Home تجزیہ تبدیلی مذہب مخالف قانون اور پسِ پردہ مقاصد- سہیل انجم

تبدیلی مذہب مخالف قانون اور پسِ پردہ مقاصد- سہیل انجم

by قندیل

چار جون کو آنے والے انتخابی نتائج نے بی جے پی کو اکثریت سے دور کر دیا اور پھر دو حلیف جماعتوں جے ڈی یو او رٹی ڈی پی کی مدد سے حکومت کی تشکیل ہوئی۔ اس موقع پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ حلیف جماعتوں کے ہاتھوں میں بھی حکومت کی نکیل ہوگی اور وہ مودی حکومت کو ہندوتو کے اپنے ایجنڈے کو پیچھے رکھنے پر مجبور کر دیں گی۔ لیکن یہ خیال محض ایک موہوم قیاس آرائی ثابت ہوا۔ مودی حکومت اپنے اسی ایجنڈے پر آگے بڑھ رہی ہے جس پر گزشتہ دس برسوں سے گامزن تھی۔ مرکزی حکومت کی جانب سے وقف ایکٹ میں بڑے پیمانے پر ترامیم کی بات ہو یا حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر لیٹرل انٹری کی بات،یا بی جے پی حکومتوں میں اقلیتوں پر ظلم و زیادتی کا معاملہ ہو یا یوپی حکومت کی جانب سے تبدیلی مذہب کے قانون کو بہت زیادہ سخت کر دینا ہو۔ کانوڑ یاترا کے دوران ناموں کی تختی لگانے کا حکم ہو یا پھر ایودھیا میں ایک نابالغ لڑکی کی مبینہ عصمت دری کے نام پر ایک مسلم خاندان کو نشانہ بنانا ہو۔ ان سب واقعات کو ہندوتو کے ایجنڈے پر آگے بڑھنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ تبدیلی مذہب مخالف قانون کا واحد مقصد بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی آڑ میں ان مسلمانوں کو، جو غیر مسلم خاتون سے شادی کریں، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے اور پھر ان کی پوری زندگی چکی پیستے گزر جائے۔ گزشتہ دنوں اترپردیش اسمبلی میں 2021 کے تبدیلی مذہب مخالف قانون میں جو ترامیم منظور کی گئی ہیں ان میں جبریہ، فریب دہی یا لالچ سے کسی خاتون سے شادی کرنے کے مجرم کو پہلے دس سال قید کی سزا تھی مگر اب اسے بیس سال کر دیا گیا ہے جو عمر قید میں بھی بدل سکتی ہے۔
سابقہ قانون میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے سے جبراً، دھوکہ یا لالچ دے کر شادی کر لیتا ہے تو اس واقعہ کے خلاف صرف متاثرین کے اہل خانہ اور رشتے دار ہی ایف آئی آر درج کرا سکتے ہیں۔ لیکن اب اس پابندی کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اب کوئی بھی شخص اور کہیں سے بھی رپورٹ درج کرا سکتا ہے۔ یعنی اگر کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں جگہ ایسا واقعہ ہوا ہے تو وہ بھی رپورٹ درج کرانے کا مجاز ہے۔ ایسے واقعات میں ضمانت کی شرائط بالکل اسی انداز کی رکھی گئی ہیں جیسی کہ یو اے پی اے کے تحت درج معاملات میں ہیں۔ آسان لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اب ضمانت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ بلکہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جرم کو اب ناقابل ضمانت بنا دیا گیا ہے۔ سزاؤں کے دو زمرے بنائے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر ملزم کو غیر قانونی تبدیلی مذہب کے لیے غیر ملکی فنڈ یا غیر قانونی طریقے سے فنڈ حاصل ہوا ہے تو اسے سات سے چودہ سال کی جیل ہوگی اور دس لاکھ کا جرمانہ ہوگا۔ دوسرا یہ کہ اگر ملزم نے کسی کم عمر کو یا کسی خاتون کو ڈرا کر دھمکا کر یا لالچ دے کر اور اسے فروخت کرنے یعنی انسانی اسمگلنگ کے مقصد سے شادی کی ہے تو اسے کم از کم بیس سال کی سزا یا عمر قید ہوگی۔ معلوم ہونا چاہیے کہ لو جہاد کے فرضی معاملے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کو ہندو لڑکیوں کو اپنے پیار کے جال میں پھانسنے کے لیے خلیجی ملکوں سے دس دس لاکھ روپے ملتے ہیں۔ جبکہ یہ ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ اب کسی بھی کیس میں پولیس کی جانب سے یہ الزام لگانا کہ اس نے غیر ملکی فنڈ حاصل کیا ہے اور پھر اسے ہمیشہ کے لیے جیل میں ڈال دینا بہت آسان ہو گیا ہے۔
اس وقت ہندوستان میں آٹھ ریاستوں میں تبدیلی مذہب قانون نافذ ہے۔ یہ ریاستیں ہیں گجرات، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، اترپردیش، اروناچل پردیش، اڑیسہ، چھتیس گڑھ اور ہماچل پردیش۔ ان ریاستوں کے قوانین میں الگ الگ دفعات رکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے قانون میں تبدیلی مذہب کے مقصد سے کی جانے والی بین مذاہب شادیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ چھتیس گڑھ کی حکومت نے ایسے جرائم کے لیے تین سال کی جیل یا بیس ہزار روپے کا جرمانہ رکھا ہے۔ جھارکھنڈ کے قانون میں تین سال کی جیل اور پچاس ہزار کا جرمانہ ہے۔ کرناٹک کے قانون میں تین سے پانچ سال کی جیل اور پچیس ہزار کا جرمانہ ہے اور ہریانہ کے قانون میں ایک سے پانچ سال کی جیل اور ایک لاکھ کا جرمانہ ہے۔ اترپردیش کے سابقہ قانون کے مطابق اس جرم کے لیے ایک سے پانچ سال کی جیل اور کم از کم پندرہ ہزار روپے کا جرمانہ تھا۔ اگر متاثرہ کم عمر ہے، خاتون ہے یا ایس سی ایس ٹی سے تعلق رکھتی ہے تو مجرم کو دو سے دس سال کی جیل اور بیس ہزار کا جرمانہ تھا۔ اسی طرح اجتماعی تبدیلی مذہب کے جرم میں تین سال کی سزا اور پچاس ہزار کا جرمانہ تھا۔ جبکہ ترمیمی قانون میں پہلے زمرے کے لیے ایک سے دس سال کی سزا اور پچاس ہزار کا جرمانہ، دوسرے زمرے کے لیے پانچ سے چودہ سال کی سزا اور ایک لاکھ کا جرمانہ اور تیسرے زمرے کے لیے سات سے چودہ سال کی سزا اور ایک لاکھ کا جرمانہ ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ موجودہ قانون معاشرے میں مذہبی بنیاد پر تفریق پیدا کرے گا اور مسلمانوں اور غیر مسلموں یا عیسائیوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت میں اضافہ ہوگا۔ لیکن حکومت نواز طبقات کا استدلال ہے کہ اس سے جبریہ تبدیلی مذہب کو روکنے میں مدد ملے گی۔
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ہندوستانی آئین ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق دیتا ہے۔ لہٰذا تبدیلی مذہب مخالف قانون خلاف آئین و دستور ہے۔ ملکی عدالتوں نے ایسے معاملات میں بارہا آئین و دستور کا حوالہ دے کر فیصلے سنائے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی کئی معاملات میں یہی مؤقف اختیار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے حق پر ضرب نہ پڑتی ہو تو یہ قانون درست ہے اور اگر ضرب پڑتی ہو تو غیر آئینی ہے۔ سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کی ڈاکٹر ہادیہ بنام اشوکن کے کیس میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی بھی بالغ شخص اپنی پسند سے اپنا مذہب بدل سکتا اور دوسرا مذہب اختیار کر سکتا ہے۔ اسٹیٹ کو فرد کی شادی اور تبدیلی مذہب کی آزادی کے حق میں مداخلت کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس نے ایک دوسرے کیس لتا سنگھ بنام اترپردیش حکومت میں کہا تھا کہ کسی بھی شخص کو اپنی پسند کے کسی بھی شخص کے ساتھ بلا لحاظ مذہب، ذات اور سماجی حیثیت شادی کرنے کا حق ہے۔ اگر حکومت یا کوئی بھی اس میں مداخلت کرتا ہے تو وہ آزادی کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس نے سارہ مدگل بنام حکومت ہند کے کیس میں کہا کہ کوئی بھی شخص شادی کے لیے دوسرا مذہب اختیار کر سکتا ہے۔ البتہ ایسی تبدیلی مذہب قانونی گرفت یا ذمہ داریوں سے بچنے کی خاطر نہ کی گئی ہو۔ (واضح رہے کہ ہریانہ کے سابق وزیر چندر موہن اور ایسے جانے کتنے غیر مسلم ہیں جنھوں نے صرف قانونی گرفت سے بچنے کے لیے اپنا مذہب بدلا اور دوسری شادی کی)۔ سپریم کورٹ نے ایس پشپا بائی بنام سی ٹی سلواراج کے کیس میں فیصلہ دیا کہ کوئی بھی شخص دوسرا مذہب اختیار کر سکتا ہے تاہم ایسا قدم حقیقی اور رضاکارانہ ہو۔ اگر تبدیلی مذہب کے لیے جبر کیا گیا ہو تو وہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔
آئین کی بہت واضح دفعات اور سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں کے لاتعداد فیصلوں کے باوجود تبدیلی مذہب مخالف قانون منظور کیا جاتا رہا ہے۔ البتہ مسودے میں ایسی باتیں کہی جاتی رہی ہیں کہ وہ قانونی گرفت میں نہ آئیں۔ لیکن حقیقتاً ان قوانین کا مقصد تبدیلی مذہب پر لوک لگانا نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے متعدد بیانات ہیں جو یہ چغلی کھاتے ہیں کہ بی جے پی حکومتوں کے بعض اقدامات کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ انھوں نے گزشتہ دنوں بیان دیا کہ وہ جلد ہی تبدیلی مذہب مخالف قانون لانے والے ہیں اورایک ایسا قانون بھی لائیں گے جس کے تحت کسی غیر مسلم کو کسی مسلمان کو اپنی جائداد فروخت کرنا غیر قانونی قرار دیا جائے گا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like