آغا شورش کاشمیری نے اپنی مشہور خود نوشت سوانح’’بوے گل،نالۂ دل،دودِچراغِ محفل‘‘میں ۱۹۳۶ میں گاندھی جی سے ملاقات کا احوال لکھا ہے۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی سیاست تیزی سے کروٹ بدل رہی تھی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا عفریت اپنے دہانے کھول رہا تھا۔شورش نے گاندھی سے ملاقات کے دوران کئی سوالات کیے،جن کے جواب گاندھی جی نے بڑے انشراح و اعتماد کے ساتھ دیا،جو ان کا انداز تھا۔ان سوالوں میں سے ایک سوال مسلم لیڈرشپ کے بارے میں تھا،انھوں نے پوچھا:
’’ مسلمانوں کی ناکامی کا سبب کیاہے؟‘‘۔
گاندھی نے جواب دیا:
’’میں سمجھتاہوں کہ ان میں کوئی شخص بھی فقیری کرنا نہیں چاہتا؛بلکہ فقیری سے اٹھ کر شہنشاہی کر رہا ہے۔قومی خدمت صرف فقیری کرنے سے ہوتی ہے‘‘۔
شورش نے گاندھی کے اس جواب کا خاص پس منظر بیان کیاہے؛لیکن اگر ہم پچھلے سو ڈیڑھ سو سال کی مسلم سیاست ،قیادت پر نظر ڈالیں تو گاندھی کی یہ بات کتنی سچی ہے؛بلکہ اگر آپ خالی الذہن ہوکر تحریکِ آزادی کے دوران صرف مسلمانوں کے پلیٹ فارم سے بننے والی سیاسی پارٹیوں کا سرسری جائزہ لیں،تو گاندھی کی اس بات کی سچائی اور بھی روشن ہوکر سامنے آئے گی ۔آزادی سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ درجنوں خالص مسلم سیاسی جماعتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ تمام مسلمانوں کی نمایندگی کا تھا۔خود مسلم لیگ جس نے مسلمانوں کے تحفظ و خود مختاری کے لیے پاکستان بنوایا،اس سے ٹوٹ کر اب تک وہاں لگ بھگ دودرجن سیاسی جماعتیں بن چکی ہیں۔ آزاد ہندوستان میں بھی ’’مسلم قیادت و سیاست‘‘کے کئی طوفان گزر چکے ہیں،اگر ان کی تاریخ دیکھ لی جائے ،تو اس سے بھی گاندھی کے ’’قومی خدمت‘‘اور ’’فقیری‘‘کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں۔
حالیہ پانچ چھ سالوں کے دوران حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں اور مبینہ سیکولر جماعتوں کی مسلمانوں سے کنارہ کشی کی وجہ سے جنوبی ہند کے سیاست داں اور ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کو میدان خالی ملا اور انھوں نے مسلم مسائل پر کھل کر بولنا شروع کیا،جس کے نتیجے میں مودی حکومت کے پہلے دور کے شروع ہوتے ہی وہ قومی سطح کے مسلم لیڈر بن گئے اور پھر بتدریج مسلمانوں کے بہت بڑے طبقے میں ایک بار پھر ’’اپنی قیادت‘‘ اور ’’اپنی سیاست‘‘ کو فروغ دینے کا جذبہ پیدا ہوا ہے،مگر حیرت ؛بلکہ المیہ ہے کہ ایسا ہر شخص اِس چکر میں ہے کہ اسی کو قائدِاعظم مان لیا جائے اور باقی سارے لوگ اس کی جھنڈا برداری کرتے نظر آئیں۔سوشل میڈیا پر مفکری کی باڑھ آئی ہوئی ہے اور چوک چوراہوں پر سیاسی پھکیت اپنی ہفوات کو اتنی خود اعتمادی سے پیش کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قوم کی نجات و ترقی کا تیر بہ ہدف نسخہ بس اسی مہاپرش کے پاس ہے۔
بہار الیکشن کے موجودہ منظرنامے پر غور کیجیے تو جو پارٹیاں مسلمانوں کے زخموں کا مداوا کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں،خود ان کی سمتیں بھی مختلف ہیں،مثال کے طورپر مجلس کسی اور اتحاد میں شامل ہے،جبکہ ایس ڈی پی آئی کسی دوسرے اتحاد کا حصہ ہے،جو کہ من حیث المجموع بہار الیکشن کا چوتھا اتحاد ہے۔ پھر مجلس کا اتحاد بھی بی ایس پی اور اوپندر کشواہا کی پارٹی سے ہے،جن کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کیا گل کھلائیں گے۔ مایاوتی کی تاریخ بھی پلٹی بازی کی ہے اور کشواہا تو خیر این ڈی اے کے ذریعے ہی قومی سیاست میں نمایاں ہوئے ہیں اور مرکزی وزیر بھی رہے ہیں۔اس اتحاد میں اور بھی پارٹیاں شامل ہیں،مگر مرکز میں یہی تینوں ہیں اور یہ اتحاد پورے بہار میں الیکشن لڑ رہاہے۔ایس ڈی پی آئی نے چندرشیکھر آزاد اور پپو یادو والے الائنس میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے اور یہ الائنس بھی پورے صوبے میں الیکشن لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ان سے ،خصوصاً مجلس سے وابستہ کارکنان کا ردِعمل عجیب و غریب ہے۔ عام طورپر وہ اپنا موقف معروضیت کے ساتھ رکھنے کی بجاے دوسروں پر تبرے بازی پر اتر آتے ہیں، جو سیاست کے علاوہ عام زندگی میں بھی حد درجہ مذموم ہے اور ایسی حرکتوں سے آپ کے انفرادی کیرکٹر کی ہی پول نہیں کھلتی،پوری جماعت کی اصل شبیہ سامنے آتی ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگ جو سیاسی طبع آزمائی کے لیے مجلس سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس امید میں تھے کہ الیکشن لڑنے اور’’اسلام کی خدمت کرنے‘‘کا موقع ملے گا،جب انھیں ’’کسی وجہ ‘‘سے ٹکٹ نہیں دیا گیا،تووہ ایک سے بڑھ کر ایک انکشاف کر رہے ہیں۔اب تک کئی لوگ سوشل میڈیا پر آکر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مجلس نے لیاقت کی بجاے پیسے کو ٹکٹ کا معیار بنایا ہوا ہے اور بہار کے صںدرِ مجلس سمیت ان کے بعض خاص معاونین پر بھی پیسے لے کر ٹکٹ دینے کے الزامات لگ رہے ہیں،حالاں کہ یہ بات تو سارا ملک جانتا ہے کہ دوایک پارٹیوں کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو مفت میں ٹکٹ نہیں دیتیں ؛لیکن اس کو سیاسی اخلاقیات یا مجبوری یا کچھ بھی کہیے کہ ایسی باتیں بس نجی محفلوں میں ہوتی ہیں،قومی سطح پر یہ کبھی موضوعِ بحث نہیں رہا۔
اب ان الزام لگانے والوں کی باتیں درست ہیں یا نہیں،اس کی وضاحت تو پارٹی کے ذمے داران کریں گے۔خبریں تو ایسی بھی آرہی ہیں کہ بعض ناراض کارکنان کو مجلس نے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، مگر اس پورے سلسلۂ واردات سے دوباتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ایک تو یہ کہ جو لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں ،مجلس کی قیادت کو کوس رہے ہیں اور اس کا بھانڈا پھوڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں،وہ کبھی بھی نہ مجلس کے تئیں مخلص رہے اور نہ اپنے اس دعوے میں کہ وہ مسلمانوں کے لیے فلاں فلاں تیر ماریں گے۔دوسری یہ کہ خود مجلس کو اُسی طرح کی ایک سیاسی پارٹی سمجھنا چاہیے،جیسی ملک کی دوسری بڑی چھوٹی پارٹیاں ہیں، جو موقع لگنے پر کسی سے بھی اتحاد کر سکتی ہے اور امیدواروں کے انتخاب میں اس کا معیار بھی وہی ہے،جو دوسری پارٹیوں کا ہے،باقی کہنے اور اپنے لوگوں کو Motivateکرنے کے لیے بے شمار باتیں ہوسکتی ہیں ۔اویسی بلا شبہ ایک قابل سیاست دان ہیں اور انھوں نے مسلمانوں سے متعلق مسائل پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، مگر ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں اور ان میں سے کچھ تو غیر مسلم بھی ہیں۔تو آپ اپنی صوابدید کے مطابق کسی بھی جماعت سے وابستگی اختیار کر کیجیے اور خلوص کے ساتھ سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیجیے ؛لیکن فکر و عمل میں اعتدال و وسطیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔نہ کسی کی حمایت میں اندھا ہوجانا چاہیے اور نہ مخالفت میں حد سے گزرنا چاہیے،دونوں صورتیں مضر ہیں اور ہر حال میں مضر ہیں۔ آپ مجلس کو بھی ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک سیاسی پارٹی مان کر چلیے اور اگر دل چاہے تو اس کے پلیٹ فارم سے کام کیجیے،ایسے میں اگر خدا نخواستہ پارٹی سے کبھی آپ کا’’موہ بھنگ‘‘بھی ہوا،تو زیادہ تکلیف نہیں ہوگی؛لیکن اگر کہیں یہ سوچ کر اس سے وابستگی اختیار کرلی کہ مجلس کے جیتتے ہی مسلمانوں کے سارے مسائل ہوا ہو جائیں گے اور اویسی ’’اردوانِ ہند‘‘ہیں ،پھر کسی موقعے پر پارٹی یا اس کے قائدین آپ کی امیدوں پر کھرے نہیں اترے،تو ایسے میں تکلیف شدید ہوگی؛بلکہ بہت شدید ہوگی۔
اسد الدین اویسی
نئی دہلی:اے آئی ایم آئی ایم کے صدراورحیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کورونا وائرس اور چینی حملہ آوروں سمیت دیگرامور پر مستقل طور پر مودی حکومت پر سوال اٹھارہے ہیں ۔ انھوںنے وزیر اعظم نریندر مودی پر طنز کیا ہے۔ اویسی نے وزیر اعظم مودی کے اقوام متحدہ (یو این) سے خطاب پرسوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کوٹیگ کیاہے اور کہا ہے کہ کیا آپ کی حکومت 80000 کروڑ روپئے کا بندوبست کرے گی۔انھوں نے مودی کے بیان پر کہاہے کہ گھرمیں اندھیراہے اورباہرروشنی بکھیررہے ہیں۔ملک بے روزگاری،معاشی بحران اورطبی بحران سے دوچارہے۔پیسوں کی قلت ہے اوروزیراعظم پوری دنیاکی مددکررہے ہیں۔
بہار الیکشن:تیسرے محاذ کی آہٹ تیز،کیاکشواہا،چراغ،پپویادو،یشونت سنہا اور اویسی آئیں گے ساتھ؟
پٹنہ:اب تک یہ خیال کیا جارہا تھا کہ بہار اسمبلی انتخابات دو بڑے اتحادوں کے مابین ہوں گے۔ یہ مانا جارہا تھا کہ مخصوص طبقات اور خاص ذاتوں میں اثر و رسوخ رکھنے والی چھوٹی پارٹیاں دو بڑے اتحادوں میں سے کسی ایک میں شامل ہوجائیں گی؛ لیکن اب یہ صورتحال نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ این ڈی اے سے لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی)اور عظیم اتحاد سے راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (آر ایل ایس پی) کے غیر مطمئن ہونے کے بعد تیسرے محاذ کی بنیاد پڑے گی۔ اگرپپو یادو کی جن ادھیکار پارٹی (جے اے پی) اور مکیش سہنی کی وکاس شیل انسان پارٹی (وی آئی پی) ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ آجاتی ہیں ، تو کچھ اور چھوٹی جماعتوں کو شامل کرکے ایک مؤثر تیسرا محاذ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ ایک امکان ہی ہے۔ پل پل سیاسی لیڈران کے بدلتے نظریات اور کسی اصول و نظریے کے تئیں پختہ عہد کے فقدان کی وجہ سے یقینی طورپر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
کشواہا کے سامنے اکیلے لڑنے یا تیسرے مورچے کا متبادل
پچھلے لوک سبھا الیکشن کے دوران رالوسپا عظیم اتحاد کا حصہ تھی۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ پارٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ انھیں تیجسوی کی قیادت کو قبول کرنے سےکوئی پرہیز نہیں ہے؛لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ تیجسوی کی سربراہی والی آرجے ڈی سے ان کا اتحاد ممکن نہیں ہے۔ان کی بات مانی جائے تو آرجے ڈی کی قیادت کسی اور کے سپرد کرنی ہوگی اور یہ ناممکن ہے۔پس یہ واضح ہے کہ کشواہا آرجے ڈی کی سربراہی والے کسی اتحاد میں شامل ہونے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ پھر تیجسوی ہی کی طرح انھیں نتیش کمار بھی قبول نہیں ہیں اور وہاں بھی ان کی یہ بات نہیں مانی جا سکتی کہ این ڈی اے نتیش کی جگہ کسی اور چہرے کو آگے کرے،تب اس سے جڑیں گے۔ اب دونوں طرف حوصلہ افزا صورت حال نہ ہونے کی وجہ سے کشواہا کے سامنے دو ہی متبادل ہیں،یا تو اکیلے الیکشن لڑیں اور یا پھر کسی تیسرے محاذ کے امکانات پر غور کریں ۔
چراغ پاسوان جگارہے ہیں تیسرے محاذ کی امید
تیسرے محاذ کی امید چراغ پاسوان بھی جگا رہے ہیں۔ انھیں بھی ریاست کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے کا شوق ہے۔ وہ جوان ہیں اور الیکشن میں کھونے کے لیے ان کے پاس بہت کچھ نہیں ہے۔ ایسا کہاجارہا تھا کہ چراغ جو کچھ کہہ رہے تھے اس کے پس پشت بی جے ہی تھی یعنی وہی کہلوا رہی تھی مگر چراغ جوش میں کچھ زیادہ ہی بولنے لگے جس کی وجہ سے بی جے پی نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اوپندر اور پپویادو کی طرح چراغ کو بھی نتیش کمار پسند نہیں ہیں ،ظاہر ہے کہ اس سے بھی تیسرے محاذ کے امکانات پختہ ہوجاتے ہیں۔
کیا پپو یادو بھی اس خیمے میں آسکتے ہیں؟
کشواہا کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ جن ادھیکار پارٹی کے سربراہ راجیش رنجن عرف پپو یادو کے دل میں بھی نتیش اور تیجسوی کے تئیں نرم گوشہ نہیں ہے۔یہ قدرِ مشترک کشواہا اور پپو یادو کو ایک اسٹیج پر لا سکتی ہے۔ ایک اور وجہ اور بھی یہ ہے کہ یہ دونوں رہنما پچھڑی برادریوں کو ایک حد تک ہی سہی،متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،حالاں کہ منفی پہلو یہ بھی ہے کہ ان دونوں رہنماؤں کو الگ الگ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا مگر نتیجہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔ جہاں پپویادو کی پارٹی دوہزار پندرہ میں ایک سیٹ بھی حاصل نہ کر سکی،وہیں کشواہا کی پارٹی پچھلے سال لوک سبھا الیکشن میں صفر پر سمٹ گئی۔ ہاں یہ تو ہے کہ الیکشن کی ہار جیت کا اثر نیتاؤں پر اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ وہ الیکشن ہی لڑنا چھوڑ دیں۔
اویسی اور یشونت سنہا بھی تیسرے محاذ کے حق میں
اتفاق کی بات یہ ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کے اسدالدین اویسی بھی تیسرے محاذ کی وکالت کر رہے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں سابق مرکزی وزیر دیوندر پرساد یادو کی پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ان دونوں کو کشواہا اور پپو یادو سے بھی پرہیز نہیں ہے۔ سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا تین ماہ سے بہار کے دورے کر رہے ہیں۔’بدلو بہار‘مہم کے تحت ان کے ساتھ کچھ اور سیاسی رہنما بھی جڑے ہوئے ہیں ۔ سابق ممبر پارلیمنٹ ارون کمار کی بھی ایک پارٹی ہے’بھارتیہ سب لوگ پارٹی‘،راشٹروادی کانگریس پارٹی بھی تیسرے محاذ کے لیے تیار ہے۔ کل ملاکر پانچ چھ پارٹیاں تیسرے محاذ کے لیے آمادہ نظر آرہی ہیں،یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے اور ان سب کو ملاکر ایک تیسرا محاذ آسانی سے بن سکتا ہے۔ اگر یہ محاذ تشکیل پاتا ہے،تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا،اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس محاذ میں امیدواروں کی بہتات ضرور ہوگی۔
حیدرآباد:اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کی دوسری بیٹی کی کل شادی ہوئی۔ کوروناکی وباکے پیش نظر اویسی کی رہائش گاہ پر منعقد شادی کی تقریب میں محدود تعداد میں مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ریاست کے وزیراعلیٰ چندر شیکھر راؤ ، وزیر صحت راجندر ، وزیر داخلہ محمدمحمودعلی کے علاوہ ٹی آر ایس کے بہت سارے بڑے لیڈروں نے بھی پرانا شہر ملارویدیوپلی کے تحت شاستری پورم میں اویسی کی رہائش گاہ میں گذشتہ رات شادی کی تقریب میں شرکت کی۔تلنگانہ کے مسلمان سکریٹریٹ کی مساجدکی شہادت پرچندرشیکھررائوسے سخت ناراض ہیں لیکن اویسی کی ان سے دوستی عام ہے۔ اس کے علاوہ ریاست کے چیف سکریٹری سومیش کمار ، ڈائریکٹر جنرل پولیس مہیندر ریڈی ، میونسپل پولیس کمشنر انجنی کمار وغیرہ کوپروگرام میں مدعو کیا گیا تھا۔
بہار اسمبلی الیکشن میں مجلس کی ’سیریس انٹری ‘سے وہاں کا سیاسی منظرنامہ خاصا ہنگامہ خیز ہوتا جارہا ہے۔ کل اویسی نے دویندر یادو کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے اور اس کے دائرے کو مزید وسیع کرنے کا عندیہ دے کر معاملے کو اور بھی توجہ طلب بنادیا ہے۔
یہ صورت حال دو پارٹیوں کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک ہے،ایک آرجے ڈی اور دوسری جے ڈی یو۔ چوں کہ اب تک بہار کے مسلمان زیادہ تر انہی دو پارٹیوں کو ووٹ دیتے آرہے ہیں،کانگریس ایک عرصے سے وہاں قابلِ ذکر پوزیشن میں نہیں ہے اور بی جے پی کو تو خیر مسلم ووٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ نتیش کمار نے جو لگاتار تین بار کامیابی حاصل کی،اس میں ان کے اپنے سیاسی توڑ جوڑ کے علاوہ مسلم ووٹ کا بھی خاص کردار رہا،انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں کچھ اہم اور بنیادی انفراسٹریکچر سے جڑے ہوئے کام بھی کروائے ،اس کا بھی انھیں فائدہ ہوا،’سوشاسن بابو‘انھیں لقب بھی مل گیا۔ البتہ 2015میں ان کو کامیابی عظیم اتحاد کے پلیٹ فارم سے ملی تھی،جس سے انھوں نےسال ڈیڑھ سال بعد ہی پلہ جھاڑ لیا اور واپس این ڈی اے میں چلے گئے۔ اس کے بعد موجودہ مرکزی حکومت کی سربراہی میں خصوصاً مسلمانوں کے حوالے سے جو متعصبانہ اقدامات سامنے آئے،ان میں خود نتیش بھی شامل رہے،تین طلاق کے معاملے میں انھوں نے تگڑم سے کام لیا،این آرسی ؍سی اے اے کے مسئلے پر بی جے پی کے ساتھ گئے،حالاں کہ پچھلے دنوں این پی آر پر اسمبلی سے انھوں نے تجویز پاس کروالی ہے کہ اس کا فارمیٹ پہلے جیسا ہی ہوگا،اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔مگر دیگر کئی معاملوں میں انھوں نے یا تو اپنے موقف کو واضح نہیں کیا یا اندر خانہ مرکزی حکومت کی حمایت کی۔ ادھر کچھ دنوں سے بہار کے مختلف اضلاع میں فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے،ان سارے واقعات نے بہار کے مسلمانوں کو نتیش کمار کے تئیں بہت حد تک بد گمان کردیا ہے اور اب وہ کسی متبادل کی تلاش میں ہیں،مگر کیا وہ متبادل آرجے ڈی یا اس کی سربراہی میں قائم ہونے والا متوقع عظیم اتحاد ہو سکتا ہے،جس کے خط و خال تا حال واضح نہیں ہیں؛بلکہ خود آرجے ڈی کے کئی سینئر رہنما پارٹی سے روٹھ کر اِدھر اُدھر جا چکے یا اس کی تیاری میں ہیں؟ ایک قدآور آرجے ڈی لیڈر بابو رگھوونش پرساد تو پارٹی سے ناراضی کے ساتھ ہی آں جہانی ہو چکے ہیں،حالاں کہ دَل بدلنے کا یہ سلسلہ این ڈی اے کی پارٹیوں میں بھی چل رہا ہے،مگر من حیث المجموع یہاں جے ڈی یو اور بی جے پی مضبوط پوزیشن میں ہیں،جبکہ عظیم اتحاد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
لا لویادو کی عدم موجودگی میں نہیں لگتا کہ تیجسوی یادو عظیم اتحاد کے قیام اور اسے کماحقہ مینج کرسکنے کی پوزیشن میں ہیں،اس کی ایک جھلک ہم نے پچھلے سال لوک سبھا انتخاب میں دیکھی بھی ہے کہ تیجسوی اینڈ کمپنی نے بہت ہی بری چال چلی اور بے تدبیری،تجربے کی کمی اور ابلہانہ طریقِ کار کے کئی مضحکہ خیز نمونے دیکھنے کو ملے،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوک سبھا الیکشن میں بہار کی چالیس سیٹوں میں سے انتالیس پر این ڈی اے کو کامیابی ملی اور پانچ چھوٹی بڑی پارٹیوں کے اتحاد نے مل کر صرف ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔ابھی اسمبلی الیکشن سے قبل جس طرح کی صورت حال ہے،اس میں مجھے نہیں لگتا کہ حالات بہت کچھ بدل سکیں گے،تیجسوی یادو سے لوگوں کو بڑی امیدیں تھیں،مگر ان کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ نہ تو وہ اپنی پارٹی کے بڑے اور تجربہ کار لیڈروں کو کنونس کر سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اتحادی جماعتوں کو مطمئن کرسکنے کی پوزیشن میں ہیں،اسی وجہ سے جیتن رام مانجھی عظیم اتحاد میں شامل ہوتے ہوتے رہ گئے،انھوں نے الیکشن سے پہلے پھر این ڈی اے کا دامن تھامنے میں عافیت سمجھی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ لالو یادو کی ضمانت کی کوششیں پھر سے تیز ہو گئی ہیں،اگر وہ الیکشن سے قبل کچھ دنوں کے لیے بھی باہر آسکیں،تو کچھ امید کی جا سکتی ہے۔
مجلس اتحاد المسلمین کے ذریعے بہار الیکشن میں ایک نیا محاذ کھولنے کی کوششیں آرجے ڈی اور جے ڈی یو دونوں ہی کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوسکتی ہیں؛کیوں کہ اکیلے بھلے ہی مجلس کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے؛لیکن اگر مسٹر اویسی بہار کی دوسری پارٹیوں کے ساتھ ایک قابلِ ذکر اور مؤثر اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،تو اس کا نتیجہ یقیناً زمینی سطح پر نظر آئے گا،اسی لیے آرجے ڈی اور جے ڈی یو کے مسلم رہنما خاص طورپر پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔کل19ستمبر کو جہاں اویسی اور دویندر یادو نے اپنے اتحاد کا اعلان کیا،وہیں کل ہی جے ڈی یو کے ایم ایل سی خالد انور کی سربراہی میں ’ مسلمانوں کی ترقی میں نتیش کمار کا کردار‘ کے عنوان سے ایک ورچوئل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں بہار کے بہت سے اضلاع سے مسلم لیڈران اور عوام نے شرکت کی اور اس میں نتیش حکومت کے وزرا اشوک چودھری،نیرج کمار اور ایم ایل اے نوشاد عالم،ماسٹر مجاہد وغیرہ نے خطاب کیا اور سبھوں نے نتیش کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور منصوبوں کاگن گان کیا۔کل ہی ایک یوٹیوب چینل پر آرجے ڈی کے ریاستی یوتھ صدر قاری صہیب کی ساڑھے پانچ منٹ کی بات چیت دیکھنے اور سننے کو ملی،جس میں قاری صاحب اویسی اور مجلس پر بے پناہ غصے کا اظہار کررہے ہیں اور غصے میں انھوں نے بعض ایسی باتیں بھی کہی ہیں،جن کی ایک بڑی پارٹی کی نمایندگی کرنے والے شخص سے توقع نہیں کی جاسکتی،انھوں نے ایک جذباتی مقرر کی طرح بولتے ہوئے کہا کہ مجلس ٹی بی کے مرض کی طرح ہے،وہ مسلم نوجوانوں کو بارود کے ڈھیر پر کھڑا کررہی ہے،وہ مسلم نوجوانوں کے ہاتھ سے قلم چھین کر تلوار پکڑا رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔دو مختلف پارٹیوں کا باہمی سیاسی اختلاف کوئی اچنبھے کی بات نہیں،مگر اس اختلاف کے اظہار کا سلیقہ ہوتا ہے،ہمارے پٹنہ ہی کے شہرۂ آفاق شاعر کلیم عاجز کہہ گئے ہیں:
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
اس قسم کی گفتگو آرجے ڈی کے حق میں قطعی نہیں جا سکتی،البتہ اس سے پارٹی کو نقصان ہونے کا امکان ایک سو ایک فیصد ہے۔ اویسی سے ملک کے بے شمار مسلمانوں کو اختلاف ہے اور ان کی بہت سی باتیں،آرا قابلِ اختلاف ہیں بھی،مگر اس کی وجہ سے کیا یہ کہنا درست ہے کہ مجلس مسلم نوجوانوں کے ہاتھ میں تلوار تھما رہی ہے؟آپ کو اندازہ بھی ہے کہ محض پارٹی میں سرخروئی حاصل کرنے کے لیے کہی گئی آپ کی اس بات کا اثر کتنا گہرا اور دور رس ہو سکتاہے؟اگر آرجے ڈی اسی قسم کے مسلم نیتاؤں کو آگے بڑھا کر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے،تو پھر اسے اپنی خیر منانی چاہیے!
مسعود جاوید
نام میں کیا رکھا ہے؟ شیکسپیئر نے کس سیاق و سباق میں یہ کہا یا اپنی مشہور زمانہ کتاب میں لکھا،اس سے قطع نظر اس کے اس معنی خیز جملے کو موقع بہ موقع مختلف زبانوں میں کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے؛لیکن میں سمجھتا ہوں اور میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔
آپ کی بعض خدمات کا اعتراف اور آپ خصوصاً آپ کے برادر عزیز اکبر الدین اویسی کے غیر ذمے دارانہ بیانات سے شدید اختلاف کے ساتھ بعض ملاحظات :
١-آل انڈیا مسلم اتحاد المسلمین کے بارے میں یہی تاثر لیا جاسکتا ہے کہ ہندو مہاسبھا کی طرح خالص اسلامی یا مسلم نظریات پر مبنی ایک سیاسی جماعت ہے اور جب مسلم نظریات کو فروغ دینا ہی اس کا دائرۂ عمل اور بنیادی منشور ہے،تو غیر مسلموں کا اس میں کیا کام ؟
٢- گرچہ پچھلے کئی سالوں سے آپ دلتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کی لڑائی لڑنے کی بات کرتے رہےہیں؛ لیکن کیا آپ کی پارٹی کے اغراض ومقاصد میں یہ مسائل شامل ہیں؟ کیا آپ کی پارٹی کے ہیکلِ تنظیمی میں غیر مسلموں کو شریک کرنے کی وسعت ہے؟
٣- آپ کی پارٹی شروع سے ہی "آل انڈیا” ہے ۔ کیا پہلے پورے آندھرا پردیش اور اب تلنگانہ میں "آل آندھرا یا آل تلنگانہ” تک اس کی توسیع ہوئی؟ وہاں سے پارلیمنٹ تک کتنے ارکان پہنچے؟
اتر پردیش، بہار،جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں قسمت آزمائی سے پہلے کیا آپ کی پارٹی نے وہاں زمینی کام کیا،افراد سازی کی؟ عین انتخابات کے وقت شعلہ بیانی سے آپ کا کون سا ہدف پورا ہوگا ؟ اسی روش کی وجہ سے آپ کی پارٹی کو بعض لوگ بی جے پی کی بی ٹیم کہتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے آپ کی نیت ایسی نہ ہو؛ لیکن بالآخر ultimately فائدہ بی جے پی کوہی ہوتا ہے۔ یہ باتیں کچھ تو وہ نام نہاد سیکولر لوگ کہتے ہیں، جنہوں نے مسلم قیادت کو ابھرنے نہیں دیا سوائے چند ہاتھی کے دانت کےاور جھنڈا برداروں کی ایک بھیڑ کے؛ لیکن یہ باتیں بعض وہ لوگ بھی کہنے پر مجبور ہوتے ہیں، جو آپ کے خیر خواہ ہیں، جو ایک حقیقی full fledged سیکولر پارٹی، جس میں مخلص ہم خیال سیکولر برادران وطن کی شرکت ہو، دیکھنے کے متمنی ہیں۔ زمینی کام کیے بغیر آپ مسلم ووٹ کے متحد ہونے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں؛ اس لیے کہ مسلم مسائل پر پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر آپ کے بیانات بہر صورت قابل ستائش ہیں اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آپ کی گرویدہ ہیں۔ جس طرح مرحوم سید شہاب الدین صاحب کی تحریروں اور تقریروں کے مداحوں کی ہر طبقۂ فکر میں ایک بڑی تعداد تھی،مگر مسلمانان ہند ایسا کوئی میکانزم تشکیل دینے میں ناکام رہے،جس کے توسط سے کوئی مؤثر باوقعت مسلم سیاست وجود میں آتی۔
جہاں تک نام کی بات ہے، تو اسلام یا مسلمان جس پارٹی یا اخبار،چینل کے نام کا حصہ ہوگا،غیر مسلم اس سے قریب کیوں ہوں گے؟