پٹنہ : (خان افسر قاسمی) بہار کے سیاسی گلیاروں سے بڑی خبر سامنے آرہی ہے جہاں اسدالدین اویسی کی پارٹی میں شگاف پڑ گیا ہے۔ اویسی کی پارٹی کے چار ممبر اسمبلی کی لالو یادو کی پارٹی میں شمولیت کی قیاس آرائیاں جاری ہیں، بتایاجارہا ہے کہ بہار پارٹی صدر اخترالایمان کو چھوڑ کر کوچا دھامن سیٹ سے محمد اظہار ، جوکی ہاٹ سے شہنواز عالم، بیاسی سے رکن الدین احمد، بہادر گنج سے انظار نعیمی جلد ہی آرجے ڈی جوائن کرسکتے ہیں۔ اویسی کی پارٹی کے چار ممبران اسمبلی کی شامل ہونے کی تصدیق بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے خود کی ہے۔ آر جے ڈی بہار نے اپنے ٹوئٹر سے بھی اعلان کردیا ہے کہ ’’سماجی انصاف اور سیکولرازم راشٹریہ جنتا دل کی سیاست کے ستون ہیں اور یہی وجہ ہےتیجسوی یادو جی سےمتاثر ہوکر آر جے ڈی میں شامل ہورہے ہیں۔ اے آئی ایم آئی ایم کے پانچ میں سے چار ایم ایل اے آر جے ڈی میں شامل!بتایاجارہا ہے کہ آج دوپہر اچانک تیجسوی یادو نے بہار ودھان سبھا کے صدر وجے سنہا کے کمرے میں ایم آئی ایم کے چار ممبران اسمبلی کے ساتھ پہنچ کر ملاقات کی اس دوران اخترالایمان کے علاوہ مذکورہ سبھی موجود تھے۔ ان چاروں کی آر جے ڈی میں شمولیت کے ساتھ ہی بہار میں آر جے ڈی سب سے بڑی پارٹی ہوجائے گی، آر جے ڈی کے ۷۹ ممبران ہوں گے تو وہیں بی جے پی کے ۷۷ ہوں گے جو کہ دوسرے نمبر کی پارٹی ہوجائے گی۔
اسدالدین اویسی
اویسی کی نظر یوپی اسمبلی انتخابات پر،100نشستوں پرالیکشن کااعلان ،یوگی کے سابق و زیراوم پرکاش راج بھرکے اتحادمیں شامل ہونے کااشارہ
نئی دہلی: اگلے سال اترپردیش اسمبلی انتخابات کے حوالے سے سیاسی ہلچل شروع ہوگئی ہے۔ یوپی انتخابات میں اسد الدین اویسی کی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) بھی انتخابی میدان میں نظر آئے گی ۔ایم آئی ایم کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اتوار کو یوپی انتخابات کے سلسلے میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی 100 نشستوں پر اپنا امیدوار کھڑا کرے گی۔ اویسی کی توجہ اگلے سال ہونے والے یوپی اسمبلی انتخابات پر ہے۔اویسی نے اتوار کے روز اپنے ٹویٹ میں کہا کہ میں اترپردیش انتخابات کے حوالے سے کچھ چیزیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے امیدواروں کو 100 نشستوں پر کھڑا کریں گے ، پارٹی نے امیدواروں کے انتخاب کا عمل شروع کردیا ہے۔ اور ہم نے امیدواروں کے لیے درخواست فارم بھی جاری کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ہم سہیلدیو بھارتیہ سماج پارٹی کے قومی صدر اوم پرکاش راج بھرصاحب کے ’بھاگیداری سنکلپ مورچہ‘ کے ساتھ ہیں۔ انتخابات یا اتحاد سے متعلق ہم نے کسی دوسری پارٹی سے بات نہیں کی ہے۔اوم پرکا ش راج بھریوگی کابینہ میں وزیررہ چکے ہیں۔اس سے پہلے بہارمیں اویسی نے مودی کے سابق وزیراوپیندرکشواہاکے ساتھ مل کرالیکشن لڑاجس کی وجہ سے مسلم ووٹ تقسیم ہوئے اوراین ڈی اے کافائدہ ہوا۔اس اتحادسے ایک ایم ایل اے بی ایس پی سے جیتے جواین ڈی اے سرکارمیں و زیربن گئے اوراویسی کے وزیراعلیٰ امیدواربھی این ڈی اے میں چلے گئے۔سوشل میڈیاپرقیاس آرائیاں ہیں کہ اوم پرکاش راج بھربھی مسلم ووٹ تقسیم کرنے کے بعدکہیں پھریوگی کابینہ میں نہ چلے جائیں۔
قومی سیاست میں اویسی کا عروج:مضمرات و عواقب کیا ہوسکتے ہیں؟-کانچا اِلائیّا
ترجمہ:نایاب حسن
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رہنما اسدالدین اویسی مسلمانوں کے قومی رہنما بننے کی تیاری میں ہیں۔ ان کا انتخابی دائرہ حیدر آباد کے باہر مہاراشٹر اور اب بہار تک پھیل گیا ہے ، جہاں ان کی پارٹی نے اسمبلی اور میونسپل دونوں سیٹیں جیتی ہیں۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں مجلس نے حیدرآباد سے باہر مہاراشٹرمیں ایک نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔ مجلس کے عروج کی وجہ دراصل آر ایس ایس اور بی جے پی کا سیاسی اُٹھان ہے ، جو ہندوستانی مسلمانوں کو لگاتار مین اسٹریم سے علیحدہ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اس ملک میں مسلمان کل آبادی کا 14.2 فیصد ہیں۔ بعض شہری حلقے ایسے ہیں کہ وہاں اگر مسلمان یک طرفہ ووٹ کریں تو مجلس کئی سیٹیں جیت سکتی ہے۔
اسدالدین کے والد صلاح الدین اویسی (1931-2008) حیدرآباد انتخابی حلقے کی نمایندگی کرنے والے رکن پارلیمنٹ تھے ، ان کی شبیہ قومی سطح کے جدید مسلم رہنما کی نہیں تھی؛ان کے مقابلے میں ان کے بیٹے اسدالدین اویسی انگلینڈ سے تعلیم یافتہ ہیں ، انھوں نے بیرسٹری کی تربیت بھی حاصل کی ہے ، انھیں گہرا یقین ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے جمہوریت ایک ضروری سیاسی نظام ہے۔ انھوں نے 2012 میں یو پی اے سے علیحدگی اختیار کی ، جس کے بعد ان کے قومی عزائم کو برق رفتاری حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ہی وہ ایک ایسے مسلم چہرے کے طورپر سامنے آئے جسے بی جے پی / آر ایس ایس نے مسلسل تنقیدوں کا نشانہ بنایا۔
مجلس کے پھیلاؤ میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لیے گہرے مضمرات پوشیدہ ہیں۔ مسلم سیاسی حلقہ کھڑا کرنے میں ان کی کامیابی کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور دوسری طرف کانگریس بےحال ہوتی جائے گی۔ اگر مسلمان کانگریس سے دور ہوگئے تو بی جے پی کے ہر ریاست میں کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ کچھ علاقائی جماعتیں جیسے سماج وادی پارٹی اور آر جے ڈی بھی شکست سے دوچار ہوں گی؛ لہذا اویسی کا علانیہ مسلم لیڈر کے طور پر عروج جتنا مجلس اتحاد المسلمین چاہتی ہے ،اتنا ہی بی جے پی بھی چاہتی ہے۔
اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی پر اس کا ایک اور اثر ہوسکتا ہے۔ چونکہ مسلم آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ شہری علاقوں میں بساہوا ہے ؛ لہذا ان کی سیاسی تنظیمی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور ایک مذہبی – نظریاتی قیادت سامنے آئے گی۔ مسلم عوام بھی بڑے پیمانے پر سیکولر زم سے ناخوش ہیں ، جو انھیں اقلیتی- اکثریتی ڈسکورس میں الجھاتا ہے، جس میں ان کی مسلم شناخت ختم ہوگئی ہے۔
ایس سی / ایس ٹی / او بی سی و اقلیتی اتحاد کے پرانے نعرے میں بھی اب اتنا دم نہیں رہا۔ اگرچہ اویسی دلت مسلم اتحاد کی بات کرتے ہیں؛ لیکن اویسی کے پاس شودروں یا او بی سی سے خطاب کرنے کی کوئی زبان نہیں ہے۔ آر ایس ایس-بی جے پی گٹھ جوڑ اویسی کی جارحانہ مخالفت کرکے تلنگانہ جیسی ریاست میں اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ بی جے پی؍آرایس ایس نے حیدرآباد شہر میں بنیادی طور پر او بی سی کو مسلمانوں کے خلاف متحرک کرکے اپنے لیے راستہ بنایا ہے ، جس کے واضح اثرات حالیہ بلدیاتی انتخابات میں دیکھے گئے ہیں۔ اب یہی سیاست وہ تلنگانہ کے دیہی علاقوں میں کریں گے۔ چونکہ ماضی میں مجلس کی ایک آزاد نظام ریاست (جسے 1940 کی دہائی میں قاسم رضوی کی رضاکار تحریک کے دوران جنوبی پاکستان کہاجاتا تھا) کے مطالبے کی تاریخ رہی ہے؛ لہذا ہندوتوا طاقتیں آسانی سے پرانے شہر کو پاکستان اور اویسی کو اس کا جناح قرار دے دیتی ہیں۔
حیدرآباد کی طرح بہت سے ایسے شہروں میں ، جہاں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے ، وہاں شودر/ او بی سی اور مسلمانوں کے درمیان کوئی گہرے تعلقات نہیں ہیں۔ او بی سی طبقے کے لوگ عموماً گوشت خور ہیں ؛ لیکن بہت سے لوگ نہیں بھی کھاتے ہیں۔ آر ایس ایس / بی جے پی نیٹ ورک ان اختلافات کو استعمال کرکے شودر / او بی سی عوام کومسلمانوں کے خلاف منظم کرنا چاہتا ہے۔ ذات پات کے حوالے سے اویسی نے حالیہ دنوں میں بولنا شروع کیا ہے، جبکہ ان کے تندگو بھائی تو تمام اوبی سیز کو ہندو ہی مانتے ہیں۔
در حقیقت اب تک کسی بھی مسلم رہنما اور دانشور نے ذات پات کے نظام اور اس کے فالٹ لائن کا کماحقہ مطالعہ نہیں کیا ہے۔ ان کی توجہ ہمیشہ ہندو- مسلم تقسیم و تفریق کے معاملات پر رہی ہے۔ ذات پات کے نظام کے تضادات کے بارے میں ان کی تفہیم البیرونی کی کتاب الہند تک محدود ہے؛ لیکن ہندوستان میں ویدک کلچر کے دنوں سے ہی طبقاتی جبر کی ایک طویل تاریخ موجود ہے ،یہی جبر 11 ویں صدی میں مسلم حکومت کے قیام کی تمہید ثابت ہوا تھا۔
آر ایس ایس-بی جے پی کی جعلی ہندوتوا قوم پرستی نے سیکولرزم کے نظریے کو چیلنج کردیا ہے ، جس میں مسلم رہنماؤں کو ایک مقام حاصل تھا۔ اویسی کی سربراہی والی مجلس بھی مسلم قوم پرستی کی زبان بولتی ہے۔ چونکہ اویسی کے آباو اجداد نے حیدرآباد چھوڑ کر پاکستان جانے سے انکار کردیا تھا ؛ لہذا مجلس کے رہنما اپنی ہندوستانی مسلم قوم پرستی کو بی جے پی-آر ایس ایس کی مسلمانوں کو غیر ملکی یا پاکستانی قرار دینے کی کوشش کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں؛ اسی لیے ہندوستان بھر کے مسلمان ان کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں، مگرجس طرح سنگھ مسلمانوں کو اپنے مستقل دشمن کے طور پر نشانہ بناتا ہے اور اس کے مقابلے میں جس طرح اویسی مسلمانوں کو انتخابی سطح پر منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ،یہ قومی انتشاراور بہ تدریج ملک تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔
(مضمون نگار معروف سیاسی مفکر،مصنف اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،حیدرآباد میں سینٹر فار سٹڈی آف سوشل ایکسکلوزن اینڈ انکلوزیو پالیسی کے ڈائریکٹر ہیں۔یہ مضمون آج روزنامہ انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا ہے۔مضمون نگار کے خیالات سے مترجم یا قندیل کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔)
مسلمانوں کے تعلق سے آرایس ایس سربراہ کا بیان ،اویسی نے کہا: اب بھاگوت بتائیں گے کہ ہم خوش ہیں یا نہیں؟
نئی دہلی: ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے بیان کو لے کر سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔ اصل میں انھوں نے ایک ہندی میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان پوری دنیا میں سب سے زیادہ مطمئن ہیں۔ان کے اس بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ‘ہماری خوشی کا پیمانہ کیا ہے؟ کیا اب بھاگوت نامی شخص بتائے گا کہ ہمیں اکثریت کے تئیں کتنا شکر گزار ہونا چاہیے؟ آئین کے تحت اپنی عزت نفس کو برقرار رکھنے میں ہماری خوشی ہے۔ ہمیں مت بتائیے کہ ہم کتنا خوش ہیں ،جب آپ کا نظریہ چاہتا ہے…‘۔
ان کے اس ٹوئٹ کے بعد ٹویٹر اور فیس بک پر رد عمل کا سیلاب آگیا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو بھاگوت کے بیان سے اتفاق کرتے ہوئے آئین ہند کی خوبیاں گنوارہے ہیں ،تو دوسری طرف کچھ لوگ بھاگوت پر تنقید کر رہے ہیں اور مسلمانوں پر مظالم کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہندوستانی مسلمان دنیا میں سب سے زیادہ مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہندوستانیت کی بات کی جاتی ہے تو تمام مذاہب کے لوگ ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور صرف وہی لوگ علیحدگی پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو مفاد پرستی کے شکار ہیں۔
ایک ٹویٹر صارف نینا راٹھوڑ نے کہا ‘کیا بھاگوت کو لگتا ہے کہ ہم بے وقوف ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ پچھلے 7 سالوں میں کیا ہوا ہے؟ ‘ اسی دوران انوپال داس نامی ایک اور ٹویٹر صارف نے کہا ‘اگر یہاں واقعتا مسلمانوں پر تشدد کیا جاتا ہے تو پھر مسلمان یہاں سے بھاگ کر پاکستان اور بنگلہ دیش کیوں نہیں چلے جاتے،الٹا وہیں کے لوگ ہندوستان میں پناہ لیتے ہیں‘۔
صحافی سواتی چترویدی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر ظفر سریش والا بھی اس بحث میں شامل ہوگئے ۔ ظفر نے کہا کہ اگر ہندوستانی مسلمانوں کی مدد کرنی ہے تو سب سے پہلے ان کو تعلیم دلائیے۔ اس پر سواتی نے کہا کہ مسلمانوں کو آئین میں ہندوؤں کی طرح حقوق ملنے چاہئیں۔ بھاگوت نے کہا تھا کہ ہندوستان کے برعکس پاکستان نے کبھی بھی دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو بااختیار نہیں بنایا اور اسے خالص مسلمانوں کا ملک بنا دیا گیا۔ جبکہ ہمارے آئین میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہاں صرف ہندو ہی رہ سکتے ہیں یا یہ کہ یہاں صرف ہندوؤں کی ہی سنی جائے گی یا اگر آپ کو یہاں رہنا ہے تو آپ کو ہندوؤں کی برتری تسلیم کرنی ہوگی۔ ہم نے ان کو جگہ دی۔ یہ ہمارے ملک کی فطرت ہے اور اسی فطرت کو ہندو کہا جاتا ہے۔
پپویادواورچندرشیکھرآزادنے نئے اتحادکااعلان کیا،ایس ڈی پی آئی شامل،کشواہابھی مدعو
پٹنہ:بہارکی سیاست میں اسدالدین اویسی کی آل انڈیامجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) نے قدم نہیں رکھاتھاکہ جنوبی ہندوستان کی دوسری مسلم پارٹی نے بھی دستک دی ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے بعد اب پاپولر فرنٹ آف انڈیاکی سیاسی ونگ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) بہار میں اپنی قسمت آزمانے کے لیے میدان میں اتر رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں مسلم ووٹوں کو لے کرسیاسی جدوجہد ہورہی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ کون سی جماعت مسلمانوں کی پہلی پسندبنتی ہے؟ایس ڈی پی آئی بہارمیںجن ادھیکارپارٹی کے قومی صدرپپویادوکی سربراہی میںپروگریسوڈیموکریٹک الائنس (PDA) کاحصہ ہے جس میں دلت لیڈر چندرشیکھر آزاد کی پارٹی بی ایم پی بھی شامل ہے۔اس درمیان پپویادونے اپنے اوپیندرکشواہاکوبھی مدعوکیاہے ۔اتحادمیں پپو یادونے تین چھوٹی جماعتوں کو اکٹھا کرکے دلت مسلم-یادو ووٹوں کے درمیان مساوات پیداکرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم اسد الدین اویسی نے بہار میں اپنا سیاسی وجود ہ پختہ کرنے کے لیے سابق مرکزی وزیر دیویندرپرساد یادو کی پارٹی سے اتحاد کیا ہے ، جسے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک سیکولر الائنس (یو ڈی ایس اے) کا نام دیا گیا ہے ۔