گُل تو اِس خاک داں سے آتے ہیں
رنگ اِن میں کہاں سے آتے ہیں
ساری چیزیں بدل سی جاتی ہیں
جب یقیں پر گماں سے آتے ہیں
باہر آتے ہیں آنسو اندر سے
جانے اندر کہاں سے آتے ہیں
کوئی کہتا تھا خاک اُڑتی ہے
یہ سمندر جہاں سے آتے ہیں
پُھول بھی بھیجتا ہے تحفے میں
تیر جس کی کماں سے آتے ہیں
تم بھی شاید وہیں سے آئے ہو
اچھے موسم جہاں سے آتے ہیں
“یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں “
کون سے آسماں سے آتے ہیں