کیا آپ گاندھی کو جانتے ہیں؟ گاندھی کو جاننا آسان نہیں۔ گاندھی کو جاننا کشف ذات سے گزرنا ہے اس کے بعد بھی کئی مرحلے رہ جاتے ہیں، میں نے گاندھی کو دیکھا ہے جب کہ میری پیدائش سے کافی پہلے گاندھی مر چکے تھے اور آزاد ہندوستان میں گاندھی کے مجسمے پر گولیاں چلائی جا رہی تھیں۔ بیحد پر اسرار گاندھی کو لفظوں میں دریافت نہیں کیا جا سکتا۔
گاندھی ؟ ادبی خاکے لکھتے ہوئے اچانک گاندھی سامنے آ گئے ،ایک عام سا گاندھی، جسے نیم برہنہ فقیر بھی کہا گیا،جسے کتابوں اور ادب سے بھی والہانہ لگاؤ تھا،گاندھی ، جس کو پڑھنے اور لکھنے سے جنون کی حد تک عشق تھا ۔ ابتدائی تصانیف میں سے ایک ‘ہند سوراج‘ 1909ء میں گجراتی زبان میں شایع ہوئی ۔ کئی دہائیوں تک گاندھی نے گجراتی اور ہندی کے علاوہ انگریزی اخبارات میں ادارت کے فرائض سر انجام دیے اور یہ سلسلہ جنوبی افریقا میں بھی جاری رہا۔ اس کے علاوہ گاندھی نے تقریباً ہر روز ہی مختلف اخبارات کے مدیران کو اور عام افراد کو خطوط لکھے۔ اور یہ خاکے اس وقت تک نامکمل ہیں جب تک گاندھی کی زندگی پر گفتگو نہ ہو۔ کون تھا یہ گاندھی ؟ ہندوستان ،تو پھر ہندوستان کا نام کیا ہے ؟ گاندھی ،صرف اڑتیس برس کی عمرگاندھی نے جسم کا تیاگ کیا ۔ دسمبر 1935 میں امریکی نژاد جنسی ٹیچر مارگریٹ سنجر نے آشرم میں مہاتما گاندھی سے ملاقات کی،گاندھی نے نے سینگر کو بتایا کہ وہ ہر طرح کے جنسی تعلقات کو ‘ہوس’ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کستوربا کے بارے میں بتایا کہ اب جسمانی خوشی ترک کردی ہے۔ بیوی کستوربا سے ان کے تعلقات روحانی ہوچکے ہیں۔ ایک دروازہ آشرم کے باہر کا تھا ، ایک پر اسرار دروازہ آشرم کے اندر کھلتا تھا،جواہر لال نہرو نے گاندھی جی کے نظریات کو ‘غیر معمولی اور غیر فطری’ قرار دیا۔آشرم میں ایلیٹ کلاس کی عورتیں بھی گاندھی کے ساتھ رہنا اور سونا پسند کرتی تھیں۔ میڈیلین برطانوی ایڈمرل سر ایڈمنڈ سلیڈ کی بیٹی تھیں۔ گاندھی سے پہلی ملاقات کے کے بارے میں میڈیلین نےبتایا’جب میں وہاں داخل ہوئی تو سامنے ایک دبلا پتلا آدمی سفید تخت سے اٹھ کر میری طرف بڑھا ۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ شخص باپوہے ،میں خوشی اور عقیدت سے بھر گئی ۔ میرے سامنے ایک آسمانی روشنی تھی۔ میں باپو کے قدموں پر بیٹھ گیی ۔ باپو نے مجھے اٹھایا اور کہا – تم میری بیٹی ہو۔ ” اس دن سے میڈلین اور مہاتما کے مابین ایک مختلف رشتہ قائم ہوا ۔ بعدازاں میڈلن کا نام میرابین رکھا گیا۔ گاندھی سرلا دیوی چودھرانی کو اپنی ‘روحانی بیوی’ کہتے تھے۔ گاندھی کا کہنا تھا کہ اس رشتے کی وجہ سے ان کی شادی ٹوٹتے ٹوٹتے بچی ، سروجنی نائیڈو ، راجکماری امرت کور ، ڈاکٹر سشیلا نائر ، ابھا گاندھی ، منو گاندھی کے ساتھ بھی ان کے قریبی رشتے تھے ۔
گاندھی مرنے کے بعد بھی زندہ ہے۔ گوڈسے اسی دن مر گیا جس دن اس نے گاندھی کو ماری۔ ایک خوبصورت اور مہذب دنیا یہ سوچ کر خوش ہوتی رہی کہ گاندھی کسی انسان نہیں آئیڈیا لوجی کا نام ہے،انسان مرتا ہے ،آئیڈیا لوجی زندہ رہتی ہے ۔ لیکن کیا یہ محض خوش فہمی ہے؟ گوڈسے کو زندہ رکھنے والے مخصوص نظریات کے حامی خوش ہیں کہ گاندھی کو انہوں نے جلا وطن کر دیا ۔
کیا گاندھی کو مارنا ، تہتر برس بعد جلا وطن کرنا آسان ہے؟ انہوں نے گوڈسے کا مندر تک بنا دیا ،کیا یہ ان کی بھول ہے کہ گاندھی ہر روشن دل میں کل بھی زندہ تھا ،آج بھی زندہ ہے۔ وہ اب بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ ٣٠ جنوری کی پرانی روایت کو ختم کر کے گوڈسے کو زندہ کر دیں گے۔ ایک برس قبل ایک سرپھرے نے ہائی کورٹ میں گوڈسے کو بے گناہ ٹھہرانے کی ایک عرضی بھی داخل کی تھی،جسے کورٹ نے پہلی نظر میں ہی خارج کر دیا۔
گاندھی کے نظریات و افکار کی ایک دنیا معترف ہے ۔ ایک وقت تھا جب ان نظریات نے عالمی سیاست کو متاثر کیا۔ پھر ہم ایک ایسے عہد سے وابستہ ہو گئے جہاں ان نظریات کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ گاندھی کے عہد میں بھی پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے انسانی معاشرہ اور تہذیب و ثقافت کو داغ دار کیا لیکن جنگ اور تشدد سے پیدا شدہ تباہیوں سے گاندھی نے یہ سیکھا کہ آزادی کے لئے عدم تشدد کا فلسفہ لے کر آ گئے اور حکومت برطانیہ کے ساتھ عالمی سیاست کو بھی حیران ہونا پڑا کہ وہ قیادت کی اس نئی رسم سے واقف نہیں تھی۔ عدم تشدد کا فلسفہ ایسا ہتھیار ثابت ہوا کہ فرنگی گاندھی اور ان کے نظریات سے خوف محسوس کرنے لگے ۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ساؤتھ افریقہ کا سوٹڈ بوٹڈ بیرسٹر گاندھی جب اپنے ملک ہندوستان آئے گا،تو سب سے پہلے وہ ہندوستانی شناخت کو سمجھنے کے لئے ہندو ستان کے دور دراز گاؤں کا دورہ کرےگا،کیونکہ آج بھی اصل ہندوستان کی روح کا رشتہ گاؤں سے ہے۔ ہندوستان کی ثقافت اور جڑوں کے تفصیلی اور گہرے مطالعے کے بعد موہن داس کرم چند گاندھی نے اس روٹس کو محسوس کر لیا جس کی جڑیں ہر ہندوستانی کے دل تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گاندھی نہ آتے تو حکومت برطانیہ کا تسلط کبھی ختم نہ ہوتا۔ اب ایک نئے گاندھی کا جنم ہوا،جس نے سو دیشی کا نعرہ دیا، خود چرخہ لے کر بیٹھا،سوٹ بوٹ اتار پھینکا ، اپنے لباس، سوت کے دھاگوں سے تیار کرنے لگا۔ یہاں تک کہ کستوربا کو بھی اپنے مشن میں شامل کر لیا،یہ گاندھی کا مشن تھا کہ ہندوستانی انگریزوں کی بنائی چیزوں سے فاصلہ رکھیں گے۔ نمک بھی تیار کریں گے،اپنے لباس کے لئے اپنے ہاتھوں کے محتاج ہوں گے،حکمت برطانیہ کے ظلم کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔عدم تشدد کا سہارا لے کر انھیں شکست دیں گے۔ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا جب چرچل کے نیم عریاں فقیر کے جذبے ،ضد اور فلسفوں نے حکومت برطانیہ کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ آزادی کے ساتھ ملک کو بھیانک فرقہ وارانہ فسادات کا تحفہ ملا،جب ملک آزادی کا جشن منا رہا تھا ،گاندھی نوا کھالی میں متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے بھوک ہرتال پر بیٹھے تھے۔ گاندھی جسے اقتدار کا کوئی نشہ نہیں تھا۔ ہے رام کہتے ہوئے جس نے آرام سے گوڈسے کے پستول سے نکلنے والی گولیوں کو قبول کر لیا ، اقتدار کے بھوکے سماج میں کیا آج کے دور میں کسی گاندھی کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟
یہ اس ملک کی موت ہے جہاں گاندھی کی نا قدری کے بعد بھی عوام خاموش ہے ۔ جہاں پہلے گوڈسے کی نمائندگی کرنے والے گاندھی کی آنکھوں سے عینک اتارتے ہیں پھر گوڈسے کو عینک پہنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
انسان کی موت کو گاندھی مذہب اور تقسیم کی آنکھوں سے نہیں دیکھتا تھا۔ وہ چرخہ چلاتا تھا،وہ کھادی سے اپنے کپڑے بنتا تھا،وہ ایک نئے ہندوستان کا خواب دیکھتا تھا، اسے اپنے لئے کچھ بھی نہیں چاہیے تھا،وہ محبت کی ایک روشن مثال بن چکا تھا،ایک مضبوطی۔ یہ نام ہمیں شکست کے ماحول میں حوصلہ دیتا تھا،یہ نام قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے ایک مثال تھا،آج اس نام کو گوڈسے کی ذہنیت والوں نے روںد دیا ہے،انگریز بھی گاندھی کی عظمت کے قائل تھے،آج گاندھی کی عظمت سے انکار کرتے ہوئے کچھ شر پسند لیڈران یہاں تک کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم گاندھی کو ملک سے نکال باہر کریں گے ۔ اس بیان پر کانگریس کا رد عمل بھی شدید نہیں رہا،ملک خاموش ہے،کیا ملک نے گاندھی کی موت کے جشن کے لئے خود کو تیار کر لیا ہے ؟کیا گاندھی کے بغیر آزادی اور ملک کا کوئی تصور باقی رہ سکتا ہے،کہیں ایسا تو نہیں کہ گوڈسے کے حمایتی ہماری قوت برداشت کا امتحان لے رہے ہوں،ہماری خاموشی ہماری ناکامی ہی گوڈسے کی جیت ہے ۔
کیا ایسا ہوگا ؟ ہندوستان خاموش ہے ،عوام خاموش ہیں،لیکن یہ خاموشی کچھ کہتی ہے ، ہم نے گاندھی کو کھو دیا تو ہم ملک کو کھو دیں گے، گاندھی کسی شخص کا نہیں نظریے کا نام ہے،پر آشوب حالات میں اس نظریے کی ضرورت ہے،ہمیں اس نظریے کو قایم اور زندہ رکھنا ہوگا۔
یہ گاندھی کا ایک چہرہ تھا،ایک دوسرا چہرہ بھی ہے،میں اس چہرے کو جاننے کی کوشش کرتا ہوں، یہ چہرہ ادب و صحافت کا بھی چہرہ تھا اور ایک انسان کا بھی،
‘ہر عظیم آدمی ایک معاشرتی بحران ہے’۔ ‘مہاتما نے برہمیت کے استعمال کو تاریخ کی فضلہ ٹوکری میں ڈال دیا گیا تھا۔’میں گاندھی ازم میں پتھر ڈالنے کا کام کر رہا ہوں’۔
‘مہاتما گاندھی کی برہمیت کا استعمال آخری سانسوں تک جاری رہا۔”مہاتما یہ نہیں بتا سکے کہ نو عمر لڑکیوں کے ساتھ ننگے سو کر مکمل برہم حاصل کیا جاسکتا ہے۔’
‘مہاتما نے 37 سال کی عمر میں برہماچاریہ کا روزہ رکھا ۔
ایک عظیم انسان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسان ہونے کی خصوصیات کے ساتھ زندہ ہو۔ یہ سوچنا آسان نہیں تھا کہ جنوبی افریقہ سے واپسی کے بعد ، یہ شکست خوردہ چہرہ ایک مہاتما کے چہرے کے طور پر واپس آجائے گا ، وہ نہ صرف اپنے لباس کو ترک کردے گا ، وہ روحانی راہ پر گامزن ہو گا اور 38 سال کی عمر میں اپنی اہلیہ کے لئے بھی وہی برہم اصول نافذ کرے گا ، جو اس نے سوچ رکھا ہے .
یہاں سوال یہ ہے کہ کیوں باپو کو بار بار اپنی برہمیت کی آزمائش سے گزرنا پڑا؟ جس کے لئے وہ ماضی میں ہر جگہ اپنی ذہنی کیفیت کی مثالیں پیش کرتا رہا۔ راجکماریوں سے لے کر 17-18 سال کی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ سوتا رہا ۔ ننگے جسم پر مساج کراتا رہا اور اس بات کا یقین کرتا رہا کہ وہ جنسی نفسیاتی مریضوں کے ہجوم میں شامل نہیں ہے ، قابل اعتماد بات یہ ہے کہ معصوم لڑکیوں کے جسم سے نکلتی آگ بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ۔
کچھ لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا واقعی اس کی ضرورت تھی؟ وہ آشرم میں رہنے والے لوگوں کی طرح غصے یا ناراضگی کا اظہار بھی کرسکتے ہیں یا باپو کے بارے میں ایک عام غلط فہمی کے طور پر کہ وہ برہم کی آڑ میں جسم کی بھوک کا سودا کرتے تھے یا ‘روح’کی اذیتوں سے گزرتے تھے ۔ میں برہم نہیں چاہتا ، وہ ان تعلقات کے ساتھ ہندوستان کی آزادی کا ایک نایاب خواب بن رہا تھا۔ وہ منو اور ابھا جیسی کمسن لڑکیوں کے شانے پر ہاتھ رکھ کر آزمائش کے طوفان سے گزرتا تھا،حقیقت میں وہ فاتح کی حیثیت سے اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں ، خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لینے جارہا تھا۔
مجھے نہیں معلوم کہ یہ اس ملک کی خوش قسمتی ہے یا بدقسمتی کہ گاندھی مہاتما بھی ہیں اور بہت سوں کی نظر میں اس کے برعکس بھی ۔ ہماری ہندوستانی ثقافت میں یہ لچک ہے کہ جسم اور اس کی ضروریات کو ناگزیر جانتے ہوئے بھی ، ہم اس کے ساتھ زندگی اورتخلیقی سطح پر ایک نامناسب فاصلہ طے کرتے ہیں۔ ادب سے لے کر معاشرے تک ، جسم ایک عفریت کی مانند آنکھیں دکھاتا ہے۔ گاندھی ایک عام انسان تھا۔ اگر وہ اندرونی برہمیت کا جائزہ لے کر اس کی جانچ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے غلط نہیں کہا جاسکتا۔ برہمیت کے سخت امتحان کے طور پر منو اوراورابھا جیسی لڑکیوں کے ساتھ ننگا سونا بھی گاندھیائی برہمیت کا ایک حصہ ہے ، مگر اس برہمیت کو سمجھنا مشکل جیسا کہ اس دور میں ہوا۔ گاندھی کے دور میں جہاں جنسی تلذذ اور جسم کے بارے میں بات کرنا کسی جرم سے کم نہیں تھا ، گاندھی کی تحریریں غیر معمولی طور پر سیکس اور برہماچاریہ کے درمیاں کے راستے کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں،اس وقت بھی گاندھی کے بارے میں بہت ساری بحثیں ہوئیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے بھی آشرم میں رہنے والی لڑکیوں کے ساتھ ان تجربات کوبرھمچاریہ کے لئے اچھا نہیں سمجھا۔
ان تجربات کے بارے میں گاندھی کی ذاتی رائے تھی۔ ‘برہماچاریہ کی ہماری تعریفیں نامکمل ہیں ، میں اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میں دعوی کرتا ہوں کہ ایک موقع کے علاوہ میں کبھی بھی خراب نہیں ہوا۔ ان کے دوست نرمل بوس کا ایک خط دیکھئے :
"آج صبح سوامی آنند نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اپنے دوستوں کو بتا سکتا ہوں کہ آپ کو گاندھی کا عمل پسند نہیں ہے؟
جب مجھے گاندھی جی کے تجربے کے بارے میں پہلی بار پتہ چلا تو مجھے واقعی حیرت ہوئی۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ بعض اوقات خواتین کو اپنے بستر پر اور یہاں تک کہ اسی چادر کے نیچے سونے کو کہتے ہیں اور پھر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں کوئی جسمانی احساس ہے یا ان کی روحانی حس کو کوئی فرق پڑا یا نہیں ؟ لیکن جب مجھے گاندھی جی کے ذریعہ استعمال کردہ طریقہ کار کے بارے میں معلوم ہوا تو میں نے حیرت سے پوچھا کہ کیوں کچھ لوگ گاندھی جی کواپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں- خود گاندھی جی کے لئے یہ تجربہ یا اس کی اہمیت کچھ بھی ہو سکتی ہے ، لیکن بلاشبہ دوسروں کی شخصیت کو بدنام کرنا ٹھیک نہیں، کیونکہ ان کا اخلاقی معیار اتنا اونچا نہیں ہے جتنا گاندھی جی کا ہے۔ اور ان لوگوں کے لئے یہ روحانی مسرت ضروری نہیں ہے کہ وہ گاندھی کے تجربے میں حصہ لیں۔ ”
گاندھی کو اس طرح کے سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود گاندھی جی نے ایسے بے رحم سوالوں کا جواب دیا ۔ شاید کوئی بھی گاندھی جی سے بہتر جسم کی پیچیدہ نفسیات کو نہیں سمجھ سکتا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو ٹرین میں چلتے ہوئے لکھے گئے خط میں ، گاندھی جی نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کا آسان جواب دیا ہے۔ اور اس جواب کے آئینے میں اگر گاندھی کے نقاد پھر بھی انہیں شک یا الزامات کے دائرے میں رکھتے ہیں تو پھرایسے افراد کو ان کی ذہنی نفسیات سے جوڑا جاسکتا ہے۔
"آپ کا خط غلطیوں سے بھرا ہوا ہے۔” میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھ سے اس معاملے پر بات کریں۔ اس کا نتیجہ برا نکلا۔ آپ کی رائے جو بھی ہے ، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اس کی اچھی طرح سے تصدیق ہونی چاہئے۔ دوسروں سے لی گئی معلومات کے پیچھے دیانتداری سے قطع نظر آپ کو اسے قبول کرنے سے پہلے میرے خیالات کو جان لینا چاہئے تھا۔ میں روایتی نقطۂ نظر سے آگے بڑھتا ہوں جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں۔ میری خواہش میں نرمی کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میں خواتین سے رابطے کی سنسرشپ پر غور نہیں کرتا ہوں۔ آج میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ میرے لئے نیا نہیں ہے۔ جہاں تک میں اپنے آپ کو سمجھتا ہوں ، آج بھی ، میرا عقیدہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ پانچ سال قبل تھا۔ انگلینڈ میں رہتے ہوئے میں اپنی طالب علمی کی زندگی میں بغیر کسی خواہش کے خواتین سے بہت نزدیکی رکھتا تھا ، اس کے باوجود میں خود کو برہمچاری کہتا تھا۔ میرے لئے برہماچاریہ کا مطلب ہے وہ فکر اور طرز عمل جو خدا کے ساتھ ہمارا رابطہ قائم کرتا ہے ۔ دیانند سرسوتی برہمچاری نہیں تھے اور میں بھی نہیں۔ لیکن میں اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں نے اس سمت میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ میں اس لحاظ سے بالکل جدید نہیں ہوں جیسا کہ آپ جدید ہونے کے معنی کو سمجھتے ہیں۔ میں جو بھی سوچ سکتا ہوں ، میں اتنا ہی قدیم ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میں اپنی زندگی کے اختتام تک اسی طرح قائم رہوں گا۔ اگر آپ کو یہ پسند نہیں ہے تو میں بے بس ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اور دوسرے لوگ مجھ سے اسی طرح ملیں جیسے میں ہوں۔ میں حیرت زدہ ہوں کہ آپ نے یہ کیسے قبول کیا ہے کہ خواتین کی کمیت کا تصور میرے تجربے میں مضمر ہے۔ جب میں اس کی رضامندی یا اتفاق رائے سے اس پر جنسی نگاہ ڈالتا ہوں تو ایک عورت مجھے کمتر نظر نہیں آتی ۔ میں نے ہمیشہ ہی خواتین کو مردوں کے برابر سمجھا ہے۔ جب جسم میری خواہشات کا ایک ذریعہ ہے تو کیا میری والدہ مجھ سے ‘کمتر’ ہو گئیں ؟اگر ہمارے دماغ اور جسم میں جنسی استحکام بیدار نہ ہوتے تو اس تعلق نے ہم دونوں کو جنم دیا۔ مجھے اتنی امید ہے کہ آپ مجھ پر ان خواتین یا لڑکیوں کا الزام عائد نہ کریں کہ میرے ذہن پر ہوس سوار ہے۔ امید یہ ہے کہ میرے ‘A’ یا ‘B’ ہسٹیریا کے استعمال سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ اگر تجربہ کم نہیں ہوتا ہے تو پھر اس میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ہماری بحث میں منو اور دوسری لڑکیوں کی تمیز کرنا بے معنی ہے۔ وہ میری پوتی ہے ، اسی وجہ سے میں اس حقیقت سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتا ہوں۔ میں جو کام کر رہا ہوں اس کے لئے لفظ ‘تجربہ’ کا انتخاب صحیح نہیں ہے۔ لیکن اس تجربے اور جو میں آج کر رہا ہوں اس میں فرق یہ ہے کہ میں اس تجربے کو روک سکتا ہوں ، لیکن آج جو میں کر رہا ہوں اسے روکا نہیں جاسکتا۔ اب اسٹیشن آرہا ہے۔
براڈکاسٹر زاد ایڈمز نے گاندھی جی کی جنسی زندگی کے بارے میں گفتگو کی۔ گاندھی کی جنسی زندگی واقعتا غیر معمولی تھی۔ وہ اپنے پیروکاروں کو جنسی تعلقات کے بارے میں تفصیلی معلومات دیتے تھے ۔ جو اکثر اشتعال انگیزہوتے تھے۔ وہ ان کو بتاتے تھے کہ وہ تقدیس کی پیروی کیسے کرسکتے ہیں؟ ایک لمبے عرصے تک ان سے متاثرہ افراد نے بھی ان چیزوں کی پیروی کی لیکن جب انہیں لگا کہ یہ چیزیں فطرت اور ناممکن ہیں تو پھر ان کے ‘جنسی تجربات’ کی سخت مخالفت کی گئی۔
گاندھی محض عدم تشدد کے پجاری یا مہاتما نہیں تھے۔ زیادہ تر کتابیں صرف گاندھی کے ایک چہرے کو دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ مہاتما تھے لیکن جسم کے اسرار کو سمجھنا چاہتے تھے۔ ممکن ہے ، نئی نسل یا ہم میں سے کچھ لوگ اب بھی گاندھی کو غلط سمجھیں ، لیکن مرنے کے دن تک وہ برھمچاریہ کے فلسفے سے گزرتے رہے۔ یہ ایک بیباک گاندھی کا چہرہ تھا جو سیکس کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے گھبراتا نہیں تھا۔
اور یہی گاندھی تھا ، جو ہندوستان آیا ، جس نے فتح کیا،انگریزوں کو باہر نکالا ہندوستان کو غلامی سے آزاد کیا ،باپو اور مہاتما کہلایا، جس کی زندگی آج بھی ایک راز ہے۔ جو نہ ہوتا تو ہمیں آزادی نہیں ملتی۔
آزادی
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)
صفدرا مام قادری
صدر شعبہ اردو، کا لج آف کا مرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ
شہریت ترمیماتی قانون اور اس طرح کی دوسری عوام مخالف سرگرمیوں کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کو بے نقاب کرنے کی غرض سے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہوئی عوامی تحریک قومی سطح پر پھیل چکی ہے اور وہ اپنے دائرہئ کار میں اتنے موضوعات اور موجودہ حکومت کی ناکامیوں کے ابواب شامل کرچکی ہے۔ جسے آسانی سے روکنا اور اس کے رخ کو موڑنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ہرچند انتظامیہ اور عدالت کی فرقہ پرست مداخلت اور مفاد پرست عناصر کی رخنہ اندازیوں کے اندیشے بھی برابر نظر آتے ہیں مگر اندازہ یہی ہے کہ یہ تحریک عوامی بیداری کے کام کو اپنے انجام تک پہنچانے میں بہر طور کامیابی حاصل کرے گی۔ مختلف صوبائی حکومتوں اور مرکز کے انتظام کاروں نے آغاز میں جس ظالمانہ انداز سے ان آوازوں کو کچلنے کی کوشش کی، اب عوامی شراکت کی وجہ سے ان کی بھی براہِ راست ایسی ہمت نہیں کہ وہ ان تحریک کاروں کو بہ زورِ بازو ملیامیٹ کر دیں۔
یہ درست ہے کہ ہندستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف سیاسی پارٹیوں میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے۔ سب سے بڑی سمجھی جانے والی کانگریس کا حال ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ وہ نریندر مودی اور امت شاہ سے آر پار کی لڑائی کرنے کے موڈ میں ہے۔ سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور اب پرینکا گاندھی؛ ان کے نقلی چہرے اور قومی مسئلوں پر رٹے رٹائے بیانات ڈرائنگ روم سیاست سے کچھ زیادہ اثر نہیں رکھتے۔ ملک کے لیے یہ سب سے افسوس ناک گھڑی ہے کہ کانگریس نہ اپنی قیادت کو موثر بنانے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی صوبائی سطح پر وہ توجہ دے رہی ہے جس سے عوام کے اس احتجاج کو مزید پھیلنے کے مواقع ملیں حالاں کہ کانگریس بھارتیہ جنتا پارٹی کے مخالفانہ ماحول کا جگہ جگہ فائدہ اٹھاتی رہی ہے او راس کی اپنی یا یو۔پی۔اے۔ کی کئی سرکاریں تحفے میں مل چکی ہیں مگر اس کا اعتماد اب بھی اتنا کمزور ہے جس سے کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ابھی ہمیں اور انتظار کرنا ہوگا۔
شہری ترمیماتی قانون سے بے شک سب سے پہلے ہندستان کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ نشانہ انھی کی طرف ہے جس سے انھیں میدان میں آنا ہی تھا۔ اس سے پہلے جموں وکشمیرمیں تین سو ستر دفعہ کے خاتمے اور وفاقی ڈھانچے میں جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی نے چھیڑ چھاڑ کی اور پھر بابری مسجد کے سلسلے سے عدالتِ عالیہ کا جو فیصلہ آیا —اس سے ہندستانی مسلمانوں کو یہ سمجھنے کا موقع مل چکا تھا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارادوں کو سمجھیں اور اپنے وجود کی جنگ کے لیے میدانِ عمل میں آئیں۔ اس لیے اولاً احتجاج تھوڑے سیکولر لوگوں اور مسلم جماعتوں کی طرف سے ہوا۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے اس میں پہل کی اور اپنی تحریک سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے ملک کے مزاج اور مقدر کی تعمیر و تشکیل میں اپنا حصہ اور اپنی قربانیوں کی شمولیت سے دریغ نہیں کریں گے۔ ان کے خون اور ان کے زخم مندمل نہیں ہوئے اور فصیلِ وقت پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہندستان اور دنیا کو وہ ذوقِ عمل کی ترغیب دے رہے ہیں کہ قومی زندگی کے زہر کو امرت بنانے کے لیے جب ہمارے نونہال میدانِ کارزار میں ہوں تو دوسروں کو خوابِ غفلت میں نہیں ہونا چاہیے۔
اس تحریک سے طلبا اور نوجوانوں کی انجمنوں کو پھر سے زندہ اور سرگرم ہونے کا موقع ملا ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی حلقوں میں بھی سرگرمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ نئے نئے گانے، پرانی نظمیں اور جانی انجانی زبانوں کے نعرے اور شعر فضا میں تیر رہے ہیں مگر ہندستان کی تاریخ میں پہلے جو نہ ہوا تھا، نیا وہ ہوا یعنی مجاز کے لفظوں میں ہماری ماؤں بہنوں بیٹیوں نے اپنے آنچل کا پرچم بنالیا۔ کمال یہ کہ اقلیت آبادی کے گھروں سے سب سے زیادہ لڑکیاں اور عورتیں نکل کر سامنے آئیں۔ انھیں کسی نے امورِ خانہ داری سے باہر قدم بڑھاتے ہوئے بہت کم دیکھا تھا۔ خلافت تحریک کے زمانے میں جب محمد علی اور شوکت علی گرفتار ہوگئے تو ان کی ناخواندہ ماں پردے کی زندگی تیاگ کر عوامی جلسوں میں آگئیں۔ آج بھی ان کو یاد کرتے ہوئے یہ جملے تاریخ کی کتابوں میں جگ مگ جگ مگ کرتے نظر آتے ہیں:
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
گیا کی کانفرنس میں جب بی اماں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا کہ محمد علی اور شوکت علی ہی ابھی جیل گئے ہیں۔ لوگوں کو اس کی تیاری کرنی چاہیے کہ کل گاندھی جی کو انگریز جیل میں ڈالیں گے، اس کے بعد بھی جنگِ آزادی کی تحریک کیسے چلے گی؟ ان کا وہ جملہ کون بھول سکتا ہے کہ محمد علی اور شوکت علی میرے دو بیٹے ہیں۔ خدا نے اگر ایسے ہزار بیٹے دیے ہوتے تو انھیں بھی ملک پر نچھاور کردیتی۔ ہندستان کی تاریخ کے بعض روشن ابواب ایسی خواتین سے بھی مکمل ہوئے ہیں جنھوں نے اپنی قربانیوں اور سیاسی سوجھ بوجھ سے تاریخی کام انجام دیے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی چوٹ کھائی ہوئی لڑکیاں اپنے جسمانی اعذار سے بے پروا ہوکر قوم کے دکھوں کے علاج کے لیے عوام کے سامنے آئی تھیں۔ انھیں اس بات سے بھی اب طاقت مل رہی ہوگی کہ جواہر لال نہرو کی یونی ورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر فرقہ پرستوں کی لاٹھیوں سے زخم کے ٹانکے لگائے ہوئے میدان سے ایک لمحے کے لیے نہیں ہٹیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پڑوس میں جو محلہ آباد ہے، اس کو نہ جانے کس عالم میں شاہین باغ سے موسوم کیا گیا تھا۔ ہم اردو والے اقبال کے شیدائی ہیں تو شاہین کا مطلب ہمیں معلوم ہے۔ پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرتے ہیں اور پلٹنا اور جھپٹنا اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ شاعرِ مشرق کو جس نے نہ پڑھا ہو، وہ بھی شاہین باغ محلے کی سڑکوں پر دسمبر اور جنوری کی سرد راتوں اور کپکپاتی ہوئی زندگی میں لہو گرم کرنے کا قومی بہانہ کیا ہوتا ہے، وہ آکر دیکھ سکتا ہے۔ آج ایک اندازے کے مطابق ملک میں سو جگہوں سے زیادہ ایسے مستقل مظاہرے ہو رہے ہیں جہاں ہماری گھریلو عورتیں اور پردہ نشیں خواتین فرقہ پرستی اور جمہوریت کو بچانے کی جنگ میں سڑکوں پر بے خوفی کے ساتھ میدان میں آئی ہوئی ہیں۔ انھیں کسی نے نہ انقلاب کی تربیت دی اور نہ ہی قانون اور حقوق کے اسباق پڑھائے۔ مگر یہ مہینے ڈیڑھ مہینے میں اتنا سیکھ چکی ہیں کہ اب ایوانِ حکومت کو اپنی صاف صاف باتیں کہہ رہی ہیں۔
۷۵۸۱ء کے انقلاب کی اس وقت پسپائی کے جو مختلف اسباب بیان کیے جاتے ہیں، ان میں مستحکم قیادت کا فقدان سرِ فہرست ہے۔ آج یہ سوال سب کے سامنے ہے کہ شہریت ترمیماتی قانون اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے خلاف نبردآزمائی میں پورے ملک میں جو تحریک چل رہی ہے، اس کی واضح قیادت نظر نہیں آتی۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس تحریک میں باوجود کوشش کے سیاسی جماعتوں اور مذہبی طبقوں کو صفِ اول میں جگہ نہیں ملی سکی اور انھیں زیادہ سے زیادہ گیسٹ آرٹسٹ کے طور پر ہی ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسے اس تحریک کا بعض افراد سیاہ پہلو قرار دے سکتے ہیں مگر یہ حقیقی طور پر اس تحریک کی طاقت ہے کیوں کہ پیشے ور سیاست دانوں سے اب ہماری قوم کا بھلا ہونے والا نہیں۔ جنوبی افریقہ سے جب گاندھی ہندستان پہنچے تو انھیں تھوڑے لوگ جانتے تھے اور وہ بھی ہندستان کو کچھ زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔ مگر چمپارن ستیہ گرہ اور اس کے بعد اچانک ان کی قبولیت میں جو تیزی آئی، اسی سے اس ملک کا سیاسی نقشہ بدلا تھا۔ مطلب واضح ہے کہ قیادت اپنے آپ پیدا ہوجاتی ہے اور وہ پرانی قیادتوں کو بے اثر کرکے منزل تک پہنچ جاتی ہے۔ اس تحریک سے بائیں جماعت کے افراد اور دانش مندانہ فکر رکھنے والے آزاد ذہن کے لوگوں کو بھی اپنی آواز اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ اس تحریک میں بھارتیہ جنتا پارٹی ہی نہیں اس کی مخالف نام نہاد غیر فرقہ پرست سیاسی جماعتوں کے تضادات اور مفادات بھی طشت از بام ہورہے ہیں۔ یہ سب مستقبل کے ہندستان کے لیے خوش آیند ہے۔ نیا ہندستان نئے لوگوں کے خواب اور ان کی کوششوں سے بنے گا۔
اب اس تحریک کا دائرہئ کار بڑھنا چاہیے۔ بھوک اور غریبی، بے روزگاری اور عدم مساوات کے سوالوں کو جوڑ کر اقلیت آبادی کے مسائل مزید روشن کیے جاسکتے ہیں۔ جمہوری اداروں کو عوامی کنٹرول میں کیسے رکھا جائے، اس کے لیے نئے سوالوں کو غور و فکر کا حصہ بنانا ہوگا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اس تحڑیک کی آڑ میں اپنے ووٹ کو مزید مشتعل کرنے کی مشق بھی کررہی ہے۔ ہمیں اپنی محاذ آرائی سے مخالف کو یکجا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اس کے لیے نئے ایجنڈے کی تلاش اور تعلیم یا روزگار کے مسائل کو رفتہ رفتہ سرِ فہرست لانا ہوگا۔ اسی میں کوئی نوجوان قیادت اپنے آپ سامنے آجائے گی جسے نہ راہل گاندھی کی ضرورت ہوگی اور نہ مایاوتی یا تیجسوی یادو کی۔ چار برس ابھی وقت ہے اور ہماری یہ بھی حکمتِ عملی ہونی چاہیے کہ آیندہ پارلیمنٹ کے الیکشن تک یہ بساطِ رقص اور بھی بسیط ہو اور صدائے تیشہ کامراں ہو او رکوہ کن کی جیت ہو۔