کامران غنی صباؔ
شعبۂ اردو نتیشورکالج، مظفرپور
کیا بتائوں کس قدر ہے روح زندانی بہت
مسکراتا ہوں تو سمجھو ہے پریشانی بہت
ایک میرا خواب، اک بستی ہو، بستی عشق کی
اور میرے خواب پر سب کو ہے حیرانی بہت
گھر کے اندر بند رہنے سے کوئی حاصل نہیں
کر چکا وہ آپ کی اب تک نگہبانی بہت
ایک میں ہوں، اک مرا غم، تیسرا کوئی نہیں
تیسرا ہوتا تو ہوتی پھر پشیمانی بہت
چیخ اٹھتا ہوں میں تنہائی میں خود پر دفعتاً
جب ڈراتی ہے مرے اندر کی ویرانی بہت
دم گھٹا جائے ہے میرا، کیا بتائوں ائے خدا
پارسائی کے لبادے میں ہے شیطانی بہت
روز سمجھاتا ہوں چپ رہ مصلحت کے نام پر
روز یہ ظالم زباں کرتی ہے نادانی بہت
یوں تو سب کرتے ہیں مجھ سے پیار لیکن ائے صباؔ
اک مرے اندر چھپا ہے دشمنِ جانی بہت