ایم ودود ساجد
"….تبلیغی جماعت کے خلاف لیا جانے والا ایکشن
ہندوستانی مسلمانوں کو دی جانے والی بالواسطہ وارننگ۔”
پورے ملک میں تین ہزار سے زیادہ غیر ملکی تبلیغی افراد کو لاک ڈاؤن کے بہانے جس طرح پولیس‘میڈیا‘ شرپسند گروہوں اورحکومتوں کے ذریعہ ستایا گیا اس سے پورا ملک واقف ہے۔۔۔ انہیں مسجدوں سے گرفتار کیا گیا‘ ان پر کورونا پھیلانے کے الزامات عاید کئے گئے‘ انہیں کورنٹائن سینٹروں میں ڈالا گیا‘ ہفتوں تک وہاں ستانے کے بعد انہیں جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ان پرآئی پی سی اور دوسرے کئی ایکٹ کے تحت مختلف دفعات میں مقدمات قائم کئے گئے۔اترپردیش میں سہارنپور اور ہریانہ میں نوح کی مقامی عدالتوں کے علاوہ تامل ناڈو‘ کرناٹک اور دہلی کی ہائی کورٹس نے بھی بہت سے غیر ملکی تبلیغی شہریوں کو راحت دی۔ان میں بہت سے اپنے ملکوں کو لوٹ بھی گئے۔
لیکن اِسی طرح کے ایک مقدمہ میں بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ ہندوستان کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھا جائے گا۔اس فیصلہ نے ہر اُس نکتہ کو شامل کرلیا ہے جس پر ملک کے تمام انصاف پسند طبقات اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمان گزشتہ 6 سال سے تڑپ رہے ہیں۔۔۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے یوٹیوب چینل VNI کیلئے جو تازہ ویڈیو ایپی سوڈ بنایا ہے اس میں اپنے انداز سے اس فیصلہ کا جائزہ لیا ہے۔میں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر مجھ سے محض ایک سطر میں اس فیصلہ کے بارے میں رائے ظاہر کرنے کیلئے کہا جائے تو میں کہوں گا کہ : میرے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ فیصلہ انسانوں کا لکھا ہوا ہے یا آسمان سے فرشتے اتر کر آئے اور انہوں نے اپنے قلم سے یہ فیصلہ لکھ دیا۔
گزشتہ روز میرے ہزاروں احباب نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ اس فیصلہ کی تفصیل اور اس کا جائزہ پیش کروں۔لیکن میں سروائیکل کی بڑھی ہوئی تکلیف کے سبب ایسا نہ کرسکا۔آج جو کچھ وقت معمول کے کام کاج اور دو مختلف ویڈیوز کی شوٹنگ کے بعد بچا ہے اس میں ممبئی ہائی کورٹ کے متعلقہ فیصلہ کی تلخیص پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
مہاراشٹرکے ضلع احمد نگر میں 29 غیر ملکی شہریوں کو پولیس نے گرفتار کرکے ان پر ڈزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ‘ پینڈیمک ایکٹ‘ فارنرس ایکٹ اور ویزا ایکٹ کے علاوہ آئی پی سی کی دفعات 270, 269, 188, 144 کے تحت مقدمات قائم کئے تھے۔اس کے علاوہ ان کے 6 ہندوستانی میزبانوں کو بھی ماخوذ کیا گیاتھا۔۔۔ گزشتہ 21 اگست 2020 (جمعہ) کو تین مختلف پیٹشنوں پر ہائی کورٹ کے جسٹس ٹی وی نلواڈے اور جسٹس ایم جی سیولکر کی بنچ نے 58 صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے ان کے خلاف تمام ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا حکم دینے کے علاوہ جو کچھ کہا اس کی تلخیص یہ ہے :
”…قدرتی آفات یا وبا کے بحران کے وقت سیاسی حکومتوں کو کسی بلی کے بکرے کی تلاش ہوتی ہے۔ حالات و واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ (کورونا کے دوران) تبلیغی جماعت کے ان لوگوں کو بلی کے بکرے کے طور پر منتخب کیا گیا.ان کے خلاف کی جانے والی کارروائی‘ سی اے اے اور این آرسی کے خلاف کئے جانے والے مظاہروں کے پس منظر میں ہندوستانی مسلمانوں کو بالواسطہ طور پر دی جانے والی ایک وارننگ تھی۔”
"….. جس مواد پر بحث ہوئی ہے اس کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں یا غیر ملکی تبلیغیوں کے ذریعہ کوئی پریشانی یا مزاحمت نہیں کھڑی کی گئی بلکہ دوسروں کے ذریعہ ان کے خلاف پریشانی اور مزاحمت کاماحول بنایاگیا۔….”
"…. میڈیا کے ذریعہ بڑا اور غیر مطلوب پروپیگنڈہ کرکے ایک ایسی تصویر بنانے کی کوشش کی گئی کہ جیسے یہ غیر ملکی ہی کورونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ حکام کو توبہ کرنی چاہئے اور اس ایکشن سے جو نقصان ہوچکا ہے اس کی تلافی کرنی چاہئے۔”
"….. حکومت مختلف ملکوں کا شہری ہونے یا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ مختلف سلوک نہیں کرسکتی۔ ہندوستان کے اتحاد اور اس کی سلامتی کے لئے سماجی اور مذہبی رواداری ایک عملی ضرورت ہے اور ہندوستان کے آئین کی رو سے اسے لازمی قرار دیا گیا ہے۔”
عدالت نے فیصلہ میں ایک کمال کا اضافہ کرتے ہوئے ایک ضمنی عنوان لگایا۔: بدنیتی کا پس منظرـ اس ضمن میں عدالت نے لکھا:
”…..عدالت نے غور کیا ہے کہ حکام کو ایسی ہدایات جاری کرنے کیلئے کس چیز نے اکسایا۔جنوری 2020 سے کچھ پہلے سے ملک میں مختلف مقامات پر مظاہرے منعقد ہوئے تھے۔ مظاہروں میں زیادہ تر شریک ہونے والے مسلمان تھے۔ان کا خیال ہے کہ شہریت کا ترمیمی قانون 2019 مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کرتا ہے۔وہ این آر سی کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ (تبلیغی جماعت کے خلاف) اس ایکشن سے ان کے دلوں میں خوف بٹھایا گیا۔اس ایکشن نے بالواسطہ طورپر ہندوستانی مسلمانوں کو ایک وارننگ دی کہ کسی بھی چیز کیلئے مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کا ایکشن لیا جاسکتا ہے۔ یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ غیر ملکی مسلمانوں کے ساتھ تعلق رکھنے کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گاـ ایسا ایکشن ان غیر ملکیوں کے خلاف نہیں لیا گیا جو دوسرے مذاہب کے تھے۔”
”..غیر ملکی شہریوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ مذہبی مقامات کی زیارت نہیں کرسکتے یا وہ مذہبی سرگرمیوں اور عبادات میں شرکت نہیں کرسکتے۔مہاراشٹر پولیس نے میکانکی طور پر ایکٹ کیا اور بادی النظر کے شواہد کے بغیراور اپنا دماغ لگائے بغیر فردِ جرم عاید کردی۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت نے سیاسی مجبوریوں کے تحت کارروائی کی اور پولیس نے بھی خود کو حاصل اختیارات کا استعمال کرنے کی جرات نہیں دکھائی.”
عدالت نے تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کے بارے میں لکھا:
”….. یہ سرگرمی 50 سال سے جاری ہے۔۔۔تبلیغی جماعت مسلمانوں کا کوئی الگ فرقہ یا مسلک نہیں ہے بلکہ یہ جماعت مسلمانوں کے درمیان اصلاح کا کام کرتی ہے۔ہر دور میں کچھ مدت کے بعد مذہب کے پیروکاروں کو اصلاح حال کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تبلیغی دوسروں کا مذہب تبدیل نہیں کراتے۔غیر ملکی تبلیغی تو اردو یا ہندی بھی نہیں جانتے جو یہاں ’دھرم پریورتن‘ کے لئے مطلوب زبانیں ہیں۔یہ لوگ عربی اور فرینچ جانتے ہیں۔ انہوں نے یہاں کسی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔
"…اس حقیقت کو کہ مسجدوں نے ان غیر ملکی تبلیغیوں کو پناہ دی‘ایک جرم کے طورپر نہیں لیا جانا چاہئے تھا۔لاک ڈاؤن کے دوران اپنے گھروں کو لوٹنے والے مزدوروں کے لئے گرودواروں نے بھی تو اپنے دوروازے کھول دئے تھے۔۔۔۔ حکام نے ایسا کوئی مواد پیش نہیں کیا کہ لاک ڈاؤن یا حکام کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجدوں نے عام شہریوں کے لئے بھی اپنے دروازے کھول دئے تھے۔”
پس نوشت:
عدالت سے پولیس نے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کی مہلت مانگی لیکن عدالت نے یہ کہہ کر اپیل کو مسترد کردیا کہ ان غیر ملکیوں کو ہندوستان سے واپس بھیجنے میں بھی کافی وقت لگ سکتا ہے۔۔۔۔ اس کے علاوہ دو رکنی بنچ کے جسٹس ایم جی سیولکر نے کہا کہ تبلیغیوں کے خلاف تمام ایف آئی آر ختم کرنے والے فیصلہ کے حصہ سے میں اتفاق رکھتا ہوں تاہم جسٹس ٹی وی نلواڈے کی بعض دوسری آراء پر میرا مختلف مشاہدہ ہے۔ ابھی جسٹس سیولکر کا علاحدہ مسودہ نہیں آیا ہے جس میں انہوں نے اپنے دلائل دئے ہیں۔کلیدی فیصلہ بہر حال جسٹس ٹی وی نلواڈے نے ہی لکھا ہے۔