Home تراجم تفہیمِ سرسید: دو انتہاؤں کے بیچ کا راستہ-پروفیسر محمد سجاد

تفہیمِ سرسید: دو انتہاؤں کے بیچ کا راستہ-پروفیسر محمد سجاد

by قندیل

(شعبۂ تاریخ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)

ترجمہ:نایاب حسن
سرسید احمد خان(1898-1817) جو انیسویں صدی کے ایک حقیقت و عملیت پسند رہنما،ایک تعلیمی مصلح(ان کا سماجی اصلاح کا ایجنڈہ ناکام ہوگیا تھا) اور ایم اے او کالج (موجودہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)کے بانی تھے، ان کے اقوال و افعال خصوصا ذات برادری،جنس،رسم الخط کے تنازعہ اور قومیت کے معاملوں میں ان کے نظریات کی ترجمانی،تشریح و تفہیم میں تحسین و تردید کی دو انتہائیں پائی جاتی ہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس دور کی حد ود و قیود کو ذہن میں رکھ کر ان کے ایسے افکار و اقوال کا جائزہ لیں، جس میں سر سید احمد خان نے عملی خدمات انجام دیں۔
انیسویں صدی کا انقلاب ہندوستان میں نوآبادیاتی جدیدیت کے وُرود کا پیش خیمہ تھا۔سرسید احمد خان کو ان کی حدود و قیود کے باوجود اس کے کریڈٹ کا کچھ حصہ ملنا چاہیے۔1859تک سر سید احمد خان کو اصلاح میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی فکری جدوجہد کا دائرہ ہندوستان کے ماضی کے دقیق سائنسی اور مسلمانوں کے داخلی طبقاتی کشمکش کے مطالعے تک محدودتھا۔اس دوران انھوں نے مختلف جماعتوں کی جانب سے بدنام کیے جانے والے اور ایک ظالم بادشاہ قرار دیے جانے والے اورنگزیب پر کچھ لکھنے کے بجائے’’آئینِ اکبری‘‘(1855)کی ترتیب کو ترجیح دی۔1857سے پہلے سرسید کو ہندوستان میں برطانوی حکومت کی بقا کے تئیں اتنا یقین نہیں تھا،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ابوالفضل کی’’آئین اکبری‘‘ کو از سر نو مرتب کیا؛لیکن اس پر تقریظ لکھوانے کے لیے جب مشہور شاعر مرزا غالب کے پاس پہنچے،تو انھوں نے سر سید کو ڈانٹ پلائی تھی۔
غالب نے ان سے کہا کہ مغربی دنیا اور اس کے کارناموں کو دیکھو،اپنا وقت اور صلاحیت ماضی کے واقعات پر ضائع نہ کرو۔اس وقت تو سرسید کو غالب کا یہ مشورہ اتنا اچھا نہیں لگا؛ چنانچہ انھوں نے غالب کے منظوم مقدمے کے اُن اڑتیس اشعار کو کتاب میں شامل نہیں کیا،جن میں غالب نے مغرب کی مادی و فکری ترقیات کی تعریف کی تھی۔(ان اشعار کا انگریزی ترجمہ شمس الرحمن فاروقی نے سرسید پر اپنے مضمون From Antiquarian to Social Revolutionaryمیں پیش کیا ہے)
البتہ1859 کے بعد سرسید کا واحد مطمح نظر یہ تھا کہ اپنی قوم کو تحفظ اور اقتدار میں حصے داری فراہم کروائی جائے۔تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو نچلے درجے کے یا پسماندہ سماجی گروپ سرسید کے اسکیم میں شامل نہیں تھے۔1857 کے انقلاب کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے نہ صرف مسلمانوں کے اعلیٰ طبقات کی برائت پیش کرنے کی کوشش کی؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تاریخی اعتبار سے دبی کچلی مسلم برادریوں پر کچھ الزام بھی ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
ان پسماندہ طبقات کے خلاف ان کا تعصب دوبارہ1887 میں سامنے آیا جب انھوں نے کانگریس کے ذریعے اختیار کردہ جمہوریت کی مخالفت کی۔ان کا کہنا یہ تھا کہ اس قسم کے مقاصد کی تکمیل کے لیے پہلے تعلیمی ترقی ضروری ہے۔اس سلسلے میں ان کی رائے بالکل واضح تھی اور اپنے اقوال و افعال کے ذریعے بھی وہ اسی پر زور دیتے تھے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ضرورت اور نو آبادیاتی و ملازمت کی پالیسیوں کے مطابق مسلسل اپنی حکمت عملی بدلتے رہے۔علما کی مخالفت سے بچنے کے لیے انھوں نے تفسیر قرآن کے سلسلے سے رجوع کرلیا اور مسلمانوں و انگریزوں کے درمیان مفاہمت اور قوم کو اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست سے دور رہنے کی تلقین کرنے لگے۔
قدیم و عہدِ وسطی کے ہندوستان کے مبسوط مطالعے سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بیرونی حکمران (آریائی،ہند-یونانی حکومتیں، سلاطین، لودھی اور مغل) یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے آئے تھے۔اسی وجہ سے وہ یہ مانتے تھے کہ برطانوی حکومت بھی ہمیشہ کے لیے ہوگی اور اسی بنا پر وہ اس ملک کے مسلمانوں کو حکومت کی مخالفت کرنے اور اس کے نتیجے میں ٹیکنالوجی،فکری اور مادی اعتبار سے مضبوط مغرب کے ہاتھوں پٹنے کی بجائے حکومت سے بہتر تعلقات بنانے،ایک دوسرے سے مکالمہ و مذاکرہ(سیاسی سطح پر ہی نہیں،ثقافتی سطح پر بھی) کرنے کی وکالت کرتے تھے۔
سرسید کو آنے والے وقت کا بخوبی ادراک تھا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے38-1837 میں جب عملی زندگی کی شروعات کی تو مغلیہ حکومت کے بجائے کمپنی راج کی ملازمت کو ترجیح دی۔(حالاں کہ مغلیہ حکومت سے ان کے پرانے خاندانی روابط تھے)
مگر ان کی اصلاح پسندی(ملازمت کے حصول کے لیے تعلیم حاصل کرنا) وسیع پس منظر میں طبقاتی امتیاز سے بے نیاز تھی۔اس کی تشخیص یوں کی جاسکتی ہے کہ جب انھوں نے 1859 میں مرادآباد میں ایک اسکول شروع کیا تو متعلقہ ہندو و مسلم طبقات سے اپیل کی کہ وہ گھریلو تعلیم سے دست بردار ہوکر اپنے بچوں کو پبلک اسکولوں میں داخل کروائیں۔ تمام بچوں(ہندو مسلم)کو ایک ہی کلاس روم میں بٹھانا اس زمانے میں ایک بڑا قدم تھا۔
اسی طرح جب انھوں نے1872 میں مسلمانوں کی تعلیم سے متعلق ایک رپورٹ پر بحث کی تو پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوں کو مجوزہ کالج میں داخل نہ کیے جانے کی تجویز کی شدت سے مخالفت کی۔ انھوں نے واضح طورپر کہا کہ رول آف لا اور انصاف کا تقاضا ایسے سماجی اخراج و استثنا کی موافقت نہیں کرتا۔ انھوں نے کہا کہ اگر اَشراف و اَرذال ایک ساتھ ٹرین کی لور بوگی میں سفر کر سکتے ہیں تو پھر حکومت کی مدد سے چلنے والے تعلیمی اداروں سے ایک سماجی طبقے کو دور کیسے رکھا جا سکتا ہے؟
انھوں نے گرچہ مسلمانوں میں پائے جانے والے طبقاتی امتیاز پر کھل کر نہیں بولا، مگر انھوں نے پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کو ایم اے او کالج میں داخل کرنے سے روکا بھی نہیں؛ بلکہ روز بروزاس کالج میں پسماندہ سماجی طبقات کے بچوں کے داخلے کا تناسب بڑھتا گیا۔ سر سید نے غریبوں کی تعلیم کے لیے تعلیمی اوقاف کے اجرا پر بھی زور دیا۔سید محمود(1850-1930)کی دارالعلوم اسکیم(فروری1873) میں ایسے ہی رفاہی اوقاف کا تذکرہ کیا گیا تھا۔
آج سیاسی اعتبار سے سر سید کے طبقاتی برتری کے نظریے پر سوال اٹھانا درست اور مفید ہو سکتا ہے، مگر ساتھ ہی یہ سمجھنا بھی مفید ہوگا کہ اگر سرسید انیسویں صدی کی سماجی اخلاقیات کے دور میں آج کے عہد کے سماجی انصاف کے مسائل کو اٹھاتے تو تعلیمی منصوبے کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کی کوششیں ناکام ہوجاتیں۔ وہ تو پہلے ہی سے مسلمانوں کے مذہبی طبقے کا عتاب جھیل رہے تھے،جو مسلمانوں کو جدید تعلیم دلانے کے شدید خلاف تھے۔
اسی طرح قوم پرستی کے موضوع پر بھی سرسید کے ذریعے کانگریس کی مخالفت کو انھیں متہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔سیاست کو چھوڑ کر تعلیم پر توجہ دینے کا ان کا مشورہ ملک کے ہندو اور مسلمان دونوں طبقوں کے لیے تھا۔1862اور1885 کے درمیان ان کے اقوال و افعال ہندومسلم اتحاد کی شدت سے تبلیغ کرتے ہیں۔ مگر1860کے اواخر میں اردو تعلیم کو ناگری رسم الخط کے علمبرداروں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ان میں راجاشیو پرساد(1832-1895،ایک مشہور مؤرخ جنھوں نے خود اپنی یادداشتیں ناگری کے بجائے اردو رسم الخط میں لکھیں) جیسے سرسید کے دوست بھی تھے۔
انہی دہائیوں میں ملک میں فرقہ پرستی کے ماحول میں اضافہ ہوا،ناگری رسم الخط کے حامیوں کو گورنمنٹ کی جانب سے شہ ملی، جس میں شمال مغربی صوبہ جات میں ڈائریکٹر برائے پبلک انسٹرکشن میتھیو ایڈون کیمپسن(1831-1894) کا نام خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ یہی انتشار انگیز کردار لیفٹیننٹ گورنر جارج کیمپبل(1871-74)نے بہار میں ادا کیا۔
اس صورت حال نے سرسید کو دلبرداشتہ و ناراض کردیا۔ مگر اس وقت تک بھی سرسید نے فرقہ وارانہ سطح پر کوئی تفرقہ انگیز بیان نہیں دیا۔بس وہ اپنی قوم کے افراد کی تعلیمی ترقی کے لیے فکر مند تھے۔ یہ ملی انحصار سرسید احمد خان کی انفرادیت نہیں ہے۔انیسویں صدی کے تمام مصلحین کا یہی معاملہ تھا۔سرسید کے حقیقت پسندانہ اپروچ کے باوجود نوآبادیاتی حکومت میں انھیں اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ملی۔ 1862سے1882 کے دوران کے ان کے نظریات قوم پرستانہ جذبات کی ہی نمایندگی کرتے ہیں۔

(Denis Wright, ‘Sir Sayyid Ahmad Khan and the Indian National Congress”, Australian Journal of Politics and History,1980)
1882اور1884 کے دوران انھوں نے کانگریس کے اختیار کردہ اصولوں کے مطابق ہندو اور مسلمان دونوں کے حق میں جدوجہد کی۔جمال الدین افغانی(1838-1897) کا پین اسلامک( وحدتِ اسلامی کا) نظریہ اس بات کی وکالت کرتا تھا کہ ساری دنیا کے مسلمان برطانوی سرمایہ داری کے خلاف متحد ہوکر اٹھ کھڑے ہوں،وہ ترکی خلافت کی بھی تائید کرتا تھا؛ لیکن سر سید نے اس کی مخالفت کی،ان کا ماننا یہ تھا کہ اپنے ملک سے باہر اور اپنی قومیت سے الگ ترکی کی خلافت کے تئیں وفاداری کا اظہار درست نہیں ہے۔
انھوں نے اپنی قوم کو ترجیح دی، جس کی تعلیمی،ثقافتی و سیاسی اصلاح کا ان کے پاس ایک وسیع پروگرام تھا۔ البتہ قوم کا دائرہ ان کے نزدیک محض مسلمانوں تک محدود نہیں تھا؛بلکہ اس میں ہندو بھی شامل تھے اور ان کا یہ پروگرام سارے ہندوستانیوں کے لیے تھا۔1880 میں گورداسپور میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
’’میں نے کئی بار ’’نیشن‘‘(قوم)کا لفظ استعمال کیا ہے؛لیکن اس سے میری مراد محض مسلمان نہیں ہیں۔ میری رائے میں سارے ہندوستانی ایک ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی خاص مذہب،طبقہ یا گروپ کسی قوم کے طورپر شناخت کیا جائے‘‘۔
برطانوی ڈپلومیٹ ڈینس رائٹ نے لکھا ہے کہ خلافت تحریک نے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کردیا اورمسلمانوں کے درمیان سچی حب الوطنی پیدا ہوگئی۔’’اس حوالے سے سرسید احمد خان کے مضبوط موقف کا مقصد بھی ہندو مسلم اتحاد کی راہیں ہموار کرنا تھا،اس حد تک کہ قدامت پرست مسلم رہنماؤں کا عام مسلمانوں پر تسلط کمزور ہوجائے‘‘۔
1885اور1888کے دوران سرسید شمالی ہندوستان کے ایک مسلم لیڈر اور کانگریس کے مخالف کے طورپر سامنے آئے، مگر اس کے بعد1889اور1898کے دوران وہ عوامی سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گئے اور انھوں نے اپنی قوم کو اس پر زور دینا شروع کیا کہ سیاست کو چھوڑ کر جدید تعلیم پر توجہ دے۔ ایم اے او کالج کے لیے فنڈ جمع کرنے کی ان کی تحریک مزید تیز ہوگئی۔
جب امپیریل قانون ساز کونسل کی تشکیل عمل میں آئی تو پہلی کونسل میں تین ہندوستانی بھی شامل کیے گئے۔یہ سارے ہندو تھے:مہاراجا آف پٹیالہ نریندر سنگھ، بنارس کے راجا سر دیو ناراین سنگھ اور دنکر راؤ۔ سرسید نے باوجودیکہ تینوں میں سے ایک بھی مسلمان نہیں تھا،اس انتخاب پر شاکی ہونے کی بجائے اس کا استقبال کیا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے لیے دادا بھائی نوروجی کے انتخاب کا بھی انھوں نے استقبال کیا۔ (Aligarh Institute Gazette, July 12, 1892)
برطانوی حکومت کے تئیں وفاداری کے باوجود انھوں نے اور ان کے بیٹے نے حکومت کے نسلی کبرو غرور کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج کیا۔ اس حوالے سے پروفیسر افتخار عالم کی کتاب ’’سرسید کی لبرل،سیکولر اور سائنسی طرزِ فکر‘‘(2018)میں کافی ثبوت فراہم کیے گئے ہیں۔حتی کہ خود جواہر لال نہرو(1889-1964)نے اپنی کتاب’’ڈسکوری آف انڈیا‘‘ میں لکھا ہے کہ سرسید نے کانگریس کی مخالفت اس کے انتہا پسندانہ نظریے کی وجہ سے کی تھی اور انھوں نے ہندووں کو بھی اس سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔
سب سے پہلے محمد علی جناح کے سوانح نگار ہیکٹر بولیتھو(1897-1974) اور پاکستان نژاد امریکی اکیڈمک حفیظ ملک نے پاکستان کی استثنائی قوم پرستی کے لیے کسی قدیم ثبوت یا دلیل کی تلاش میں مایوسی کے بعد تقسیمِ ہند کی جڑیں سرسید تک پہنچانے کی کوشش کی اور یہ بیانیہ بھارت کے ہندو فرقہ پرستوں کے درمیان بھی رائج ہوتا چلا گیا۔ بعض قوم پرست مؤرخین نے بھی نہرو کی مناسب توضیح کے باوجود اس قسم کے گمراہ کن حوالوں کو تقویت پہنچایا۔
حتی کہ پرتھا چٹرجی جیسے نیشنلزم کے اسکالر نے ہندوستان میں قوم پرستانہ جذبات ابھرنے کے پہلے مرحلے پر گفتگو کرتے ہوئے آنند مٹھ (1882)میں برٹش حکومت موافق اور مسلم مخالف اظہارِ خیال کے باوجود بنکم چندر چٹوپادھیاے(1838-1894) کی تعریف و تحسین کی۔ انھوں نے روحانی شعبے میں ہندوستان کی برتری و خود مختاری کے بیان کے ذریعے قوم پرستی کے فروغ میں کردار ادا کرنے پر بنکم چندر کی ثناخوانی ہے۔
ہندوستانی قوم کے تمام مسلم طبقے کو ایک ہی پیمانے سے نہیں آنکا جاسکتا۔ سرسید اور ان کے ساتھیوں نے اردو میں کہیں زیادہ ترقی پسندانہ اور ثروت مند ادب تخلیق کیا، جس نے فیصلہ کن طور پر ہندوستان کے مسلمانوں میں ثقافتی خود اعتمادی کے علاوہ برطانوی نوآبادیاتی تسلط کے خلاف فکری وسیلے کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ان اصلاح پسندانہ اقدامات کی وجہ سے پچھلی صدی کے انقلاب کے ساتھ مسلمانوں میں تعلیم یافتہ متوسط طبقہ ابھرا، ایم اے او کالج بھی برطانوی حکومت مخالف مظاہروں کا اعصابی مرکز بن گیا۔ باقی معاشرے کی طرح کالج کا کیمپس بھی قوم پرستانہ، لیفٹسٹ اور علیحدگی پسندانہ سیاسی رجحانات سے دوچار ہوا۔ مؤرخ آر سی مجومدار (1884-1980) نے اپنی کلاسیکی درسی کتاب ’’ایڈوانسڈ ہسٹری آف انڈیا‘‘ میں لکھاہے:
’’یہ کہنا شاید ہی مبالغہ ہوگا کہ کسی بھی ادارے نے کسی کمیونٹی کے لئے اتنا کام نہیں کیا، جتنا اِس کالج نے مسلمانوں میں اعلی تعلیم و ثقافت کے فروغ کے لئے کیا۔ سرسید احمد خان ایک پرجوش محبِ وطن اور قوم پرست تھے‘‘۔
کالج کے پہلے گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس میں ہندو بھی شامل تھے،پہلے تین پرنسپلز برطانوی عیسائی تھے اور یونیورسٹی کی پہلی چانسلر ایک خاتون تھی۔ ہاسٹل میں بیف پر پابندی تھی اور ہندو طلبہ کے لیے خصوصی اسکالرشپ کا نظم تھا۔
سرسید پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم کے خلاف تھے۔ اپنی ایک تقریر میں اس حوالے سے وہ واقعی نہایت سخت نظر آتے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کو وومین کالج کھولنے کے لیے ابھی سو سال مزید انتظار کرنا ہوگا، مگر بعد میں انھوں نے کہا کہ ان کی بات کے غلط معنی نہ لیے جائیں۔ ان کی حقیقت پسندانہ بات کا مطلب یہ تھا کہ جب تک ماحول سازگار اور وسائل دستیاب نہ ہوجائیں ،اس وقت تک ہمیں اس ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کا انتظار کرنا چاہیے،جسے عام طور پر اسکالرز اور مبصرین غلط معنی پہناتے ہیں اور ان کے تئیں ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ (اے آئی جی) اور ان کے لندن کے سفر نامے میں ان کے مضامین آج کے جدید ‘فیمنسٹوں’ کے لیے اطمینان بخش ثابت نہیں ہوں گے؛ لیکن ان کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ نیز سرسید کی زندگی کے آخری 7 سالوں کے لیکچرز اور تقریریں یہ بتانے کی کوشش کرتی ہیں کہ خواتین کی تعلیم کے مسئلے پرانھیں کچھ زیادہ ہی غلط سمجھا گیا۔ ان تقاریر کو مولوی امام الدین گجراتی نے دو ضخیم جلدوں میں مرتب کیا ہے۔
سفرنامے میں سرسید کے ذریعے کانپور کی نصیبن نامی خاتون کی تعریف ملتی ہے، جو ایک گھریلو ملازمہ تھی، انگریزی میں بات کر سکتی تھی اور پانی جہاز پر سوار ہوکر وہ یورپ کے اکیسویں سفر پر جا رہی تھی۔ انھوں نے لندن کی نوکرانیوں اور نوکروں کی بھی ستائش کی، جو ہر دن اخبارات پڑھنے کے لئے وقت نکال لیا کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان بھی جلد ہی اس مرحلے تک پہنچ جائے۔
انھوں نے اے آئی جی (علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ) کی ادارتی تحریروں میں اسکالرو مصلحہ پنڈتارمابائی (1858-1922)کی تعریف کی، جس کی کوششوں کے نتیجے میں میڈیکل ایجوکیشن اور خواتین کی ٹریننگ میں نمایاں پیش رفت ہوئی تھی۔ کدمبنی گنگولی (1861-1923)کی تعریف کی،جو پہلی خاتون میڈیکل گریجویٹ تھی اورمزید حصولِ تعلیم کے لئے بیرون ملک گئی۔ آنندی گوپال جوشی (1865-1887) کی تعریف کی،جو پہلی خاتون طبیب تھی۔ سرسید نے اپنے لندن کے سفر (1869-70) میں لڑکیوں کے اسکول کا معاینہ کرنے کے لیے بھی موقع نکالا۔
انھوں نے شمالی لندن میں گرلس کالیجیٹ اسکول کا معائنہ کیا اور اپنے سفرنامے میں اس اسکول کی فیس، نصاب، فنڈ جمع کرنے اور اساتذہ وغیرہ کی تمام تفصیلات درج کیں اور ہندوستان میں اس کی تقلید کرنے پر زور دیا۔ (علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، 20 مئی 1870) اگرچہ سرسید کی شخصیت میں موجود سماجی و مذہبی مصلح کو قدامت پسند مذہبی شخصیات کی شدید مخالفت کی وجہ سے پیچھے ہٹنا پڑا؛ لیکن پھر بھی انھوں نے کچھ معاملات پر بولنے کا حوصلہ دکھایا۔ مثال کے طور پر انھوں نے نکاحِ بیوگان کی وکالت کی۔ (علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، 9 مئی 1872)
مسلمانوں میں ذات پات کے مسئلے پرکئی موقعوں (1858 میں، اسی طرح 1887 کی لکھنؤکی تقریر میں)پر انھوں نے پسماندہ طبقات کے خلاف سخت کلامی کی،مگرساتھ ہی اس کے برعکس ثبوت بھی سامنے آتے ہیں، جن میں انھوں نے اپنے اشرافیہ حامی تعصب کی نفی کی اور پسماندہ طبقات کی حمایت کی۔’’ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان تعلیم کی اشاعت اور ترقی سے متعلق کمیٹی‘‘ حصہ 1، سیکشن 7 کے مباحثوں میں مداخلت کرتے ہوئے سرسید نے سب کے لیے تعلیم پر اصرار کیا اور اَشراف واَرذال کے نظریے کی حمایت کرنے والوں کی سرزنش کی۔ (ملاحظہ فرمائیں: سرسید کا نظریۂ تعلیم، افتخار عالم خان(2017)، ص: 213-216)
سرسید نے کمیٹی میں اس بات پر زور دیا کہ نئے نظام نے قانون کی نظر میں دونوں سماجی طبقات کی برابری کا آئیڈیا متعارف کرایا ہے اور اس وجہ سے اس طرح کی نسلی برتری کے رجحانات ناقابل قبول ہیں ۔ اگر دونوں سماجی طبقے ٹرینوں کے ایک ہی کوچ میں سفر کرسکتے ہیں، تو ان کے بچے بھی ایک ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھ سکتے ہیں۔(ملاحظہ کیجیے میرا انگریزی مضمون:Envisioning a Future:Sir Syed’s Mission of Education,in Yasmin Sikia and Raisur Rahman eds.,The Cambridge Companion to Sir Saiyyid Ahmad Khan.Cambridge,2019)
اکیسویں صدی کے نو آبادیاتی پس منظر میں اُس زمانے کے کچھ اہم مسائل کے تعلق سے ہمیں سماجی مصلحین اور عوامی رہنماؤں کی سطح پر کچھ ناخوشگوار واقعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی وجہ اس زمانے کا ماحول اور سماجی منظرنامہ ہے؛لیکن تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے خلاصے کے طورپر یہی کہا جاسکتا ہے کہ انیسویں صدی کے اصلاح پسند دانشوروں کے سامنے کچھ حدودو قیود تھے،جن پر معتدل،سنجیدہ اور متوازن گفتگو سیاسی اعتبار سے مفید ہے۔ ان کے کاموں کی تعریف یا تنقید میں مبالغے اور انتہا پسندی سے کام لینا قطعی غیر مفید اور بے نتیجہ ہوگا۔

You may also like

Leave a Comment