ہوا ہے بادباں ہے کوچ کرنے کا اشارا ہے
سرِ ساحل کسی نے آ کے چپکے سے پکارا ہے
میں اس کی روشنی میں راستہ کیا ڈھونڈ سکتی ہوں
گہے جلتا گہے بجھتا مری قسمت کا تارا ہے
ہمیں مثلِ صدف جب ذات میں اپنی ہی رہنا ہے
تو پھر کیا فرق پڑتا ہے بھنور ہے یا کنارا ہے
ضرورت کیا ہمیں خود کو کہیں ملفوف رکھنے کی
حسابِ دل تو جو ہے تم پہ یکسر آشکارا ہے
اگرچہ مشعلیں محلوں میں پیہم جلتی رہتی ہیں
مرے آنگن کا دیپک پر ہوا کو کب گوارا ہے
فقط یوں خانۂ دل پر نظر کرنے سے ڈرتے ہیں
خدا جانے کہاں تک ظلمتِ شب کا اجارا ہے
ہمارے دم سے گلشن میں خزائیں بھی بہاریں بھی
ہوا کے دوش پر بہتا ہر اک نغمہ ہمارا ہے
اردو غزل
میں کہہ رہا ہوں مرے دوستا نہیں ہونا
کہ حد سے زیادہ کبھی پارسا نہیں ہونا
وہ مجھ سے بول رہی ہے کہ عشق ہو تجھ کو
میں اس کو بول رہا ہوں کہ جا نہیں ہونا
بغیر فکر جدا ہو لے اور یہ لکھ لے
ترے بغیر مجھے مسئلہ نہیں ہونا
انا تو ہے ہی مگر عاجزی بھی ہے مجھ میں
تو جانتا ہے کہ میں نے خدا نہیں ہونا
میں خود بھی یار پریشاں ہوں وہ دکھی لڑکی
لپٹ کے کہتی ہے تجھ سے جدا نہیں ہونا
یہ روح قید ہے کب سے ، حصارِ جاں ٹوٹے
یہ ٹوٹے بھی تو کوئی فائدہ نہیں ہونا
اداس رہنے کی عادت بنا اے شہزادی
ترے نصیب میں لگتا ہے شاہ نہیں ہونا
میں جانتا تھا کہ ہم جس طرح سے بچھڑے ہیں
مجھے پتہ تھا کبھی رابطہ نہیں ہونا
مجھے وہ غم سے نکالے گی ؟ اُس کو علم نہیں
میں ایسا پیڑ ہوں جس نے ہرا نہیں ہونا
ہم کہاں عظمت اسلاف سنبھالے ہوئے ہیں
بس ترے عشق سے ماتھے کو اجالے ہوئے ہیں
قیس و فرہاد تئیں اپنے حوالے ہوئے ہیں
یعنی ہم مسند عشاق سنبھالے ہوئے ہیں
جب بھی پلٹے ہیں ہمیں ہار دکھائی دی ہے
ہم نے سکے یہ کئی بار اچھالے ہوئے ہیں
پیاس لگتی ہے انہیں دیکھ کے اے دشت نشیں
تیری آنکھیں ہیں یا پانی کے پیالے ہوئے ہیں
ہم نے اک عمر کتابوں کے حوالے کی ہے
تب کہیں جا کے کتابوں کے حوالے ہوئے ہیں
آئینہ بن کے کھڑے ہیں ترے در پر چپ چاپ
کب ترے سامنے ہم بولنے والے ہوئے ہیں
سود بڑھتا گیا سانسوں کا ہمارے اوپر
ہم محبت میں تری قرض سے کالے ہوئے ہیں
میں بھی پھر بیٹھ گیا دیکھنے قصہ کیا ہے
ریت گیلی ہے یا پھر پاؤں میں چھالے ہوئے ہیں
عزیز نبیل
شام کی راکھ بدن پر مل کر قشقہ کھینچ ستاروں سے
رات سنگھاسن اپنا ہی ہے کہہ دے ہجر کے ماروں سے
کچھ بے ہنگم آوازیں تھیں، کچھ سائے سے پھرتے تھے
آنکھیں موند کے گزرے تھے ہم، دنیا کے بازاروں سے
اور اچانک جی اٹھتے ہیں، بند کِواڑوں والے لوگ
چھن چھن کر آواز سی کوئی آتی ہے دیواروں سے
روح کے ویراں تہہ خانے تک روز کوئی آجاتا ہے
تنہائی کے موسم والی خالی راہ گزاروں سے
کشتی کب کی ڈوب چکی ہے لیکن اب تک اُس کا پتہ
دریا دریا پوچھ رہا ہے جانے کون کناروں سے
دیے کی آخری سانس بجھی اور آنکھ اٹھی آکاش کی سمت
کتنے ہی سر جھانک رہے تھے رات کی نم دیواروں سے
شارخ عبیر
وفا مجھ سے کوئی نبھاتا نہیں
تمہیں کام کوئی بھی آتا نہیں
"یہ گھر اب کسی کو منا تا نہیں”
مگر لوٹ کر کوئی آتا نہیں
عجب بے رخی ہے تری بات میں
کہ اب چاند نظریں ملاتا نہیں
پرندوں کو حیرت سے تکتا ہوں میں
گماں کو نظریہ بناتا نہیں
جو میرے تصوّر میں گم تھا کبھی
مجھے حال دل کا سناتا نہیں
سفر ہی مسافر کا انجام ہے
کبھی دل سفر میں لگاتا نہیں
اے تشنہ لبی غور سے بات سن
کیا کوزے میں دریا سماتا نہیں
مری چھت پے بادل بنائے گئے
میں تاروں سے نظریں ملاتا نہیں
ڈاکٹر نصیر احمد عادل
کمہرولی، کمتول، دربھنگہ،بہار
ٹوٹ کر کتنا گرا ہے آئینہ ملبے میں ہے
کتنی جانیں اور کتنا گھر جلا ملبے میں ہے
کتنے معصوموں کی چیخیں کتنی خوشیاں ہیں نہاں
کتنے ارمانوں کا خوں ہے ہوگیا ملبے میں ہے
لو تجاہل عرفانہ سے نہ ہرگز کام تم
انسانیت کے قتل کا سارا پتہ ملبے میں ہے
کس نے محلوں کو اجاڑا کس نے لوٹی آبرو
جاکے ویرانے سے پوچھو سب چھپا ملبے میں ہے
کس نے آلودہ فضا کی شعلے کو دی ہے ہوا
جانتا ہے یہ سارا جہاں ہے جو رہنما ملبے میں ہے
یہ نہ پوچھو کہ صدائے الاماں دیتا ہے کون؟
گونجتی ہے روز و شب جو بھی صدا ملبے میں ہے
جگنوؤں کی جگمگاہٹ چھینی کس نے روشنی
بجھ گیا عادل جہاں میں جو دیا ملبے میں ہے
آج بھی ملبے میں ہے ہر سو دبی چنگاریاں
آج بھی ہر سمت شعلہ جا بہ جا ملبے میں ہے
خالد مبشر
عجیب عالمِ وحشت میں ہے دوانہ شخص
نئے زمانے میں آیا ہوا پرانا شخص
کنویں کی ضد میں ہے بیٹھا ہوا وہ تشنہ شخص
نئے زمانے میں آیا ہوا پرانا شخص
خزاں کی رُت میں سراپا بہار والا شخص
نئے زمانے میں آیا ہوا پرانا شخص
وفا، خلوص ، محبت تلاش کرتا ہے
نئے زمانے میں آیا ہوا پرانا شخص
پرانے سکّے لیے آگیا سرِ بازار
نئے زمانے میں آیا ہوا پرانا شخص
ہر ایک چیز کو حیران تکتا رہتا ہے
نئے زمانے میں آیا ہوا پرانا شخص
وہ پینے کے لیے پیالے کے انتظار میں ہے
نئے زمانے میں آیا ہوا پرانا شخص
وہ کہف والا نہ ہو، اس کی قدر لازم ہے
نئے زمانے میں آیا ہوا پرانا شخص
وہ شہر بھر میں تماشا ہی بن گیا خالد
نئے زمانے میں آیا ہوا پرانا شخص
سیماب ظفر
اُس رَستے میں اور نہیں تھا کوئی بھی
دِل تھا، دِل کے ساتھ ہَوا، اور پتّے چند
تند ہوا سے اور تو کیا بگڑا ہو گا
یاد کا اک اک ورق اُڑا، اور پتّے چند
پت جھڑ تھی، سب پنچھی پیڑ کو چھوڑ اُڑے
باقی درد، ملال رہا، اور پتّے چند
بارش نے سب مٹی دھول کو دھو ڈالا
دل تاوان میں ساتھ بہا، اور پتّے چند
رِہ رِہ کر دو آنکھیں دھیان میں آ دَھمکیں
جِھیل میں جیسے شہد مِلا، اور پتّے چند
قمرعباس قمر
یہ رت عزا کی ہے شہرِ حزیں سے گزرے گا
لٹے ہوؤں کا قبیلہ یہیں سے گزرے گا
مجھے بچالے مرے یار سوز امشب سے
کہ اک ستارۂ وحشت جبیں سے گزرے گا
تمام سنگ بدستوں میں میرا شیشۂ دل
خبر نہیں تھی کہ اتنے یقیں سے گزرےگا
زمینِ تنگ سے ہفت آسماں کی وسعت تک
میں ڈھونڈ لاؤں گا تجھ کو کہیں سے گزرے گا
دیارِ غیر ادھر آکے اس کی وسعت ناپ
اک آسمان مری سرزمیں سے گزرے گا
جو ایک بار تری راہ سے گزر جائے
پھر اس کی ضد ہے دوبارہ وہیں سے گزرے گا