معوذ سید
ایک مایۂ ناز درسگاہ میں ایک متنازع تصویر ہنگامے کا موضوع بن جاتی ہے، میں آپ سے تبادلۂ خیال کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کی تصویر آزادی سے قبل سے لگی ہوئی ہے، مگر اس پر پہلا اعتراض ۲۰۱۸ میں ہوتا ہے جو ایک ہنگامے میں بدل جاتا ہے۔ اس ہنگامے کا راست مقصد یہ ہے؛ کہ عین انتخابات سے قبل پورے ملک کے لاشعور میں یہ بات نقش کر دی جائے کہ مسلمانوں کی ایسی عظیم الشان مایۂ ناز درسگاہ میں محمد علی جناح کی تصویر لگی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جناح سے ہمدردی رکھتے ہیں، یہاں تک آپ مجھ سے اتفاق جتاتے ہیں!
پھر میں عرض کرتا ہوں کہ اولین فرصت میں انتخابی شطرنج کے اس مہرے کا توڑ پیش کیا جائے، سب سے پہلے ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کیا جائے کہ جناح سیاسی طور پر ہمارے مسترد کردہ لیڈر ہیں، ہم ان کی تصویر کو لیکر ذرہ برابر بهی جذباتی نہیں ہیں، جناح کی تصویر ہٹ جائے کہ اس پر کالک پوت دی جائے، ہماری بلا سے!
تو آپ،جو ابھی چند لمحوں قبل میری اِس بات سے صدفیصد متفق تھے کہ یہ ہنگامہ محض ایک طویل المیعاد انتخابی چال ہے، میرے اِس فی الفور سیاسی ردِّ عمل پر چراغ پا ہو جاتے ہیں، اور تنتنا کر سوالات کی پے در پے توپیں داغتے ہیں؛ "کیا تقسیم کے ذمے دار محض جناح ہیں؟ کیا کل کو علامہ اقبال اور حضرت تهانوی کا نام بهی بهارت کی کتابوں سے مٹا دیا جائے گا؟ کیا تمہیں علی گڑھ کے جیالوں کے زخم نہیں نظر آتے؟ کیا تمہیں ہندو یوا واہنی کی غنڈہ گردی نہیں نظر آتی؟ تم ضرورت سے زیادہ دیش بهکت بن رہے ہو؟ ارے کہیں تم جمعیتی تو نہیں ہو؟ آاااخ تهو!”
اللہ اکبر کبیرا…میں ہونّق رہ جاتا ہوں کہ آخر آپ یک بیک شعلہ فشاں کیوں ہو گئے؟! ابهی ابهی تو آپ میرے ساتھ ملک کی انتخابی سیاست کے نازک پہلوؤں پر بڑی سنجیدگی سے تبادلۂ خیال فرما رہے تھے!
مگر پهر سنبهالا لے کر میں عرض کرتا ہوں "حضور!آپ خود ہی غور فرمائیں، خود سنَگھیوں کی نظرِ انتخاب حضرت قائدِ اعظم پر ہی کیوں پڑی! اگر بقول آپ کے اقبال اور جناح کی سیاسی حیثیت ایک سمّان ہے، تو سَنگھیوں نے جناح کے بجائے اقبال ہی کو کیوں نشانہ نہیں بنایا؟ جناح کی تو محض تصویر آویزاں ملی ہے، اقبال کے تو دیوان کے دیوان نکل آتے اور گهر گهر سے نکل آتے، آخر سَنگھیوں نے یہ آسان آپشن چھوڑ کر مشکل آپشن کیوں اختیار کیا؟ اس سوال کے جواب میں ہی آپ کے مخمصوں کا حل مضمر ہے سرکار! جناح ایک آئیکون بن چکے ہیں، جناح ایک علامت بن چکے ہیں، جناح قائدِ اعظم کے لقب سے ملقّب ہو چکے ہیں، جناح پڑوس کے بابائے قوم بن چکے ہیں، جب سیاسی بساط پر کوئی چال چلی جائے گی تو مہرہ جناح ہی بنیں گے…اقبال نہیں، کیونکہ اقبال جیسے نظریہ ساز مفکر اس برصغیر میں دانشوروں کی میز کا موضوع تو بن سکتے ہیں، سیاسی فائدے کا عنوان کبهی نہیں بن سکتے، اقبال جناح کی طرح سیاسی آئکون کبهی رہے ہی نہیں، اور یہاں تو سارا کھیل ہی سیاسی بساط پر جاری ہے!
اور حضور! آپ شاید اس بدگمانی کا شکار ہیں کہ مجھے علیگ جیالوں کے زخم اور سنگهی غنڈوں کا آتنک نظر نہیں آتا، تو عرض کر دوں کہ یہ نظارہ تو سارے ملک کو نظر آ ہی رہا ہے، میں تو آپ کو وہ نظارہ دکها رہا ہوں جو میرے لوگوں کو آسانی سے نظر نہیں آتا یا شاید وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے! میں تو سلام پیش کرتا ہوں علی گڑھ کے نوجوانوں کو جو سنگھ نواز وی سی کے ہوتے ہوئے بهی سنگھ کی منصوبہ بند یلغار کے آگے چٹان بن کر کهڑے ہو گئے، میں تو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ یوا واہنی کی بے روزگاری کے دن بہت جلد آ رہے ہیں، علیگڑھ کے ایک ایک جیالے کو لگنے والی خراش میرے تن پر لگی ہے، علی گڑھ کے ہر ہر نوجوان کو لگنے والا زخم میرا زخم ہے، مگر میرے بهائی! اگر میں اس ہنگامے کی تہہ میں دبے نظریاتی اور انتخابی زلزلے کو بهانپ کر اس کے ازالے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہوں، تو میری سن تو لیجیے! سیاسی کهیل اتنی جذباتیت کے ساتھ مت کھیلیے کہ آپ خود مقابل کا مہرہ بن جائیں اور خود آپ کو پتہ تک نہ چلے! چمنستانِ سرسید پر سنگھ نواز وی سی بٹھا دیے جانے کے بعد بھی اگر آپ کی ہوشمندی نے آپ کی ماقبل آزادی والی جذباتیت کو لگام نہ دی، تو نصیبِ دشمناں کہیں کل کو اس چمن کے اقلیتی کردار پر راست زد نہ پڑ جائے! یہ چمن، جسے آزادی کے بعد ابوالکلام آزاد نے صیاد و غارت گر کی دستبرد سے محفوظ رکها، کہیں خدانخواستہ آپ کے لہو کی گرمی اسے کسی باغباں نما صیاد کے مکر کا شکار نہ بنا دے، اسٹوڈنٹس کے جذبات کو بھنا کر اس ملک میں پہلے بھی سیاست کا گندہ کھیل کھیلا جا چکا ہے، جس طرح کمیونسٹ کنہیا کو سنگھ کے مقابل کهڑا کر کے سنگھ نے اپنی ہندتوا شبیہ بہتر کر لی ہے، کہیں کسی مسلم کنہیا کے جذبات کا بهی سیاسی استعمال نہ کر لیا جائے!
بھلی لگے نہ لگے سن تو لو مری فریاد…!
Tag:
ابوالکلام آزاد
برصغیرمیں ادب ودانش اورنقدوتحقیق کے ناحیے سے جن چند لوگوں سے منسوب ایک بڑاتحقیقی وتصنیفی سرمایہ معرضِ وجودمیں آچکاہے، ان میں ایک اہم نام مولاناابوالکلام آزادکابھی ہے، آزادکی شخصیت، سوانح، ان کی زندگی کے خفی وجلی گوشے، تعریف وتنقیداوربسااوقات تذلیل وتنقیص کے قصے؛ سب تاریخ کے سینے سے نکل کر بہ تمام وکمال سینۂ اوراق پرمنتقل کیے جاچکے ہیں اور’’ابوالکلامیات ‘‘علم وتحقیق اورفکر ودانش کا ایک مستقل موضوع قرارپاچکاہے۔ میرے خیال میں آزادکی سوانح یاسیاست پر مدح سرایانہ یاسرسری گفتگوکرنے کی بجاے ان کی زندگی کے اورچھور اورفکرونظرکے گوشوں کونقدوتحقیق کاموضوع بنایا جانازیادہ مناسب ہے؛ کیوں کہ خودآزاد اسی ”موڈ ”کے انسان تھے، اس تعلق سے جو کتابیں لکھی گئی ہیں،وہ عام طورپر اچھی ہیں اوران میں حیاتِ آزاد کے (مثبت یا منفی)گوشوں پربھرپور گفتگو کی گئی ہے۔
مولانامرحوم ومغفور کی شخصیت پر اب تک کئی حوالوں سے کام ہواہے، ان کی سوانح حیات کے ذیل میں عبدالرزاق ملیح آبادی کی زبانی ’’آزادکی کہانی‘‘ اورپھر’’ذکرِ آزاد‘‘خاصی دلچسپ کتابیں ہیں، ’’انڈیاونس فریڈم‘‘کی اشاعت کے بعداس کے بعض حصوں پراگرچہ علمی حلقوں میں ہنگامۂ رستاخیزبرپاکیاگیا؛ بلکہ بعض طبقوں میں توابوالکلام کی طرف اس کی نسبت ہی مشکوک ومشتبہ قراردی گئی؛لیکن بہرحال اس کتاب سے آزادکے ذہنی، فکری وعملی سروکارکے لگ بھگ تیرہ ،چودہ سال کالیکھاجوکھاسامنے آجاتاہے، ’’تذکرہ‘‘ایک ارادت کیش کی فرمایش پر مولاناکی اپنی لکھی ہوئی سوانح ہے، مگراس میں خاندان کے احوال پرمفصل لکھاگیا، جبکہ اپنے بارے میں محض ادبی اشارات سے کام لیاگیا ہے، بہرحال نکتہ طرازوں نے ان اشارات سے بھی کئی کتابیں مرتب کی ہیں۔ اس میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں کہ آزادایک دیدہ ورعالم تھے، ایک یکہ تازدانشور، ایک بے بدل خطیب تھے اورایک بے نظیرادیب،ان کے خیال وفکر میں ایسی رفعت اور بلندی تھی کہ وہاں تک دیکھنے میں ہی بڑے بڑوں کی ٹوپیاں گرجائیں،تحمل و بردباری کی اس منزل پر تھے کہ بڑے سے بڑے سیاسی یا ذاتی دشمن کے حملوں کو یوں جھٹک دیتے،گویا ناقابلِ التفات ہوں،ان کی سیاست ایک نظریے کے تحت شروع ہوئی تھی، جس کی تبلیغ، اشاعت اورتحفظ کے لیے وہ تاحیات سرگرم رہے،ساتھ ہی آزاد ہندی مسلمانوں کے معتوب ترین رہنماتھے، کہ جنھیں نوکروڑ اسلامیانِ ہند میں سے لگ بھگ دوتہائی کی گالیاں کھانی پڑیں، مگرانھوں نے اف تک نہ کیا،اس طرح مولانا کی شخصیت ، فکر و فن اورکردارکی مختلف ومتنوع جہتیں ہیں،جن کی تفہیم و تشریح اس معنی کر ضروری ہے کہ مولانا آزاد ہندوستان کے ایک ایسے راہنما رہے ہیں،جنھوں نے کئی نسلوں کونظری،علمی،فکری،تہذیبی،سیاسی ہرسطح پر متاثر بھی کیا ہے یا اب بھی کرتے ہیں؛ چنانچہ ان کی حیات ،کارنامے اور فکر و فن کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا،ان پر بحث و تحقیق کرنا اور انھیں نقدونظر کے دائرے میں لانا ضروری ہے۔
اسی احساس کے ساتھ آزاد کی شخصیت اوران کے فکروعمل کی جہات پر ان کی زندگی سے ہی لکھاجانے لگاتھا، البتہ ان کی وفات کے بعد یہ کام زیادہ مضبوطی سے ہوا’’ابوالکلامیات‘‘پرغالباپہلی کتاب عبداللہ بٹ کے ذریعے مرتب کی گئی ’’ابوالکلام آزاد‘‘ہے، جوپہلی بار لاہورسے 1943میں شائع ہوئی تھی، اس کتاب میں سترہ مضامین، دونظمیں اوراخیرمیں عبداللہ بٹ کے نام مولاناآزادکے تین خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں، اس کتاب کے مضمون نگاروں میں خواجہ حسن نظامی، سیدسلیمان ندوی، جواہرلال نہرو، سجادانصاری، نصراللہ خاں عزیز اورآصف علی وغیرہ ہیں، زیادہ ترمضامین تاثراتی نوعیت کے ہیں، بعض میں ان کی فکرکے بعض گوشوں کواُجالاگیاہے۔عبداللہ بٹ نے1944میں مولانا کے پندرہ سولہ مضامین کا ایک مجموعہ بھی مرتب کیاتھا،جسے ’’مضامینِ آزاد‘‘کے نام سے لاہور سے ہی شائع کیاتھا۔
ان کی وفات کے بعد حکومتِ ہند کی وزارتِ اطلاعات ونشریات کے زیرِ اہتمام دسمبر1958 میں بھی ایک ’’ابوالکلام آزاد‘‘شائع ہوئی، جس میں متعدد سیاسی رہنماؤں، ادیبوں اوردانشوروں کے منظوم ومنثورتاثرات درج کیے گئے، اس کی ایک خاص بات مولاناکی مختلف مراحلِ عمروسیاست کی بہت سی خوب صورت تصویریں بھی تھیں۔ ڈاکٹرراجیش کمار پرتی نے نیشنل آرکائیوزآف انڈیامیں محفوظ مولاناکے غیرمطبوعہ خطوط کو’’آثارِ آزاد‘‘کے نام سے شائع کیا، اس کے آغازمیں مرتب موصوف کاپچیس صفحوں کامقدمہ خاصامعلومات افزااوردلچسپ ہے، باقی ان خطوط کے مطالعے کے ذریعے وزیرتعلیم کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
مالک رام ہندوستان میں ایک منفرد ماہرِ ابوالکلامیات کے طورپر اپنی شناخت رکھتے ہیں،انھوں نے ساہتیہ اکادمی کی سربراہی کے دوران نہ صرف مولانا کی کتابوں کو عمدہ انداز میں شائع کیا؛بلکہ ان پر تحقیق و تعلیق اور تخریج وغیرہ کابھی کام کیا،مولاناکے خطوط مرتب کیے ’’کچھ ابوالکلام آزادکے بارے میں‘‘کے نام سے مولانا کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں پر ایک تحقیقی کتاب مرتب کی،’’نثرِ ابوالکلام‘‘میں مولانا کے منتخب مضامین،مقالات اور مکاتیب کو جمع کرکے شائع کیا۔
ان کے علاوہ جن لوگوں نے ابوالکلامیات کے مختلف گوشوں یا مولانا کی زندگی کے احوال پر لکھا ہے،ان میں قاضی عبدالغفار(آثارِ ابوالکلام:ایک نفسیاتی مطالعہ)،عرش ملسیانی (ابوالکلام آزاد: جدید ہندوستان کے معمار)، عبدالقوی دسنوی(حیاتِ ابوالکلام آزاد، تلاشِ آزاد،مطالعۂ غبارِ خاطر،ترتیب ماہوارلسان الصدق )،شکیل الرحمن(ابوالکلام آزاد،چھ مضامین کا مجموعہ)، رشیدالدین خاں(ابوالکلام آزاد: ایک ہمہ گیر شخصیت،مولاناابوالکلام آزاد:شخصیت،سیاست،پیغام)، پروفیسر عبدالمغنی (ابوالکلام آزاد کا اسلوبِ نگارش،مولاناابوالکلام آزاد:ذہن و کردار)، انوردہلوی(امام الہندمولانا ابوالکلام آزاد کے سوانح حیات)، ظ انصاری(ابوالکلام آزاد کا ذہنی سفر)، ریاض الرحمن شیروانی(انڈیاونس فریڈم:ایک مطالعہ)،جاوید وشسٹ(مولانا آزاد فکر و نظر کے آئینے میں)، انورعارف(آزاد کی تقریریں)، عتیق صدیقی(آئینۂ ابوالکلام آزاد،مجموعۂ مقالات،غالب اور ابوالکلام)، جمشید قمر(ابوالکلامیات،خدابخش لائبریری سے مولاناکے متعلق شائع ہونے والی کتابوں کا جائزہ،جہانِ ابوالکلام آزاد:فکروتحقیق کی چند جہتیں)، اخلاق حسین قاسمی دہلوی (مولاناابوالکلام آزاد کی قرآنی بصیرت،ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ )،ملک زادہ منظور احمد(آزادی کے بعدمولاناکی شخصیت و خدمات پر اولین تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی)، ضیاء الحسن فاروقی(مولانا ابوالکلام آزاد آزادی کی طرف،مولانا ابوالکلام آزاد:فکر و نظرکی چند جہتیں)، قاضی عبدالودود(کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں)، عبدالرزاق فاروقی( ابوالکلام آزاد کے تعلیمی تصورات)،عبداللطیف اعظمی (معترضین ابوالکلام آزاد)،ابوسعید بزمی(مولانا ابوالکلام آزاد:تنقید و تبصرہ کی نگاہ میں)،ایم اے شاہد(مولانا آزاد اور ان کے ناقد)،قطب اللہ(مولانا آزاد کا نظریۂ صحافت)، علی جواد زیدی(کمالِ ابوالکلام)،خلیق انجم(مولانا ابوالکلام آزاد:شخصیت اور کارنامے،مجموعۂ مقالات)،شمیم حنفی(ہماری آزادی،انڈیاونس فریڈم کے مکمل متن کا ترجمہ)، ضیاء الدین انصاری(مولانا آزاد،سرسیداور علی گڑھ)،فاروق قریشی(مولانا ابوالکلام آزاد اور قوم پرست مسلمانوں کی سیاست)، ڈاکٹر شمس بدایونی(شبلی و آزاد: مراسم و تعلق کا اولین دور)،قاسم سید (مولانا ابوالکلام آزاد:ایک تقابلی مطالعہ)،عارف الاسلام(مسیحا کون؟سرسیدیاآزاد)،ڈاکٹر شرافت حسین مرزا(اردو ادب میں مولانا ابوالکلام آزاد کا حصہ اور مرتبہ،ترتیب : ڈاکٹر شایستہ نگیں)، ڈاکٹروہاب قیصر(مولانا ابوالکلام آزاد:فکر وعمل کے چند زاویے)،شانتی رنجن بھٹاچاریہ (مولانا ابوالکلام آزاد کے پاسپورٹ کا خفیہ فائل)،ڈاکٹر اجے انوپم(مولانا ابوالکلام آزاد اور ہندوستانی قومی تحریک)،اثربن یحی انصاری(مولانا آزاد:ایک سیاسی ڈائری)،افشاں بانو (غبارِ خاطر:ایک بازدید)،ڈاکٹر ایم آئی قاضی(غبارِ خاطر:ایک مطالعہ)پون ورما(ناشر،مولانا آزاد کی نگاہ میں عورتوں کا مقام)،ہماچل سوم (ناشر،مولانا ابوالکلام آزاد کا تصورِ دین) وغیرہم کے نام اہم ہیں۔
ادارہ جاتی شکل میں مولانامرحوم کے افکار وخدمات کے مختلف گوشوں پرباضابطہ اشاعتی پروجیکٹ پرکام کرنے کاسہرا خدابخش لائبریری کے سرہے، جہاں 1988میں مولانا کی پیدایش کی پہلی صدی کی مناسبت سے عابدرضابیدارصاحب کی ڈائریکٹرشپ میں ”ابوالکلامیات” پرباقاعدہ اشاعتی پرگرام چلایا گیا اور اس کے نتیجے میں کئی اہم کتابیں شائع ہوئیں، ان میں سے کچھ توخودعابدرضابیدارصاحب کی کتابیں تھیں، جبکہ کچھ ملک وبیرون ملک کے مختلف ماہرینِ ابوالکلامیات کے ذریعے مرتب کروائی گئی تھیں، اس تعلق سے ایک کتاب ”ابوالکلامیات ”کے نام سے جمشیدقمرصاحب نے تالیف کی ہے، جس میں ’’ابوالکلامیات ‘‘ پر1986سے 2000تک شائع ہونے والی کتابوں کاقدرے تفصیلی،تحقیقی وتنقیدی جائزہ لیاگیاہے۔
مولاناآزادکے فکروفن کی اشاعت کے حوالے سے سرحدکے اُس پاربھی زبردست کام ہواہے، ابتداء اً اس کابار مولاناغلام رسول مہراورشورش کاشمیری نے اٹھایا اور ان کے بعد یہ کام معروف محقق ڈاکٹرابوسلمان شاہجہاں پوری کرتے رہے۔غلام رسول مہرکی ”نقشِ آزاد ”تین سواڑتالیس صفحات پرمشتمل ہے، پہلی بارجنوری 1958میں لاہورسے شائع ہوئی تھی، کتاب کے تین حصے ہیں، پہلے حصے میں مہرکے نام مولاناکے خطوط جمع کیے گئے ہیں، دوسرے حصے میں مولاناآزادکے غالب ومتعلقاتِ غالب پرلکھے گئے مضامین اورچنددیگرادبی مضامین شامل ہیں، جبکہ تیسرے حصے میں خواجہ حسن نظامی، ملاواحدی اورنیازفتحپوری کولکھے گئے وہ خطوط جمع کردیے گئے ہیں، جوکسی واسطے سے مولانامہرکومل گئے تھے۔
جہاں تک بات شورش کاشمیری کی ہے، توآزاد سے انھیں ارادت بھی تھی اورعشق بھی تھا، اسی عشق کے زیراثرشورش نے آزاد پر لکھا اور خوب لکھا،اپنے اخبار ’’چٹان‘‘ میں کسی نہ کسی حوالے سے ہمیشہ آزاد کوزیرِ قلم لاتے رہے، مولاناکی وفات کے بعد ہندوستان وپاکستان میں بعض لوگوں نے مولانا کے خلاف اپنا دیرینہ بغض نکالنے کی مہم شروع کی، توشورش تمام تر خطرات اوراندیشوں سے بے پروا ہوکر ان کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے، انھوں نے اپنے شوخ وطرارقلم کی زد پران تمام لوگوں کولیا، جنھوں نے کسی بھی حوالے سے آزاد کے دامن کوداغ دارکرنے کی بھدی کوشش کی،اکیلے شورش کی چتھاڑنے نہ صرف پاکستان میں آزاد دشمنی کے قلعے کوزمیں بوس کیا؛ بلکہ بعض ہندوستانی لکھاری بھی قلمی آوارہ گردی سے تائب ہوگئے، ان کی ایک باقاعدہ تصنیف ’’ابوالکلام آزاد: سوانح وافکار‘‘لگ بھگ چھ سوصفحات پرمشتمل ہے، جو ان کی وفات کے بعد 1988میں شائع ہوسکی تھی،جبکہ ان کی بیشترکتابوں میں مختلف حوالوں سے آزاد کاذکرآیاہے؛بلکہ اگر یہ کہاجائے توشاید ہی مبالغہ ہو کہ شورش کی کوئی بھی تحریری یا تقریری مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی،جس میں وہ آزاد کا ذکر نہ کرتے ہوں،مولانا کے تعلق سے شورش کی تحریروں کو پڑھیے،توان میں ایسی سرشاری ووارفتگی ہے کہ دونوں کے درمیان ایک اٹوٹ رشتے کا احساس ہوتا ہے، ایسا رشتہ جوبسااوقات اپنوں اورسگوں کے درمیان بھی نہیں ہوتا۔ ’’چٹان ‘‘میں’’ہندوستان میں ابن تیمیہ ‘‘کے عنوان سے مولاناآزاداورمتعلقاتِ آزادپر شورش نے سلسلہ وار لکھا تھا ،ان تمام تحریروں کو ابوسلمان شاہجہاں پوری نے جمع کرکے اسی نام سے شائع کروادیا ہے ۔
ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہاں پوری مولاناغلام رسول مہروشورش کے بعدپاکستان میں مولاناآزادکے سب سے بڑے محقق تھے، بعض اعتبارات سے پاکستان ہی نہیں، ہندوستان میں بھی ان سے بڑامحققِ ابوالکلامیات شایدہی پایاجاتاہو، آزادپران کے کام کی کئی جہتیں ہیں اورہرجہت بڑی روشن وتابناک ہے، انھوں نے پہلے مرحلے میں خودمولاناآزاد کی مختلف تحریروں، رسالوں، کتابچوں اورمضامین کوجمع کرکے شائع کیاہے، جویقیناًغیرمعمولی افادیت کے حامل ہیں، مولانا کے شعری ذخیرے کو جمع کرکے’’کلیاتِ آزاد‘‘مرتب کی ہے، مذہبی وادبی استفسارات کے جوابات پر مشتمل ’’افاداتِ آزاد‘‘شائع کیاہے، ان کی مرتب کردہ ایک کتاب’’ارمغانِ آزاد‘‘بھی ہے، جس میں انھوں نے مولاناکے منظوم کلام کے علاوہ ابتدائی دورکے مضامین کوجمع کیاہے، راجیش کمارپرتی کی مرتب کردہ ’’آثارِ آزاد‘‘کومزیدتحقیق وتنقیح کے ساتھ ’’آثارونقوش ‘‘کے نام سے مرتب کیاہے۔شاہجہاں پوری صاحب نے مولانا آزاد کی حیات وخدمات پرمعروف عالم و مفکر سعید احمد اکبرآبادی کی تحریروں کو بھی جمع کیا ہے،جو’’مولانا ابوالکلام آزاد:سیرت وشخصیت،علمی و عملی کارنامے‘‘کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔ان کی ایک تالیف ’’مولانا ابوالکلام آزاد:ایک سیاسی مطالعہ‘‘بھی ہے،جو670صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں مولانا کی شخصیت ، سیاست اور افکار و خدمات کے تعلق سے مختلف اربابِ قلم کی تحریروں کو جمع کیاگیا ہے۔ان کی ایک کتاب’’ابوالکلام و عبدالماجد‘‘ بھی ہے،جس میں مولانا آزاد و مولانا عبدالماجد دریابادی کے درمیان بعض الفاظ خصوصاً حظ و کرب اور لذت و الم کی تحقیق و استعمال کے سلسلے میں چلنے والے ادبی معرکے کی تفصیل اور اس حوالے سے لکھی گئی دونوں کی تحریروں کو جمع کردیا ہے۔
اسی طرح ہندوپاک کی دانش گاہوں میں مولانا کی شخصیت و سیاست اور فکر و فن پر ایم فل و پی ایچ ڈی سطح کے مقالے بھی مسلسل لکھے جارہے ہیں،اب تک مولانا پردسیوں علمی و ادبی رسائل و اخبارات کے خصوصی نمبر بھی شائع ہوئے ہیں ،جن کی ادبی،علمی وتنقیدی اہمیت بھی مسلم ہے۔اس سب کے ساتھ ’’ابوالکلامیات‘‘ پر تحقیق،تصنیف و تالیف کے تعلق سے باقاعدہ ایک توضیحی اشاریہ بھی مرتب کیا جاچکاہے،اس کانام بھی مختصراً’’ابوالکلام آزاد‘‘ہی ہے اور اسے ڈاکٹر عطاخورشیدصاحب نے مرتب کیاہے،پوری کتاب 312صفحات پر مشتمل ہے،اس کی اشاعت 2004میں مولانا آزاد لائبریری ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہوئی ہے ۔کتاب میں پہلے تو خود مولانا آزاد کی تصنیفات اوردوسروں کے ذریعے تالیف کیے گئے ان کی تحریروں کے مجموعوں کا اشاریہ پیش کیا گیا ہے،اس کے بعد مولاناآزاد اور ان سے متعلق تصانیف، مقالات و مضامین کا اشاریہ پیش کیاگیاہے،ان سب کی مجموعی تعداد سترہ سو سے بھی زائد ہے۔ اس کتاب میں انگریزی میں ابوالکلامیات پرہونے والے علمی،تحقیقی و تنقیدی کاموں کا بھی اشاریہ پیش کیاگیا ہے، ان کی مجموعی تعداد تین سو سے زائد ہے۔
الغرض مولانا ابوالکلام آزاد سے متعلق تحقیق ، تصنیف ،تالیف اور تنقید کا سلسلہ جاری ہے اور ہر آئے دن کے ساتھ ان کی زندگی اور شخصیت کے تعلق سے کچھ نئے حقائق لوگوں کے سامنے آرہے ہیں۔ ظاہرہے کہ جو شخصیتیں جتنی بڑی ہوتی ہیں،ان کی ذات و کردار کے گوشے اسی قدر وسیع و عمیق ہوتے ، ان کی زندگی وافکار پر جتنا غور وفکر کیا جائے اورجتنی کھوج بین کی جائے،اسی قدر ہمارے علم و نظر میں اضافے کا سامان ہوتا جاتاہے ،ہندوستانی فکر و سیاست کی تاریخ میں مولانا آزاد کی شخصیت کی گیرائی و گہرائی ،انفرادیت و ہمہ جہتی تو ان کے عہد کے بیشتر ہندوستانی رہنماؤں اور دانشوروں سے بڑھی ہوئی ہیں؛اس لیے اب تک کے تحقیقی،تنقیدی،تصنیفی و تالیفی ذخیرے کے ذریعے گو ’’ابوالکلامیات‘‘ کے بہت سے گوشے ہمارے سامنے واضح ہوچکے ہیں؛لیکن اس کے باوجودیقیناً ابھی اوربھی بہت سی پرتوں کا کھلنا باقی ہے۔
مولانامرحوم ومغفور کی شخصیت پر اب تک کئی حوالوں سے کام ہواہے، ان کی سوانح حیات کے ذیل میں عبدالرزاق ملیح آبادی کی زبانی ’’آزادکی کہانی‘‘ اورپھر’’ذکرِ آزاد‘‘خاصی دلچسپ کتابیں ہیں، ’’انڈیاونس فریڈم‘‘کی اشاعت کے بعداس کے بعض حصوں پراگرچہ علمی حلقوں میں ہنگامۂ رستاخیزبرپاکیاگیا؛ بلکہ بعض طبقوں میں توابوالکلام کی طرف اس کی نسبت ہی مشکوک ومشتبہ قراردی گئی؛لیکن بہرحال اس کتاب سے آزادکے ذہنی، فکری وعملی سروکارکے لگ بھگ تیرہ ،چودہ سال کالیکھاجوکھاسامنے آجاتاہے، ’’تذکرہ‘‘ایک ارادت کیش کی فرمایش پر مولاناکی اپنی لکھی ہوئی سوانح ہے، مگراس میں خاندان کے احوال پرمفصل لکھاگیا، جبکہ اپنے بارے میں محض ادبی اشارات سے کام لیاگیا ہے، بہرحال نکتہ طرازوں نے ان اشارات سے بھی کئی کتابیں مرتب کی ہیں۔ اس میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں کہ آزادایک دیدہ ورعالم تھے، ایک یکہ تازدانشور، ایک بے بدل خطیب تھے اورایک بے نظیرادیب،ان کے خیال وفکر میں ایسی رفعت اور بلندی تھی کہ وہاں تک دیکھنے میں ہی بڑے بڑوں کی ٹوپیاں گرجائیں،تحمل و بردباری کی اس منزل پر تھے کہ بڑے سے بڑے سیاسی یا ذاتی دشمن کے حملوں کو یوں جھٹک دیتے،گویا ناقابلِ التفات ہوں،ان کی سیاست ایک نظریے کے تحت شروع ہوئی تھی، جس کی تبلیغ، اشاعت اورتحفظ کے لیے وہ تاحیات سرگرم رہے،ساتھ ہی آزاد ہندی مسلمانوں کے معتوب ترین رہنماتھے، کہ جنھیں نوکروڑ اسلامیانِ ہند میں سے لگ بھگ دوتہائی کی گالیاں کھانی پڑیں، مگرانھوں نے اف تک نہ کیا،اس طرح مولانا کی شخصیت ، فکر و فن اورکردارکی مختلف ومتنوع جہتیں ہیں،جن کی تفہیم و تشریح اس معنی کر ضروری ہے کہ مولانا آزاد ہندوستان کے ایک ایسے راہنما رہے ہیں،جنھوں نے کئی نسلوں کونظری،علمی،فکری،تہذیبی،سیاسی ہرسطح پر متاثر بھی کیا ہے یا اب بھی کرتے ہیں؛ چنانچہ ان کی حیات ،کارنامے اور فکر و فن کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا،ان پر بحث و تحقیق کرنا اور انھیں نقدونظر کے دائرے میں لانا ضروری ہے۔
اسی احساس کے ساتھ آزاد کی شخصیت اوران کے فکروعمل کی جہات پر ان کی زندگی سے ہی لکھاجانے لگاتھا، البتہ ان کی وفات کے بعد یہ کام زیادہ مضبوطی سے ہوا’’ابوالکلامیات‘‘پرغالباپہلی کتاب عبداللہ بٹ کے ذریعے مرتب کی گئی ’’ابوالکلام آزاد‘‘ہے، جوپہلی بار لاہورسے 1943میں شائع ہوئی تھی، اس کتاب میں سترہ مضامین، دونظمیں اوراخیرمیں عبداللہ بٹ کے نام مولاناآزادکے تین خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں، اس کتاب کے مضمون نگاروں میں خواجہ حسن نظامی، سیدسلیمان ندوی، جواہرلال نہرو، سجادانصاری، نصراللہ خاں عزیز اورآصف علی وغیرہ ہیں، زیادہ ترمضامین تاثراتی نوعیت کے ہیں، بعض میں ان کی فکرکے بعض گوشوں کواُجالاگیاہے۔عبداللہ بٹ نے1944میں مولانا کے پندرہ سولہ مضامین کا ایک مجموعہ بھی مرتب کیاتھا،جسے ’’مضامینِ آزاد‘‘کے نام سے لاہور سے ہی شائع کیاتھا۔
ان کی وفات کے بعد حکومتِ ہند کی وزارتِ اطلاعات ونشریات کے زیرِ اہتمام دسمبر1958 میں بھی ایک ’’ابوالکلام آزاد‘‘شائع ہوئی، جس میں متعدد سیاسی رہنماؤں، ادیبوں اوردانشوروں کے منظوم ومنثورتاثرات درج کیے گئے، اس کی ایک خاص بات مولاناکی مختلف مراحلِ عمروسیاست کی بہت سی خوب صورت تصویریں بھی تھیں۔ ڈاکٹرراجیش کمار پرتی نے نیشنل آرکائیوزآف انڈیامیں محفوظ مولاناکے غیرمطبوعہ خطوط کو’’آثارِ آزاد‘‘کے نام سے شائع کیا، اس کے آغازمیں مرتب موصوف کاپچیس صفحوں کامقدمہ خاصامعلومات افزااوردلچسپ ہے، باقی ان خطوط کے مطالعے کے ذریعے وزیرتعلیم کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
مالک رام ہندوستان میں ایک منفرد ماہرِ ابوالکلامیات کے طورپر اپنی شناخت رکھتے ہیں،انھوں نے ساہتیہ اکادمی کی سربراہی کے دوران نہ صرف مولانا کی کتابوں کو عمدہ انداز میں شائع کیا؛بلکہ ان پر تحقیق و تعلیق اور تخریج وغیرہ کابھی کام کیا،مولاناکے خطوط مرتب کیے ’’کچھ ابوالکلام آزادکے بارے میں‘‘کے نام سے مولانا کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں پر ایک تحقیقی کتاب مرتب کی،’’نثرِ ابوالکلام‘‘میں مولانا کے منتخب مضامین،مقالات اور مکاتیب کو جمع کرکے شائع کیا۔
ان کے علاوہ جن لوگوں نے ابوالکلامیات کے مختلف گوشوں یا مولانا کی زندگی کے احوال پر لکھا ہے،ان میں قاضی عبدالغفار(آثارِ ابوالکلام:ایک نفسیاتی مطالعہ)،عرش ملسیانی (ابوالکلام آزاد: جدید ہندوستان کے معمار)، عبدالقوی دسنوی(حیاتِ ابوالکلام آزاد، تلاشِ آزاد،مطالعۂ غبارِ خاطر،ترتیب ماہوارلسان الصدق )،شکیل الرحمن(ابوالکلام آزاد،چھ مضامین کا مجموعہ)، رشیدالدین خاں(ابوالکلام آزاد: ایک ہمہ گیر شخصیت،مولاناابوالکلام آزاد:شخصیت،سیاست،پیغام)، پروفیسر عبدالمغنی (ابوالکلام آزاد کا اسلوبِ نگارش،مولاناابوالکلام آزاد:ذہن و کردار)، انوردہلوی(امام الہندمولانا ابوالکلام آزاد کے سوانح حیات)، ظ انصاری(ابوالکلام آزاد کا ذہنی سفر)، ریاض الرحمن شیروانی(انڈیاونس فریڈم:ایک مطالعہ)،جاوید وشسٹ(مولانا آزاد فکر و نظر کے آئینے میں)، انورعارف(آزاد کی تقریریں)، عتیق صدیقی(آئینۂ ابوالکلام آزاد،مجموعۂ مقالات،غالب اور ابوالکلام)، جمشید قمر(ابوالکلامیات،خدابخش لائبریری سے مولاناکے متعلق شائع ہونے والی کتابوں کا جائزہ،جہانِ ابوالکلام آزاد:فکروتحقیق کی چند جہتیں)، اخلاق حسین قاسمی دہلوی (مولاناابوالکلام آزاد کی قرآنی بصیرت،ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ )،ملک زادہ منظور احمد(آزادی کے بعدمولاناکی شخصیت و خدمات پر اولین تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی)، ضیاء الحسن فاروقی(مولانا ابوالکلام آزاد آزادی کی طرف،مولانا ابوالکلام آزاد:فکر و نظرکی چند جہتیں)، قاضی عبدالودود(کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں)، عبدالرزاق فاروقی( ابوالکلام آزاد کے تعلیمی تصورات)،عبداللطیف اعظمی (معترضین ابوالکلام آزاد)،ابوسعید بزمی(مولانا ابوالکلام آزاد:تنقید و تبصرہ کی نگاہ میں)،ایم اے شاہد(مولانا آزاد اور ان کے ناقد)،قطب اللہ(مولانا آزاد کا نظریۂ صحافت)، علی جواد زیدی(کمالِ ابوالکلام)،خلیق انجم(مولانا ابوالکلام آزاد:شخصیت اور کارنامے،مجموعۂ مقالات)،شمیم حنفی(ہماری آزادی،انڈیاونس فریڈم کے مکمل متن کا ترجمہ)، ضیاء الدین انصاری(مولانا آزاد،سرسیداور علی گڑھ)،فاروق قریشی(مولانا ابوالکلام آزاد اور قوم پرست مسلمانوں کی سیاست)، ڈاکٹر شمس بدایونی(شبلی و آزاد: مراسم و تعلق کا اولین دور)،قاسم سید (مولانا ابوالکلام آزاد:ایک تقابلی مطالعہ)،عارف الاسلام(مسیحا کون؟سرسیدیاآزاد)،ڈاکٹر شرافت حسین مرزا(اردو ادب میں مولانا ابوالکلام آزاد کا حصہ اور مرتبہ،ترتیب : ڈاکٹر شایستہ نگیں)، ڈاکٹروہاب قیصر(مولانا ابوالکلام آزاد:فکر وعمل کے چند زاویے)،شانتی رنجن بھٹاچاریہ (مولانا ابوالکلام آزاد کے پاسپورٹ کا خفیہ فائل)،ڈاکٹر اجے انوپم(مولانا ابوالکلام آزاد اور ہندوستانی قومی تحریک)،اثربن یحی انصاری(مولانا آزاد:ایک سیاسی ڈائری)،افشاں بانو (غبارِ خاطر:ایک بازدید)،ڈاکٹر ایم آئی قاضی(غبارِ خاطر:ایک مطالعہ)پون ورما(ناشر،مولانا آزاد کی نگاہ میں عورتوں کا مقام)،ہماچل سوم (ناشر،مولانا ابوالکلام آزاد کا تصورِ دین) وغیرہم کے نام اہم ہیں۔
ادارہ جاتی شکل میں مولانامرحوم کے افکار وخدمات کے مختلف گوشوں پرباضابطہ اشاعتی پروجیکٹ پرکام کرنے کاسہرا خدابخش لائبریری کے سرہے، جہاں 1988میں مولانا کی پیدایش کی پہلی صدی کی مناسبت سے عابدرضابیدارصاحب کی ڈائریکٹرشپ میں ”ابوالکلامیات” پرباقاعدہ اشاعتی پرگرام چلایا گیا اور اس کے نتیجے میں کئی اہم کتابیں شائع ہوئیں، ان میں سے کچھ توخودعابدرضابیدارصاحب کی کتابیں تھیں، جبکہ کچھ ملک وبیرون ملک کے مختلف ماہرینِ ابوالکلامیات کے ذریعے مرتب کروائی گئی تھیں، اس تعلق سے ایک کتاب ”ابوالکلامیات ”کے نام سے جمشیدقمرصاحب نے تالیف کی ہے، جس میں ’’ابوالکلامیات ‘‘ پر1986سے 2000تک شائع ہونے والی کتابوں کاقدرے تفصیلی،تحقیقی وتنقیدی جائزہ لیاگیاہے۔
مولاناآزادکے فکروفن کی اشاعت کے حوالے سے سرحدکے اُس پاربھی زبردست کام ہواہے، ابتداء اً اس کابار مولاناغلام رسول مہراورشورش کاشمیری نے اٹھایا اور ان کے بعد یہ کام معروف محقق ڈاکٹرابوسلمان شاہجہاں پوری کرتے رہے۔غلام رسول مہرکی ”نقشِ آزاد ”تین سواڑتالیس صفحات پرمشتمل ہے، پہلی بارجنوری 1958میں لاہورسے شائع ہوئی تھی، کتاب کے تین حصے ہیں، پہلے حصے میں مہرکے نام مولاناکے خطوط جمع کیے گئے ہیں، دوسرے حصے میں مولاناآزادکے غالب ومتعلقاتِ غالب پرلکھے گئے مضامین اورچنددیگرادبی مضامین شامل ہیں، جبکہ تیسرے حصے میں خواجہ حسن نظامی، ملاواحدی اورنیازفتحپوری کولکھے گئے وہ خطوط جمع کردیے گئے ہیں، جوکسی واسطے سے مولانامہرکومل گئے تھے۔
جہاں تک بات شورش کاشمیری کی ہے، توآزاد سے انھیں ارادت بھی تھی اورعشق بھی تھا، اسی عشق کے زیراثرشورش نے آزاد پر لکھا اور خوب لکھا،اپنے اخبار ’’چٹان‘‘ میں کسی نہ کسی حوالے سے ہمیشہ آزاد کوزیرِ قلم لاتے رہے، مولاناکی وفات کے بعد ہندوستان وپاکستان میں بعض لوگوں نے مولانا کے خلاف اپنا دیرینہ بغض نکالنے کی مہم شروع کی، توشورش تمام تر خطرات اوراندیشوں سے بے پروا ہوکر ان کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے، انھوں نے اپنے شوخ وطرارقلم کی زد پران تمام لوگوں کولیا، جنھوں نے کسی بھی حوالے سے آزاد کے دامن کوداغ دارکرنے کی بھدی کوشش کی،اکیلے شورش کی چتھاڑنے نہ صرف پاکستان میں آزاد دشمنی کے قلعے کوزمیں بوس کیا؛ بلکہ بعض ہندوستانی لکھاری بھی قلمی آوارہ گردی سے تائب ہوگئے، ان کی ایک باقاعدہ تصنیف ’’ابوالکلام آزاد: سوانح وافکار‘‘لگ بھگ چھ سوصفحات پرمشتمل ہے، جو ان کی وفات کے بعد 1988میں شائع ہوسکی تھی،جبکہ ان کی بیشترکتابوں میں مختلف حوالوں سے آزاد کاذکرآیاہے؛بلکہ اگر یہ کہاجائے توشاید ہی مبالغہ ہو کہ شورش کی کوئی بھی تحریری یا تقریری مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی،جس میں وہ آزاد کا ذکر نہ کرتے ہوں،مولانا کے تعلق سے شورش کی تحریروں کو پڑھیے،توان میں ایسی سرشاری ووارفتگی ہے کہ دونوں کے درمیان ایک اٹوٹ رشتے کا احساس ہوتا ہے، ایسا رشتہ جوبسااوقات اپنوں اورسگوں کے درمیان بھی نہیں ہوتا۔ ’’چٹان ‘‘میں’’ہندوستان میں ابن تیمیہ ‘‘کے عنوان سے مولاناآزاداورمتعلقاتِ آزادپر شورش نے سلسلہ وار لکھا تھا ،ان تمام تحریروں کو ابوسلمان شاہجہاں پوری نے جمع کرکے اسی نام سے شائع کروادیا ہے ۔
ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہاں پوری مولاناغلام رسول مہروشورش کے بعدپاکستان میں مولاناآزادکے سب سے بڑے محقق تھے، بعض اعتبارات سے پاکستان ہی نہیں، ہندوستان میں بھی ان سے بڑامحققِ ابوالکلامیات شایدہی پایاجاتاہو، آزادپران کے کام کی کئی جہتیں ہیں اورہرجہت بڑی روشن وتابناک ہے، انھوں نے پہلے مرحلے میں خودمولاناآزاد کی مختلف تحریروں، رسالوں، کتابچوں اورمضامین کوجمع کرکے شائع کیاہے، جویقیناًغیرمعمولی افادیت کے حامل ہیں، مولانا کے شعری ذخیرے کو جمع کرکے’’کلیاتِ آزاد‘‘مرتب کی ہے، مذہبی وادبی استفسارات کے جوابات پر مشتمل ’’افاداتِ آزاد‘‘شائع کیاہے، ان کی مرتب کردہ ایک کتاب’’ارمغانِ آزاد‘‘بھی ہے، جس میں انھوں نے مولاناکے منظوم کلام کے علاوہ ابتدائی دورکے مضامین کوجمع کیاہے، راجیش کمارپرتی کی مرتب کردہ ’’آثارِ آزاد‘‘کومزیدتحقیق وتنقیح کے ساتھ ’’آثارونقوش ‘‘کے نام سے مرتب کیاہے۔شاہجہاں پوری صاحب نے مولانا آزاد کی حیات وخدمات پرمعروف عالم و مفکر سعید احمد اکبرآبادی کی تحریروں کو بھی جمع کیا ہے،جو’’مولانا ابوالکلام آزاد:سیرت وشخصیت،علمی و عملی کارنامے‘‘کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔ان کی ایک تالیف ’’مولانا ابوالکلام آزاد:ایک سیاسی مطالعہ‘‘بھی ہے،جو670صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں مولانا کی شخصیت ، سیاست اور افکار و خدمات کے تعلق سے مختلف اربابِ قلم کی تحریروں کو جمع کیاگیا ہے۔ان کی ایک کتاب’’ابوالکلام و عبدالماجد‘‘ بھی ہے،جس میں مولانا آزاد و مولانا عبدالماجد دریابادی کے درمیان بعض الفاظ خصوصاً حظ و کرب اور لذت و الم کی تحقیق و استعمال کے سلسلے میں چلنے والے ادبی معرکے کی تفصیل اور اس حوالے سے لکھی گئی دونوں کی تحریروں کو جمع کردیا ہے۔
اسی طرح ہندوپاک کی دانش گاہوں میں مولانا کی شخصیت و سیاست اور فکر و فن پر ایم فل و پی ایچ ڈی سطح کے مقالے بھی مسلسل لکھے جارہے ہیں،اب تک مولانا پردسیوں علمی و ادبی رسائل و اخبارات کے خصوصی نمبر بھی شائع ہوئے ہیں ،جن کی ادبی،علمی وتنقیدی اہمیت بھی مسلم ہے۔اس سب کے ساتھ ’’ابوالکلامیات‘‘ پر تحقیق،تصنیف و تالیف کے تعلق سے باقاعدہ ایک توضیحی اشاریہ بھی مرتب کیا جاچکاہے،اس کانام بھی مختصراً’’ابوالکلام آزاد‘‘ہی ہے اور اسے ڈاکٹر عطاخورشیدصاحب نے مرتب کیاہے،پوری کتاب 312صفحات پر مشتمل ہے،اس کی اشاعت 2004میں مولانا آزاد لائبریری ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہوئی ہے ۔کتاب میں پہلے تو خود مولانا آزاد کی تصنیفات اوردوسروں کے ذریعے تالیف کیے گئے ان کی تحریروں کے مجموعوں کا اشاریہ پیش کیا گیا ہے،اس کے بعد مولاناآزاد اور ان سے متعلق تصانیف، مقالات و مضامین کا اشاریہ پیش کیاگیاہے،ان سب کی مجموعی تعداد سترہ سو سے بھی زائد ہے۔ اس کتاب میں انگریزی میں ابوالکلامیات پرہونے والے علمی،تحقیقی و تنقیدی کاموں کا بھی اشاریہ پیش کیاگیا ہے، ان کی مجموعی تعداد تین سو سے زائد ہے۔
الغرض مولانا ابوالکلام آزاد سے متعلق تحقیق ، تصنیف ،تالیف اور تنقید کا سلسلہ جاری ہے اور ہر آئے دن کے ساتھ ان کی زندگی اور شخصیت کے تعلق سے کچھ نئے حقائق لوگوں کے سامنے آرہے ہیں۔ ظاہرہے کہ جو شخصیتیں جتنی بڑی ہوتی ہیں،ان کی ذات و کردار کے گوشے اسی قدر وسیع و عمیق ہوتے ، ان کی زندگی وافکار پر جتنا غور وفکر کیا جائے اورجتنی کھوج بین کی جائے،اسی قدر ہمارے علم و نظر میں اضافے کا سامان ہوتا جاتاہے ،ہندوستانی فکر و سیاست کی تاریخ میں مولانا آزاد کی شخصیت کی گیرائی و گہرائی ،انفرادیت و ہمہ جہتی تو ان کے عہد کے بیشتر ہندوستانی رہنماؤں اور دانشوروں سے بڑھی ہوئی ہیں؛اس لیے اب تک کے تحقیقی،تنقیدی،تصنیفی و تالیفی ذخیرے کے ذریعے گو ’’ابوالکلامیات‘‘ کے بہت سے گوشے ہمارے سامنے واضح ہوچکے ہیں؛لیکن اس کے باوجودیقیناً ابھی اوربھی بہت سی پرتوں کا کھلنا باقی ہے۔