سالانہ بجٹ میں 6؍ کروڑ روپے کی تخفیف،ابھی بحال نہیں ہوگا تعلیمی سلسلہ،مولانا محمد عاقل نئے رکن شوریٰ منتخب
دیوبند:(سمیر چودھری)عالم اسلام کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی ہیٔت حاکمہ مجلس شوریٰ نے آج اجلاس کے تیسرے روز آخری نشست میں کئی بڑے فیصلے لیے ہیں،جن کے مطابق اب جمعیۃ علماء ہند کے دونوں صدور بحیثیت عہدیدار دارالعلوم دیوبند میں بھی خدمات انجام دیں گے، وہیں مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی عہدۂ اہتمام کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث کے فرائض بھی انجام دیں گے، حالانکہ کورونا کے سبب ادارہ کے بند پڑے تعلیمی نظام کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں لیا گیاہے، اس سال کے بجٹ میں بھی چھ کروڑ کی تخفیف کی گئی ہے، شوریٰ میں ایک نئے ممبرکا اضافہ ہوا ہے ،ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند کے دونوں گروپوں میں مفاہمت کے لئے ایک سہ رکنی کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔ موصولہ تفصیلات کے مطابق گزشتہ تین روز سے جاری مجلس شوریٰ کے اجلاس میں جہاں اراکین شوریٰ نے ادارہ کی تعمیر و ترقی کے متعلق کئی اہم تجاویز پاس کیں وہیں متعدد شعبہ جات کے نظما نے اپنے اپنے شعبوں کی رپورٹس پیش کی ہیں۔ شوریٰ کے اجلاس پر پوری ملت کی نظریں لگی تھی اور حسب توقع صدر مدرس اور شیخ الحدیث کے انتخاب کے ساتھ ساتھ کارگزار مہتمم کا انتخاب بھی آج عمل میں آیاہے۔ شوریٰ نے اتفاق رائے سے جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی کو صدر المدرسین کے عہدہ پر منتخب کیا ہے، جبکہ مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی عہدہ اہتمام کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث کے فرائض بھی انجام دیں گے، وہیں جمعیۃ علاء ہند کے صدر قاری سید محمد عثمان منصورپوری کو کارگزار مہتمم منتخب کیاگیاہے۔ شوریٰ نے جمعیۃ علماء ہند کے دونوںگروپوں میں مفاہمت کے لئے ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے،جس میں حکیم کلیم اللہ علی گڑھی،مولانا حبیب باندوی اور جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد عاقل سہارنپور ی کو شامل کیاگیاہے۔ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے ممبر کے طور پر جامعہ بدرالعلوم گڑھی دولت(کاندھلہ) کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانامحمد عاقل قاسمی کا انتخاب بھی عمل میں آیاہے۔ حالانکہ عالمی وباء کووڈ19؍ کے سبب گزشتہ سات ماہ سے زائد وقت سے بند ادارہ میں تعلیمی سلسلہ بحال کرنے کے لئے فی الحال کوئی بھی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے،اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے واضح گائڈلائن آنے کے بعد اہتمام اور مجلس تعلیمی کے ذریعہ فیصلہ لیا جائیگااور اس کے بعد ہی طلبہ کے لئے باضابطہ طورپر اعلان جاری کیاجائیگا۔ آٹھ ماہ سے بند ادارہ کے اخراجات اور چندہ کی کم فراہمی کے سبب ادارہ کے بجٹ میں 6؍کروڑ روپیہ کی کٹوتی کی گئی اور اب ادارہ کا بجٹ تقریباً30؍کروڑہ رہے گا اور اس سال تنخواہوں میں بھی اضافہ نہیں کیاگیاہے۔
اس میٹنگ میں سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین مفتی سعید پالنپوری، مجلس شوریٰ کے سابق رکن مفتی منظور احمد کانپوری اورمظاہر علوم سہارنپور کے کے ناظم مولانا سیدمحمد سلمان مظاہری سمیت مختلف علماء کی وفات پر تعزیتی تجویز بھی پیش کی گئی۔ مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے بتایاکہ مجلس شوریٰ نے ادارہ کے اہم امور پر تبادلہ خیال کرکے ادارہ کی ترقی کے متعلق اہم تجاویز کو منظوری دی ہے، شوریٰ نے اتفاق رائے سے صدر المدرسین، شیخ الحدیث اور کارگزار مہتمم کا انتخاب کیا ہے،شوریٰ میں ایک نئے ممبر کو شامل کیاگیااوربجٹ میںچھ کروڑ روپیہ کی تخفیف کی گئی ۔انہوں نے بتایا کہ ادارہ میں تعلیمی سلسلہ بحال کرنے کے متعلق فی الحال کوئی فیصلہ نہیں لیاگیاہے،حکومت کی واضح گائیڈ لائن آنے کے بعد اس سلسلے میں اعلان جاری کیاجائے گا،انہوںنے کہاکہ دارالعلوم دیوبند کی تیاریاں مکمل ہیں حکومت کی جانب سے اقامتی درسگاہوں کے متعلق گائڈ لائن ملنے کے بعد تعلیمی سلسلہ شروع کردیاجائیگا۔ اس اجلاس میں رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل،مولانا ملک ابراہیم،مولانا انوارالرحمن بجنوری،مولانا رحمت اللہ کشمیری،مولانا عبدالعلیم فاروقی،مولانامحمود راجستھانی،مولانا غلام محمد وستانوی،مولانا محمد عاقل سہارنپوری،مولانا حبیب باندوی،سید انظر حسین میاں دیوبندی،مولانا اسماعیل مالیگاؤں،حکیم کلیم اللہ علی گڑھی،مولانا نظام الدین خاموش اور مفتی ابوالقاسم نعمانی شریک رہے۔صدارت مولانا غلام محمدو ستانوی نے کی جبکہ حکیم کلیم اللہ کی دعاپر اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
ارشد مدنی
بے لگام میڈیا پر جمعیۃ کی عرضی: چیف جسٹس آف انڈیا نےایکسپرٹ باڈی کی رائے طلب کی، سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی
نئی دہلی 7 اگست (پریس ریلیز)مسلسل زہر افشانی کرکے اور جھوٹی خبریں چلاکر مسلمانوں کی شبیہ کوداغدار اور ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوارکھڑی کرنے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف داخل کی گئی جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوان عدالت میں مرکزی حکومت نے حلف نامہ داخل کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کی عرضداشت کو خارج کیئے جانے کی درخواست کی اور کہا کہ میڈیا کو خبریں نشر کرنے کی آزادی ہے جبکہ نیوز براڈ کاسٹ ایسو سی ایشن نے بھی حلف نامہ داخل کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ عرضی گذار کو سپریم کورٹ سے شکایت کرنے سے پہلے اس کے سامنے مبینہ فیک نیوز چینلز کی شکایت کرنا چاہئے تھی اور اگر وہ اس پر کارروائی نہیں کرتے تب انہیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا نا چاہئے تھا۔
اسی درمیان پریس کونسل آف انڈیا کی جانب سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ پرتیش کپور نے کہا کہ ہم نے پچاس ایسے معاملات کو نوٹس لیا اور اس کی جانچ ہورہی ہے اور جلد اس پر فیصلہ جاری کریں گے، ایڈوکیٹ بھیمانی نے بھی کہا کہ انہیں بھی فیک نیوز کی سو سے زائد شکایتیں موصول ہوئی ہیں اوروہ اس پر کارروائی کررہے ہیں جس پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے، جسٹس اے ایس بوپننا اور جسٹس رشی کیش رائے پر مشتمل تین رکنی بینچ کو بتایا کہ یہ لوگ کچھ نہیں کررہے ہیں، دو ماہ سے زائد کا عرصہ گذر گیا ہے ابھی تک انہوں نے ایک شکایت پر مثبت کارروائی نہیں کی، بس عدالت میں بیان دے رہے ہیں کہ جانچ جاری ہے اور عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں۔
ایڈوکیٹ دوے نے کہا کہ یہ تنظیمیں صرف ایڈوائزری تنظیمیں ہیں، یہ کوئی ایکشن نہیں لے سکتی ہیں، صرف حکومت ایکشن لے سکتی ہے لہذا عدالت کو چاہئے کہ حکومت کو حکم جاری کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ایکسپرٹ باڈی کی رائے طلب کررہے ہیں اورایکسپرٹ باڈی کی رائے آنے کے بعد کارروائی کی جائے گی۔دوران بحث ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ اپریل ماہ میں وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے خودکہا تھا کہ کرونا بیماری کو مذہبی رنگ نہ دیا جائے اس کے بعد بھی نیوز چینلز نے اسے مذہبی رنگ دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ایکسپرٹ باڈی کی ضرروت ہے جو اس کی جانچ کریگی جس پر ایڈوکیٹ دوے نے کہا کہ ہم ابتک دو ماہ ضائع کرچکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ رپورٹ طلب کررہے ہیں جس پر ایڈوکیٹ دوے نے کہا کہ رپورٹ طلب کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے داخل کی گئی عر ضداشت جس میں سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی گلزار اعظمی عرض گذار بنے ہیں پربحث کرتے ہوئے ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ پریس کونسل آف انڈیا اور نیوز براڈ کاسٹرس ایسو سی ایشن صرف ان کے ممبران پر کارروائی کرسکتی ہے لیکن اس معاملے میں کئی ایک ایسے ادارے بھی ہیں جو ان کے ممبر نہیں لہذا ان پر کاررائی کون کریگا؟ اس لیئے حکومت اس معاملے میں فیک نیوز چینلز پر کارروائی کرے۔ایڈوکیٹ دشینت دے نے عدالت کو بتایا اس معاملے میں حکومت بھی کچھ نہیں کررہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہمارا تجربہ ہے کہ جب تک ہم حکومت کو حکم نہیں دیتے حکومت کچھ نہیں کرتی، چیف جسٹس نے یونین آف انڈیا کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ تشار مہتا سے کہا وہ ان کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ عدالت جب تک حکومت کو حکم نہیں دیتی کچھ نہیں کرتی۔اسی درمیان چیف جسٹس آف انڈیا نے نیوز براڈ کاسٹر ایسو سی ایشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے دریافت کیا کہ آیا یہ معاملہ ان کے پاس بھیجا جاسکتا ہے جس پر ایڈوکیٹ دوے نے کہا کہ عدالت کو اس معاملے پر خود فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ اس طرح سے صرف وقت ضائع ہورہا ہے جس پر عدالت نے ایڈوکیٹ دوے کو کہا کہ وہ ان کی عرضداشت پر سماعت دو ہفتہ کے لیئے ملتوی کررہے ہیں اور اس درمیان ایکسپرٹ باڈی اور دیگر اداروں کو ان کی رائے داخل کرنے کا حکم دیا۔دوران بحث ایڈوکیٹ دوے نے عدالت کو بتایا کہ صحافتی اصول کا تو یہ تقاضہ ہے کہ کوئی بھی خبر شائع یا نشرکرنے سے پہلے اس بات کی باضابطہ طورپر تصدیق کی جائے کہ آیا خبر میں جو کچھ کہا گیا ہے صحیح ہے یاغلط مگر میڈیا ایسانہیں کررہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہماراقانون یہ بھی کہتاہے کہ اس طرح کی کوئی خبر شائع یا نشرنہیں کی جانی چاہئے جس سے کسی شخص یا فرقہ کی بدنامی یا دل آزاری ہویا جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں۔اس سے قبل گزشتہ سماعت کے موقع پر ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول نے عدالت کی توجہ ان دیڑھ سو چینلوں اور اخبارات کی جانب دلائی تھی جس میں انڈیا ٹی وی،زی نیوز، نیشن نیوز،ری پبلک بھارت،ری پبلک ٹی وی،شدرشن نیوز چینل اور بعض دوسرے چینلوں کی جانب دلائی تھی جنہوں نے صحافتی اصولوں کو تار تار کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی ناپاک سازش کی تھی۔
واضح رہے کہ جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کا نظریہ رہا ہے کہ میڈیا کو ملک کی یکجہتی، سماجی آہنگی، بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور ہندو مسلم کے درمیان منافرت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ ملک کے میڈیا ایک طبقہ ہر واقعہ کو مذہبی رنگ دینے، ہندو مسلم کے اتحاد کو تار تار کرنے، مسلمانوں کو بدنام کرنے کی دانستہ کوشش کرتا رہا ہے۔ مارچ اور اپریل میں کے مہینے میں تبلیغی جماعت کے سلسلے میں میڈیا کا رویہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔میڈیا کا ایک طبقہ جان بوجھ کر کورونا کے بہانے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش کی اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔ اس لئے اگر بے لگام اور غیر ذمہ دار میڈیا پر شکنجہ نہیں کسا گیا تو یہ ملک کے لئے تباہ کن ہوگا۔
حج سے متعلق سعودی حکومت کا فیصلہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے: مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی :
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے خادم حرمین شریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز کے ذریعہ حج 2020 کو موقوف نہیں بلکہ مختصر کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے جوقابل ستائش ہے، انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں اس بات کو لے کر لوگوں کے ذہنوں میں یہ خدشات مسلسل پیدا ہورہے تھے کہ خدا نخواستہ کورونا جیسی مہلک وبا کے پیش نظر کہیں اس سال حج کو موقوف نہ کردیا جائے، لیکن اب جو یہ فیصلہ آیا ہے اس سے ہمیں بے انتہا خوشی ہوئی ہے کہ چند قیود کے ساتھ اس سال بھی حج ہوگا اور سعودی عرب میں پہلے سے مقیم مسلمانوں کو بھی یہ سعادت حاصل ہوسکتی ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات میں جب پوری دنیا اورخودسعودی عرب کورونا جیسی مہلک وبا میں مبتلا ہے اس سے بہتر کوئی دوسرا فیصلہ نہیں ہوسکتا تھا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ کورونا کے مہلک ہونے اور اس بیماری کے عالمی وباء کی شکل اختیارکرنے کے بعد سوشل ڈسٹینسنگ کے قواعد نے بہت ساری چیزوں کو محدودکردیا ہے۔ماہرین صحت نے لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے روک دیا ہے، جس کے بعد سعودی حکومت کو اس طرح کا فیصلہ کرنا پڑا،جوقابل قدرہے اور سعودی حکومت کے اس فیصلہ نے لوگوں کے دلوں میں اس سال کے حج کولیکر پائے جانے والے خدشات کو بھی دورکردیا ہے۔ خود سعودی عرب اس مہلک وباء سے محفوظ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق 22جون تک سعودی عرب میں،جس کی آبادی2018کی مردم شماری کے مطابق 3 کڑوڑ 37 لاکھ ہے، اب تک ایک لاکھ ایکسٹھ ہزار افراد کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں، جن میں سے 1307لوگوں کی موت ہوچکی ہے اور دن بدن متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔مولانامدنی نے کہا کہ اسلام کا یہ واضح پیغام ہے کہ بیماری سے نہ صرف خود بچیں بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بچائیں۔اورآپ ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر آپ کسی وباء والی بیماری کی جگہ پر ہیں تو وہاں سے نہ نکلیں اور بیماری والی جگہ سے دور ہیں تو وہاں ہرگز نہ جائیں۔اور چوں کہ کورونا ایک عالمی وباء ہے اور اب تک اس کا کوئی علاج سامنے نہیں آیا ہے، احتیاطی تدبیر ہی اس کا واحد علاج ہے۔ ایسے میں سعودی حکومت کا یہ فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ پوری دنیا کورونا جیسی وباکے آگے بے بس دکھائی دیتی ہے ایسے میں ہم دعاکرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پوری دنیا اورخاص طورپر حرمین شریفین کو اس مہلک وباسے جلد ازجلد راحت دے اور اس وباکا خاتمہ کرے۔آمین:
نئی دہلی: لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا سے شہریت ترمیمی بل کی منظوری کو ایک افسوس ناک سانحہ قرار دیتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ یہ بل آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے خلاف ہے اس لئے جمعیۃ علماء ہند اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوک سبھا سے منظوری کے بعد ہماری پوری کوشش تھی کہ یہ بل راجیہ سبھاسے نہ پاس ہو، اس کے لئے ہم نے مختلف پارٹیوں کے ذمہ داران سے نہ صرف رابطہ قائم کیا بلکہ انہیں اس بات پر قائل بھی کیا کہ اس خطرناک بل کے ملک پر کس حدتک مضراثرات مرتب ہوں گے مگر افسوس خودکو سیکولرکہنے والی کچھ پارٹیوں نے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا ثبوت دیا اور یہ بل راجیہ سبھاسے بھی پاس ہوگیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بل سے آئین کی دفعہ 14اور 15کی صریحاً خلاف ورزی ہوتی ہے، جن میں اس بات کی کھلی ہدایت ہے کہ ملک میں کسی بھی شہری کے ساتھ رنگ ونسل اور مذہب کی بنیادپر کسی طرح تفریق نہیں کی جائے گی، اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا، مولانا مدنی نے کہا کہ اس بل کا مکمل مسودہ مذہبی امتیاز اور تعصب کی بنیادپر تیارہواہے، اور ا س میں کہاگیا ہے کہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے جو مظلوم اقلتیں بھاگ کر ہندستان آئیں گی، انہیں نہ صرف پناہ بلکہ شہریت بھی دیجائے گی جب کہ مسلمانوں کو اس سے الگ رکھا گیا ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس بل کے ذریعہ مذہبی بنیادپر ملک کے شہریوں کے درمیان ایک لکیر کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے۔وہیں اس بل کی وجہ سے ملک کی سلامتی اور سیکورٹی کو بھی سخت خطرہ لاحق ہوسکتاہے کیونکہ اس کے ذریعہ دستاویزات کے بغیر جن لوگوں کو شہریت دینے کا راستہ ہموارکیا جارہا ہے ہوسکتاہے ان میں سے کچھ لوگ ملک دشمن عناصر کے ایجنٹ بن کر ملک کی تباہی وبربادی کا ذریعہ بن جائیں،انہوں نے آگے کہا کہ یہ بل قانونی خامیوں سے بھرا ہوا ہے اور آئین کے جو رہنما اصول ہیں ان سے متصادم ہے آئین میں یہ اہم نکتہ موجودہے کہ قوانین میں ترمیم کرتے وقت آئین کی روح یا اس کے بنیادی ڈھانچہ سے کسی طرح کی چھیڑچھاڑ نہیں کی جائے گی جبکہ اس بل میں مذہبی بنیادپر تعصب اور امیتاز کی راہ اختیارکرکے آئین کے بنیادی ڈھانچہ پر ضرب لگانے کی دانستہ کوشش ہوئی ہے، آئین کی دفعہ 13میں یہ کہاگیا ہے کہ اگر کوئی عمل بنیادی حقوق سے ٹکراتاہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی یعنی اگرآئین میں کسی طرح کی ترمیم ہوتی ہے یاقانون سازی کی جاتی ہے اور وہ بنیادی حقوق سے متصادم ہوتاہے تو اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گاشہریت ترمیمی بل شہریوں کے بنیادی حقوق پر بھی کاری ضرب لگاتا ہے۔مولانا مدنی نے آگے کہا کہ اس بل کے اثرات ابھی بھلے ہی نظرنہ آئیں لیکن جب پورے ملک میں این آرسی لاگو ہوگی اس وقت یہ بل ان لاکھوں لاکھ مسلم شہریوں کیلئے ایک قیامت بن جائے گا جو کسی وجہ سے اپنی شہریت ثابت نہیں کرپائیں گے، انہوں نے کہا کہ یہ دلیل بالکل غلط ہے کہ شہریت بل کا این آرسی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ بل این آرسی کو ذہن میں رکھ کرہی لایا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کے لئے این آرسی کے عمل کو مشکل تربنادیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل اس لئے بھی خطرناک ہے کہ اس سے ملک میں صدیوں سے موجود مذہبی اور تہذیبی اتحاد کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتاہے یہ ہندومسلم کا مسئلہ ہرگزنہیں ہے بلکہ انسانی حقوق اور شہریوں کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے، یہ ایک انتہائی خطرناک بل ہے جس کے پیچھے خالص سیاسی مقاصد کارفرماہیں۔ اس سے اکثریت کی فرقہ وارانہ صف بندی کی راہ ہموارکرنے کی کوشش ہورہی ہے، ملک میں موجودفرقہ پرست طاقتیں طویل عرصہ سے یہی چاہتی ہیں کہ کسی بھی طرح ملک میں صدیوں سے موجود ہماری اتحادکو توڑکر بکھیر دیا جائے۔مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند اس لئے اس بل کو عدالت میں چیلنج کرے گی کیوں کہ قانون سازیہ نے ایمانداری سے اپنا کام نہیں کیا ہے۔ اس لئے اب عدلیہ ہی اس پر کوئی بہتر فیصلہ کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں وکلاء سے مشورہ کیا جاچکا ہے اور پٹیشن کا مسودہ تیار ہورہا ہے۔
شمیم اکرم رحمانی
راجیو دھون نے بورڈ اور جمیعت کی طرف سے ایودھیا معاملہ میں جوکوششیں کی ہیں وہ نہ صرف قابل تحسین ہیں بلکہ قانون کی بالادستی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں بہت نمایاں ہیں ـ ہر انصاف پسند ان کی کوششوں کو سلام کرتاہے، مجھے یقیں ہے کہ ان کی کوششیں تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی اور تاقیامت وطن عزیز کی اقلیتوں کے لیے حوصلے کا سامان بنیں گی ـ
ان کی جدوجہد کو دیکھ کر شروع میں ایسا محسوس ہورہاتھاکہ بورڈ اور جمیعت انہیں خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی اسلئے کہ مفت میں سنیروکیل کا مسلمانوں کے حق میں اور فسطائیت کے خلاف چٹان بن کر کھڑا رہناکوئ معمولی بات نہیں ہے، وہ بھی راجیودھون نام کے ساتھ! اس معاملے کی اہمیت کاادراک وہی لوگ کرسکتے ہیں،جو ہندوستانی سیاست اورسنگھ کی پلاننگ سے واقفیت رکھتے ہیں ـ
لیکن وہی ہوا جو عام طور پر مسلمانوں میں ہوتارہاہےـ لوگ سازشوں کے آلۂ کار بن جاتےہیں، تھوڑے فائدے کےلئے مخلصین کو روند دیتےہیں اور ڈبل چہرے سے کام کرکے باغباں اور صیاد دونوں کوراضی رکھناچاہتے ہیں؛چنانچہ چند گھنٹے قبل افسوسناک خبر ملی کہ راجیودھون کو جمعیت نے وکالت سےبرطرف کردیاہے-
"سوفیصد ریویو پٹیشن کے مسترد کئےجانے والی بات” سے مجھے جن چیزوں کااندیشہ تھا ان میں ایک اندیشہ یہ بھی تھا کہ راجیو دھون جیسے مخلص افراد کو کہیں معاملہ سے الگ نہ کردیاجائےـ راجیو دھون کے حالیہ بیان کہ "مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے” نے اس اندیشے میں مزید اضافہ کردیاتھاـ
خیر جوہوناتھا وہ ہوا اوراب یہ طے ہوچکاہے ہے کہ راجیو دھون جمعیت کی طرف سے ایودھیا معاملے کے ریویو پٹیشن میں جمعیت کے وکیل نہیں رہیں گےـ راجیو دھون جی نےخود اس کی اطلاع دیتےہوئے فیسبک پر لکھاہےکہ:
I have been informed that Mr Madani has indicated that I was removed from the case because I was unwell. This is total nonsense. He has a right to instruct his lawyer AOR Ejaz Maqbool to sack me which he did on instructions. But the reason being floated is malicious and untrue.
ترجمہ:مجھے خبر دی گئی ہے کہ مسٹر مدنی کے اشارے پر مجھے کیس سے ہٹا دیا گیا ہے؛ کیونکہ میری طبعیت خراب ہےـ یہ سراسر بے بنیاد بات ہےـ انہیں حق ہے کہ اپنے وکیل کے ذریعے مجھے کیس سے ہٹا دیں جو کہ انہوں نے کیا، لیکن جو وجہ دی جا رہی ہے وہ بیہودہ اور سراسر غلط ہےـ
گویاکہ اب وہ صرف بورڈ کی طرف سے معاملے کی پیروی کریں گےـ مجھے نہیں پتہ کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا ان کے ساتھ کیا طرز عمل ہوگا؛ لیکن ہم بورڈ کے ذمے داروں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتےہیں کہ راجیودھون جیسے مخلص لوگوں کی ہرطرح سے حوصلہ افزائی کریں اور ریویو پٹیشن دائر کرنے میں انہیں سب سے آگےرکھیں، یہ وہ بندہ ہے،جو اس اہم معاملے کی وجہ سے ہی فرقہ پرستوں کے نشانے پر رہاہےـ
احتشام الحسن، چکوال
جھوٹ کو اتنا عام کرو کہ سچ لگنے گے۔باطل کو اتنا پھیلاؤ کہ حق دکھنے لگے۔یہ وہ اصول ہے جسے آج کل کا میڈیا دل و جان سے اپناتا ہے۔یہی اصول قیام پاکستان کے بعد ہندوستان اور قیام پاکستان کی تاریخ کے بارے میں اپنایا گیا۔قیام پاکستان کے بعد کتابوں پر کتابیں لکھی گئیں، نصاب بنا کر گھول گھول کر پلایاگیا۔فکریں خراب کی گئیں اور سوچوں کے زاویے بدل دیے گئے۔حقیقت سے اتنا دور لے جایا گیا، جہاں سچ بھی خود کو مشکوک سمجھنے لگا۔سچ اتنا کڑوا ہوگیا کہ خاموشی کو ترجیح دینے لگا۔جھوٹ کو اتنا سچ سمجھا جانے لگا کہ وہی حرف آخر ہوگیا۔جو وہ کہے اسے ماننا سب پر فرض اور جو نہ مانے وہ نشانے پر۔
ایسے میں چند حقیقت پسندوں اور جانبازوں نے ہمت کی اور سچ بولنے کی جسارت کی اور حق کو آشکارا کرنے کی ٹھان لی اور کافی حد تک اپنے عزم اور مقصد میں کامیاب ہوئے۔ان شخصیات میں سے ایک شخصیت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی ہے۔جنہوں نے ہندوستان پر کمپنی کی حکومت اور قیام پاکستان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، بل کہ اس وقت کی تحریکات کے مرکزی اور بنیادی راہنماؤں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔آپ ہمہ جہت شخصیت تھے۔درس و تدریس، تصوف و سلوک، وعظ و خطابت، تصنیف و تالیف اور سیاست و جہاد غرض ہر میدان اہم مقام رکھتے ہیں۔دارالعلوم دیوبند کی صدر مدرسی سے لے کر جمعیت علمائے ہند کی صدارت تک، سلسلہ چشتیہ میں پیر طریقت سے لے نقش حیات جیسی آپ بیتی و ہندوستان کی تاریخ نویسی وغیرہ تک ہر جگہ آپ کے علوم و معارف اظہر من الشمس ہیں اور آپ کی علمیت اور قابلیت پر بیّن ثبوت۔
تحریک آزادی کے بارے میں ماضی کی تاریخ کی روشنی میں آپ ایک خاص رائے رکھتے تھے۔یہی جمعیت علمائے ہند کی رائے تھے۔اسی رائے کو آپ نے اپنی آپ بیتی میں مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔جن خدشات کا آپ اور آپ کے ہم فکر راہنماؤں نے اظہار کیا تھا آج وہ ہم پر بیت رہے ہیں۔یہی ہوتی ہےسیاسی بصیرت۔یہ اہل اللہ دل کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے، جب کہ ہم ظاہری آنکھوں پر یقین کر بیٹھے۔میدان میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، اصل ہار جیت وہ ہوتی ہے جو اثرات اور نتائج بیان کرے۔آج جب ہم ان شخصیات کی تحریرات اور خطبات کو پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بول رہے ہیں اور ہم پر بیت رہی ہے۔
اس وقت کے حالات ایک وہ ہیں جو ہمیں نصاب میں پڑھائے جاتے ہیں اور ایک وہ جو یہ حقیقت پسند بیان کرتے ہیں، ان کو اگر تصویر کا دوسرا رخ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ چوں کہ ان حالات اور واقعات میں خود موجود تھے؛ اس لیے آپ کی بات سند کا درجہ رکھتی ہے اور عینی شاہد کی گواہی دنیا کی کوئی عدالت رد نہیں کر سکتی۔حضرت مدنی رحمہ اللہ نے ان حالات کو اپنی آپ بیتی میں مفصل طور پر پیش کیا ہے۔زیر نظر کتاب بات ان ڈائریوں کا مجموعہ ہے، جنہیں ان حالات و واقعات کے وقت آپ اپنے پاس رکھتے تھے اور خوب اہتمام سے مشاہدات، واقعات اور نتائج کو درج کرتے تھے۔جسے ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری صاحب نے مولانا ارشد مدنی زید مجدہم سے حاصل کرکے شائع کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ہندوستانی تاریخ پر آپ کا مطالعہ اور کام کافی وسیع ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اس پر مفصل کام کیا ہے۔بہت محنت سے تاریخی مآخذ تک رسائی حاصل کر کے ڈائری کو پس منظر کے ساتھ پیش کیا ہے۔تفصیلی مقالہ جات کو آخری تین جلدوں میں جمع کیا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ متحدہ ہندوستان، قیام پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد انڈیا میں مسلمانوں کی حالت زار پر ایک مفصل اور مبنی بر حقیقت تاریخ مرتب ہوگئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
کامیاب قومیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے ماضی سے سبق لے کر حال گزاریں اور مستقبل کو سنواریں۔ماضی سے سبق لینے کے لیے ماضی کو پڑھنا ناگزیر ہے۔لکھا بہت کچھ جاتا ہے، مگر حقیقت تک پہنچنا اور سچ کو پہچان کر اسے سمجھنا یہی عقل مندی اور دانش مندی ہے۔میں ہر گز یہ نہیں کہوں گا کہ آپ صرف اسی کو پڑھیں اور آنکھیں بند کرکے یقین کر لیں۔لیکن یہ بھی نہیں کہوں گا کہ تصویر کا وہی رخ سچ مان کر بیٹھ جائیں جو ہمیں دکھایا جاتا ہے۔تصویر کے دوسرے رخ کو بھی پڑھیں اورسمجھیں پھر دونوں کو سامنے رکھ کر حقیقت کے اصولوں پر پرکھیں ـ ان شاء اللہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی آپ کے سامنے ہوگا۔