58صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالتِ عالیہ نے کئی تاریخی اور فکر انگیز ریمارکس دیے،فاضل ججوں نے کہا،ہم نے ’’اتیتھی دیوو بھوا‘‘کی عظیم روایت پر عمل کرنے کے بجائے غیر ملکی مہمانوں پر ظلم کیا،میڈیا کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا،این آرسی، سی اے اے کا بھی ذکر
ممبئی:جمعہ کے روز بامبے ہائی کورٹ کے اورنگ آباد بنچ نے دہلی کے نظام الدین میں واقع تبلیغی مرکز کے اجتماع میں شامل ہونے والے غیر ملکیوں کے خلاف درج کردہ ایف آئی آر کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’مہاراشٹر پولیس نے میکانکی طریقے سے قدم اٹھایا ہے‘‘۔
جسٹس ٹی وی نلواڈے اور جسٹس ایم جی سیولیکر کے ڈویژن بنچ نے کہا’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت نے سیاسی مجبوری کے تحت کام کیا اور پولیس نے بھی ضابطے کے مطابق ٹھوس قوانین کی دفعات کے تحت ان کو دیے گئے اختیارات کو استعمال کرنے کی ہمت نہیں کی۔ ایک وبائی بیماری یا آفت کے دوران ایک سیاسی حکومت بلی کا بکرا تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ان غیر ملکیوں کوبلی کا بکرا بنانے کے لئے منتخب کیا گیا‘‘۔
عدالت ان 29 غیر ملکی شہریوں کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کررہی تھی جن پراجتماع میں شرکت کرکے سیاحتی ویزا کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں تعزیرات ہند ،وبائی بیماری ایکٹ ، مہاراشٹر پولیس ایکٹ ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ اور غیر ملکی ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
58 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ’’یہ الزامات فطری طورپر مبہم ہیں اور ان کی بنیاد پریہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مذہبِ اسلام کو پھیلا رہے تھے اور دوسروں کے مذہب کو بدلنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ حکومت مختلف ممالک کے مختلف مذاہب کے شہریوں کے ساتھ الگ الگ سلوک نہیں کر سکتی‘‘۔
این آر سی اور سی اے اے مخالف احتجاجات
’’جنوری 2020 سے پہلے سے ہی ہندوستان میں کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہورہے تھے۔ ان احتجاجات میں شریک زیادہ ترلوگ مسلمان تھے۔ ان کا مؤقف ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 مسلمانوں کے ساتھ امتیازبرتنے والا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمان مہاجرین اور تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت نہیں دی جائے گی۔ وہ شہریت کے قومی رجسٹریشن کے خلاف احتجاج کر رہے تھے‘‘۔
’’ یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ کارروائی کے ذریعے ان مسلمانوں کے ذہنوں میں خوف پیدا کیا گیا۔ اس کارروائی نے ہندوستانی مسلمانوں کو بالواسطہ انتباہ دیا کہ کسی بھی شکل میں اور کسی بھی چیزکے لیے مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ یہ اشارہ دیا گیا کہ دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے رابطہ رکھنے پر بھی ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح ان غیر ملکیوں اور مسلموں کے خلاف ان کی مبینہ سرگرمیوں کے سبب کی جانے والی کارروائی سے بدنیتی کی بو آ رہی ہے اور بدنیتی جیسے حالات ایف آئی آر کو ختم کرنے میں اہمیت کے حامل ہیں‘‘ ۔
میڈیا کا کردار
انہوں نے بتایا کہ ’’ دہلی مرکز آنے والے غیر ملکیوں کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بہت وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا کیا گیا اور ایسی تصویر بنانے کی کوشش کی گئی کہ یہ غیر ملکی ہی ہندوستان میں COVID-19 پھیلانے کے ذمے دار ہیں۔ ان غیر ملکیوں کے خلاف عملی طور پر ظلم و ستم ہوا‘‘۔
’’ہندوستان میں انفیکشن کے حالات اور تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ موجودہ درخواست گزاروں کے خلاف ایسی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ متعلقہ حکام غیر ملکیوں کے خلاف کی جانے والی اس کارروائی پر اظہارِ ندامت کریں اور اس طرح کے اقدام سے ہونے والے نقصان کی بھرپائی کے لیے کچھ مثبت اقدامات کریں۔ موجودہ معاملے کے مواد سے پتہ چلتا ہے کہ نام نہاد مذہبی سرگرمیوں کے خلاف پروپیگنڈہ بالکل غیر ضروری تھا‘‘۔
ہمارا کلچر
ہماری ثقافت میں ’’اتیتھی دیوو بھوا‘‘کی کہاوت مشہور ہے، جس کا مطلب ہے کہ مہمان ہمارے بھگوان جیسے ہیں۔ مگر موجودہ حالات نے اس پر یہ سوال کھڑا کردیاہے کہ کیا ہم واقعی اپنی اس عظیم روایت اور ثقافت پر عمل کر رہے ہیں؟‘‘۔
’’کوویڈ ۔19 جیسے وبائی مرض سے پیداشدہ صورتحال کے دوران ہمیں زیادہ رواداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں اپنے مہمانوں ، خاص طور پر موجودہ درخواست دہندگان کے تئیں زیادہ حساس ہونے کی ضرورت ہے،مگر یہ الزامات ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی مدد کرنے کے بجائے ہم نے ان پر یہ الزام لگا کر انھیں جیلوں میں بند کردیا کہ وہ سفری دستاویزات کی خلاف ورزی اور وائرس وغیرہ پھیلانے کے ذمے دار ہیں‘‘۔
(مکمل ججمنٹ کی پی ڈی ایف کاپی کے لیے یہاں کلک کریں)