چھٹے جشن ریختہ کی سہ روزہ تقریبات 13تا15 دسمبر کو میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم، دلی میں منعقد ہوں گی
نئی دہلی: چھٹے جشن ریختہ کی سہ روزہ تقریبات کا آغازکل یعنی13 دسمبر سے دلی کے میجر دھیان چند نیشلک اسٹیڈیم میں ہونے جارہا ہے۔ جشن ریختہ اپنی گزشتہ پانچ تقریبا ت کی غیر معمولی کامیابی کے سبب دنیا بھر میں اردو زبان و تہذیب کے سب سے بڑے جشن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس بار پھر سال کے اختتام پر یہ جشن دلی اور باہر کے لوگوں کے لیے اردو زبان،ادب اور تہذیب کو قریب سے جانین اور اس کے مختلف ذائقوں کو محسوس کرنے کا سبب بنے گا۔13 دسمبرشام چھ بجے معروف ادبی اور سیاسی شخصیت کرن سنگھ جشن کا افتتاح کریں گے۔ اس کے بعد انتہائی مقبول صوفی موسیقی کار ہرشدیپ کور اپنے نغموں سے محفل کو رونق بخشیں گی۔ 14 اور15 دسمبر کو ادبی مذاکرے، داستان گوئی، چہار بیت، ڈراما، قوالی،غزل سرائی،نوجوان شاعروں کی محفل، خواتین کا مشاعرہ،خطاطی، فلم اسکرینگ اور بہت سی دلچسپ تقریبات کے ذریعے اردو زبان اور اس کے تہذیبی رنگوں کو پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جشن میں ہر بار کی طرح اس بار بھی ادب، فلم،تھیٹر اور آرٹ کی دنیا سے اہم ترین شخصیات شامل ہورہی ہیں، جن میں خاص طورپر گوپی چند نارنگ، شمس الرحمان فاروقی، منور رانا، جاوید اختر، راحت اندوری، استاد شجاعت خان،، رضا مراد، چندن داس، سچن پلگاونکر، تشار گاندھی، شمیم حنفی، انْبھو سنہا، دویا دتا، پویاش مشرا، مظفر علی، ہرشدیپ کور، جسپندر نرولا، تشار گاندھی، لبنیٰ سالم، منجری چترویدی، شبنم ورمانی، میتھلی ٹھاکر، استاد رضا علی خان اور پوجا گایتونڈے قابل ذکر ہیں۔جشن میں ہر سال کی طرح اس سال بھی چار اسٹیج ہوں گے اور چاروں ایک ساتھ الگ الگ رنگ اور ذائقے بھرے پروگراموں سے جلوہ آفروز ہوں گے۔ 14تاریخ کو اردو پریمیوں کے لیے معروف نقّاد اور ادیب پروفیسر گوپی چند نارنگ اور شافع قدوئی کی میر تقی میر پر بات چیت سننا ایک یاد گار تجربہ ہوگا۔ وہیں دوسری طرف بزم خیال میں مشہور و معروف شاعر فرحت احساس اور ابھیشیک شکلا کی اردو شاعری پر ماسٹرکلاس ایک الگ اور انوکھی پہل ہے، جس سے اردو شاعری سیکھنے اور سمجھنے کی خواہش رکھنے والے اور اردو شاعری کا شوق رکھنے والے تمام لوگ اردو شاعری کے اسلوب اور فن کے بارے میں جان سکیں گے۔ اس بار جشن میں ایک اہم گفتگو اردو زبان اور اس سے جڑی تمام بولیوں کے حوالے سے بھی ہوگی جس میں علی گڑھ سے تشریف لا رہے پروفیسر مولا بخش،سراج اجملی اور حیدراباد سے تشریف لا رہے شاہد حسین اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ ان کے ساتھ دلّی یونورسٹی کے پروفیسر محمد کاظم بھی موجود ہوں گے۔معروف شاعر منوّر رانا اور راحت اندوری مشاعرہ اور اس کی تہذیب پر روشنی ڈالیں گے۔ اس کے ساتھ مہاتما گاندھی کی ایک سو پچاسویں سالگرہ پر ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوے ایک سیشن ہوگا جس میں گاندھی جی کے پوتے تشار گاندھی اور ان کے ساتھ معروف نقاد علی احمد فاطمی اور سہیل ہاشمی موجود ہوں گے۔ مشہور صوفی گلوکارہ میتھلی ٹھاکر اپنی دھرتی کے سر سے محفل میں مٹھاس گھو لیں گی۔ اس کے بعد جاوید صدّیقی اور مظفّر علی ادب اور سنیما پر بات کریں گے،وہیں محفل خانے میں جاوید اختر اور سیف محمود ساحرلدھیانوی کی زندگی اور شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ تیسرے دن کی شروعات محفل خانہ میں شبنم ورمانی کی آواز میں کلام کبیر سننے سے ہوگی۔ اسی دن بھی بلدیپ سنگھ گرو نانک کی زندگی اور ان کے پیغام پر روشنی ڈالیں گے اور نانک جی سے متلعق روحانی نغمے گائیں گے۔اسی دن گرو نانک کے روحانی ریختہ پر بھی ایک اہم سیشن ہوگا جس میں اختر الواسع، جسپال سنگھ اور ناشر نقوی حصّہ لیں گے۔ اس بار جشن میں ایک اہم گفتگو غالب کے حوالے سے بھی ہوگی۔ اس سیشن میں معروف نقاد شمس الرحمان فاروقی غالب کی زندگی اور ادب پر پون ورما سے بات چیت کرتے ہوے نظر آئیں گے۔ اسی دن خواتین چہار بیت بھی جشن ریختہ کی ایک خاص پیش کش ہوگی۔ اسی کے ساتھ اردو ہندی ہندستانی پر ایک گفتگو میں اہم علمی و ادبی شخصیات شامل رہیں گی۔ علی رفات فتیحی، سدھیش پچوری، ویر بھارت تلوار اس اہم موضوع پر بلرام شکلا سے بات کرتے ہوے نظر آئیں گے۔ ممتاز نقاد شمیم حنفی اسی دن پروفیسرانیس الرحمان کے ساتھ اقبال کی ادبی سفر پر بات کریں گے۔ موسیقی کے شائقین کے لیے ستار نواز استاد شجاعت خان کو سننے کا بھی ایک خاص موقع ہوگا۔ ساتھ ہی معروف فلم اداکارہ دویا دتّا کچھ دل کی اور کچھ دنیا کی باتیں کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔ مشہور داستان گو ہمانشو واجپئی اور رجنی چاندیول داستان لکھنو پیش کریں گے۔ اس سب کے علاوہ متعدد علمی و ادبی شخصیتیں جشن کی رونق میں اضافہ کریں گی۔ اردو تہذیب اور کلچر کی نمائندگی کے لیے اردو بازار کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے،جس میں اردو تہذیب کی یادگاروں کو نمائش اورخرید و فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا۔ کھان پان کے شوقین لوگوں کے لیے ایک فوڈ کورٹ بھی لگایا جا رہا ہے جس میں کشمیری،حیدر آبادی، لکھنوی اور پرانی دلی کے پکوانوں کی بہار ہوگی۔ جشن ریختہ کے موقعے پر ریختہ فانڈیشن کے بانی سنجیو صراف کا کہنا ہے کہ ”ہماری کوشش اردو زبان و تہذیب کو فروغ دنیا ہے۔ ریختہ ویب سائٹ کے ساتھ جشن ریختہ کی تقریبات بھی ہماری انہیں کوششوں کا حصہ ہیں۔ گزشتہ پانچ برس میں جشن ریختہ کو ملی بے پناہ کامیابی اور ہر طبقے و عمر کے لوگوں میں اس کی مقبولیت نے ہمارے ارادوں کو مضبوط کیا ہے۔اس سال بھی ہم پوری توانائی کے ساتھ اس جشن کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ جشن اردو کی مٹھاس اور اس کی تہذیب میں پوشیدہ یگانگت کے پیغام کو دور تک لے کر جائے گا۔“
اردو میلہ
زین شمسی
ریختہ پر فریفتہ لوگ بے حد اداس ہیں۔ وہ ”فرحت احساس“ نہیں کر پا رہے ہیں۔اس میں حیرانی کی ایسی کون سی بات ہے کہ ہنگامہ ہے۔ صراف صاحب نے ویب سائٹ بنائ، ٹیم بنائ،ایسے لوگوں کو جوڑا جو کرم ویر تھے۔ سر جھکا کر کام کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ انہوں نے بہترین ویب سائٹ اردو کو دی، جس میں ہندی اور انگریزی کے توسط سے اردو کو سمجھا اور جانا گیا۔ ریختہ ایک مقبول عام اردو ویب سائٹ ہے، اس بات سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا۔
ہوا یہ کہ بنجر زمین پر انہوں نے پھول کھلا دیااور اس کی خوشبو سونگھنے کے لیے اردو والے اس چمن کو سینچنے لگے۔ لیکن یہ کہنا بالکل درست نہیں ہوگا کہ اس ویب سائٹ کی آبیاری میں اردو والوں کا پسینہ لگا ہے۔ اردو والٕے تو ان سے دست بستہ درخواست گزار رہے کہ ہماری تحریروں کو اپنی ویب سائٹ میں جگہ دیں۔ انہوں نے جگہ دی بھی؛ لیکن ریختہ نے ایسی نایاب کتابوں کو بھی اپنی ویب سائٹ میں جگہ دی، جو دیگر اردو اداروں اور اکادمیوں میں دیمک کی نذر ہو رہی تھیں۔ انجمن ترقی اردو میں موجود بیشمار ادبی صحیفے کو ریختہ نے اپنا لیا۔ چونکہ انجمن اب ادبی لابنگ اور سیاسی شاپنگ کا گہوارہ ہے، اس لیے وہاں کتابوں کا کوئی کام بھی نہیں۔ کتابیں ریختہ کے کام آئیں۔اردو اکادمیاں اور اردو کونسل قورمہ بریانی کے لالچی لوگوں کو اپنے پاس بلا کر اردو کی ترقی کے نام پر فنڈ کی بندر بانٹ میں کامیابی کے ساتھ مشغول ہیں۔ انھیں اردو سے کم، اردو کے ذریعےملے عہدے سے زیادہ لگاؤ ہے۔ اردو اخبارات کے ایڈیٹر کی فضول کتابوں کو شائع کر کے اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو چالاکیوں کے ساتھ دبانے میں مگن ہیں۔ایسے میں صرف ریختہ ہی ہے،جو پورے لگن و محنت کے ساتھ اردو کے فروغ میں سرگرم ہے۔
ہنگامہ کچھ یوں ہے کہ اس نے اردو کی جگہ ہندوستانی کا استعمال کیوں کیا؟جو لوگ جشنِ ریختہ میں شامل رہے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس تقریب میں اردو لکھنے پڑھنے والے لوگ کم جاتے ہیں۔ پروفیسران تو نہ کے برابر ہی جا تے ہیں اور جاتے بھی ہیں تو کسی کونے میں اپنی بے قدری کا رونا روتے رہتے ہیں۔ وہاں دراصل اردو کو دیکھنے کے لیے اس کے چاہنے والے جاتے ہیں۔ وہ اب بھی جائیں گے۔ ویسے ہی جوق درجوق جائیں گے۔ واویلا مچا کر آپ اسے روک نہیں سکتے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہندوستانی کا نام دے کر سنجیو صراف اردو کو بچانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ ابھی اتنی جلدی فیصلہ پر مت پہنچیے۔ انہوں نے محنت کی، اپنے بل بوتے پر ریختہ کوکھڑا کیا ہے،یہ ان کا اثاثہ ہے، وہ جو چاہیں کریں۔
آپ نے ہم نے کیا کیاسوائے ایک کمزور احتجاج کے۔ عدالت نے ایف آئی آر سے اردو کے الفاظ ہٹانے کا اعلان کر دیا۔ آپ نے کیا کیا؟ فلموں کو ہندی سرٹیفکٹ دیاگیا، آپ نے کیا کیا؟ پرائمری اسکولوں سے اردو ختم کر دی گئ،آپ نے کیا کر دیا؟کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اردو غائب ہوتی گئ، آپ نے کیا کر لیا؟
بیچارے مدرسہ والے اردو بولتے ہیں، تو آپ ہی ان پر ہنستے ہیں کہ وہ کچھ اور نہیں بول سکتے۔ اِس معاملےمیں بھی آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ جو کریں گے صراف ہی کریں گے۔ اردو کا ماضی بھی ریختہ تھا اور مستقبل بھی۔
ویسے میں نے ریختہ کے ابتدائی دور میں ہی جب ریختہ کے حق میں لن ترانیاں عروج پر تھیں، لکھا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ کا اثاثہ کسی ایک ویب سائٹ پر جا کر مقفل کر دیا جائے اور بغیر فیس کے آپ غالب و میر بھی نہ پڑھ سکیں۔
ویسے صراف صاحب آپ اس بات کو سمجھیے کہ اردو کا نام ہندوستانی نہیں ہے، اردو ضرور ہندوستانی ہے۔