Home خاص کالم تبدیلئ مذہب جرم نہیں ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

تبدیلئ مذہب جرم نہیں ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

ہندوستان میں اسلاموفوبیا کے شکار لوگ آئے دن کوئی نہ کوئی ایسا پروپیگنڈا کرنے میں لگ جاتے ہیں جس سے مسلمانوں کی بدنامی ہو اور سماج میں ان کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو ۔ حکومت ایسے واقعات کو ہوا دیتی ہے اور اس کی شہ پر گودی میڈیا اتنا شور شرابہ برپا کرتا ہے کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ، حالاں کہ ان واقعات کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔

ڈاکٹر عمر گوتم اور ان کے معاون مفتی جہاں گیر قاسمی کے معاملے میں ایسا ہی ہوا ہے ۔ ریاست اتر پردیش کے شہر غازی آباد میں ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا ، جو پہلے ہندو تھا ، بعد میں اس نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ دورانِ تفتیش اس نے بتایا کہ قبولِ اسلام کے بعد کاغذات کی تیاری میں اس نے عمر گوتم صاحب سے مدد لی تھی ۔ بس پھر کیا تھا؟ یوپی ATS حرکت میں آگئی ۔ اس نے تفتیش کے نام پر ڈاکٹر عمر گوتم کو کئی بار بلایا ۔ پھر انھیں اور ان کے معاون کو مختلف دفعات کے تحت گرفتار کرکے جوڈیشیل کسٹڈی میں بھیج دیا ۔ بعد میں اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتّیہ ناتھ ، جو اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کے معاملے میں شہرت رکھتے ہیں ، ان کے حکم پر این ایس اے اور گینگسٹر ایکٹ کی دفعات بھی شامل کردی گئیں ۔ یوپی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حضرات کافی عرصے سے غریب افراد کو پیسے ، نوکری اور شادی کا لالچ دے کر مسلمان بنا رہے تھے ۔ انھوں نے بہت سی ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروا کے ان کی شادی مسلمان لڑکوں سے کروائی ہے ۔ اس کام کے لیے یہ حضرات مختلف ممالک سے خطیر فنڈز جمع کرتے تھے ، وغیرہ ۔

الزامات لگانے میں میڈیا کیوں پیچھے رہتا؟ اس نے ان حضرات کو ویلن بنا کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی _ ان کی رپورٹنگس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات ملک کے خلاف کوئی بڑی سازش رَچ رہے تھے ، اس لیے بغاوت کے مجرم ہیں ۔ جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کی حقیقت تو عدلیہ کے فیصلے کے بعد کھل کر سامنے آئے گی ، لیکن اب تک کی دست یاب معلومات سے ان تمام الزامات کی تردید ہوتی ہے ۔ ان حضرات نے جن لوگوں کو قبولِ اسلام کے معاملے میں قانونی رہ نمائی فراہم کی ہے ان میں سے ایک بھی ایسا فرد اب تک سامنے نہیں آیا ہے جس نے کہا ہو کہ اس سے زبردستی اسلام قبول کروایا گیا تھا ، یا اس کے لیے کوئی لالچ دیا گیا تھا ۔

ڈاکٹر عمر گوتم کی پیدائش اتر پردیش کے ضلع فتح پور میں ٹھاکر گھرانے میں ہوئی تھی ۔ انھوں نے 1984 میں بیس (20) برس کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا ۔ ایک ویڈیو میں انھوں نے اپنے قبول اسلام کی کہانی بیان کی ہے ، جس کے مطابق ایک مرتبہ وہ بیمار ہوئے تو ان کے ایک مسلمان دوست نے ان کی خوب تیمارداری کی ۔ بیماری سے شفا یاب ہوئے تو انھوں نے اپنے دوست سے اس کی وجہ دریافت کی ۔ اس نے جواب دیا کہ اس کا مذہب اسے اس کا حکم دیتا ہے ۔ اس چیز نے انھیں اسلام کا مطالعہ کرنے کی طرف مائل کیا ۔ بالآخر اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر وہ مشرّف بہ اسلام ہوگئے ۔ اس کے بعد انھوں نے اسلام کی دعوت و تبلیغ کو اپنا مشن بنا لیا۔ 2010ء میں انھوں نے’اسلامی دعوہ سینٹر‘ کی بنیاد ڈالی ۔ اس کا مقصد ان لوگوں کی رہ نمائی کرنا تھا جو اسلام قبول کرنے بعد قانونی مدد حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ وہ تبدیلئ مذہب کی دستاویزات تیار کروانے میں ان کا تعاون کرتے تھے ۔

رائے ، عقیدہ اور مذہب کی آزادی کو جدید دنیا میں بنیادی انسانی قدر تسلیم کیا گیا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے منشورِ انسانی حقوق میں اس کا ذکر ہے ۔ دنیا کے تمام ممالک نے اپنے دستوروں میں اسے شامل کیا ہے ۔ اسی طرح دستورِ ہند میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔ اس کی دفعہ 25 میں ملک کے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کا حق دیا گیا ہے ۔ البتہ زور زبردستی سے ، ڈرا دھمکا کر ، یا لالچ دے کر کسی کا مذہب تبدیل کرانا قابلِ تعزیر جرم ہے ۔ اسی بنیاد پر ملک کی مختلف ریاستوں میں تبدیلئ مذہب مخالف قوانین بنائے گئے ہیں ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اِن قوانین کے ذریعہ تبدیلئ مذہب پر مکمل پابندی عائد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ معاملہ اس وقت مزید سنگین ہوجاتا ہے جب کوئی شخص اپنی آزاد مرضی سے اسلام قبول کرتا ہے ۔ اس وقت اسے اور جو شخص اس کی اخلاقی اور قانونی مدد کرتا ہے اسے ڈرایا دھمکایا اور مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تا کہ کوئی شخص اپنا سابق مذہب تبدیل کرنے کے بارے میں نہ سوچ سکے اور کوئی دوسرا اسے اسلام قبول کرنے کی ترغیب نہ دے سکے اور قبولِ اسلام کے بعد اسے اخلاقی اور قانونی مدد نہ پہنچا سکے ۔

اسلام ایک مشنری مذہب ہے ۔ اس کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کرنے کے بعد انھیں زندگی گزارنے کا طریقہ بھی بتایا ہے ۔ اس نے دنیا میں اپنے برگزیدہ بندے بھیجے ، تاکہ وہ لوگوں کے سامنے حق واضح کر سکیں ۔ انھیں رسول ، نبی یا پیغمبر کہا جاتا ہے ۔ یہ ہر زمانے اور ہر قوم میں آئے اور انھوں نے اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام پہنچایا ۔ لیکن بعد میں لوگوں نے ان الٰہی تعلیمات میں تحریف کر ڈالیں ۔ اس طرح نت نئے مذاہب وجود میں آئے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں پائے جانے والے تمام مذاہب برحق ہیں ، سب ایک ہی منزل تک پہنچانے والے ہیں ۔ اسلام اس نظریے کا رد کر تا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ صرف وہی مذہب برحق ہے جو اللہ کے پیغمبروں کے ذریعہ انسانوں تک پہنچا ہے اور جسے سب سے آخر میں حضرت محمد ﷺ لے کر آئے ہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب سیدھے راستے سے ہٹنے کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں ۔

اس کے ساتھ ہی اسلام عقیدہ و مذہب کو اختیار کرنے کے معاملے میں انسانوں کو آزادی دیتا ہے ۔ وہ انھیں حق دیتا ہے کہ اپنی عقل و فہم کو استعمال کریں ۔ صحیح اور غلط ، کھرے اور کھوٹے کے درمیان تمیز کریں اور اپنے لیے جو عقیدہ اور جو مذہب پسند کریں اسے اختیار کر لیں ۔ قبولِ مذہب کے معاملے میں وہ کسی جبر کا قائل نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے : ” مذہب کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے ۔“ (البقرۃ: 256) اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے : ”تمہارا کام بس پیغام پہنچا دینا ہے۔ ان سے حساب لینا ہمارا کام ہے۔“ (الرعد: 40) ”تم ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو۔“ (الغاشیہ:22) مذہب کے معاملے میں زور زبردستی کو بالکلیہ رَد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے :”اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی(کہ زمین میں سب مومن اور فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے ۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟“ (یونس: 99)

اسلام کی اس تعلیم کی بنا پر کوئی مسلمان کسی شخص کا مذہب زور زبردستی ، خوف یا لالچ کے ذریعہ تبدیل کرنے کو سوچ بھی سکتا ۔ وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ جو مذہب اس کی نظر میں حق ہے اسے دوسروں تک پہنچائے اور ان کے سامنے اس کی تعلیمات بیان کرے ۔ اس طرح وہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو جاتا ہے ۔ پھر انھیں اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہیں تو اسے قبول کریں اور چاہیں تو رد کریں ۔ اسلام میں زور زبردستی یوں بھی قابلِ قبول نہیں کہ اس کی بنیاد اخلاص پر استوار کی گئی ہے ۔ کوئی شخص بہ ظاہر اسلام قبول کرلے ، لیکن وہ اس کے دل میں راسخ نہ ہوا ہو تو حقیقت میں اس کا اسلام معتبر نہیں ۔ اسے ’منافق‘ کہا گیا ہے اور اس کی سزا جہنم قرار دی گئی ہے ۔ کسی مسلمان کے نزدیک یہ کوئی دانش مندانہ کام نہ ہوگا کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کرنے کی کوشش کرے جو سچے دل سے اس پر ایمان نہ لائے ہوں ۔

دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش روزِ ازل سے ہے ۔ باطل پرستوں نے حق کو دبانے کے لیے ہر جتن کیے ہیں ۔ انھوں نے اہلِ حق پر جھوٹے الزامات لگائے ہیں اور انھیں ان کے مشن سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ لیکن اہلِ حق نے کبھی پسپائی اختیار نہیں کی ہے ۔ انھیں ستایا گیا ، طرح طرح کی اذیّتیں دی گئیں ، قید و بند میں رکھا گیا ، جان و مال کے نقصان سے دوچار کیا گیا ، لیکن وہ تمام آزمائشوں میں سرخ رو ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت آج بھی جاری ہے ۔ اہلِ حق کو آج بھی آزمائشوں میں ڈالا جا رہا ہے ۔ لیکن ان کے لیے خوش خبری ہے کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی جانب سے اعزاز و کرام سے بہرہ ور ہوں گے ۔

You may also like

Leave a Comment