یہ محض اتفاق ہے کہ جس روز دہلی فساد کی فردجرم میں شاہین باغ کی احتجاجی خواتین کو’ دھاڑی مزدور‘ اور’ فسادیوں کی ڈھال‘ قراردیا دینے کی خبر شائع ہوئی، اسی روز یہ اطلاع بھی ملی کہ مشہورزمانہ امریکی نیوزمیگزین ’ ٹائم ‘ نے 2020کے لئے دنیا بھر سے جن100 بااثرشخصیات کا انتخاب کیا ہے ، ان میں شاہین باغ کی 82سالہ دادی بلقیس بانو بھی شامل ہیں۔اس خبر کے عام ہوتے ہی ان لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی‘ جنھوں نے شاہین باغ کے بے مثال احتجاجی دھرنے میں کسی بھی طور شرکت کی تھی اور اپنے دستوری اور جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے یہ باور کرایا تھا کہ کوئی بھی حکومت عددی طاقت کے گھمنڈ میں اس ملک کی اقلیتوں کی شناخت نہیں مٹا سکتی۔ دوسری طرف یہ خبر ان تمام لوگوں پر بجلی بن کر گری ، جنھوں نے شاہین باغ کے احتجاج کو بدنام کرنے اور وہاں دھرنے پر بیٹھی ہوئی پاکیزہ خواتین کے دامن کو داغدار کرنے کی مذموم کوششیں کی تھیں۔اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی کسی کو بے عزت اور بے وقار کرنے کی کتنی ہی سازشیں کیوں نہ رچے ، لیکن جب قدرت کسی کو عزت دینا چاہتی ہے تو اس کے سامنے اقتدار اور حکومت کی طاقت بھی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ یہ دراصل ایک پیغام ہے ان لوگوں کے لئے جنھوں نے اقتدار اورعددی طاقت کے گھمنڈ میں اس ملک کے کمزورلوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کوچاہتا ہے ذلت سے دوچار کرتا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس فہرست میں شاہین باغ کی دادی کو داد وتحسین دے کر ان کا نام دنیا کی 100با اثر شخصیات میں شامل کیا گیا ہے، اسی فہرست میں وزیراعظم نریندر مودی کا بھی نام ہے مگر ان کا نام دیگر عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔’ٹائم ‘ میگزین نے وزیراعظم نریندر مودی پر ایک بار پھر تیکھا تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ” مخالفت کو دبانے کے لئے ان کی ہندو قوم پرست پارٹی بی جے پی کووبا کا بہانا مل گیا اور اس طرح دنیا کی سب سے زندہ جمہوریت اندھیرے میں ڈوب گئی۔“ٹائم میگزین نے مزیدلکھا کہ” ہندوستان کے زیادہ تر وزیراعظم ہندو فرقہ سے رہے ہیں، لیکن صرف مودی اس طرح کام کررہے ہیں، جیسے ان کے لئے کوئی اور معنی ہی نہیں رکھتا۔ ان کی ہندوقوم پرست بی جے پی نے شرافت کو طاق پر رکھ دیاہے۔خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیاہے۔“
’ٹائم‘ میگزین کا یہ تبصرہ حقیقت میں وزیراعظم نریندر مودی کے اقتدار پر ایک بے باکانہ اور حقیقت پسندانہ رائے کا درجہ رکھتا ہے۔ کیونکہ انھوں نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے تب سے ملک میں یک رخی سیاست کا دور دورہ ہے ۔یہاں مسلمانوں کے بنیادی دستوری حقوق کو چھیننے کی کوششیں عروج پر ہیں۔جس شاہین باغ کے احتجاج میںحصہ لینے والی 82سالہ بلقیس بانو کو ’ ٹائم ‘ میگزین نے دنیا کی100 بااثر شخصیات میں شامل کیا ہے، وہ ایک ہاتھ میں ترنگا لے کر صبح سے رات تک دھرنے پر بیٹھتی تھیں۔ ان کا تعلق مغربی اترپردیش سے ہیں۔ ان کے شوہر ایک کسان تھے ، جن کی دس برس پہلے موت ہوچکی ہے اور اب وہ شاہین باغ میں اپنے بہو بیٹوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ انھوں نے شدید سردی کے موسم میں سینکڑوں دیگر خواتین کے ساتھ دھرنے میں حصہ لیا اور وہ اس بے مثال احتجاج کی ایک زندہ جاوید علامت بن گئیں۔ شاہین باغ کا یہ دھرنا جس نے اپنی امن پسندی اورسیکولر جمہوری طریقوں کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل کی تھی ، دراصل سی اے اے قانون کے خلاف ایک خاموش مگر موثر احتجاج تھا جس کی آواز پوری دنیا میں سنی گئی ، جس کا ایک ثبوت ’ ٹائم ‘ میگزین کا اعزاز بھی ہے ۔لیکن حکمراں جماعت نے شاہےن باغ کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔بی جے پی ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما نے یہاں تک کہا کہ” شاہین باغ میں بیٹھے ہوئے لوگ آپ کی بہن بیٹیوں کو ریپ کریں گے ۔“کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر نے باقاعدہ نعرے لگوائے کہ” دیش کے غداروں کو، گولی مارو … کو۔“ اسی آخری درجے کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں شاہین باغ اور جامعہ مےں بیٹھے ہوئے لوگوں پر گولیاں چلیں اور کہا گیا کہ ” اب اس ملک میں صرف ہندوو¿ں کی ہی چلے گی۔“غرضیکہ ان پرامن مظاہرین کو بدنام کرنے اور انھیں خوفزدہ کرنے کے لئے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا گیا جو صاحبان اقتدار کے بس میں تھا مگر وہ اپنی تمام تر مذموم کوششوں کے باوجود ان کے حوصلوں کو توڑ نہیں پائے اور یہ لوگ آخری وقت تک وہاں بیٹھے رہے۔ یہ دھرنا خواتین نے منظم کیا تھا اور وہی اس کی شریک کار تھیں۔ جسم کو منجمد کردینے والی شدید سردی میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے رات دن بیٹھنے والی ان خواتین کو صرف اسی بات کی فکر لاحق تھی کہ کہیں کو ئی ان کی شہریت اور وطنیت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے اور وہ کسی بھی طور اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔
’ ٹائم ‘ میگزین نے دنیا کے 100 بااثر لوگوںکی فہرست میں بلقیس بانو کے علاوہ جن ہندوستانیوں کو شامل کیا ہے ، ان میں گوگل کے سی ای او سندر پچائی، اداکارہ آیوشمان کھورانہ، ایچ آئی وی پر ریسرچ کرنے والے پروفیسر رویندر گپتا کے نام شامل ہیں۔ ان سب ہی کے بارے میں ’ ٹائم ‘ میگزین نے تعریف اور توصیف کے جملے ادا کئے ہیں ، لیکن ان میں صرف وزیراعظم نریندر مودی اکلوتی شخصیت ہیں جن پر ایک مختصرمضمون میں تلخ تبصرہ کیاگےا ہے۔ افسوس کہ ہندوستانی میڈیا کے بڑے حصہ نے اس تبصرے کو شائع نہیں کیا۔ ’ ٹائم ‘ نے لکھا ہے کہ” جمہوریت کے لئے اصل بات صرف چناو¿ نہیں ہے۔ چناو¿ صرف یہی بتاتے ہیں کہ کسے سب سے زیادہ ووٹ ملے، لیکن اس سے زیادہ اہمیت ان لوگوں کے حقوق کی ہے، جنھوں نے جیتنے والے کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا۔ ہندوستان پچھلی سات دہائیوں سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بنا ہوا ہے۔ یہاں کی 130کروڑآبادی میںعیسائی ، مسلمان، سکھ، بودھ، جین اور دیگر مذہبی فرقوں کے لوگ رہتے ہیں۔“ ٹائم نے لکھا ہے کہ ”نریندر مودی نے اس سب کو شبہ کے گھیرے میں لادیا ہے۔ حالانکہ ہندوستان میں ابھی تک سارے وزیراعظم تقریبا ً 80فیصد ہندو آبادی سے آئے ہیں، لیکن مودی اکیلے ہیں ، جنھوں نے ایسے سرکار چلائی جیسے انھیں کسی اور کی پروا نہیں ہے۔ ان کی ہندو قوم پرست بی جے پی نے نہ صرف رواداری کو خارج کیا بلکہ کثرت میں وحدت کو بھی مسترد کیا، خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناکر۔ وبا ان کے لئے مخالفت کو دبانے کا ذریعہ بن گئی اور دنیا کی سب سے زندہ جمہوریت گہری تاریکی میں ڈوب گئی۔“واضح رہے کہ یہ وہی ’ ٹائم ‘ میگزین ہے جس نے گزشتہ سال عام انتخابات کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کی تصویر کے ساتھ” ڈیوائیڈر ان چیف“ کی سرخی لگائی تھی اور جس اس پر سرکاری حلقوں میں کافی ہنگامہ برپا ہوا تھا۔اس وقت بی جے پی نے الزام لگایا تھا کہ یہ مضمون وزیراعظم نریند رمودی کی شبیہ کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش ہے۔
’ٹائم ‘میگزین نے شاہین باغ کی بلقیس بانو کو یہ اعزاز دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ” وہ ہندوستان میںمحروموں اور مظلوموں کی آواز بنیں۔ وہ کئی بار دھرنے کی جگہ صبح آٹھ بجے سے رات بارہ بجے تک رہا کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ ہزاروں دیگر خواتین بھی وہاں موجود ہوتی تھیں اور خواتین کے اس دھرنے کو احتجاج کی علامت تسلیم کیا گیا تھا۔ میگزین نے لکھا ہے کہ بلقیس بانو نے سماجی کارکنان بالخصوص طلباءلیڈروں کو جنھیں جیل میں ڈال دیا گیا، انھیں مسلسل حوصلہ دیا اور یہ پیغام دیا کہ جمہوریت کو بچائے رکھنا کتنا ضروری ہے۔شاہین باغ کے احتجاج کے دوران ایک موقع پر جب وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ سی اے اے پر ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے تو اس کے جواب میں بلقیس بانو نے کہا تھا کہ” اگر وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ وہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے تو میں کہتی ہوں کہ ہم ایک بال برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔“
سبھی جانتے ہیں کہ شاہین باغ کی تحریک ظلم اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئی تھی اورپوری دنیا کی توجہ اس پر مرکوز تھی ۔ حکومت کے ہاتھ پاو¿ں پھول گئے تھے اور وہ دنیا کواس بات پر مطمئن نہیں کرپارہی تھی کہ شہریت ترمیمی قانون میں جو ترمیم کی گئی اس میں مسلمانوں کو شہریت دینے کا التزام کیوں نہیں ہے۔آج سی اے اے مخالف تحریک میں حصہ لینے والوں کے خلاف ظلم اور جبر کا جو پہیہ گھوم رہا ہے وہ دراصل ان سے انتقام لینے کی ایک کوشش ہے۔ ملک گیر سطح پر شاہین باغ تحریک میں حصہ لینے والوں پر دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے اوران میں سے بیشتر لوگوں کو جیلوں میںڈال دیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ انتقام شاہین باغ اور جامعہ کے مظاہرین سے لیا جا رہا ہے۔ انھیں شمال مشرقی دہلی کے فساد کا کلیدی ملزم اور سازش رچنے والا بتایا گیا ہے۔ جبکہ فساد بھڑکانے والے حکمراں طبقہ کے لوگوں کو کلین چٹ دے کر انھیں پولیس کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ شاید اسی لئے ٹائم میگزین نے لکھا ہے کہ” دنیا کی سب سے زندہ جمہوریت تاریکی میں ڈوب گئی ہے۔“
احتجاج
قوانین واپس نہیں کیے گئے تو دہلی کاسفر ہوگا،کسانوں کامرکزی حکومت کو انتباہ
پٹیالہ:پٹیالہ شہر کی گلیوں میںآس پاس کے درجنوں دیہاتوں سے آنے والے کسانوں کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ شہر کے منی سیکریٹریٹ کے قریب ان کسانوں کا اجتماع بہت بڑا ہوتا جارہا ہے اورتقریباََ دوکلومیٹر سڑک کسانوں سے بھری ہوئی بسوں اورٹریکٹروں سے بھری ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے آج احتجاج نہیں کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔اگران قوانین پر عمل درآمدکیاگیاتوپنجاب کے کسان بربادہوجائیں گے۔کسانوں نے کہا کہ ہم ابھی اپنے گھروں سے باہر آئے ہیں اور دہلی کانپ رہی ہے ، اگر یہ قوانین واپس نہیں کیے گئے تو دہلی کا سفر کریں گے۔ ان میں ہر عمر اور ہر طبقے کے کسان شامل ہیں۔کسانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اب ہزاروں کسان بسوں کی چھت پر چڑھ کر اپنے قائدین کی باتیں سن رہے ہیں۔بھارتیہ کسان یونین کے پٹیالہ ضلعی صدر منجیت سنگھ دیال نے یہ کہتے ہوئے سب کی تعریف کی کہ یہ قوانین کسانوں کی موت کے وارنٹ کے مترادف ہیں۔ اس کے بارے میں ان کاکہناہے کہ اگرپنجاب کاکسان پورے ملک میں سب سے زیادہ خوشحال ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کےمنڈی سسٹم اور ایم ایس پی کا ملاپ ہے۔
دیوبند (رضوان سلمانی)
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں کے لئے اب شاہین باغ ایک مثال بن گیا ہے اور شاہین باغ کی طرز پر ملک کے متعددمقامات اور شہروں میں خواتین اس قانون کی مخالفت میں مظاہرے کررہی ہیں، شاہین باغ کی تقلید کرتے ہوئے انقلابی سرزمین دیوبند کی خواتین بھی بھر پور جوش و خروش کے ساتھ اس مہم میں حصہ لے رہی ہیں۔ آج ایک مرتبہ پھر سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ دیر شام تک جاری رہا جس میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے حصہ لیا ۔ قومی ترانہ سے شروع ہوئے پروگرام میں خواتین نے آئین کو پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستانی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آج دوپہر بازار سرسٹہ سے جلوس کی شکل میں عیدگاہ میدان میں پہنچی خواتین دیر شام تک نعرے بازی کرتی رہی ۔ اس دوران کمیٹی کی صدر آمنہ روشی اور عنبر نمبردار نے کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین سڑکوں پر دن رات دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لئے حکومت نے مجبور کردیا ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ ہمیں مظلوم کہا جاتا تھا ، تین طلاق پر ہمیں معصوم کہنے والے آج دیکھ لیں کہ ہم ملک بھر میں آئین بچانے کے لئے گھروں سے باہر آگئی ہیں۔انہو ںنے کہا کہ حکومت وقت ملک کے مشترکہ ور ثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کے عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اسلئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طورپر یہ قانون واپس لے۔ فرحانہ ، شائستہ اور روزی نمبردار نے کہا کہ ہمیں اچھی حکومت چاہئے ، ہمیں ایسی حکومت نہیں چاہئے جو ہمیں ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کررہی ہو۔ انہو ںنے کہا کہ سی اے اے جہاں چار لوگوں کو شہریت دے رہا ہے وہیں ایک کی شہریت کو چھین رہا ہے ۔ انہوں نے آسام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک ریاست میں ہی 19لاکھ افراد ایک جھٹکے میں غیرملکی ہوگئے ، جب کہ صدیوں سے ان کے آبائو اجداد یہاں پر رہتے آئے ہیں ۔ انہیں ہندوستانی ڈٹینشن سینٹر میں جاکر مرنے کے بجائے پولیس کی گولی سے مرنا منظور ہوگا ۔ انہوں نے یوپی حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہاکہ یوپی حکومت قوانین کا غلط استعمال کرکے ایک فرقہ کو نشانہ بنارہی ہے جو قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اکثریت کے زعم میں غلط قوانین پاس کررہی ہے لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کریگی۔عظمیٰ عثمانی، ڈیزی شاغل اور ہما قریشی نے مرکزی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہم ہندوستانیوں کے کاغذ پورے نہ ہونے پر ہندوستانی نہیں مانتے تو ہم بھی آپ کو وزیر اعظم نہیں تسلیم کرتے۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے تو انہیں ہم متنبہ کرتے ہیں کہ ہم ہندوستانی عورتیں بھی آدھا انچ بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے آباؤ اجداد کا خون شامل ہے ،جنہوں نے اپنی جانیں نچھاور کرکے اس ملک کو آزادی دلائی لیکن آج ہمیں دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں،جس کے خلاف ہم آخرتک اپنی آواز بلند کریںگے۔عیدگاہ میدان میں ترنگے جھنڈوں اور سی اے اے و این آرسی کے خلاف بنے بینر وں وپوسٹر وں کے ساتھ احتجاج گاہ پہنچی خواتین اور لوگوں کا جوش و خوش قابل دید تھا، خواتین نے زبردست طریقہ سے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ جب تک یہ کالا قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک یہ احتجاجی سلسلہ جاری رہے گا،ساتھ ہی خواتین اور طالبات نے جامعہ ملیہ اسلامیہ،جے این یو اور طلبہ مدارس کے خلاف کی گئی انتظامیہ کی کارروائی پر سخت غصہ کااظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے فوری طورپر یہ مقدمات واپس لینے اور بے قصور وںکو رہا کرنے کامطالبہ کیا،خاص بات یہ ہے اس پروگرام میں خواتین کے ساتھ بچوں نے بھی جوش و خروش سے حصہ لیا۔ مظاہرہ کے دوران بڑ ی تعداد میں پولیس فورس تعینات رہی اور خفیہ محکمہ کے افسران بھی پل پل کی خبر اعلیٰ افسران کو دیتے دکھائی دیئے۔خبر لکھے جانے تک خواتین عیدگاہ میدان میں ڈٹی ہوئی تھیں۔
تحسین پوناوالا، ناصر حسین قریشی، پی وی سریندرناتھ اور مولانا یاسین اختر مصباح کا طلباسے اظہار یکجہتی
نئی دہلی: (جامعہ کیمپس سے محمد علم کی رپورٹ) مولانا محمد علی جوہر روڈ پر قدم رکھتے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ آپ ایک ایسی بستی میں داخل ہو گئے ہیں جہاں بے چینیوں کا راج اور اضطراب کا بسیر اہے ۔ رات کے سناٹے کے بعد سورج کی روشنی کے ساتھ ہی قومی نغمے کانوں میں گونجنے شروع ہو جاتے ہیں اور فجر کی اذان کے ساتھ ہی جن من گن اور سارے جہاں سے اچھا کی نوید سنائی دینے لگتی ہے ۔حب الوطنی میں ڈوبے گیت اور نغموں سے سر شار جامعہ کے طلبااور اوکھلا کے باسی جب اس آواز کو سنتے ہیں تو ان کے قدم خود ہی اس جانب کشاں کشاں کھنچے چلے آتے ہیں اور پھر شروع ہوجاتا ہےایک نیاجہان تعمیر کرنے کا عمل ، ایک نیا خواب بُننے اوراس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا جذبہ ، کسی کے ہاتھ میں ترنگا ہوتا ہے ، کسی کے ہاتھ میں پلے کارڈ تو کوئی اپنے ٹوٹے بستوں کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ بابِ مولانا آزاد جو احتجاج کی نشانی بن چکا ہے پہنچنا شروع ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر شیر خوار بچوں کے ساتھ اسی اور نوے سال کے بزرگ بھی دکھائی دیتے ہیں ، پیروں سے معذور افراد اور وہ بھی جو بول نہیں سکتے لیکن زبان حال اور قال سےگواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے دستور کو بچانے نکلے ہیں اور آزاد ہندوستان کے یہ وہ سپاہی ہیں جو کل کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس سے باہر سڑک کنارے سی اے اے (سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ )، این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر)اور این آرسی ( نیشنل رجسٹرآف سٹیزن ) کے خلاف تقریبا چالیس دن سے جاری احتجاج میں ہر دن ایک نیا انداز اور نیا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے ،جس میں طلبا اور آس پاس کے رہائشی حکومت کے خلاف اپنے اپنے انداز میں غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں ۔ شاعر اپنی شاعری کے ذریعے تو آرٹسٹ اپنے آرٹ کے ذریعے ۔ دیواریں اور سڑکیں مزاحمت کا نشان بن گئی ہیں جہاں تخلیقیت سے پُر نعرے اور کارٹون حکومت کو منہ چڑاتے نظر آتے ہیں ۔مقررین خطاب کرتے ہیں تو پڑھے لکھے افراد اس قبیح بل کے دور رس اثرات اور نقصانات سے لوگوں کو واقف کراتے ہیں ۔ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والے اس احتجاج میں ، گذشتہ اکیس دن سے ستیہ گرہ پر بیٹھے بھوک اور پیاس سے نڈھال طلبا بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کے چہرے پر نا امیدی یا مایوسی نظر نہیں آتی بلکہ عزم و ہمت کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباپر مشتمل رضاکار بلا تھکے انتہائی خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جس میں صفائی سے لیکر سیکیورٹی اور ٹریفک تک کی ذمہ داریاں طلباہی نبھاتے ہیں ۔ اسٹریٹ پر لائبریری بھی سجی نظر آتی ہے جس میں مختلف موضوعات پر کتابوں کا ڈھیر نظر آتا ہے جہاں پڑھنے والے طلبا مطالعہ میں غرق دکھائی دیتے ہیں ۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ سے چھیڑی گئی اس تحریک کو آج ۴۰ روز مکمل ہوگئے. آج کے احتجاج میں کئی سیاسی وسماجی شخصیات نے شرکت کی اور اس سیاہ قانون کی مخالفت جاری رکھنے کےلیے طلبا کے عزم وحوصلے کی داد دی اور طالبات کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے حتی المقدور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ دوردراز اور قرب وجوار سے آئی سماجی وسیاسی شخصیات میں خاص طور پر سماجی کارکن اور سیاسی تجزیہ کار تحسین پوناوالا، آج تک کے نیوز اینکر ناصر حسین قریشی، میرٹھ سے آئے وکیل عبدالواحد، اسلامک اسکالریاسین اخترمصباحی ، اکھل بھارتیہ وکیل سنگھ کے سکریٹری پی وی سریندرناتھ قابل ذکر ہیں۔سماجی کارکن وسیاسی تجزیہ کار تحسین پوناوالا نے مظاہرین کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مودی اور شاہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ سی اے اے اور این آر سی دو الگ الگ چیزیں ہیں مگر دونوں کانفاذ ہی حقیقت ہے۔ سرکار گاندھی جی کو مہرہ بنا کر استعمال کر رہی ہے اور گاندھی جی کے پرانے بیانات کو توڑ موڑ کر پیش کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت میں ہو مگر ان کی غیر آئینی پالیسیوں اور قوانین کو عوام تسلیم نہیں کریں گے ، جو لوگ تحریک چلا رہے ہیں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی آئین کو بچانے کی ہے۔ ان کایقین ہے کہ عدالت عظمی اس سیاہ قانون کو ضرورغیر آئینی قرار دے گی۔آج تک کے نیوز اینکر ناصر حسین قریشی نے کہا کہ وزیراعظم کو یہاں مظاہرین سے مل کر چرچا کرنی چاہیے اور یقین دلانا چاہیے کی این پی آر اور این آر سی نافذنہیں ہوگا اور مجھے لگتا ہے کہ لوگ وزیراعظم کی بات پریقین بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا ایک بہت بڑا گروہ بھرم اور دراڑ پھیلانے میں لگا ہے مگر ہم محبت پھیلائیں گے اورجیتیں گے ۔میرٹھ سے آئے وکیل عبدالواحد نےمظاہرین کوخطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑی بات ہے کہ ہم حکومت کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہم ذاتی واداور یوگی والے بھگوا رویہ کے مخالف ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ہم بھگت سنگھ کے رویے کو سلام کرتے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے طلبہ لیڈر اعجاز علی جعفری نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرکار کہہ رہی ہے کہ یہ پورا معاملہ صرف مسلمانوں کا ہے مگر ان لوگوں نے پہلے بھی جھوٹے وعدے کیے ہیں، نوٹ بندی کے وقت وزیراعظم نے 50دن مانگے تھے کہ کالا دھن واپس لے آئیں گے لوگوں نے ان پریقین کیا مگر صرف دھوکہ ملا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ضابطہ بنالیا ہے کہ پارٹی میں ہونے کے لیے غنڈہ ہونا ضروری ہے، اور جوجتنا بڑا غنڈہ اتنا بڑا عہدہ۔ ان کے علاوہ دیگر مقررین میں پیس پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر محمد ایوب، سماجی کارکن ابھنو سنہا اورجامعہ کے طلبہ لیڈر عاقب رضوان، مبشر بدر وغیرہ نے بھی اپنی بات رکھی ۔ آج جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کی جانب سے ‘راشٹرویاپی سنیکت پردرشن کے اعلان ’ کے تیسرے دن دیش بھر کے مختلف مقامات پر ‘ایک روزہ بھوک ہڑتال’ کا بھی انعقاد عمل میں آیا ۔ ‘کال فار ریززٹینس’ عنوان کا یہ اعلان ایک ہفتہ تک ملک کے مختلف مقامات پرمختلف کاموں کے ذریعہ سے ہوگا۔جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی اور ایلومنائی ایسوسی ایشن کے ممبران کے مطابق جب تک یہ سیاہ قانون واپس نہیں لے لیا جاتا تب تک وہ مظاہرہ جاری رکھیں گےـ
موبائل نمبر: 8860931450
اسلامیات کے ماہرین اس بات کو جانتے ہیں کہ بعض سنگین حالات میں عورتوں کو گھر چھوڑکر مورچہ سنبھالنے کی اجازت ہے اور وہ بھی بغیر شوہر کی اجازت کے۔ 12-12-19کو CAAبنادیاگیا، یہ قانون اولاً تو آئین کی روح کے خلاف ہے، دوسرے قانونی ماہرین اس کو آئین کی دفعہ 14اور 21کے خلاف قرار دے رہے ہیں، تیسرے یہ قانون ہندتوا آئیڈیالوجی کی طرف ملک میں پہلا عملی اور قانونی قدم ہے، چوتھے مستقبل میں ہونے والی NRCکے نتیجے میں عدم دستاویز کے باوجود بھی تمام غیرمسلم CAAکی وجہ سے بدستور بھارتی شہری قرار پائیں گے لیکن مسلمان معمولی خامیوں کی وجہ سے غیرملکی قرار دیدیے جائیں گے۔ اس لیے یہ قانون اپنی وسعت و پھیلاؤ میں امت مسلمہ کے لیے سنگین نتائج رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ آسام کے ڈٹینشن کیمپ کی بدترین تصویر نے اس قانون کی بربریت کو اپنی انتہا پر پہنچادیا۔ خیال رہے کہ وہاں پر ایسا بھی ہواکہ بہن کوکہیں اور بیوی کو کہیں بندوق کی نوک پر ڈٹینشن کیمپ میں داخل کردیاگیا، اس لیے اس قانون کے خلاف جو ہماری محترم مسلم خواتین احتجاج کررہی ہیں، بالخصوص شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وہ بالکل عین تقاضائے وقت ، تقاضائے فطرت اور تقاضائے شریعت ہے۔
دنیا کے تمام ماہرین قوانین حق خود حفاظتی کے اصول کو مانتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے بھی اس عالمی اصول کی قدر کی ہے اور اسی کے مطابق ”جہاد و قتال“ کی تفصیلی ہدایات جاری کی ہیں۔ CAAکے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئی ہماری بہنیں اور ان کے اعزہ واقارب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسلامی تاریخ میں خواتین عین میدانِ جنگ میں لڑی ہیں، اس سلسلے میں حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب اور حضرت خولہؓ کے واقعات بطور استدلال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ صفیہ بنت عبدالمطلب نے جو کہ حضور ﷺ کی پھوپھی تھیں، جنگ اُحد اور جنگ خندق میں مردانہ وار دشمنوں پر ہتھیارچلاٸے، حضرت خولہؓ نے 30دیگر مسلم خواتین کے ساتھ خیمے کی لکڑیوں سے حملے کیے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
ملک میں 30کروڑ مسلمان ہیں، جن میں 15کروڑ مسلم خواتین ہیں، دہلی اور دیگر شہروں میں بھی ہماری بہنوں کو اسلامی قدروں کے ساتھ باہر نکلنا چاہیے اور مکمل طورپر پُرامن رہتے ہوئے احتجاج کرنا چاہیے۔ اہل خانہ کو چاہیے کہ ان کو سیفٹی فراہم کریں۔ شاہین باغ کی بہادر خواتین سے حوصلہ پاکر دیوبند کی عیدگاہ میں ہماری مائیں، بہنیں نکل کھڑی ہوئیں۔ مشرقی دہلی کے خوریجی علاقے میں چند علماء اور نوجوانوں کی محنت رنگ لائی اور 13 جنوری 2020سے یہاں پر بھی ہماری مائیں ، بہنیں دھرنے پر بیٹھ چکی ہیں اور پوری طاقت سے آئین ہند کی حفاظت کا عہد کررہی ہیں۔ No NPR, No NRC, No CAA کا نعرہ لگارہی ہیں۔ سبزی باغ پٹنہ ، روشن باغ الٰہ آباد میں بھی خواتین مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ غرض پورے ملک میں مسلم و غیرمسلم حضرات کےگھروں کی ’’عزتیں ‘‘ آئین ہند کی حفاظت کے لیےبے گھر ہورہی ہیں۔ معلوم نہیں فراعِنۂ وقت پر کب ’’بجلی کڑکڑکڑکے گی ‘‘ ؟؟؟
ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ NRC, CAAوغيرہ جس قدر خطرناک آٸین ہند کیلٸے ہیں اسی قدر بھارتی مسلمانوں کیلٸے ہیں ، اب تک کی کوئی بھی ’’حکومتی وضاحت ‘‘مندرجہ ذیل سوالات کو حل نہیں کرتی:1 CAAکے ذریعےغیرمسلم پناہ گزینوں Refugeeکو CAAبچالے گیا، مگر مسلم پناہ گزینوں کا کیا ہوگا؟ ڈٹینشن کیمپ؟ وطن واپسی؟ یا دریابُرد ؟؟
2 ملکی سطح پر ہونے والے NRCکا بھی یہی معاملہ ہے، غیرمسلم حضرات کو تو دستاویز نہ ہونے یا ان میں خامیاں ہونے کے باوجود بھی CAAمحفوظ مستقبل Safe Future کی گارنٹی دے گا، جب کہ مسلمان دستاویز نہ ہونے یا ان میں خامیاں ہونےکی وجہ سے بدترین مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ خیال رہے کہ صرف 28فیصد بھارتیوں کے پاس سند پیدائش Birth Certificateہے، جب کہ 99فیصد بھارتیوں کے دستاویز نامکمل ہیں یان میں غلطیاں ہیں۔
3 ملک کے مختلف علاقوں میں قائم ڈٹینشن کیمپ کا کیا مطلب ہے؟ غیرمسلم پناہ گزینوں کو تو CAAبچالے گیا اور ان کو شہریت دے دی جائے گی، صاف مطلب ہے کہ یہی ڈٹینشن کیمپ بھارتی مسلمانوں کا مستقبل ہوں گے۔ خیال رہے کہ آسام میں 6ڈٹینشن کیمپ قائم ہوچکے ہیں،بنگلور میں تیار ہوچکا، مہاراشٹر میں زیرتعمیر ہے، دیگر صوبوں میں مرکزی حکومت نے تیار کرنے کے لیےبولا ہے۔ اسدالدین اویسی کے بقول مودی حکومت نے ڈٹینشن کیمپ کے لیے بجٹ بھی مختص کردیا ہے۔
اس لیے ہم بھارتی مسلمانوں کو حکومت کے کسی بھی بہکاوے میں نہیں آنا ، ہم کو جان لینا چاہیے کہ موجودہ مودی حکومت100سال پہلے دیکھے ہوئے خوابوں کو پورا کرنا چاہتی ہے، پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت (303نشست 2019) کا بھوت بار بار بی جے پی کے کان میں پھونکتاہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ (Now and never)۔ یہ حکومت مہینے دو مہنے کی چیخ و پکار اور گنتی کے چند دھرنوں سے رعب نہیں کھانے والی، اس بھوت (مودی حکومت) کو 15فیصد کی بوتل میں بند کرنا 85فیصد بھارتیوں پر ضروری ہے، اس لیے تحریک میں تیزی لائی جائے، نظم و ضبط لایاجائے۔ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جو مسلمان خواہ وہ علماء ہوں یا غیرعلماء NRC, CAAاور NPRکی حمایت کررہے ہیں یا خاموش ہیں، وہ ملک و ملت کے غدار ہیں، وہ ابورغال ہیں، وہ سراج الدولہ کے غدار میر جعفر ہیں، وہ ٹیپوسلطان کے غدار میر صادق ہیں۔ اور جو خاموش ہیں ان کو ان کے سیاہ کارناموں کی وجہ سے بلیک میل کردیاگیا ہے اور مودی حکومت نے اِن ساکت علماء و قائدین Silent leadersکو وارننگ دے دی ہے کہ اگر تم کچھ بولے تو تم کو ننگا کردیا جائے گا، یہ باتیں اس لیے کہی جارہی ہیں کہ مودی اور امت شاہ نے عظیم داعی اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو بھی مختلف قسم کے لالچ دے کر حکومت کے موقف کی حمایت کرنے کو کہا، لیکن اس وفادار بندۂ خدا نے انکار کردیا اور بھارتی مسلمانوں سےمکمل وفاداری نبھاتے ہوئے اس ا”دروازہ بند مکاری“ کو فاش بھی کردیا۔
خیال رہے کہ آر ایس ایس کی نمک خوارتنظيم ’’مسلم راشٹریہ منچ ‘‘ بھی متحرک ہوچکی ہے اور 16جنوری 2020کو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں علماء کا ایک اجلاس طلب کیاہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کے مطابق ملک بھر سے 200سے زائد علماء و مذہبی راہنمائوں کو مدعو کیاگیا ہے۔ بھارتی مسلمان اپنے شعور کو بیدار رکھیں، حکومت کے حمایتی کسی بھی حضرت، کسی بھی قائد، کسی بھی لیڈر کے بہکاوے میں آکر ہرگز ہرگز اپنی تحریک کو واپس نہ لیں، صرف ایک ہی نعرہ ہونا چاہیے :ـCAAواپس لو، NPRواپس لو، NRCواپس لو! اپنی خواتین کو باہر نکالو، نوجوانوں کو باہر نکالو ، بچوں کو باہر نکالو، پوری طاقت سے تحریک اُٹھائو کہ ہر شہر اور قصبہ ’’واپس لو، واپس لو ‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھے، امن کے ساتھ محبت کے ساتھ۔
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)
صفدرا مام قادری
صدر شعبہ اردو، کا لج آف کا مرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ
شہریت ترمیماتی قانون اور اس طرح کی دوسری عوام مخالف سرگرمیوں کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کو بے نقاب کرنے کی غرض سے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہوئی عوامی تحریک قومی سطح پر پھیل چکی ہے اور وہ اپنے دائرہئ کار میں اتنے موضوعات اور موجودہ حکومت کی ناکامیوں کے ابواب شامل کرچکی ہے۔ جسے آسانی سے روکنا اور اس کے رخ کو موڑنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ہرچند انتظامیہ اور عدالت کی فرقہ پرست مداخلت اور مفاد پرست عناصر کی رخنہ اندازیوں کے اندیشے بھی برابر نظر آتے ہیں مگر اندازہ یہی ہے کہ یہ تحریک عوامی بیداری کے کام کو اپنے انجام تک پہنچانے میں بہر طور کامیابی حاصل کرے گی۔ مختلف صوبائی حکومتوں اور مرکز کے انتظام کاروں نے آغاز میں جس ظالمانہ انداز سے ان آوازوں کو کچلنے کی کوشش کی، اب عوامی شراکت کی وجہ سے ان کی بھی براہِ راست ایسی ہمت نہیں کہ وہ ان تحریک کاروں کو بہ زورِ بازو ملیامیٹ کر دیں۔
یہ درست ہے کہ ہندستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف سیاسی پارٹیوں میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے۔ سب سے بڑی سمجھی جانے والی کانگریس کا حال ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ وہ نریندر مودی اور امت شاہ سے آر پار کی لڑائی کرنے کے موڈ میں ہے۔ سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور اب پرینکا گاندھی؛ ان کے نقلی چہرے اور قومی مسئلوں پر رٹے رٹائے بیانات ڈرائنگ روم سیاست سے کچھ زیادہ اثر نہیں رکھتے۔ ملک کے لیے یہ سب سے افسوس ناک گھڑی ہے کہ کانگریس نہ اپنی قیادت کو موثر بنانے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی صوبائی سطح پر وہ توجہ دے رہی ہے جس سے عوام کے اس احتجاج کو مزید پھیلنے کے مواقع ملیں حالاں کہ کانگریس بھارتیہ جنتا پارٹی کے مخالفانہ ماحول کا جگہ جگہ فائدہ اٹھاتی رہی ہے او راس کی اپنی یا یو۔پی۔اے۔ کی کئی سرکاریں تحفے میں مل چکی ہیں مگر اس کا اعتماد اب بھی اتنا کمزور ہے جس سے کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ابھی ہمیں اور انتظار کرنا ہوگا۔
شہری ترمیماتی قانون سے بے شک سب سے پہلے ہندستان کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ نشانہ انھی کی طرف ہے جس سے انھیں میدان میں آنا ہی تھا۔ اس سے پہلے جموں وکشمیرمیں تین سو ستر دفعہ کے خاتمے اور وفاقی ڈھانچے میں جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی نے چھیڑ چھاڑ کی اور پھر بابری مسجد کے سلسلے سے عدالتِ عالیہ کا جو فیصلہ آیا —اس سے ہندستانی مسلمانوں کو یہ سمجھنے کا موقع مل چکا تھا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارادوں کو سمجھیں اور اپنے وجود کی جنگ کے لیے میدانِ عمل میں آئیں۔ اس لیے اولاً احتجاج تھوڑے سیکولر لوگوں اور مسلم جماعتوں کی طرف سے ہوا۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے اس میں پہل کی اور اپنی تحریک سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے ملک کے مزاج اور مقدر کی تعمیر و تشکیل میں اپنا حصہ اور اپنی قربانیوں کی شمولیت سے دریغ نہیں کریں گے۔ ان کے خون اور ان کے زخم مندمل نہیں ہوئے اور فصیلِ وقت پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہندستان اور دنیا کو وہ ذوقِ عمل کی ترغیب دے رہے ہیں کہ قومی زندگی کے زہر کو امرت بنانے کے لیے جب ہمارے نونہال میدانِ کارزار میں ہوں تو دوسروں کو خوابِ غفلت میں نہیں ہونا چاہیے۔
اس تحریک سے طلبا اور نوجوانوں کی انجمنوں کو پھر سے زندہ اور سرگرم ہونے کا موقع ملا ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی حلقوں میں بھی سرگرمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ نئے نئے گانے، پرانی نظمیں اور جانی انجانی زبانوں کے نعرے اور شعر فضا میں تیر رہے ہیں مگر ہندستان کی تاریخ میں پہلے جو نہ ہوا تھا، نیا وہ ہوا یعنی مجاز کے لفظوں میں ہماری ماؤں بہنوں بیٹیوں نے اپنے آنچل کا پرچم بنالیا۔ کمال یہ کہ اقلیت آبادی کے گھروں سے سب سے زیادہ لڑکیاں اور عورتیں نکل کر سامنے آئیں۔ انھیں کسی نے امورِ خانہ داری سے باہر قدم بڑھاتے ہوئے بہت کم دیکھا تھا۔ خلافت تحریک کے زمانے میں جب محمد علی اور شوکت علی گرفتار ہوگئے تو ان کی ناخواندہ ماں پردے کی زندگی تیاگ کر عوامی جلسوں میں آگئیں۔ آج بھی ان کو یاد کرتے ہوئے یہ جملے تاریخ کی کتابوں میں جگ مگ جگ مگ کرتے نظر آتے ہیں:
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
گیا کی کانفرنس میں جب بی اماں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا کہ محمد علی اور شوکت علی ہی ابھی جیل گئے ہیں۔ لوگوں کو اس کی تیاری کرنی چاہیے کہ کل گاندھی جی کو انگریز جیل میں ڈالیں گے، اس کے بعد بھی جنگِ آزادی کی تحریک کیسے چلے گی؟ ان کا وہ جملہ کون بھول سکتا ہے کہ محمد علی اور شوکت علی میرے دو بیٹے ہیں۔ خدا نے اگر ایسے ہزار بیٹے دیے ہوتے تو انھیں بھی ملک پر نچھاور کردیتی۔ ہندستان کی تاریخ کے بعض روشن ابواب ایسی خواتین سے بھی مکمل ہوئے ہیں جنھوں نے اپنی قربانیوں اور سیاسی سوجھ بوجھ سے تاریخی کام انجام دیے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی چوٹ کھائی ہوئی لڑکیاں اپنے جسمانی اعذار سے بے پروا ہوکر قوم کے دکھوں کے علاج کے لیے عوام کے سامنے آئی تھیں۔ انھیں اس بات سے بھی اب طاقت مل رہی ہوگی کہ جواہر لال نہرو کی یونی ورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر فرقہ پرستوں کی لاٹھیوں سے زخم کے ٹانکے لگائے ہوئے میدان سے ایک لمحے کے لیے نہیں ہٹیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پڑوس میں جو محلہ آباد ہے، اس کو نہ جانے کس عالم میں شاہین باغ سے موسوم کیا گیا تھا۔ ہم اردو والے اقبال کے شیدائی ہیں تو شاہین کا مطلب ہمیں معلوم ہے۔ پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرتے ہیں اور پلٹنا اور جھپٹنا اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ شاعرِ مشرق کو جس نے نہ پڑھا ہو، وہ بھی شاہین باغ محلے کی سڑکوں پر دسمبر اور جنوری کی سرد راتوں اور کپکپاتی ہوئی زندگی میں لہو گرم کرنے کا قومی بہانہ کیا ہوتا ہے، وہ آکر دیکھ سکتا ہے۔ آج ایک اندازے کے مطابق ملک میں سو جگہوں سے زیادہ ایسے مستقل مظاہرے ہو رہے ہیں جہاں ہماری گھریلو عورتیں اور پردہ نشیں خواتین فرقہ پرستی اور جمہوریت کو بچانے کی جنگ میں سڑکوں پر بے خوفی کے ساتھ میدان میں آئی ہوئی ہیں۔ انھیں کسی نے نہ انقلاب کی تربیت دی اور نہ ہی قانون اور حقوق کے اسباق پڑھائے۔ مگر یہ مہینے ڈیڑھ مہینے میں اتنا سیکھ چکی ہیں کہ اب ایوانِ حکومت کو اپنی صاف صاف باتیں کہہ رہی ہیں۔
۷۵۸۱ء کے انقلاب کی اس وقت پسپائی کے جو مختلف اسباب بیان کیے جاتے ہیں، ان میں مستحکم قیادت کا فقدان سرِ فہرست ہے۔ آج یہ سوال سب کے سامنے ہے کہ شہریت ترمیماتی قانون اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے خلاف نبردآزمائی میں پورے ملک میں جو تحریک چل رہی ہے، اس کی واضح قیادت نظر نہیں آتی۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس تحریک میں باوجود کوشش کے سیاسی جماعتوں اور مذہبی طبقوں کو صفِ اول میں جگہ نہیں ملی سکی اور انھیں زیادہ سے زیادہ گیسٹ آرٹسٹ کے طور پر ہی ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسے اس تحریک کا بعض افراد سیاہ پہلو قرار دے سکتے ہیں مگر یہ حقیقی طور پر اس تحریک کی طاقت ہے کیوں کہ پیشے ور سیاست دانوں سے اب ہماری قوم کا بھلا ہونے والا نہیں۔ جنوبی افریقہ سے جب گاندھی ہندستان پہنچے تو انھیں تھوڑے لوگ جانتے تھے اور وہ بھی ہندستان کو کچھ زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔ مگر چمپارن ستیہ گرہ اور اس کے بعد اچانک ان کی قبولیت میں جو تیزی آئی، اسی سے اس ملک کا سیاسی نقشہ بدلا تھا۔ مطلب واضح ہے کہ قیادت اپنے آپ پیدا ہوجاتی ہے اور وہ پرانی قیادتوں کو بے اثر کرکے منزل تک پہنچ جاتی ہے۔ اس تحریک سے بائیں جماعت کے افراد اور دانش مندانہ فکر رکھنے والے آزاد ذہن کے لوگوں کو بھی اپنی آواز اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ اس تحریک میں بھارتیہ جنتا پارٹی ہی نہیں اس کی مخالف نام نہاد غیر فرقہ پرست سیاسی جماعتوں کے تضادات اور مفادات بھی طشت از بام ہورہے ہیں۔ یہ سب مستقبل کے ہندستان کے لیے خوش آیند ہے۔ نیا ہندستان نئے لوگوں کے خواب اور ان کی کوششوں سے بنے گا۔
اب اس تحریک کا دائرہئ کار بڑھنا چاہیے۔ بھوک اور غریبی، بے روزگاری اور عدم مساوات کے سوالوں کو جوڑ کر اقلیت آبادی کے مسائل مزید روشن کیے جاسکتے ہیں۔ جمہوری اداروں کو عوامی کنٹرول میں کیسے رکھا جائے، اس کے لیے نئے سوالوں کو غور و فکر کا حصہ بنانا ہوگا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اس تحڑیک کی آڑ میں اپنے ووٹ کو مزید مشتعل کرنے کی مشق بھی کررہی ہے۔ ہمیں اپنی محاذ آرائی سے مخالف کو یکجا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اس کے لیے نئے ایجنڈے کی تلاش اور تعلیم یا روزگار کے مسائل کو رفتہ رفتہ سرِ فہرست لانا ہوگا۔ اسی میں کوئی نوجوان قیادت اپنے آپ سامنے آجائے گی جسے نہ راہل گاندھی کی ضرورت ہوگی اور نہ مایاوتی یا تیجسوی یادو کی۔ چار برس ابھی وقت ہے اور ہماری یہ بھی حکمتِ عملی ہونی چاہیے کہ آیندہ پارلیمنٹ کے الیکشن تک یہ بساطِ رقص اور بھی بسیط ہو اور صدائے تیشہ کامراں ہو او رکوہ کن کی جیت ہو۔
ایم ودود ساجد
این ڈی ٹی وی نے بتایا ہے کہ آج شاہین باغ کے احتجاج میں 80 کی دہائی کے ‘اجڑے’ ہوئے کچھ پنڈت پہنچ گئے ۔انہوں نے ہاتھوں میں بینر لے رکھے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں آج ہی کے دن یعنی 19 جنوری کو کشمیر سے اجاڑ دیا گیا تھا۔
یہ پنڈت شاہین باغ اس لئے نہیں پہنچے تھے کہ انہیں مظاہرین سے اظہار یکجہتی کرنا تھا،وہ تو CAA کی مخالفت ہی نہیں کرتے اور اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فلم اداکار سوارا بھاسکر نے آج شاہین باغ میں جشن شاہین منانے کا اعلان کیا تھا جس میں کچھ غزل سرائی اور شعروشاعری کا منصوبہ تھا۔ اس پر فلم ساز وویک اگنی ہوتری نے ٹویٹ کرکے کہا تھا کہ آج ہی کے دن کشمیری پنڈتوں کو اجاڑا گیا تھا اور آج جشن شاہین منایا جارہا ہے لہذا آج شام کو پانچ بجے کشمیری پنڈت شاہین باغ پہنچ کر اس کے خلاف مظاہرہ کریں ۔وویک اگنی ہوتری کی مودی نوازی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔
این ڈی ٹی وی کو ایک کشمیری پنڈت نے بتایا کہ ہم سی اے اے کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں ہم اپنے اجڑنے کی داستان سنانے آئے تھے۔ایک کشمیری پنڈت خاتون کچھ زیادہ ہی جوش میں تھی۔اس نے کہا کہ ان لوگوں نے (شاہین باغ کے مظاہرین نے) غلط اعلان کیا کہ ہم ان کی حمایت کرنے آئے ہیں ۔وہ کچھ اور کہتی اس سے پہلے ہی دوسرے پنڈت نے بات سنبھال لی۔اس نے کہا کہ شاہین باغ والوں نے ہمیں اپنی بات کہنے کےلئے اپنا اسٹیج پیش کیا اور ہمارا درد سن کر ہم سے اظہار یکجہتی کیا۔
مشہور کشمیری پنڈت اے کے رینا نے تو اسٹیج پر یہاں تک کہہ دیا کہ گو کہ ہم سی اے اے کی حمایت کرتے ہیں لیکن آپ لوگ اتنے دنوں سے یہاں جمع ہیں تو ہم آپ کا بھی درد سمجھتے ہیں ۔
تو وزیراعظم صاحب!
اب تو کچھ شرم کرلیجئے۔جن پنڈتوں کا نام لے کر آپ نے 80 لاکھ کشمیریوں کا دم گھونٹ دیا ہے وہ بھی اپنی بپتا سنانے کے لئے اُس اسٹیج کا سہارا لینے پر مجبور ہیں جو آپ کے مخالفین نے سجایا ہے۔۔۔ یہ پنڈت کتنے بھولے’ سادہ مگر مجبور ہیں کہ ہندوستان کے جس بڑے طبقے کی مخالفت کر رہے ہیں اسی کے پروگرام کو اپنی داستانِ رنج والم سنانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ شاید انہیں بھی اب احساس ہوگیا ہے کہ ان کی بات دنیا اسی اسٹیج سے سنے گی جہاں سی اے اے کے خلاف ہزاروں خواتین ایک مہینہ سے سینہ سپر ہیں ۔
خدا محفوظ رکھے عقابوں کو سیاسی گِدھوں سے
نور اللہ جاوید
”شہریت ترمیمی ایکٹ“ کے خلاف شاہین باغ(دہلی)میں خواتین کی قیادت میں شروع ہونے والے احتجاج کی شہرت عالم گیر ہوچکی ہے۔گزشتہ 25دنوں سے جاری اس احتجاج کو عالمی میڈیا میں جگہ مل رہی ہے۔گرچہ حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس احتجاج سے اسے کوئی فرق نہیں پڑرہا۔ مگر حقیقت یہ ہےکہ حکومت پریشان ہے۔ کیوں کہ”دہلی کا شاہین باغ“ ظلم و زیادتی، ناانصافی، تعصب اور نفرت کے خلاف احتجاج کا استعارہ بن گیا ہے“۔ان خواتین نے احتجاج کی ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی ہے۔کل تک مسلم خواتین کو مظلوم اور ابلہ ناری قرار دیا جاتا تھا۔ مگر ابلہ ناریوں نے حکمرانوں کی نیند حرام کردی ہے۔
کلکتہ جسے ایک مدت تک”احتجاجوں کا شہر“ کہا جاتا تھا۔سب سے پہلے استعماریت اورفاشزم کے خلاف آواز یہاں سے بلند ہوتی تھی مگر کلکتہ کی فضائیں اس قدر سیاست کی شکار ہوئیں کہ کلکتہ اپنی شناخت سے ہی محروم ہوگیا۔اب یہ مقولہ بھی غلط سا معلوم ہونے لگا کہ ”بنگال جوآج سوچتا ہے کل پورا ہندوستان اس پرعمل پیراہوجاتا ہے“۔ایسا نہیں ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف یہاں آوازیں بلند نہیں ہوئی ہیں۔جادو پور یونیورسٹی کے طلبا نے فر ض کفایہ ادا کیا۔انہوں نے اپنے کیرئیر کو داؤ پر لگاکر احتجاج بھی کیا۔بہادر بچوں نے گورنر کا گھیراؤ کیا اور ایک بچی نے تو کنووکیشن میں انعا م حاصل کرتے ہوئے شہریت ترمیمی ایکٹ کے دستاویز کو پھاڑتے ہوئے کہا کہ ”ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے“۔ممتا بنرجی بھی مسلسل اس کے خلاف احتجاج کررہی ہیں۔کانگریس اور بایاں محاذ نے بھی احتجاج کیا مگر سیاسی احتجاج کے اثرات کا اپنا دائرہ ہوتا ہے۔چوں کہ یہ قانون ہندوستان کے دستور اور بنیادی ڈھانچے پر حملہ ہے اس لیے سماج کے ہر طبقے سے اس کے خلاف آواز بلند ہونی چاہیے، ظاہر ہے کہ اس معاملے میں کلکتہ پیچھے رہ گیا۔
تاہم دیر سے ہی سہی،کلکتہ شہر کے پارک سرکس میدان میں چند خواتین جن میں اکثریت مسلم خواتین کی ہے، مگر ایک بڑی تعدادیونیورسٹیوں اور کالجوں کی طالبات کی بھی ہے، نے ”ایک اور شاہین باغ“ کو آباد کیا ہے۔کلکتہ شاہین باغ کی خوش نصیبی یہ ہے کہ اسے پہلے ہی دن سے میڈیا کوریج بھی مل رہا ہے۔سیاسی لیڈران کی بھی اخلاقی حمایت حاصل ہے۔تاہم سیاست زدگی کے شکار کلکتہ کے ماحول نے یہ سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے کہ کیاکلکتہ کاشاہین باغ ریکارڈ قائم کرسکے گا؟گزشتہ دودنوں تک متعدد بار مظاہرے کے مقام پر پہنچنے کے بعد پس پردہ ہونے والی گفتگو، حکومت کے رویے اور لوگوں کی زبانی بہت ساری باتیں معلوم ہونے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی گدھ اس نشیمن کو اجاڑنے کے فراق میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ریاست کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس، اپوزیشن جماعتیں کانگریس اور بایاں محاذ اس معاملے میں ایک صفحے پر ہے، تو پھر اسے سبوتاژ کرنے کا مسئلہ کیوں پیدا ہوگیا ہے؟حکومت اس کی اجازت دینے سے لیت و لعل سے کام کیوں لے رہی ہے۔ان سوالوں کا جواب جاننے کیلئے ”بنگال کے سیاسی ماڈل“ کو سمجھنا ہوگا۔
دراصل بنگال کا سیاسی ماڈل ہی کچھ اس طرح کا ہے کہ اس طرح کے احتجا ج کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ان روایات کا آغاز ویسے تو بایاں محاذ کے دور حکومت میں ہی ہوگیا تھا،چوں کہ بایاں محاذ کا اپنا ماڈل ہی احتجاج اور دھرنے پر مشتمل تھا اس لیے کسی حد تک جمہوریت باقی تھی۔مگر گزشتہ 8سالوں میں اس سیاسی ماڈل کو اس قدرسختی سے نافذ کیا گیا ہے کہ سماجی سطح کی لیڈر شپ منہدم ہوکر رہ گئی ہے۔اب ہرکچھ سیاسی لیڈرشپ کی قیادت میں ہی ہوسکتا ہے۔اس فارمولے کو سختی سے نافذ کیا گیا ہے۔چناں چہ گزشتہ 8سالوں میں مسلم لیڈرشپ نام کی کوئی چیز بنگال میں باقی نہیں رہ سکی ہے۔مسلم تنظیمیں ختم سی ہوچکی ہیں۔جولوگ ہمت ور تھے انہیں توڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔چناں چہ گزشتہ دو مہینے میں ایم آئی ایم کے سیکڑوں کارکنان کو جیل میں بند کردیا گیاہے۔ان کا قصور کیا ہے۔مرشدآباد اور مالدہ میں اس فارمولے کو سختی سے نافذ کیا جارہا ہے۔مگر اس کے خلاف احتجاج نہیں ہورہا ہے۔
اس سیاسی ماڈل پر یقین رکھنے والوں کو کلکتہ کا شاہین باغ کیسے برداشت ہوسکتا تھا۔چناں چہ اندرون خانہ سے خبر آرہی ہے کہ جلد ہی اس احتجاج کو ختم کردیا جائے گا اور یہ کام پولس کے ذریعے نہیں بلکہ خود مسلم نوجوانوں کے ذریعےہوگا۔اس کو سبوتاژ کرنے کیلئے جگہ جگہ مسلم نوجوانوں کو دھرنے پر بیٹھادیا جائے گا۔اس کا آغاز پارک سرکس میدان کے قریب لیڈی برمن کالج کے پاس سے ہوچکاہے۔ترنمول کانگریس نے بھی اچانک دھرنے کا آغاز کردیا ہے۔دوہفتے قبل ہی 19دسمبر کو مسلمانان کلکتہ اپنی ریلی نکالنے کی کوشش کررہے تھے ،تو اچانک ’شیکسپئر سرانی تھانے پولس کے اہلکاروں نے میٹنگ کے شرکا کو حراست میں لے لیا اور گھنٹوں تھانے میں بند رکھا۔جوائنٹ کمشنرسطح کے افسر یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ الگ سے احتجاج کرنے کی ضرورت کیا ہے،جب ممتا بنرجی کررہی ہیں،ان کے ساتھ کیوں نہیں شامل ہوجاتے؟
ان حالات میں خدشہ ہے کہ کلکتہ کا شاہین باغ سیاسی گِدھوں کے نذر نہ ہوجائے۔اللہ محفوظ رکھے۔دیکھتے ہیں آگے کیاہوتاہے
مختلف سیاسی وسماجی شخصیتوں کی آمد،سخت سردی اور بارش کے باوجود مظاہرین پرجوش ، یواین اوکی تحقیقاتی ٹیم کا دورہ کل
نئی دہلی۔ ۱۰؍جنوری ( جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی و این پی آر کے خلاف احتجاج کا آج ۲۹؍واں دن تھا۔ سخت سردی اور بارش کے باوجود لوگوں کا جوش ولولہ قابل دید تھا۔ آج جمعہ ہونے کی وجہ سے مظاہرین کی کچھ زیادہ ہی بھیڑ تھی۔ طلبا نے مجموعی طورپر اپنے عزم وہمت کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس تحریک کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ اس موقع پر طلبانے پرزور آواز میں حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ طلبا کی ایک بڑی تعداد بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ اسی درمیان طلبا کو حمایت دینے اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے والوں کا بھی تانتا بندھا ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں سماجی کارکنان، دانشوران اور ملی قائدین ، یونیورسٹی وکالج کے پروفیسران طلبہ کے ساتھ اظہار یگانگت کےلیے گیٹ نمبر 7 باب مولانا ابوالکلام آزاد پر پہنچ رہے ہیں۔ آج کے اس احتجاج میں جن شخصیتوں نے خطاب کیا ان میں معروف دانشور پروفیسر زویا حسن، سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ ڈاکٹر زیڈ کے فیضان، معروف قلمکار اشوک کمار پانڈے، آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار، معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی، یوتھ فور پیس کے جنرل سکریٹری علی نسیم رضی ، یوپی کانگریس کے نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ، ایم ای ای ایم کے صدر سید فرمان احمد اور شعرا میں حسین حیدری، سومیہ دیپ مرشدآباد کے نام قابل ذکرہیں۔ آج کے احتجاج میں خطاب کرتے ہوئے معروف دانشورو جامعہ کے سابق وائس چانسلر مشیرالحسن کی اہلیہ پروفیسر زویا حسن نے کہاکہ آزادی کے بعد سے میں نے اتنی بڑی تحریک نہیں دیکھی ہے، نربھیا اور انا احتجاج بھی صرف دہلی تک ہی محدود تھا لیکن یہ احتجاج ملک بھر میں ہے۔ انہو ں نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے وکیل زیڈکے فیضان نے کہاکہ یہ سیاہ قانون آئین مخالف ہے، حکومت آپ کے احتجاج سے بوکھلائی ہوئی ہے، جامعہ کیمپس میں گھر کر دہلی پولس کے ذریعے تشدد پر انہو ں نے کہاکہ جو بھی جامعہ میں ہوا وہ وائس چانسلر اور پولس کی ملی بھگت سے ہوا۔ مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار نے کہاکہ میں یہاں سیاست کرنے نہیں بلکہ اپنی ذمے داری نبھانے آیا ہوں کہ ہم اپنے حقوق اور آئین کے تحفظ کےلیے لڑیں، جس سے ملک کی روح بچی رہے، انہوں نے مظاہرین کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہاکہ آپ سب اکیلے نہیں ہیں ہماری پارٹی آپ کے ساتھ ہے،یہ لڑائی صرف مسلم اور حکومت کے درمیان نہیں بلکہ یہ ملک اور حکومت کے درمیان کی لڑائی ہے۔ معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی نے کہاکہ آپ جو کررہے ہیں زیادہ تر لوگ یہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ اس تحریک کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں ایک زبان، ایک نعرہ ہے ہم سب ایک ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جامعہ نے پورے ملک کو جگا دیا ہے۔ اس موقع پر سبھی مقررین نے جامعہ کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور تحریک جاری رکھنے پر مبارک باد دی۔ڈاکٹر شکیل احمد خان ، کدوہ ، بہار سے ممبر قانون ساز اسمبلی نے کہا ، “یہ احتجاج اگلی نسل کے لئے ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی ایک اور عنوان لے کر آئے گی اور ہماری توجہ دوبارہ ہٹانے کی کوشش کرے گی لیکن ہمیں اپنے معاملے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگا اور لڑائی جاری رکھنا ہوگا۔ نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں بابا صاحب امبیڈکر اوران کے آئین کو مانتا ہوں، انہوں نے کہاکہ ہم تعلیم یافتہ ہیں اور ہماری تعلیم بے کار ہے اگر ہم فرقہ پرست حکومت کے خلاف نہیں لڑے ، انہوں نے مظاہرین سے کہاکہ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اس تحریک کو اتحاد کے ساتھ جاری رکھیں ـ ادھر دوسری جانب جنوبی دہلی کے شاہین باغ کا احتجاج بھی انتہائی جوش وخروش کے ساتھ جاری رہا۔ دہلی ہائی کورٹ نے شاہین باغ کے مظاہرین کو راحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں سے مظاہرین نہیں ہٹیں گے۔ جس سے مظاہرین میں خوشی کی لہر ہے۔ ہائی کورٹ میں دائر عرضداشت میںں کہاگیا تھا کہ شاہین باغ علاقے میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کو لے کر ہورہے احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے ڈی این ڈی فلائی اوور پر روز عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد لوگوں میں خوشی کے آثار دیکھے گئے، اس موقع پر مظاہرین نے کہاکہ اب جو ہوجائے ہم اس کالے قانون کو واپس لیے جانے سے پہلے یہاں سے جانے والے نہیں ہیں، ہم پولس کی گولی کھانے کو بھی تیار ہیں، لیکن بنا سی اے اے قانون کو ہٹوائے ہم یہاں سے جانے والے نہیں ہیں۔ قابل ذکرہے کہ اتوارکو شام 7:30 بجےشاہین باغ کے احتجاج میں یو این او کی ٹیم اس احتجاج اور ملک کے موجودہ منظر نامے کا جائزہ لینے کے لئے آرہی ہےـ منتظمین نے اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے شرکت کی درخواست کی ہےـ