نئی دہلی:اردو اکادمی، دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے اردو اکادمی، دہلی کی گورننگ کونسل کے ممبران کے ساتھ ایک خصوصی میٹنگ میں کہا کہ اردو اساتذہ کے لیے جو دہلی حکومت نے917 اسامیاں نکالی ہیں ان کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کریں، اس کے لیے انھوں نے اپنے ممبران سے گزارش کی ہے کہ ہر ممبر تین تین اسمبلی حلقوں میں جائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ زیادہ سے زیادہ ان اسامیوں کے لیے اہل امیدوار فارم پُر کریں اور اپنے طور پر واٹس ایپ، فیکس بک اور دیگر سوشل میڈیا کے ذریعے اس خبر کو عام کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ کوئی اسامی خالی نہ رہ جائے۔واضح رہے کہ دہلی سب آرڈینیٹ سروسیز سلیکشن بورڈ(DSSSB) نے ڈائرکٹریٹ آف ایجوکیشن، حکومتِ دہلی کی جانب سے اردو اساتذہ کے تقرر کے لیے917 اسامیوں پر درخواستیں طلب کی ہیں۔اردو اساتذہ کے تقرر کے لیے اشتہار کی تفصیلات https://dssbonline.nic.in پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ آن لائن درخواست 4؍ جون 2021 سے شروع ہو چکی ہیں جو 3؍ جولائی 2021 (رات11.59 بجے تک) جاری رہیں گی۔ اس میٹنگ میں گورننگ کونسل کے ممبران میں جاوید رحمانی، سلیم چودھری،رخسانہ خان، شبانہ بانو، اسرارقریشی، محمد شکیل، محمد ضیاء اللہ، منے خاں، محمد نفیس منصوری کے ساتھ ساتھ دیگر ممبران میں میٹنگ میں شامل تھے۔
اردو اکادمی
نئی دہلی:اردو اکادمی، دہلی کے کارکن ماہرحسین کا کل۲۳؍جون کو ان کے آبائی وطن سرسی، ضلع مرادآباد میں ۵۴ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ مرحوم گزشتہ تقریباً چھ ماہ سے کینسر کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ ان کا علاج دہلی کے بی۔ ایل۔ کپور اسپتال میں چل رہا تھا۔ ڈاکٹر کے جواب دینے پر ان کے لواحقین انھیں ۲۲؍جون کو سرسی لے کر گئے تھے جہاں وہ مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ مرحوم اکادمی میں اپنی ذمہ داریوں کے تئیں کافی سرگرم اور فعال تھے۔ وہ اپنے مفوضہ کاموں کے علاوہ اکادمی کی دیگر سرگرمیوں میں بھی خندہ پیشانی سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اپنے حسنِ اخلاق سے ہرایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چھ بیٹیاںہیں جن میں سے تین کی شادیاں ہوچکی ہیں۔
آج اکادمی کے دفتر میں ان کی یاد میں ایک تعزیتی میٹنگ کا انعقاد عمل میں جس میں اکادمی کے بیشتر اسٹاف نے شرکت کی۔ اس موقع پراکادمی کے اسسٹنٹ سکریٹری جناب مستحسن احمد نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے مرحوم کی نیک سیرت، حسنِ اخلاق کو اجاگر کیا اور ان کی دیگر بہت سی خصوصیات کا ذکر کیا جو ا ن کے لیے ہی خاص تھیں۔ جملہ اسٹاف نے مرحوم کی مغفرت کی دعا کرتے ہوئے لواحقین کے لیے صبرکی دعا کی۔ماہرحسین کے انتقال کی اطلاع پراکادمی کے سابق کارکنان اور دیگر معروف ادبی شخصیات نے بھی بذریعہ فون اظہارِ تعزیت کیا۔ اردواکادمی، دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ماہر حسین جس مرض میں مبتلا تھے وہ مرض الموت ثابت ہوا۔ گزشتہ کل وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ آدمی چلا جاتا ہے، اس کی یادیں رہ جاتی ہیں۔ دنیا والے بطور خاص جانے والے کے اعمال و اخلاق اور اس کی بعض دوسری خصوصیات کے حوالے سے اس کا ذکر کرتے ہیں۔ اردو اکادمی کے اراکین اور اکادمی کی تقاریب میں شریک ہونے والے ہزاروں خواتین و حضرات مرحوم کو ان کی خوش اخلاقی اور جفاکشی کی وجہ سے یاد رکھیں گے۔ وہ بہت فعال اور خوش مزاج شخص تھے۔ ان کی دلچسپ باتیں اور ان کا ترنم بھی مجھے یاد آتا ہے۔ میں نے ان کو ہمیشہ بہت مسرور انداز میں کاموں میں مصروف پایا۔ اپنی ذمہ داری کو خلوص کے ساتھ انجام دینا اور اکادمی میں تشریف لانے والوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ خوش آمدید کہنا ان کا شیوہ تھا۔ان کے انتقال سے ہم لوگوں نے ایک اچھے ساتھی کو کھودیا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا ان کے درجات بلند کرے اور ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔اکادمی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر اخترالواسع نے بھی مرحوم ماہر حسین کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو یاد کرتے ہوئے فون پر کہا کہ اردو اکادمی ان کے انتقال سے ایک مخلص کارکن، محبت رکھنے والے انسان اور دلچسپ شخصیت سے محروم ہوگئی۔ وہ سب کو خوش رکھنے کی ہمہ وقت کوششیں کرتے تھے۔ پروفیسر واسع نے کہا کہ ہم اللہ رب العزت سے ان کی مغفرت کی دعا کرتے ہیںکہ ان کے پسماندگان اور رفقا کو صبراور اس صدمہ جانکاہ کو برداشت کرنے کی ہمت عطا کرے ۔ آمین۔
انوار الحسن وسطوی، حاجی پور
رابطہ:9430649112
13جون 2020 (سوموار) روزنامہ قومی تنظیم کے”ادب نامہ“ میں محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے ایک حکم نامہ کے حوالے سے جواں سال ادیب، شاعر اور صحافی جناب کامران غنی صبا کی تحریربعنوان ”اردو کے لیے کم سے کم اتنا تو کیجیے“ نظر نواز ہوئی۔ جس میں انہوں نے مذکورہ حکم نامہ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے اس کی صراحت کی ہے۔ کابینہ سکریٹریٹ کا حکم نامہ یہ ہے کہ تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے ناموں کی تختی (Name Plate)، سرکاری منصوبوں کے بینر، سرکاری عمارات کا سنگِ افتتاح، ہورڈنگ، دعوت نامے وغیرہ ہندی کے ساتھ ساتھ ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو میں بھی آویزاں / شائع کیے جائیں۔ کامران غنی صباؔ نے اس حکم نامے کو مشتہر کرنے کے لیے باضابطہ ایک تحریر رقم کی اور اسے اخبار میں شائع بھی کرایا۔ بلاشبہ موصوف کی یہ کاوش ان کی اردو دوستی کی دلیل ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ گرچہ یہ ہدایت نامہ حکومتی احکام ہے لہٰذا متعلقہ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ بہار کے ہر اضلاع میں اس سرکاری حکم نامے پر عمل درآمد ہوگا ہی۔ اس حکم نامے کے عمل درآمد کے لیے انھوں نے عوامی بیداری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ موصوف کے اس خیال سے بھی عدم اتفاق کی کوئی گنجائش نہیں کہ ”ہم اردو والوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم آواز اُٹھانا اور دباؤ بنانا نہیں جانتے۔ ہم آواز وہاں اٹھاتے ہیں جہاں ہمارا ذاتی مفاد ہوتا ہے۔“ انھوں نے اس ضمن میں بہار اردو اکادمی کے کاموں کی مثال دیتے ہوئے صحیح تحریر فرمایا ہے کہ ”جب اکادمی فعال تھی تو لوگ اس کے کاموں پر تنقید کرتے تھے۔ آج جب اکادمی غیر متحرک ہے تو اس کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ اکادمی کی مخالفت کرنے والے لوگ چین کی نیند سو رہے ہیں۔“میں عزیز موصوف کو ان کے لڑکپن اور طالب علی کے زمانہ کی ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ ٹھیک یہی سلوک ماضی میں انجمن ترقی اردو کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پروفیسر عبدالمغنی کی قیادت میں انجمن جمہوری طریقے سے چل رہی تھی۔ صوبائی سطح پر مجلس عاملہ کی تشکیل ہوتی تھی۔ سال میں کم سے کم ایک دفعہ انجمن کی ریاستی مجلس عاملہ کی نشستیں منعقد ہوتی تھیں جن میں پورے بہار سے ممبران شریک ہوتے تھے۔ تجاویزمنظور کی جاتی تھیں۔ جن کی کاپی حکومت اور متعلقہ محکموں کو بھیجی جاتی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر صدر انجمن وزیر اعظم ہند، گورنر، وزیر اعلیٰ اور وزراء کو مراسلے ارسال کرتے تھے۔ مشورہ پر حکومت حسبِ توفیق عمل بھی کرتی تھی۔ انجمن کے زیر اہتمام ایک رسالہ ”مریخ“ شائع ہوتا تھا جو انجمن کا ترجمان بھی تھا۔ اس رسالہ کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اتنے کاموں کے باوجود لوگ صدر انجمن (پروفیسر عبدالمغنی)کو ہدف تنقید بنایا کرتے تھے اور انجمن کو ’ٹو مین کمیٹی‘ کے لقب سے نوازتے تھے۔ ایسا کہنے والوں میں ابھی بھی کچھ لوگ زندہ ہیں بلکہ پورے ہوش و حواس میں ہیں۔ میں ان کا نام لے کر ان سے جھگڑا ول لینا نہیں چاہتا لیکن ان سے میرا یہ سوال ضرور ہے کہ انجمن میں اب کوئی خامی یا خرابی انھیں کیوں نظر نہیں آتی ہے؟ کیا اب انجمن ان لوگوں کی توقعا ت کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہی ہے؟ اگر نہیں تو مجھے معاف فرمائیں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شال اور گلدستے کی چاہت نے لوگوں کی زبان کو گنگ کر رکھا ہے۔ لوگ اپنے مفاد کی خاطر ایمان کی بات بولنا نہیں چاہتے ہیں۔
کامران غنی صباؔ کی مذکورہ تحریر کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”جس طرح دوسرے شعبہئ حیات میں نوجوان بڑھ چڑھ کر تحریک کا پرچم بلند کر رہے ہیں اسی طرح اردو تحریک کو بھی نوجوان اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔“ موصوف کی اس تجویز کو پڑھ کر مرزا غالبؔ کا یہ شعر بے ساختہ میرے ذہن میں آ گیا:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
واقعی کامران غنی صباؔ نے میرے دل کی بات کہہ دی ہے۔ میری بھی یہی تجویز ہے کہ بغیر وقت ضائع کیے اب نوجوان آگے بڑھ کر اردو تحریک کی کمان سنبھال لیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بہار میں اردو تحریک کی کمان سید محمد ایوب ایڈوکیٹ، الحاج غلام سرور، پروفیسر عبدالمغنی، مولانا بیتاب صدیقی، شاہ مشتاق احمد، سید تقی رحیم، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی جیسے مجاہدین اردو نے عالمِ ضعیفی میں نہیں بلکہ ایامِ جوانی میں ہی سنبھالی تھی اور لمبے عرصے تک اردو کی لڑائی لڑی تھی جس کے نتیجے میں بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا تھا۔ میرا بھی یہ ماننا ہے کہ ریاست میں اردو کے عملی نفاذ کے سلسلہ میں اگر نئی نسل کے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور تاریخ کو دہرائیں گے تو ان شاء اللہ ضرور کامیابی حاصل ہوگی اور اردو کے مسائل ضرور حل ہوں گے۔ میں کامران غنی صباؔ کے اس خیال کی سو فیصد تائید کرتا ہوں کہ ”آج جس طرح ملکی سطح پر نوجوانوں نے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی قیادت اور رہبری کا انتظار کیے بغیر تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا ہے اسی طرح اردو تحریک کو بھی جواں اور گرم خون کی ضرورت ہے اور جس دن نوجوانوں نے اردو تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا اُس دن سے انقلاب کی ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔“ عزیزی کامران غنی صباؔ کا یہ جذبہ اور حوصلہ قابلِ قدر اور لائقِ تائید ہے۔