Home تجزیہ تابناک مستقبل کے لئے پیشہ وارانہ تعلیم کے تئیں سنجیدگی ضروری

تابناک مستقبل کے لئے پیشہ وارانہ تعلیم کے تئیں سنجیدگی ضروری

by قندیل

 

ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل، سی ایم کالج، دربھنگہ

موبائل:9431414586

ای میل:[email protected]

اس وقت ملک کی ہنگامی صورتحال اور اقتصادی شرح نمو میں پستی کی وجہ سے بڑھتی بیروزگاری کی شرح سے ہم سب واقف ہیں کہ حالیہ دو تین برسوں میں بیروزگاروں کی ایک لمبی قطار کھڑی ہوگئی ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہی ہورہاہے۔ کیوں کہ ہر سال ملک کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔لیکن اس وقت شہریت ترمیمی ایکٹ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف دو ماہ سے ملک گیر سطح پر احتجاجی جلسے ہو رہے ہیں۔یوں تو ملک کے ہر طبقے کے اندر اضطرابی کیفیت دیکھی جا سکتی ہے لیکن بالخصوص اقلیت طبقے میں اس احتجاجی جلسوں نے ایک طرح کی دائمی فکر مندی لاحق کردی ہے۔ نتیجہ ہے کہ جہاں دیکھئے احتجاجی جلسے ہو رہے ہیں اور دوسری طرف توجہ کم ہوگئی ہے۔ جب کہ زندگی جینے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ نوجوان طبقہ اپنے تابناک مستقبل کے لئے بھی راستہ ہموار کرے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ حکومت نے مذکورہ قانون اور مبینہ این آر سی کے نفاذ کا اعلان کرکے پورے ملک میں ہنگامی صورت پیدا کردی ہے اور ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ عوام الناس کو ان کے بنیادی مسائل سے منحرف کیا جائے۔ اس لئے احتجاجی جلسوں کی بھی ضرورت ہے اور جمہوری طریقے سے اپنے مطالبوں کی بازیابی کے لئے متحرک رہنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمارے طلباء اورطالبات کو اپنے مستقبل کے تئیں بھی سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ ہفتہ دربھنگہ شہر کے امارت مجیبیہ ٹکنیکل انسٹی چیوٹ مہدولی میں جانے کا موقع ملا تھا۔ یہ انسٹی چیوٹ مختلف کورسوں کی ڈپلوما ڈگری دیتا ہے۔ شہر میں آئی ٹی آئی کا یہ ایک قدیم ادارہ ہے۔ میٹرک پاس ہونے کے بعد یہاں طلباء داخلہ لیتے ہیں اور سول، الکٹرونک، الکٹریکل، پلمبر، فیٹر وغیرہ پیشہ وارانہ تعلیم کی سرٹیفکٹ کے ذریعہ نجی اور سرکاری اداروں میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اس وقت مختلف کورسوں میں طلباء کی تعداد منظور شدہ سیٹوں سے بہت کم ہے۔انتظامیہ نے بتایا کہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی اقلیت طبقے کے بچے اس طرف توجہ کم دے رہے ہیں۔ جب کہ ان طلباء کے لئے ٹیوشن فیس بھی بہت کم رکھی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ آج کے دور میں اس طرح کی پیشہ وارانہ سرٹی فیکٹ کے ذریعہ ہی روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں۔واضح ہو کہ یہاں سروے (امانت)کا کورس بھی منظور شدہ ہے۔ حال ہی میں بہار حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہر پنچایت میں ایک سرویئر کی بحالی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ جس کے پاس یہ ڈگری ہوگی اسے بہ آسانی ملازمت مل سکتی ہے۔ یا پھر امانت کی ڈگری حاصل کرنے والے بیروزگار نہیں رہتے کہ وہ نجی طورپر بھی امانت کے ذریعہ زندگی جینے کے سامان حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی طرح الکٹرک یا ڈرافٹ مین شپ کی ڈگری حاصل کرنے والے بھی اپنے طورپر خود مختار ہو جاتے ہیں کہ انہیں نجی کمپنیوں میں آسانی سے روزگار مل جاتاہے۔ اسی طرح پارا میڈیکل کے چھوٹے چھوٹے تکنیکی کورسوں میں داخلہ لے کر سرٹیفیکٹ کی بنیاد پر نرسنگ، اکسرے، پیتھولوجی، فزیوتھیراپی وغیرہ شعبے میں ملازمت حاصل کرکے اپنی بیروزگاری دور کر سکتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ اقلیت طبقے میں ان ووکیشنل اور پروفیشنل کورسوں کے تئیں سنجیدگی کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کی طرف تھوڑی سی بیداری آئی ہے لیکن وہ صرف روایتی ڈگری تک محدو د ہے۔ جب کہ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کسی طرح کی پریشانی ہو تو چھوٹی چھوٹی پیشہ وارانہ ٹریننگ کے ذریعہ بیروزگاری دور کی جا سکتی ہے۔ اب جب کہ بہار میں اعلیٰ تعلیم کے لئے اسٹوڈنٹ کریڈٹ کارڈ کی سہولت دی گئی ہے اور پانچ لاکھ تک کی رقم کسی بھی کورس میں داخلہ کے لئے بطور قرض حکومت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود مسلم معاشرے میں ایک طرح کی سردمہری دیکھی جا رہی ہے۔ اگرچہ ایک نا انصافی حکومتِ بہار کی جانب سے ضرور ہوئی ہے کہ وہ آئی ٹی آئی، پارا میڈیکل اور بی ایڈ کے لئے اسٹوڈنٹ کریڈٹ کارڈ قرض حاصل کرنے کی سہولت نہیں دی گئی ہے۔ اس مسئلہ کی طرف بھی حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشی طورپر کمزور طبقے کے لوگوں کو سہولت فراہم ہو سکے۔ اس سے پہلے بھی پیشہ وارانہ تعلیم، مقابلہ جاتی امتحانات کی اہمیت وغیرہ پر میں لکھتا رہا ہوں اور اس کا واحد مقصد یہی رہا ہے کہ ہمارے طبقے میں بیداری آئے اور وہ سرکاری اسکیموں سے استفادہ کرے۔ مثلاً اس وقت بہار میں محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود حکومتِ بہار، پٹنہ کی جانب سے محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات ہوئے تھے اس میں بڑی تعداد میں طلباء پاس ہوئے ہیں۔ اب اس کے تحریری امتحان کے لئے یہ ضروری ہے کہ خاص طرح کی کوچنگ کے ذریعہ تیاری کرائی جائے تاکہ وہ تحریری امتحان میں بھی کامیاب ہو سکیں اور پھر فیزیکل ٹسٹ میں بھی کامیاب رہیں۔ اس کے لئے محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود حکومتِ بہار، پٹنہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری جناب عامر سبحانی نے حج بھون پٹنہ میں خاص کوچنگ کا اہتمام کیا ہے۔ وہاں اس کوچنگ کا آغاز آئندہ ۴۱/ فروری سے ہونا ہے۔ جن طلباء نے داروغہ مقابلہ جاتی امتحان میں پی ٹی امتحان پاس کیا ہے اس کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اس کوچنگ میں داخلہ لیں۔ وہاں مفت میں کوچنگ کے ساتھ قیام کا بھی اہتمام ہے۔

غرض کہ مسلم معاشرے میں پیشہ وارانہ تعلیم اور مقابلہ جاتی امتحانات کے تئیں بیداری مہم چلانے کی سخت ضرورت ہے اور روزگار پر مبنی چھوٹے چھوٹے کورسوں کے تئیں طلباء کے اندر للک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص معاشی طورپر کمزور خاندان کے طلباء کے لئے پارا میڈیکل، آئی ٹی آئی او ردیگر پیشہ وارانہ ٹریننگ کورس میں داخلہ لینا ان کے سنہرے مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ آج ان ہی پیشہ وارانہ تربیت کی بنیاد پر روزگار کے مواقع موجود ہیں۔ اس لئے ملک کی حالیہ ہنگامی صورتحال میں بھی ہمارے طلباء اورطالبات کو اپنے تابناک مستقبل کے لئے بھی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی اور حالاتِ حاضرہ سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس طرح کے حالات سے مقابلہ کرنے کے لئے ذہنی طورپر تیار رہنا ہے کہ اس وقت ملک میں اسی طرح کی فضا تیار کی جا رہی ہے اور ابھی اس زہر کو زائل ہونے میں وقت لگے گا۔ اس لئے اس صبر آزما دور میں کاروبارِ حیات سے بالکل الگ نہیں ہونا ہے بلکہ صبر وتحمل کے ساتھ راہِ مستقبل پر گامزن بھی رہنا ہے کہ یہی وقت کا تقاضہ ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment