Home نقدوتبصرہ تفہیماتِ کلیاتِ اقبال فارسی (مطالب و شرح)-لائبہ خان

تفہیماتِ کلیاتِ اقبال فارسی (مطالب و شرح)-لائبہ خان

by قندیل

مصنف:علامہ محمد اقبال

شارح:حمیرا جمیل

صفحات:750

قیمت:1200

ناشر:دعا پبلی کیشنز ،لاہور

علامہ محمد اقبال ایک عہد شناس، عہد ساز اور عہد آفریں شاعر ہیں، انہوں نے اپنی شاعری میں ایک پورے عہد اور ایک پوری تاریخ کا ذکر کیا ہے،اقبال جس زمانے میں اقبال بنے وہ مشرقی قوموں کے لیے سیاسی بدحالی اور سماجی ابتری کا زمانہ تھا اور یہی درد ان کی شاعری میں جابجا دکھائی دیتا ہے، ان کی شاعری میں فکر، تاریخ اور علمی حقائق پر تبصرے بھی ہیں. اقبال کی فکر اور فلسفے سے مفکرین اور ناقدین نے اختلاف بھی کیا ہے مگر اس کے سب مداح بھی ہیں، اقبال کی شاعری میں شعریت کے محاسن اور مقصد کے ساتھ سوز، حسن، سرور، نغمگی اور آہنگ کے ساتھ تخلیق کا اعلیٰ معیار موجود ہے اور یہ معیار انہوں نے فارسی اور اردو کلام دونوں میں قائم رکھا ہے، انہوں نے شعری خیالات کو مشرق و مغرب کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور روحانی حالات کا گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد حاصل کیا تھا اور محسوس کیا تھا کہ اعلیٰ انسانی قدروں کا جو زوال دونوں جگہ مختلف انداز میں انسانیت کو جکڑے ہوئے ہے اس کا حل ضروری ہے، خصوصی طور پرمشرق کی بدحالی ان کو پریشان رکھتی تھی اور وہ اس کے اسباب سے بھی بخوبی واقف تھے اس لیے انہوں نے انسانی زندگی کو سدھارنے اور اُسے ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے اپنی شاعری کو ذریعہ بنایا۔ ڈاکٹر سید عابد حسین کچھ یوں لکھتے ہیں کہ:

"اقبال کی شاعری آبِ حیات کا خزانہ ہے. جس سے زندگی اور زندہ دلی کے چشمے اُبلتے ہیں”

اسی ضمن میں مولانا عبد السلام ندوی کہتے ہیں کہ:

"اقبال ایک شاعر تھا اور شاعری اس کے لیے جزو پیغمبری تھی….. جو لوگ اقبال کے کلام اور زندگی کو بحیثیت ایک شاعر کے سمجھنے کی کوشش کریں گئے، وہ اُسے صحیح سمجھیں گئے لیکن جو لوگ اُسے بحیثیت ایک فلسفی یا سیاستدان کے سمجھنے کی کوشش کریں گئے، ان کے لیے اقبال کا کلام اور اس سے زیادہ اس کی زندگی، ایک عقدہ لاینحل ہو کر رک جائے گئی۔اقبال از اول تا آخر ایک شاعر تھا۔”

اقبال نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اردو اور فارسی دونوں زبانوں کا سہارا لیا،شاعری کی ابتداء اگرچہ اردو زبان سے ہوئی مگر جیسے جیسے افکار و خیالات میں پختگی آتی گئی وہ اردو کے بجائے فارسی کی طرف مائل ہوگئے،حکمت، فلسفہ، سیاست، مذہب اور روحانیت سے متعلق صدہا اشارے،پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ بلکہ اور دوسری کتابوں میں موجود ہیں، اقبال کا ہمہ گیر اور آفاقی فلسفہ ہی ان کے اردو اور خصوصاً فارسی کلام کی شرحوں کا محرک بنا ہے، اقبال کے باقاعدہ شارحین کی فہرست میں بہت سے نام آتے ہیں. ان میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی، مولانا غلام رسول مہر، ڈاکٹر عارف بٹالوی، نشتر جالندھری، آقائے رازی، ڈاکٹر محمد باقر، نریش کمار شاد، عبدالرشید فاضل، غلام احمد پرویز، فیض محمد فیض لدھیانوی، الہی بخش اعوان، شیریں تاج، سید اصغر علی شاہ جعفری، آقا بیدار بخت، ڈاکٹر شفیق احمد، اسرار زیدی، ڈاکٹر اے ڈی نسیم اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا شامل ہیں۔ یہ تمام شارحین اپنی اپنی جگہ قابلِ قدر ہیں لیکن میں یہاں تفہیماتِ کلیاتِ اقبال فارسی (مطالب و شرح) کا تبصرہ پیش کروں گی تفہیماتِ کلیاتِ اقبال فارسی (مطالب و شرح) کی شارح حمیرا جمیل ہیں،جن کا نام ادبی دنیا میں تعارف کا محتاج نہیں ہے، حال ہی میں اُن کی شرح تفہیماتِ کلیاتِ اقبال اردو اور فارسی چھپ کر سامنے آئی ہیں ، وہ پاکستان میں کلام اقبال اردو اور فارسی کی شرح لکھنے والی پہلی کم عمر خاتون شارح ہیں۔ ان کی نمایاں حیثیت ایک شرح نویس کی ہے۔ حمیرا جمیل کو علامہ اقبال کی شخصیت سے دلی وابستگی ہے، انہوں نے کلام اقبال کی شرحیں اتنی توضیح اور تفصیل کے ساتھ لکھی ہیں کہ پڑھنے والے کو مطالب پڑھنے میں دشواری محسوس نہیں ہوتی، حمیرا جمیل کے سامنے طلبا اور عوام کی ضرورت تھی جو کلامِ اقبال کو آسان زبان اور مختصر وقت میں سمجھنا چاہتے تھے، شرح نویسی میں اختصار ہی حمیرا کی انفرادیت ہے، تفہیماتِ کلیاتِ اقبال (فارسی) کی خوبی یہ ہے کہ اشعار کی تشریح ترتیب وار شعر بہ شعر کی ہے۔ مجموعی رجحان اختصار کی طرف ہے تاہم بعض اشعار کی نہایت عمدگی سے وضاحت کی ہے ۔تاہم شرح کرتے وقت کچھ جگہوں پر سابق شارحین کی شرحوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ حمیرا جمیل کی شرح سے اقبال کے فارسی کلام کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے. شرح کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ شعر کی تفہیم کے عمل کو آسان و سہل بنایا جائے، اس حوالے سے یہ ایک کامیاب شرح ہے.قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی لکھتے ہیں :

"تصریح و توضیح کے خیال سے بعض حضرات نے اقبال کے کلام کی شرحیں لکھی ہیں جو زیادہ تر درسی اور عمومی قسم کی ہیں. اقبال کا مطالعہ ان کے خیالات اور افکار کے پس منظر اور اصول موضوعہ سے گہری واقفیت چاہتا ہے”

علامہ اقبال نے فارسی شاعری میں اپنے سات شعری مجموعے اسراری خودی، رموز بےخودی،پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ، مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق مع مسافر اور ارمغان حجاز (فارسی) اپنی یادگار چھوڑا ہے۔ "اسرار خودی” علامہ اقبال کی مشہور و معروف مثنوی ہے. یہ مثنوی 1915میں شائع ہوئی، اس مثنوی میں علامہ نے انفرادی زندگی کے حقائق بیان کیے ہیں، اسرار خودی میں خودی کی حقیقت و ماہیت اور قوت و صلاحیت کا بیان ہے اور اس کی پرورش و استحکام کے لیے مکمل لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے، اس مثنوی میں اقبال کی شاعری اور تصوف کے باہمی رشتے کا بڑا نازک مقام ہمارے سامنے آتا ہے۔ 1930میں اسرارخودی کے انگریزی ترجمے کے ساتھ ہی علامہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ "مثنوی رموز بے خودی” 1918میں شائع ہوئی یہ شاعر مشرق کی فارسی کتاب”اسرار خودی” کے تسلسل کی دوسری کتاب ہے۔ اقبال کی فارسی مثنوی "اسرار خودی” میں انسان کی انفرادی شخصیت کے نشووارتقاء کے اصول و ضوابط پر گفتگو کی گئی ہے اور "رموز بے خودی” میں حیات اجتماعی کے اصول بتائے گئے ہیں، درحقیقت اقبال اپنی شاعری کے ذریعے پورے عالم انسان پر خودی کے اسرارورموز اور بے خودی کے اسرار کا بھید کھولنا چاہتے ہیں۔” پیام مشرق” علامہ اقبال کا تیسرا فارسی مجموعہ کلام ہے، یہ پہلی بار 1923میں شائع ہوا اس میں علامہ کا تحریر کردہ مفصل اردو دیباچہ بھی شامل ہے۔ پیام مشرق کے دیباچے میں علامہ اقبال نے بڑی تفصیل سے اس کا سبب تالیف بیان کیا ہے۔ "زبور عجم”علامہ اقبال کے فارسی کلام کا چوتھا مجموعہ ہے یہ کتاب 1927میں شائع ہوئی۔ زبور عجم غزلیات کا مجموعہ ہے، البتہ اس کے آخری حصے میں "گلشن راز جدید” اور "بندگی نامہ” کے نام سے دو مختصر مثنویاں شامل ہیں اس کتاب میں علامہ کی وہ مخصوص شاعری ہے جس کا پرچار وہ ساری زندگی کرتے رہے ہیں، زبور عجم فارسی میں الہامی کلام،(چونکہ شاعر کا وہ کلام بھی عطیہ الہی اور ایک طرح کا الہام ہوتا ہے جو محادومعارف الہی پر مشتمل ہو، غالباً اس بنا پر علامہ اقبال نے اس کتاب کا یہ نام رکھا)۔ "جاوید نامہ” علامہ اقبال کی فارسی زبان میں ایک شاہکار کتاب ہے یہ کتاب پہلی بار 1932میں شائع ہوئی اس کتاب کا شمار علامہ اقبال کی بہترین کتب میں ہوتا ہے اور وہ اُسے اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے یہ کتاب دراصل علامہ اقبال کا خیالی سفرنامہ ہے جس میں ان کے راہبر مولانا رومی انہیں مختلف سیاروں اور افلاک کی دوسری جانب(آں سوئے افلاک) کی سیر کرواتے ہیں اقبال نے اس کتاب میں خود کو زندہ رود کے نام سے متعارف کروایا ہے مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق فارسی (پس کیا کیا جائے اے اقوام شرق) علامہ صاحب کے فارسی کلام میں حجم کے لحاظ سے سب سے چھوٹی کتاب ہے اس میں علامہ نے اقوام مشرق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے حالات میں جو امت مسلمہ کو مسائل ہیں ان کا حل کیا ہوسکتا ہے؟ اس مثنوی کے دو حصے ہیں. "مسافر” اور "پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق”، مسافر افغانستان کے دوران قیام کی یادگار ہے. مثنوی پس چی باید کرد اے اقوام شرق 1936میں شائع ہوئی. "ارمغان حجاز” (فارسی) شاعر مشرق کا آخری مجموعہ کلام ہے. جس کی پہلی اشاعت علامہ کی وفات کے چند ماہ بعد1938میں ہوئی یہ فارسی اور اردو زبانوں پر مشتمل ہے فارسی کلام رباعیات اور اردو چند نظموں کی صورت میں ہے۔

مختصر یہ کہ حمیرا جمیل نے تفہیماتِ کلیاتِ اقبال (فارسی) کی شرح بہت ہی عرق ریزی سے لکھی ہے، حمیرا کی شرح کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اقبال کے فارسی کلام کو بہتر انداز میں سمجھانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور حمیرا کی شرحیں اپنی اہمیت و افادیت کے لحاظ سے ایک خاص مرتبے کی حامل ہیں، انہوں نے اقبال کے فارسی کلام کی مکمل شرح لکھ کر اقبالیاتی ادب میں خاص مقام حاصل کرلیا ہے، یہ شرح یقیناً ہمارے ادبی سرمائے میں اہم اضافہ ہے اور اقبال سے محبت کرنے والوں کے لیے انمول تحفہ ہے، مجھے یقین ہے کہ حمیرا جمیل کی اس کاوش کو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

You may also like