رخصتی کی اگلی صبح جب ان کے شوہر گھر سے باہر جانے کی تیاری کرنے لگے تو انھوں نے دریافت کیا: کہاں کا ارادہ ہے؟ وہ بولے آپ کے والد کے حلقۂ درس میں۔۔۔۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا: بیٹھیے میں آپ کو اپنے والد کے علم سے فیضیاب کروں۔
۲۔ امام مالک کی صاحبزادی ان کی معروف کتابِ حدیث موطا کی گویا حافظ تھیں، والدماجد کا حلقۂ درس لگا ہوتا، تو وہ بھی دروازہ کے پیچھے سے اس میں شریک ہوتیں، بسا اوقات عبارت پڑھنے والا طالبِ علم کچھ غلطی کرتا تو وہ دروازہ پر دستک دیتیں، جسے سن کر امام مالک فرماتے: دیکھو تم کچھ غلطی کررہے ہو، طالبِ علم دوبارہ پیچھے سے پڑھتا تو دیکھتا کہ واقعی اس سے کچھ چھوٹ گیا تھایا اس نے کچھ غلط پڑھ دیا تھا۔
۳۔ حافظ ابن عساکرؒ نے اپنی خالہ زاد بہن آمنہ بنت محمد بن الحسن کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ انھوں نے علم حدیث اپنے نانا قاضی ابوالفضل یحییٰ بن علی قرشی اوراپنے زمانے کے ایک بڑے محدث ابو محمد عبد الکریم بن حمزہ سے لیا، ان کے والد ماجد کو ان کی تعلیم کی ایسی فکر تھی کہ ان کے لیے سنن ابی داود کا ایک نسخہ اپنے ہاتھ سے نقل کرکے تیار کیا۔
۴۔ سلیمان بن عبد الکریم انصاری دمشق کے معروف محدث تھے، انھوں نے اپنی صاحب زادی فاطمہ کی تعلیم وتربیت کا بہت اہتمام کیا، بچپن سے ہی ان کے اندر علمی ذوق پیدا کیا، اور پھر ان کو اپنے زمانہ وعلاقہ کے ممتاز محدثین کے حلقہ ہائے درس میں شریک کیا۔
۵۔آٹھویں صدی ہجری کے معروف محدث حافظ علائی نے اپنی صاحبزادیوں کو اپنے وقت کے ایک ممتاز محدث حافظ حجار کے حلقۂ درس میں شامل کیا، وہ اس پائے کی محدثہ وفقیہہ بنیں کہ خود ان کا حلقۂ درس نہایت مقبول تھا، اورانھوں نے اپنے بعض شاگردوں کو اجازتِ فتوی دی۔حافظ علائی کی دوسری صاحبزادی امۃ الرحیم بھی حافظ حجارکی شاگرد ہوئیں اور بعد میں وہ بھی احادیث روایت کرتیں۔
۶۔سعد الخیر بن محمد بن سہل انصاری بلنسی کا شماراپنے زمانہ کے بڑے محدثین میں ہوتا ہے، ان کی صاحبزادی فاطمہ ام عبد الکریم اپنے والد ماجد کی توجہ وعنایت سے متعدد محدثین کے حلقہ ہائے درس میں شریک ہوئیں، اور پھر اس پائے کی محدثہ ہوئیں کہ مصر ودمشق میں انھوں نے حدیث کا درس دیا، اور نہایت ممتاز مقام پایا۔
۷۔ابو القاسم انصاری اندلس کے معروف محدث فن تجوید کے عظیم امام تھے، ان کی صاحبزادی فاطمہ ام الفتح نے اپنے والد سے تجوید وقراءت اور حدیث کی تعلیم حاصل کی، صحیح مسلم، سیرت ابن ہشام اور مبرد کی الکامل جیسی متعدد کتابوں کا اپنے والد کے ساتھ ‘مقابلہ’ کیا ۔
۸۔ ابن خبازؒآٹھویں صدی میں دمشق کے معروف محدث تھے، انھوں نے اپنی صاحبزادی کی تعلیم پر بڑی توجہ دی، دمشق کے ممتاز محدثین کے حلقہ ہائے درس میں شامل کیا، اگر کوئی محدث باہر سے تشریف لاتے اور ان کے درس کا حلقہ لگتا تو اپنی ان صاحب زادی کو بھی وہاں شریک حلقہ کرتے۔
یہ کتاب میں مذکور وہ چند نمونے ہیں جن سے ہم یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہماری عظیم اور تابناک علمی روایت میں بیٹیوں کی تعلیم وتربیت کا کیسا اہتمام تھا، ان کے علاوہ کتاب میں ایسی مثالیں بھی ذکر کی گئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری تاریخ کے روشن دور میں اہل علم اپنی بیویوں اور دوسری رشتہ دار خواتین کے لیے تعلیم کی کیسی فکر رکھتے تھے، ان شاء اللہ اگلی قسط میں اختصار کے ساتھ ان مثالوں کا بھی تذکرہ کیا جائے گا۔
(جاری)
ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
استاذ:جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش
نیک صالح اولاد اللہ تعالی کی طرف سے ایک نعمت ہے، رحمت وبرکت ہے، والدین کے لئے حصول جنت کا ذریعہ ہے۔سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نیک وصالح اولاد کی دعا مانگی تھی:رب هب لى من الصالحين، فبشرناه بغلام حليم۔ میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دیدے جو نیک لوگوں میں سے ہو، چنانچہ ہم نے انہیں ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔ معلوم ہوا کہ نیک صالح اولاد کے حصول کی دعا کرنا سنت انبیا ہے۔
اولاد میں بھی بیٹی بیش بہا عطیہ خدا وندی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:يهب لمن يشاء اناثاويهب لمن يشاء الذكور ۔وہ جس کو چاہتا ہے، لڑکیاں دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے۔
بعض مفسرین نے آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ بچوں پر بچیوں کا مقدم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بچیوں کی قدر ومنزلت زیادہ ہے، اسی طرح اسی آیت کے اشارے سے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس عورت کے بطن سے پہلے لڑکی پیدا ہو وہ مبارک ہوتی ہے۔ (معارف القرآن)
ہر مسلمان اپنی اولاد کی ولادت پر خوش ہوتا ہے، لیکن لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش پر زیادہ خوش ہونا چاہیے، احادیث مبارکہ میں بچیوں کی پرورش، دیکھ ریکھ کے بارے میں بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں، ترمذی شریف کی روایت ہے:
عن انس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من عال جاريتين دخلت أنا وهو الجنة كهاتين وأشار بأصبعيه۔ (سنن الترمذي:1913)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی میں اور وہ دونوں جنت میں اس طرح داخل ہوں گے (یہ فرماتے ہوئے آپ ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں یعنی انگشت شہادت اور اس سے متصل انگلی کو ملا کر اشارہ فرمایا)
اسی طرح سنن ابن ماجہ کی روایت ہے:عن ابن عباس قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:ما من رجل تدرك له ابنتان فيحسن إليهما، ماصحبتاه أو صحبهما إلاأدخلتاه الجنة۔ (سنن ابن ماجة:3670)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس شخص کے پاس دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے جب تک کہ وہ دونوں اس کے ساتھ رہیں، یا وہ ان دونوں کے ساتھ رہے تو وہ دونوں لڑکیاں اسے جنت میں پہنچائیں گی۔
اتنی بڑی خوشخبری لڑکوں کے لئے نہیں بلکہ صرف لڑکیوں کی عمدہ تعلیم وتربیت کے لئے آئی ہے، صالح تربیت پر والدین کو جنت جیسی لازوال نعمت کا مژده عطا فرمایا۔
اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمارے موجودہ معاشرہ میں بچیوں کی صحیح تربیت ہورہی ہے یا نہیں، کیونکہ یہی کونپلیں کل امت کی مائیں ہوں گی، آج اگر ان کی صحیح تربیت ہوگی تو کل ان کی گود میں پلنے والے اسلام کے ہیرو ہوں گے، یہ سچ ہے کہ بچے بچیوں کی تعمیر و ترقی کا سرچشمہ ماں کی گود ہی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے، یہیں سے ان کی تعلیم وتربیت کا آغاز ہوتا ہے، اس درسگاہ میں جو کچھ ان کے ذہن و دماغ پر مرتسم ہوتے ہیں وہ زندگی بھر باقی رہتے ہیں:
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا میں رود دیوار کج
معمار جب پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھتا ہے تو اخیر تک دیوار ٹیڑھی ہی رہتی ہے۔
موجودہ دور میں بچیوں کی تعلیم وتربیت میں بڑی غفلت برتی جارہی ہے،ہم اپنی بچیوں کی عمر کے بنیادی اور ابتدائی کچھ سال ( پانچ ،چھ سال کی عمر) یوں ہی ضائع کردیتے ہیں حالانکہ یہی عمر بچیوں کا سنورنے کا ہوتا ہے ، اس عمر میں ان کا ذہن و دماغ خالی ہوتا ہے جو کچھ اس میں ڈالا جائے گا وہ پتھر کی لکیر کی سی ہوجائےگی، انہیں سب سے پہلے اللہ و رسول کا نام ،کلمہ شہادتیں، سورہ اخلاص، سونے،اٹھنے،کھانے پینے وغیرہ کی دعائیں یاد کرائی جائیں، توحید و رسالت کی حقیقت ان کے دل و دماغ پر بیٹھایا جائے، سلام وکلام اور اسلامی آداب سکھلائے جائیں،نماز کی دعائیں یاد کرائیں، گھر کی مستورات جب نماز ادا کریں تو انہیں بھی اپنے قریب لاکر بیٹھائیں،جب سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں نماز کا حکم دیں حدیث نبوی ﷺ ہے:
مروا اولادكم بالصلاة وهم ابناء سبع سنين،واضربوهم وهم ابناء عشر سنين،وفرقوابينهم فى المضاجع (سنن ابى داؤد:495)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کا حکم دو، اور جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کو سزا دو، اور ان کے بستر الگ الگ کردو۔
حدیث شریف میں سب سے پہلے سب سے مہتم بالشان عبادت نماز کی پابندی کرانے کا حکم ہے، حالانکہ اس عمر میں ان پر نماز فرض نہیں ہے لیکن شوق و رغبت دلانے کے لئے دس سال کی عمر میں تادیب کے طور پر ہلکی پٹائی کی بھی اجازت ہے تاکہ رفتہ رفتہ ان کی نماز کی عادت ہوجائے اور پھر عادت عبادت بن جائے، اس عمر میں نماز کا حکم سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ انہیں تمام دیگر نیکیوں کے کام میں لگانا چاہیے۔
اسی طرح اس عمر کی بچیوں کو عموماًلباس وپوشاک میں کوئی خاص خیال نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اس عمر میں بچیوں کالباس خود والدین شوق سے الگ الگ ڈیزائن کے لاتے اور پہناتے ہیں، اس پر بچیوں کو داد و تحسین سے بھی نوازتے ہیں، ہمارے معاشرہ میں اکثر و بیشتر آٹھ ،دس سال تک کی بچیوں کو جنس و ٹی شرٹس، اور لیگی پہنایا جا رہا ہے، بعض ایسے ملبوسات ہوتے ہیں جس میں آدھے پیر کہنیاں عریاں ہوتی ہیں، بعض اتنا باریک و تنگ ہوتے ہیں کہ جس کی وجہ سے جسم کی بناوٹ نمایاں ہوتی ہیں،ایسے ہی ملبوسات کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ونساء كاسيات عاريات(صحيح مسلم:2128) اور عورتیں جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہیں۔
بعض والدین سے جب کہا جاتا ہے کہ ایسے کپڑے نہ پہنائیں تو خود والدین کہتے ہیں کہ ابھی تو یہ بچیاں ہیں،جب بڑی ہوں گی تو نہیں پہنیں گی، جب کہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے، معلوم ہونا چاہیے کہ ہر لباس اپنا اثر رکھتا ہے:حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں لباس کا معاملہ اتنا سادہ اور اتنا آسان نہیں ہے کہ آدمی جو چاہے لباس پہنتا رہے اس لباس کی وجہ سے اس کے دین پر اس کے اخلاق پر اس کی زندگی پر اس کے طرز عمل پر کوئی اثر واقع نہ ہو۔
یہ ایک مسلم حقیقت ہے اس کو شریعت نے تو ہمیشہ بیان فرمایا، اور اب نفسیات اور سائنس کے ماہرین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ انسان کے لباس کا اس کی زندگی پر اس کے اخلاق پر اس کے کردار پر بڑا اثر واقع ہوتا ہے، لباس محض ایک کپڑا نہیں ہے جو انسان نے اٹھا کر پہن لیا بلکہ یہ لباس انسان کے طرز فکر پر اس کی سوچ پر اس کی ذہنیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔(لباس کے شرعی اصول:4)
اس لئے چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی ایسے ہی کپڑے پہنائیں جو شرعی لباس ہوں، تاکہ آگے چل کر ان کو ذہن و دماغ میں شرعی لباسوں کی اہمیت اور اس کی قدروقیمت باقی رہے، پھر انہی کی گود میں اہل اللہ اور بڑے بڑے اسلام کے جیالے تیار ہوں گے۔
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)
ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی
موجودہ دور میں ایک سماجی مسئلہ، جس نے ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر گمبھیر صورت اختیار کرلی ہے، خواتین کی عزت و آبرو کی پامالی اور عصمت دری ہے۔ کبھی معاملہ عصمت دری پر رک جاتا ہے تو کبھی ظلم کی شکار خاتون کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ایک گھناونی صورت اجتماعی آبروریزی کی ہے، جس میں کئی نوجوان مل کر کسی معصوم لڑکی کو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں، پھر بڑے درد ناک طریقے سے اسے قتل کردیتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجیے، عصمت دری کی بہت سی خبریں اس میں مل جائیں گی۔ ان میں سے کچھ ہی معاملے عدالتوں تک پہنچ پاتے ہیں اور جو پہنچتے ہیں، ان میں بھی عدالتی پیچیدگیوں کی وجہ سے فیصلہ آنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور بہت کم ہی کیسوں میں مجرموں کو سزا مل پاتی ہے۔
یہ واقعات اب اتنی کثرت سے پیش آنے لگے ہیں کہ ان کی سنگینی کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن انہی کے درمیان کبھی کوئی درد ناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو عوام بیدار ہوجاتے اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اس موقع پر ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں۔ مثلاً مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیاجاتا ہے، سخت سے سخت قوانین بنانے کی بات کہی جاتی ہے، کڑی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور مضبوط سیکورٹی فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے، لڑکیوں کو جوڈو کراٹا سیکھنے اور خود حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں بعض اطراف سے ایک آواز یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ زنا کی وہ سزا نافذ کی جائے جو اسلام نے تجویز کی ہے۔ اسی بات کو بعض لوگ ان الفاظ میں کہتے ہیں کہ سزائے زنا کے لیے عرب ملکوں جیسا قانون بنایا جائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مطالبے ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوتے ہیں جو اسلام کے شدید مخالف ہیں ، جو اسلام پر اعتراضات کرنے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن چوں کہ انھوں نے کہیں سے سن رکھا ہے کہ اسلام زنا کرنے والے کو پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے، اور جرم کی سنگینی کی بنا پر یہ سزا ان کے دل کی آواز ہوتی ہے، اس لیے ان کے اندرون میں چھپی خواہش ان کی زبان پر آجاتی ہے اور وہ خواہی نہ خواہی اسلام کا نام لینے لگتے ہیں۔
آبرو ریزی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون بنانے کی بات کی جائے، یا اسلامی سزائے زنا کو نافذ کرنے کی تجویز رکھی جائے، دونوں مطالبے جذباتیت کے مظہر اور سنجیدگی سے محروم ہیں۔ کتنا ہی سخت قانون بنا لیا جائے، اس سے جرائم کا بالکلیہ خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سماج کو پاکیزہ بنانے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور جو چیزیں غلط کاموں پر ابھارتی اور جرائم کے ارتکاب کی جانب مائل کرتی ہیں، ان پر پابندی عائد کی جائے۔ قانون جرائم کو روکنے میں معاون تو ہوسکتا ہے، لیکن محض قانون سے ان کا سدِّ باب ناممکن ہے۔ اگر جرائم کے تمام محرکات اور ترغیبات کو علی حالہ باقی رکھا جائے اور محض کوئی سخت تر قانون منظور کرلیا جائے تو جرائم میں تو کوئی کمی نہیں آئے گی، البتہ قانون کے غلط انطباقات کے اندیشے بڑھ جائیں گے۔ عدالتوں کے بھاری مصارف کی بنا پر اس کا خدشہ رہے گا کہ غریب اور اپنے دفاع سے عاجز سزاپاجائیں اور مال دار اور طاقت ور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے سزا سے بچ جائیں۔اسی طرح اسلام کے کسی ایک حکم کا مطالبہ اور دیگر احکام سے صرفِ نظر درست رویّہ نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اسلامی نظام کو ایک کل کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا۔ اسلامی تعلیمات کے اثرات کا مشاہدہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے کے پورے اسلام کو نافذ کیا جائے۔ جس طرح کوئی مشین اسی وقت صحیح طریقے سے کام کرے گی، جب اس کے تمام پرزے اپنی اپنی جگہ فٹ ہوں، اگر اس میں سے کوئی ایک پرزہ نکال لیا جائے تو نہ مشین صحیح ڈھنگ سے وہ کام کرے گی جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے اور نہ اس نکالے گئے پرزے سے وہ کام لیا جاسکتا ہے جو پوری مشین کے کرنے کا تھا، اسی طرح اسلام کے کسی ایک قانون کو نافذ کردیا جائے اور اس کے دیگر احکام پر عمل نہ کیا جائے تو اس سے بھی مطلوبہ فائدے حاصل نہیں ہوسکتے۔
ہر انسان میں فطری طور پر جنس (Sex) کی خواہش پائی جاتی ہے۔ اس کے تعلق سے مختلف رویّے اختیار کیے گئے ہیں۔ایک رویّہ جنسی خواہش کو دبانے اور کچلنے کا ہے تو دوسرا رویہ اس کے معاملے میں ہر طرح کی آزادی کی وکالت کرتا ہے۔ اسلام نہ تو جنسی جذبہ کو دبانے اور کچلنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ انسان کو کھلی چھوٹ دے دیتا ہے۔ وہ ہر انسان کو اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کا حق دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس نے اس کی تکمیل کو نکاح کا پابند بنایا ہے اور اس سے ماورا کسی طرح کا تعلق رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔اس کی نظر میں جتنا سنگین جرم زنا بالجبر ہے، اتنا ہی سنگین جرم زنا بالرضا بھی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی بھی لڑکا یا لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد بغیر نکاح کے نہ رہیں، بلکہ جلد از جلد نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں۔ چنانچہ وہ ان کے سر پرستوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا اور ان کا نکاح کرادینے کی تلقین کرتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے نکاح کی صرف ترغیب ہی نہیں دی، بلکہ اسے آسان بنانے کے صریح احکام دیے ہیں۔
ایک چیز یہ بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد انسان کی بھرپور تربیت کرتے ہیں اور اسے زندگی کے کسی معاملے میں بہکنے سے بچاتے ہیں۔ ان عقائد پر ایمان سے آدمی کی زندگی سنورتی اور اس میں پاکیزگی آتی ہے۔ خاص طور پر دو عقائد کا کردار اس معاملے میں بہت نمایاں ہے:ایک یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجود ہے اورہر انسان کو دیکھ رہا ہے۔ وہ کوئی کام چاہے علانیہ کرے یا چھپ کر، اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کی خبر ہوجاتی ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔دوسرا عقیدہ آخرت کاہے۔ اس کے مطابق یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ دنیا فنا ہوجائے گی اور دوسری دنیا برپا ہوگی۔ اس میں تمام انسان دوبارہ پیدا کیے جائیں گے اور ان سے اس دنیا میں کیے گئے ان کے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ جن لوگوں نے یہاں اچھا کام کیے ہوں گے انھیں جنت عطا کی جائے گی، جس میں طرح طرح کی نعمتیں ہوں گی اور جن لوگوں نے یہاں برے کام کیے ہوں گے انھیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا، جس میں تکلیف و اذیت کا ہر سامان موجود ہوگا۔ اس کے علاوہ اسلام نے ہر فرد کے اندر حیا کا جذبہ ابھارا ہے۔یہ جذبہ اسے بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے۔ اگر کسی کے اندر حیا نہ ہو تو وہ غلط سے غلط کام کا ارتکاب کرسکتا ہے۔
اسلام نے افراد کے لیے جنسی آسودگی فراہم کرنے کے ساتھ معاشرہ کی پاکیزگی قائم رکھنے کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ یہ تدابیر افراد کو جرائم کا ارتکاب کرنے سے باز رکھتی ہیں اور جنسی جرائم کے تمام ممکنہ چور دروازوں کو بند کرتی ہیں۔ مثلاً اس نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بدنگاہی سے بچیں اور آبرو کی حفاظت کریں۔ اس کی ایک تعلیم یہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت کسی نامحرم کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے۔ وہ مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط پسند نہیں کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ مرد اور عورتیں گھل مل کر نہ رہیں،اس لیے کہ مخلوط طور پر رہنے سے ان میں صنفی جذبات ابھرنے کا امکان رہتا ہے اور یہ چیز بسا اوقات بدکاری تک پہنچا سکتی ہے۔اسلام کی ایک ہدایت یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔وہ اپنی ضروریات کے لیے مختصر مسافت تک تو تنہا نکل سکتی ہے، لیکن دور کی مسافت پر تنہا جانا اس کے لیے روا نہیں ہے۔اسلام نے حکم دیا ہے کہ کوئی عورت سج دھج کر گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ باہر نکلتے وقت خوشبو لگائے۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسا کرے گی تو اجنبی مردوں کی نگاہیں اس کی جانب اٹھیں گی اور ان کے صنفی جذبات مشتعل ہوں گے، اس وجہ سے اس پر دست درازی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔اسلام کا ایک حکم یہ ہے کہ عورتیں ایسا لباس پہنیں جو ان کے پورے جسم کو (سوائے چہرہ اور ہاتھ کے) چھپانے والا ہو۔ نہ ان کا سر کھلا ہو، نہ گریبان چاک ہو اور نہ لباس اتنا شفّاف ہو کہ ان کا بدن جھلکتا ہو۔ وہ غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں۔
درج بالا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ اسلام نے ان چیزوں پر بھی پابندی عائد کی ہے جو بدکاری پر ابھارنے والی اور مردوں اور عورتوں میں صنفی جذبات برانگیختہ کرنے والی ہیں۔چنانچہ اس نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔شراب کے بارے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ شراب پینے کے بعد آدمی اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا اور بھلے برے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ اسے کچھ پتہ نہیں رہتا کہ کب کیا حرکت کر بیٹھے؟ اسی طرح شراب سے آدمی کے صنفی جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور رشتوں کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ظاہر ہے، جب اسلام کے نزدیک شراب نوشی حرام ہے تو وہ شراب کی فیکٹریاں قائم کرنے اور اس کا کاروبار چلانے کی کیوں کر اجازت دے سکتا ہے!اسی طرح اسلام سماج میں فحاشی کی اشاعت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ وہ ان تمام چیزوں پر پابندی عائد کرتا ہے جن کے ذریعے بے حیائی اور عریانی عام ہو، گندی باتوں اور گندے کاموں کا پرچار ہو، جنھیں دیکھ کر اور سن کر عوام کے صنفی جذبات بھڑکیں اور برائی اور بدکاری کی جانب ان کا میلان ہو۔ موجودہ دور میں سماج میں فحاشی، بے حیائی اور عریانی پھیلانے والی بہت سی چیزیں رواج پا گئی ہیں، مثلاً گندی فلمیں، عریاں پوسٹر اور اشتہارات، بے حیائی کا پرچار کرنے والے رسائل، انٹرنیٹ پربے شمار عریاں سائٹس وغیرہ۔ سماج کے لیے ان چیزوں کا ضرر رساں ہونا کھلی حقیقت ہے، لیکن چوں کہ انھوں نے انڈسٹریز کی شکل اختیار کرلی ہے اور ان سے حکومت اور سربر آوردہ طبقہ کو خطیر رقمیں حاصل ہوتی ہیں اس لیے ان کی خطرناکی کو نظر انداز کرکے انھیں خوب بڑھا وا دیا جا رہا ہے۔
ان تعلیمات اور ہدایات کے بعدآخر میں اسلامی قانون اپنا کام کرتا ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود سماج میں کچھ ایسے بدخصلت افراد ہوسکتے ہیں جو بدکاری میں ملو ّث ہوجائیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اسلام درد ناک سزا تجویز کرتا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ زنا کرنے والے غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکی، ہر ایک کو سو کوڑے مارے جائیں اور اگر وہ شادی شدہ ہوں تو انھیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے۔
معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے کے لیے اسلام کی ان تعلیمات کے اثرات کا دنیا نے اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ عرب کا معاشرہ فسق و فجور کے دلدل میں غرق تھا، عصمت و عفّت کے کوئی معنیٰ نہیں تھے۔ اسلام کی ان تعلیمات کے نتیجے میں ان کی زندگیاں پاکیزہ ہوگئیں اور عورت کو عزت و توقیر حاصل ہوئی۔ بعد کے ادوار میں جہاں جہاں ان تعلیمات پر عمل کیا گیا اور ان احکام کو نافذ کیا گیا وہاں سماج پر ان کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے۔ آج بھی جو لوگ سماج میں برائیوں کو پنپتا دیکھ کر فکر مند ہیں اور آبرو ریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے اسلامی سزا کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اسے نافذ کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر وہ سنجیدہ ہیں تو انھیں پورے اسلامی نظام معاشرت کو قبول کرنا اور اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، تبھی مطلوبہ فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور معاشرہ کی پاکیزگی قائم رکھی جاسکتی ہے۔
انصاری طوبیٰ ارم،مالیگاؤں
اگر ہم اسلام کے عروج کی تاریخ دیکھیں،تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ عورتوں کے عروج کی بھی تاریخ ہے۔ عورت نے جہاں سلام سے جلا حاصل کی ہے، وہیں شمع اسلام کو تابناک بنانے میں بھی انگنت عورتوں کا ہاتھ ہے۔اسلام کی تاریخ کبھی بھی انہیں فراموش نہیں کر سکے گی۔ ہم تاریخ اسلام پر اگر سرسری نظر بھی دوڑائیں،تو ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک اور آج کے اس نئے دور تک ان ادوار میں ہزاروں عورتوں کی ناقابل فراموش داستانیں ملتی ہیں،جنہوں نے اسلام کو ایک اعلی اور بہترین مذہب بن جانے میں مدد کی۔ یہی عورتیں کہیں حضرت سارہ رضی اللہ تعالی عنہاکے روپ میں تو کبھی حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے روپ میں تو کبھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے روپ میں، کبھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے روپ میں اورکبھی ام عمارہ رضی اللہ تعالی عنہا جیسی دلیر عورت کے روپ میں قصر اسلام کو اپنے نازک ہاتھوں سے فلک بوس بنانے میں مشغو ل رہیں۔
ہم اپنے خیالات کو ان وادیوں میں لے جائیں،جہاں تحریک اسلامی کے اصول و نظریات ہی نہیں ان کے ساتھ شرعی قوانین بھی مکمل ہو رہے تھے،یعنی اللہ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت جیسے عہدہ پر فائز کرتا ہے، تو حضرت خدیجہ جیسی بااثر دانشور ایثار و قربانی کرنے والی بیوی عنایت ہوتی ہے۔ پھر جب محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا سے واپس گھر تشریف لاتے ہیں،تو فرماتے ہیں چادر اڑھا دو! بیوی حال پوچھتی ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اب تک جو شوہر تھے،وہ نبی جیسے جلیل القدر عہدہ سے سرفراز ہوئے ہیں۔اسوقت اس بیباک خاتون نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بے شک آپ کے اندر یہ ساری خوبیاں ہیں،آپ بے شک نبی ہیں۔ اس وقت آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دے کر آپ کی ہمنوا بن کر تحریک اسلامی کوپھلنے پھولنے کا جوموقع دیا ہے،اسکی وجہ سے تاریخ اسلام آپ پر ناز کرتی ہے۔اگر یہی خاتون آپ کے ستائے جانے پر آپ کے دل پر اپنی حمایت یافتہ گفتگو سے مرہم نہ رکھتی،تو تحریک اسلامی کی ابتدائی تاریخ کا یہ باب اتنا درخشاں نہ ہوتا۔اس کا ثبوت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیاری پیاری باتیں ہیں، جو اکثر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے”خدا نے مجھے حضرت خدیجہ جیسی اعلی مرتبت بیوی عطا فرمائی“۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جو اسلامی خدمات انجام دیں، ان سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو جس طر ح آگے بڑھایا، قرآن کی بہت ساری آیتیں اس کی گواہ ہیں۔ علم و حکمت اور قوانین شرع سے بھرپور سورتیں جیسے سورہ نور، سورہ مریم وغیرہ۔عورتوں کے متعلق قرآنی احکام، عورتوں کے متعلق کھلے اورچھپے بھیدوں پر شریعت کی حدود اور مسائل اس فصاحت کے ساتھ امت کو ہرگز نہ مل سکتے،جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ذہانت کی بدولت بیان ہوئے۔ اپنی سوکنوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیاجائے، سوتیلی اولاد سے کس طرح پیش آیاجائے، شوہر کی فرمانبرداری کس حد تک کی جائے، پھرجب عورت بیوہ ہوجائے،تو دو روٹیوں کے لئے فکر کرے یا شوہر کے مشن کو ترقی دینے میں لگ جائے؟ ان سارے سوالوں کے جوابات ہمیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اور دوسری صحابیات کے ذریعے ملتے ہیں۔
ان باتوں سے ہٹ کر میدان جنگ کی طرف بھی اگرہم دیکھیں،تو وہاں بھی انگنت ایسی بہادر عورتیں ہمیں نظر آئیں گی، جو بہت ساری جنگوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ کر خونخوار سورماؤں سے نبردآزما ہوئیں۔ جن ہاتھوں کو آج کمزور چوڑیوں کاقیدی سمجھ لیا گیا ہے،کل جب ان ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں اور وہ ہاتھ حرکت میں آئے تو آہنی اور فولاد میں ڈوبے ہوئے لشکر اور تلوار و ڈھال بھی انکا مقابلہ نہ کرسکی۔کیا زمانہ ام عمارہ رضی اللہ عنہا کو بھلا سکے گا، جنھوں نے احد کے میدان میں اپنے شوہر اور اپنے لخت جگر کو بھی راہِ خدا میں قربان کر دیا اور جن کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہے بنا نہ رہ سکے کہ ”اے ام عمارہ! آج جو طاقت تمہارے اندر ہے، وہ کسی دوسرے میں کہاں،آج ہر بہادر نے شجاعت کے جوہر دکھائے، مگر ام عمارہ کا کارنامہ تو سب پر بھاری پڑ گیا“۔
اگرچہ عورت کمزور ہے اور کمزور سمجھی جاتی ہے، مگر اس عورت نے اپنی تربیت سے ایسیمایہ ناز ہستیوں کو سنوارا ہے، جن کے دم سے آج اسلام ہمارے سامنے صحیح روپ میں جلوہ گر ہے۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
ہندوستان میں زناکاری کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ چند روز قبل حیدرآباد میں ہوئے شرمناک واقعہ نے شریف لوگوں کی نیند حرام کردی جس میں ایک خاتون ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت دری کرکے اسے زندہ جلا دیا گیا۔ دوسری طرف سنبھل سے ۱۰ کیلومیٹر فاصلہ پر مرادآباد روڑ پر واقع سرسی نامی قصبہ میں ایک لڑکی کی عصمت دری کرکے اسے بھی زندہ جلا دیا گیا۔ ۲۰۱۷ء میں لکھنؤ چنڈی گڑھ ٹرین میں بجنور کے قریب ہوئے ایک روزہ دار مسلم خاتون کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعہ نے تو انسانیت کو ہی شرمسار کرڈالا تھا۔ ۲۰۱۲ء کے نربھیا واقعہ نے بھی پورے ہندوستان کے لوگوں کے سکون کو ختم کردیا تھا۔ گنتی کے صرف چند واقعات ہی عام لوگوں کے سامنے آتے ہیں ورنہ موجودہ دور میں روزانہ بے شمار لڑکیاں ظالموں کی ہوس کا شکار بنتی ہیں جو اپنی اور گھر والوں کی آبرو کی حفاظت ظالموں کے خلاف شکایت درج نہ کرنے میں سمجھتی ہیں۔ ایسے مواقع پر پولیس کے رویہ سے بھی لوگ ناراض رہتے ہیں کہ وہ وقت پر شکایت درج نہیں کرتی یا کاروائی کرنے میں اتنی تاخیر کرتی ہے کہ مجرموں کو فرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ یقینا اب ہندوستانی قوانین کے مطابق ایسے مجرموں کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہئے مگر عدالتی نظام میں بعض پیچیدگیوں کی وجہ سے مجرم یا تو چھوٹ جاتا ہے یا سزا کا فیصلہ اتنی تاخیر سے آتا ہے کہ اس سے عبرت حاصل نہیں ہوتی۔ ایک بار پھر لوگ خاص کر خواتین بی جے پی حکومت سے اپنی حفاظت کا مطالبہ کرنے کے لئے سڑکوں پر آکر جگہ جگہ احتجاج کررہی ہیں۔ نیز یہ بات بھی مسلّم ہے کہ صرف چند مجرموں کو پھانسی دے کر اس مہلک بیماری پر قابو پانا آسان نہیں ہے۔ اسلام میں متعین سزا اور اس سے بچنے کی تدابیر پر عمل ہی اصل میں اس جرم عظیم کا سد باب ہے۔ آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں سمجھیں کہ زنا کیا ہے؟، زنا کے اسباب کیا ہیں؟، زنا کے اقسام کیا ہیں؟، اس جرم عظیم سے کیسے بچا جائے؟ اور اسلام میں زانی کی سزا کیا ہے؟
نکاح کے بغیر کسی مرد وعورت کا مباشرت (Intercourse) کرنا زنا کہلاتاہے خواہ وہ طرفین کی اجازت سے ہی کیوں نہ ہو۔ اصل میں زنا نکاح کے بغیر مرد کی شرمگاہ کا عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونے کا نام ہے لیکن میاں بیوی کے علاوہ کسی بھی مردو عورت کا ایک دوسرے کو شہوت کی نظر سے دیکھنا یا ایک دوسرے سے جنسی شہوت کی بات چیت کرنا یا ایک دوسرے کا تنہائی میں ملنا یا ایک دوسرے کو چھونا یا بوسہ لینا بھی حرام ہے۔ ان افعال کو بھی سارے نبیوں کے سردار حضور اکرم ﷺ نے زنا کی قسم قرار دیا ہے، اگرچہ ان افعال کی وہ سخت سزا نہیں ہے جو اصل زنا کی ہے۔ قتل، ظلم، جھوٹ، دھوکہ دھڑی اور چوری کی طرح زنا بھی ایک ایسا جرم عظیم ہے کہ تمام مذہب میں نہ صرف سختی کے ساتھ اس بڑے گناہ سے منع کیا گیا ہے، بلکہ زنا کرنے والے مرد وعورت کے لیے سخت سے سخت سزا بھی متعین کی گئی ہے ۔ نہ صرف اسلام بلکہ عیسائی اور یہودی مذہب میں بھی اس جرم عظیم کے مرتکبین کی سزا رجم (سنگ باری) ہے۔ یہ ایسا بڑا گناہ ہے کہ دنیامیں اس سے زیادہ بڑی سزا کسی دوسرے جرم کی متعین نہیں کی گئی کیونکہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک تمام انسانی معاشروں نے اس جرم عظیم پر نہ صرف لعنت بھیجی ہے بلکہ ایسے اعمال سے بچنے کی تعلیم بھی دی ہے جو زنا کی طرف لے جانے والے ہوں۔
انسانی فطرت بھی خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے ورنہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ جانوروں کی صف میں کھڑا ہوجائے گا۔ دنیا کی بقا بھی اسی میں ہے کہ زنا کو حرام قرار دیا جائے اور اس کے مرتکبین کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ تمام پرندوں، چرندوں، درندوں اور اللہ کی دیگر مخلوقات پر حکومت کرنے والے حضرت انسان محض جنسی شہوت کو پورا کرنے کے لیے یہ دنیاوی زندگی گزارنے لگے کہ جب چاہا اور جس سے چاہا لطف اندوز ہوگیا تو انسانی تمدن ہی ختم ہوجائے گا کیونکہ مرد وعورت میں نکاح کے عمل کے بعد صحبت کے نتیجہ میں اللہ کے حکم سے اولاد پیدا ہوتی ہے، ماں باپ اسے اپنی اولاد اور مستقبل کا سہارا سمجھ کر ان کے لیے تمام دشواریوں اور پریشانیوں کو برداشت کرتے ہیں، ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرتے ہیں، نیز دوسروں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس کا بچہ یا بچی ہے تو رشتہ داری بنتی ہے اور پڑوس بنتا ہے، جس سے ایک دوسرے کے حقوق معلوم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک معاشرہ بنتا ہے۔ اگر انسانوں کو بھی جانوروں کی طرح آزاد چھوڑ دیا جاتا تو انسانی تمدن کا خاتمہ ہوکر یہ دنیا بہت پہلے ہی ختم ہوچکی ہوتی۔
زنا بہت بڑا گناہ ہے: اسلام نے صرف زنا کو حرام نہیں قرار دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیاکہ زنا کے پاس بھی نہ بھٹکو۔ وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی اور بے راہ روی ہے۔ (سورۃ الاسراء ۳۲) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زنا کو فاحشہ قرار دیا ہے۔ سورۃ الانعام آیت ۱۵۱ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے حیائی (فواحش) کے کاموں کے پاس بھی نہ بھٹکو ،چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی۔ سورۃ الاعراف آیت ۳۳ میں اللہ تعالیٰ فواحش یعنی بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دے کر ارشاد فرماتا ہے: کہہ دو کہ میرے رب نے تو بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی۔ سورۃ الفرقان آیت ۶۷ میں ایمان والوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اور وہ نہ زنا کرتے ہیں۔ جو شخص بھی یہ کام کرے گااُسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قیامت کے دن اُس کا عذاب بڑھا کر دوگنا کردیا جائے گا۔ اور وہ ذلیل ہوکر اُس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ حدیث کی سب سے معتمد کتاب (بخاری) میں وارد احادیث میں سے چند احادیث پیش ہیں تاکہ موجودہ زمانہ میں پھیلتے ہوئے اس گناہ سے خود کا بچنا اور دوسروں کو بچانا ممکن ہوسکے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کی شرطوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھ جائے گا، جہالت پھیل جائے گی۔ شراب پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا۔ (بخاری) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندہ جب زنا کرتا ہے تو مومن رہتے ہوئے وہ زنا نہیں کرتا۔ (بخاری) یعنی ایمان کی نعمت اُس وقت چھین لی جاتی ہے یا ایمان کا تقاضا ہے کہ کوئی بھی شخص زنا نہ کرے یا وہ شخص کامل مؤمن نہیں جو زنا کرے۔
زنا کے اسباب: (۱) نامحرم کو بلاوجہ دیکھنا: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آنکھوں کا زنا بد نظری ہے، اور کانوں کا زنا غلط بات سننا ہے، اور زبان کا زنا غلط بات بولنا ہے، اور ہاتھ کا زنا غلط چیز کو پکڑنا ہے، اور پیر کا زنا برے ارادے سے چلنا ہے، اور دل خواہش اور تمنا کرتا ہے اور پھر شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ (بخاری) (۲) غیر محرم کے ساتھ باتیں کرنا: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عورتوں کو حکم دیا کہ اگر انہیں کسی وقت غیر محرم مرد سے گفتگو کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اپنی آواز میں لوچ اور نرمی پیدا نہ ہونے دیں، اور نہ ہی الفاظ کو بنا سنوار کر باتیں کریں۔ ارشاد باری ہے: اور نہ ہی چبا کر باتیں کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ تمنا کرنے لگے۔ اور تم معقول بات کرو۔ (سورۃ الاحزاب ۴) عورت کی آواز اگرچہ ستر نہیں ہے، یعنی ضرورت کے مطابق عورت غیر محرم سے بات کرسکتی ہے مگر اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر عورت کی آواز میں کشش رکھی ہے۔ اسی لیے عورت کو فقہاء نے اذان دینے سے منع کیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع کیا کہ مرد اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے سامنے نرمی سے بات چیت کرے جس سے عورت کو مرد میں دلچسپی پیدا ہوجائے۔ (النہایہ) اِن دنوں سوشل میڈیا کے زمانے میں غیر محرموں سے چیٹنگ کرنا، مختلف فوٹو شیئر کرنا اور آن لائن بات چیت کرنا کافی عام ہوگیا ہے، لیکن یہ بہت خطرناک بیماری ہے، اس سے اپنے بچوں اور بچیوں کو حتی الامکان محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا ضروری ہے کیونکہ یہی وہ راستے ہیں جن کے ذریعہ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں جن سے نہ صرف گھر اور خاندان کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ آخرت میں بھی دردناک عذاب ہوتا ہے۔ (۳) تاخیر سے شادی: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے نوجوانوں! جو تم میں سے جسمانی اور مالی استطاعت رکھتا ہے وہ فوراً شادی کرلے کیونکہ شادی کرنے سے نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت ہوجاتی ہے۔ (بخاری) اِن دنوں کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے شادی میں عموماً تاخیر ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہمیں حتی الامکان بچوں اور بچیوں کی شادی میں زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ (۴) اجنبی مرد وعورت کا اختلاط: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے۔ (ترمذی) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب اجنبی مرد وعورت ایک جگہ تنہائی میں جمع ہوتے ہیں تو ان میں تیسرا شخص شیطان ہوتا ہے، جو اُن کوگناہ پر آمادہ کرتا ہے۔ (مسند احمد) اِن دنوں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مشترک تعلیم کی وجہ سے اجنبی مرد وعورت کا اختلاط بہت عام ہوگیا ہے۔ نیز خواتین کا ملازمت کرنے کا مزاج دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ خواتین یقینا شرعی پابندیوں کے ساتھ قرآن وحدیث کی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علوم حاصل کرسکتی ہیں، اسی طرح ملازمت اور کاروبار بھی کرسکتی ہیں۔ لیکن تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں رائج موجودہ تعلیمی نظام اور دفاتر میں کام کرنے والی بے شمار خواتین جنسی استحصال کی شکار ہوتی ہیں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم نہ دلائیں یا خواتین کا ملازمت کرناحرام ہے، لیکن زمینی حقائق کا ہم انکار نہیں کرسکتے۔ اس لیے بچوںاور بچیوں کی تعلیم کے لیے حتی الامکان محفوظ اداروں کو اختیار کریں کیونکہ بہر حال اس دنیا کو الوداع کہہ کر ایک دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوکر دنیاوی زندگی کا حساب دینا ہے۔
زنا کاری سے بچنے کی اہمیت: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے دن گرمی اپنے شباب پر ہوگی اور ہر آدمی کو بمشکل دو قدم رکھنے کے لیے جگہ ملے گی، مگر اس سخت پریشانی کے وقت بھی) سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے (رحمت کے) سایہ میں جگہ عطا فرمائے گا، اور اس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ان ساتوں اشخاص میں سے ایک شخص وہ ہے جسے خوبصورت اور اچھے خاندان کی لڑکی بدکاری کی دعوت دے تو دہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھے اپنے دونوں ٹانگوں کے درمیان (شرمگاہ) کی اور اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان (زبان) کی ضمانت دی یعنی حفاظت کی تو میں اسے جنت کی ضمانت دوں گا۔ (بخاری) رشتہ سے قبل لڑکا اور لڑکی کا ایک دوسرے کو دیگر حضرات کی موجودگی میں دیکھنے اور حسب ضرورت بات کرنے کی شرعاً اجازت ہے، لیکن رشتہ کے بعد نکاح کے بغیر لڑکے اور لڑکی کا ساتھ سفر کرنا یا خلوت میں ملنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر نکاح ہوچکا ہے لیکن رخصتی نہیں ہوئی ہے تو دونوں کو ملنا اور بات چیت کرنا شرعاً جائز ہے۔
اسلام میں زانی کی سزا: سارے نبیوں کے سردار حضرت محمد ﷺ نے اپنے قول وعمل کے ذریعہ بیان فرمایا کہ سورۃ النور (آیت ۱ سے ۹ تک) میں وارد حدِّ زنا اُس مردو عورت کے لیے ہے جس نے ابھی شادی نہیں کی ہے اور زنا کا خود اعتراف کیا ہے یا چار گواہوں کی چند شرائط کے ساتھ گواہی سے زنا کا ثبوت ہوا ہے، یعنی اُس کو ۱۰۰ کوڑے ماریں جائیں۔ لیکن اگر زنا کرنے والا شادی شدہ ہے تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے قول وعمل سے بتایا کہ اُس کی سزا رجم (سنگساری) ہے۔ صحابۂ کرام نے بھی شادی شدہ شخص کے زنا کرنے پر رجم (سنگساری) ہی کیا۔ لیکن یہ ذمہ داری صرف اسلامی حکومت کی ہے، کسی شخص یا تنظیم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو سنگساری کی سزا دے۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے حد جاری نہیں کی جاسکتی ہے، ہاں مسلمان سے ایسا گناہ ہونے پر پہلی فرصت میں اسے توبہ کرنی چاہئے اور پوری زندگی اس جرم عظیم پر اللہ تعالیٰ کے سامنے رونا اور گڑگڑانا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادے اور آئندہ زنا کے قریب بھی نہ جاناچاہئے کیونکہ زنا کرنے والے شخص سے اللہ تعالیٰ بات بھی نہیں فرمائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے اگر زنا سے سچی توبہ نہیں کی۔
میم ضاد فضلی
نطشے نے کہا تھا’’خدا کی موت واقع ہو گئی‘‘۔ بظاہر لغو نظر آنے والے اس بیان کا وہ مطلب نہیں جو اس کے الفاظ بتا رہے ہیں۔ تمام فلسفی کچھ نہ کچھ’’کھسکے‘‘ ہوئے ضرور ہوتے ہیں، بزعم خود کوئی نقطہ ہاتھ لگ جائے تو اس کے اظہار میں ضرورت سے زیادہ دبنگ ہو جاتے ہیں۔
اس کی رائے میں انسان علمی اور شعوری میدان پر اس درجہ ترقی یافتہ ہو چکا کہ اب اسے اپنے اخلاقی وجود اور روزمرہ زندگی کے لیے خدا جیسے ماورائی تصور کی حاجت نہیں رہی تھی۔ اب کسی’’خدا‘‘ کے ’’ہونے‘‘ کی ضرورت باقی نہیں تھی؛کیونکہ اب تمام ’’جوابات‘‘ خود انسان کی دسترس میں تھے۔ تصورِ خدا کا کچھ عملی استعمال اب باقی نہیں رہ گیا تھا۔ کوئی بھی شے یا تصور اس وقت اپنی حیثیت کھو بیٹھتا ہے،جب اس کے استعمال کے مواقع مفقود ہو جائیں۔ گویا غیر متعلق ہو جانادرحقیقت معدوم ہو جانا ہے۔نطشے نے یہاں ٹھوکر کھائی۔اسے یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ خدا کسی تصور کا نام نہیں، وہ تو ایک ’’الحی‘‘ اور’’القیوم‘‘ ہستی ہے۔ ایک ایسی زندہ ہستی،جس کی وجہ سے باقی سب کچھ ممکن اور موجود ہے۔ نطشے جیسے کئی آئے اور گئے؛ لیکن وہ جوخلاقِ دوعالم ہے ،حیٌ قیومٌ لایموت ہے، اپنے تخت پر پورے جاہ و جلال سے متمکن ہے اور اپنے بندوں کو اپنی موجودگی اور اہمیت کا ہمہ وقت احساس دلاتا رہتا ہے۔قصہ مختصر یہ کہ ہر آخری’’کیوں‘‘ کا جواب وہی اور ہر ٹوٹتی امید کا آخری سہارا بھی وہی ہے۔
لیکن یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اگر نطشے آج موجود ہوتا اور مسلمانوں کے اطوارکو دیکھ کریہ کہتا کہ اسلام کی ’’موت‘‘ واقع ہوگئی ہے، تو اس کا رد کرنا قریب قریب ناممکن ہوتا۔
جی ہاں! بالکل ویسے ہی، جیسے نطشے نے تصورِ خدا کے متعلق اپنا مقدمہ رکھا،جس کے ساتھ تعلق صرف نام کا رہ جائے اور حقیقت میں آپ اس سے الگ رہ کر زندگی بسر کرنے پر آمادہ نظر آئیں، اس کے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اسلام ہمارے لیے بظاہر اب صرف ایک نام برائے نام ہے۔ اس کی تعلیم اور احکام بالخصوص معاشرتی و سماجی پہلو ہمارے لیے متروک ہو چکے ہیں، مکمل طور پر Non Operative۔
شناخت اور عمل کا بالکل الگ ایک نظام اس کی جگہ لے چکا ہے۔ اسے ہم نرم الفاظ میں مکاتب ہائے فکر یا مسالک کہہ لیتے ہیں اور ذرا زیادہ سخت/حقیقت پسندانہ الفاظ میں اسے فرقہ بندی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس گروہ بندی کے مؤثر ہونے کا اندازہ صرف اس بات سے کر لیجیے کہ اگر آپ اسلام کے نام پر لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش کریں، تو ہزارہا مشکلات راہ میں مزاحم ہو جائیں گی،بہت سے سوالات اٹھائے جائیں گے،جن کی اکثریت آپ کی نیت اور’’اصل اہداف‘‘ پر بھی چوٹ کردے گی،یہاں تک کہ آپ کاحوصلہ جاتا رہے گا۔ پھر بھی اگر مگر اور چونکہ، چنانچہ کا لامتناہی سلسلہ اور نتیجہ قریباً صفرپرجاکر ختم ہوجائے گا،یعنی آپ اسلام کے نام پر اس کے ماننے والوں کو کبھی بھی یکجاکرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے ۔ البتہ اگر معاملہ مسلک سے متعلق ہے، تو بلا رد و کد، ناقابل یقین سرعت کے ساتھ ایک جمعیت مرنے مارنے تک کو تیار ہو جائے گی۔
ہمارے ہاں افعال، برتاؤ اور ایک دوسرے سے قرب و بعد کے معاملات بھی اسی نئے نظام کے زیر اثر ترتیب پاتے ہیں۔ اسلام کی مطلوب سماجی ساخت سے تعلق بس اتنا ہے کہ رواداری اور حسن ظن کی سہولت جسے اسلام سب مسلمانوں؛بلکہ تمام انسانوں تک وسیع دیکھنا چاہتا ہے، اب صرف اپنے’’ہم مسلکوں‘‘ تک محدود ہے۔ اس حلقہ سے باہر کے سب لوگ اگر حریف نہیں بھی، تواجنبی ضرور ہیں۔
اس صورت حال کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلک کے ساگر میں مکمل طور سے غوطہ زن ہونے کے بعد اسلام کی طرف سفر شروع کرتے ہیں۔ بذریعہ قرآن اسلامی احکامات تک براہ راست رسائی یا ہدایت کشید کرنے کی کوئی صورت نہیں؛بلکہ یہ ایک طے شدہ فکری نظام کے ماتحت ہوتا ہے، جس میں اللہ کی کتاب کے اوامر و نواہی گروہی تشریحات کے ساتھ مشروط ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس کتاب کی اہمیت صرف اپنے نظام فکر کے دلائل کی فراہمی و دفاع تک سمٹ جاتی ہے۔ نیز سیاسی اور گروہی غلبہ کی خواہش سے مغلوب علمائے کرام اس بات کا خاص اہتمام کرتے ہیں کہ ان کے ہاں سے دین کی روح سمجھنے والے تیار ہوں نہ ہوں،البتہ مسلک کے کامریڈ ضرور جوق در جوق سامنے آئیں۔اب اس کیفیت کا لازمی نتیجہ وہی ہو سکتا ہے، جو مسجد، مدرسہ سے لے کر سوشل میڈیا تک ہم سب کے سامنے ہے۔
جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، یہ سب گروہ اپنی اپنی حد بندی اور رویہ میں شدید تر ہوتے چلے جاتے ہیں،تفریق کو قائم رکھنا؛ بلکہ بڑھانا اور بھی اہم ہو جاتا ہے؛تاکہ کوئی بھولا بھٹکا یہ نہ کہہ بیٹھے کہ اسلام کے مطلوب عقائد تو سب کے ہاں ایک سے ہیں، پھر یہ تفریق و عناد کیوں؟
اسی کیوں کا منہ بند کرنے کے لیے جو ایک آدھ بات دوسروں سے مختلف ہوتی ہے اور دین کے بجائے ذوق یا تاریخ کا مسئلہ ہوتی ہے، اس کے غبارے میں اس قدر ہوا بھری جاتی ہے کہ لگنے لگے کہ اصل اسلام تو بس یہی ہے۔ باقی سب فروعی معاملہ ہے، یعنی اصل دین فروع کہہ کر نظرانداز اور اپنی پسند یا اختراع ہی ایمان کا حقیقی معیارہوجاتا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے دوسرا گروہ تو اس کسوٹی پر خود بخود ہی ڈس کوالیفائی ہو جائے گا؛لہٰذا حق و باطل کے اس نئے (خود ساختہ) پیمانے کے تحت وہ اسلام ہی سے فارغ قرار دیدیا جائے گا، یہی معاملہ دوسرے گروہ کے ہاں ان کے لیے ہوگا۔
لطف کی بات؛بلکہ ٹکڑیوں اور ٹولوں میں تقسیم ہوچکی ملت کے لیے شرمناک بات یہ ہے کہ کشمکش مسلک کی ہوتی ہے اور ہم ایک دوسرے کو اسلام سے ہی خارج کردیتے ہیں،گویا اسلام وایمان کو ہم نے خالص اپنے لیے پٹینٹ کرا لیا ہے اور اس پر کسی دوسرے کادعویٰ قطعی ناقابل قبول ہوگا۔
اس تاریک شدت پسندی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دین کا داعی اور نمائندہ بننے کے بجائے مسلک کامحافظ ہونے کو زیادہ بڑا مقصد سمجھ لیا جاتا ہے؛ کیونکہ’’حق‘‘ کی سند تو مسلکی شناخت کے ساتھ وابستہ ہے۔ کسی بھی دیگر عصری معاملہ میں اگر مبدی اور آئیڈیل کے مابین 1000 میل کا فاصلہ ہے اور وہ ایک میل آئیڈیل کی جانب آجاتا ہے تو کہا جاتا کہ وہ اپنی منزل سے ایک میل قریب تر ہو گیا، جبکہ فرقہ بازی کی سوچ میں اگر وہ ہزار میل میں محض ایک میل کی دوری پر بھی ہو تو وہ ایک میل کی دوری زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ چونکہ اس سسٹم میں پارسائی اپنے عمل سے زیادہ دوسرے کی گمراہی سے نمو پاتی ہے؛ اس لیے اختلافی معاملات بہت اہمیت اختیار کر لیتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالی کی واضح ہدایت مشترکات پر فوکس کرنے کی ہے۔ مذہب کے نام پر قائم مسالک کے ضمن میں تو ایک فٹ کی دوری کو بھی ملی میٹرز میں بتایا جاتا ہے؛تاکہ فاصلہ زیادہ سے زیادہ دکھائی دے۔
عوام کو طفل تسلی دینے کے لیے امت کے اتحاد کی باتیں تواتر سے کی تو جاتی ہیں؛ لیکن یہ اہتمام بھی ساتھ ہی رہتا ہے کہ تقسیم واضح رہے، یعنی مذہب پر اپنے مسلک کی چودھراہٹ باقی رہے۔ جہاں ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے یا ایک دوسرے کے جنازوں میں شرکت سے نکاح ٹوٹ جاتے ہوں، وہاں اتحاد کے امکان کا خود ہی اندازہ کر لیں۔سچ تو یہ ہے کہ یاتو مسالک کی منافرت افروز حد بندیاں قائم رہ سکتی ہیں یا پھر اسلام کے نام پر امت کی شیرازہ بندی،دونوں بیک وقت برقرار نہیں رہ سکتے ۔ اس صورت میں صرف منافقت ہی باقی بچتی ہے اور وہ ہمارے پاس وافر مقدار میں موجود ہے ۔اب آپ خود دیکھ لیجیے کیا اس منظرنامہ میں اسلام کو’’زندہ‘‘ کہا جا سکتا ہے؟
لیکن اللہ کا دین مر نہیں سکتا، ہم کچھ نہیں کریں گے، تو اللہ تعالی اوروں کو لے آئیں گے، جو یہ کام کر دیں گے، اگر یہ کام ہونا ہی ہے تو ہم اور آپ ہی اس کو کیوں نہ کر دیں؟
آپ اپنے مکتب فکر پر ہزار بار قائم رہیے، کوئی مسئلہ نہیں، بس اتنا سمجھ لیجیے کہ باقی سب بھی وہ بنیادی کام کر رہے ہیں، جو اللہ تعالی نے اپنی رضا کے باب میں اپنی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے توسط سے ہمیں بتلائے ہیں۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج، انفاق وغیرہ
جو کام وہ مختلف کر رہے ہیں، اس پر اللہ تعالی ان سے خود ہی پوچھ لیں گے، جیسا کہ اپنی کتاب میں اللہ نے بار بار ہمیں بتایا۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ اعمال کا حساب شروع ہونے سے قبل باہمی کینہ اور تفرقہ بازی کی وجہ سے ہم سب ہی ڈِس کوالیفائی نہ ہوجائیں۔
08076397613