Home تجزیہ تباہی و بربادی کے بعد ریلیف، شکریہ، مگر! 

تباہی و بربادی کے بعد ریلیف، شکریہ، مگر! 

by قندیل

 

مسعود جاوید

پھر یوں ہوا کہ سارے کبوتر اپنے اپنے ڈربے میں دبک گئے۔ ٢٠١٩ لوک سبھا انتخابات کے بعد نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے دفتروں میں نہ جانے کس اسٹریٹیجی کے تحت سناٹا پسر گیا اور ایسا لگا گویا الیکشن کے نتائج متوقع تھے اور اپوزیشن کی غیر معلنہ رضا مندی شامل تھی۔ اپوزیشن لیڈر گھر بیٹھ گئے یا ملک سے باہر چھٹیاں منانے چلے گئے۔ شہریت ترمیمی بل ایکٹ بن گیا اور اسی کے ساتھ این آر سی اور این پی آر نے عوام میں ہیجان پیدا کردیا عام لوگوں خاص طور پر جنہیں اس نئے پروسیس سے متاثر ہونے کا خدشہ تھا وہ ملک گیر سطح پر اس ایکٹ کی مخالفت کرنے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے،جامعہ کے مظاہرین پر پولیس کی زیادتی کے دوسرے دن سے ہی شاہین باغ میں احتجاجی جلوس کی ابتداہوئی اور دیکھتے دیکھتے شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک تقریباً ٢٤٠ شاہین باغ کی طرز پر احتجاجی جلوس تسلسل کے ساتھ چلنے لگے۔ متحدہ اپوزیشن، حساس ریاستی حکومتوں، ملی ، سیاسی سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے لئے مسئلہ بہت مشکل نہیں تھا وہ متحد ہو کر مرکزی حکومت سے سوال کرتے کہ جب این آر سی کے رولز ریگولیشن طے نہیں ہوۓ تو مقتدر پارٹی کو اس سے سی اے اے کو جوڑنے کی بات کرکے لوگوں کو خوفزدہ و ہراساں کرنے کی ضرورت کیوں آن پڑی تھی اور اس کے بعد ” ابھی نہیں” کا مہمل جواب کیوں ؟ سی اے اے اگر شہریت دینے کا ایکٹ ہے کسی ہندوستانی کی شہریت لینے کا نہیں تو اس کی وضاحت تو حکومت کرتی کہ شہری ہونے کا ثبوت کیا ہوگا ؟ حکومت کی مختلف ایجنسیاں اور مختلف عدالتوں کی طرف سے اس بارے میں متضاد باتیں کیوں آتی رہتی ہیں کیا صرف اس لیے کہ لوگ ہیجان میں قیاس آرائیوں کی بنیاد پر ابلتے رہیں ؟

اب جبکہ احتجاجی جلسوں کو بغیر کسی معقول وجہ کے عذر بنا کر دو فرقوں کے مابین تصادم کی نوبت آ گئ دہلی تقریباً پچاس افراد موت کی گھاٹ اتارے گئے کئی سو زخمی ہیں اور متعدد لا پتہ، دکان و مکان میں آگ لگائی گئی باز آباد کاری کے لئے کروڑوں روپے درکار ہوں گے تو اب ریلیف اور باز آباد کاری کے لئے بعض تنظیمیں متحرک ہوئی ہیں۔

ایسی لوٹ مار کی عدیم المثال صورتحال نے ہر انصاف پسند انسان کو ہندوستان کے مقدس دستور اس میں جمہوریت ، سیکولرازم اور چق مساوات کی گارنٹی کے بارے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ایسے میں یہ سوال ابھر کر سامنے آنا فطری ہے کہ دھمکیوں اور حملوں کے چند واقعات اور کوششوں کے پیش نظر حالات بگڑنے کے امکانات کو خارج نہیں کیا جاسکتا تھا تو ملک کی سیاسی جماعتیں اور ہماری ملی تنظیمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کیا حالات بگڑنے کا انتظار کر رہی تھیں!

کاش ہماری سیاسی پارٹیوں، ملی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے یہ سیاہ دن آنے سے قبل کوئی احتیاطی تدابیر کوئی مؤثر قدم اٹھاتیں تو شاید اتنی جانیں اور اتنی تباہی اور بربادی نہیں ہوتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو فرقوں کے درمیان برسہا برس سے قائم اعتماد متزلزل نہیں ہوتا۔

کچھ عجیب سا نہیں لگتا کہ آخر کیوں

١- سیاسی پارٹیوں نے اب تک کوئی متحدہ محاذ بنا کر حکومت سے وضاحت طلب نہیں کی ؟ پارلیمنٹ میں وہ اقلیت میں ہیں سڑکیں تو ان کے لئے کھلی تھیں !

٢- کیوں مسلم ملی تنظیمیں متحدہ محاذ بنا کر حکومت کے سامنے سینہ سپر ہونے سے احتراز کرتی رہیں ؟ کیا ملی مفاد پر ان کے ذاتی اندیشے حاوی ہیں؟

٣- کیوں ملی تنظیموں کے بعض رہنماوں نے دوراندیشی اور مبنی بر عقل اقدامات کی بجائے جذباتی باتیں اور ” جیل بھرو تحریک” اور ” گولیاں کم پڑ جائیں گی” جیسے کھوکھلے نعروں میں اپنی سرگرمیاں محدود رکھیں۔ کیا ریلیف کا کام ہی ان تنظیموں کا محبوب مشغلہ ہے ؟ سیاسی رہنمائی کی بجائے مصلحت آمیز موقف اور متضاد بیانات کیوں ؟

٤- ملی تنظیموں نے ہم خیال سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے برادران وطن کے ساتھ مل کر راۓ عامہ ہموار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟

٥- دانشوروں اور جدید تعلیم یافتہ حضرات نے ملی تنظیموں کے سربراہوں، علماء ، سماج میں اثر ورسوخ والے حضرات اور قانون کے ماہرین کے ساتھ سر جوڑ کر کیوں نہیں بیٹھے ؟ کب تک مولوی اور مسٹر ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے میں توانائی صرف کرتے رہیں گے۔

٦- آخر اب تک این پی آر کے متعلق اتفاق رائے سے کوئی حتمی فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا این پی آر کے ذریعے این آر سی کے مقاصد پورے کۓ جائیں گے ؟ ملت کے افراد ۔

٧- دہلی کے فسادات متوقع تھے تو کیا کسی اور جگہ متوقع نہیں ہیں اگر ہاں تو اس سے بچنے کے صورت کیا ہوگی ؟

ملت کے افراد آج بھی ملی شخصیات اور تنظیموں کی طرف سے اجتماعی رہنمائی کے منتظر ہیں۔

ضرورت ایجاد کی ماں ہے آپ لوگوں نے اس وجود کی بقاء کے مسئلے میں پس و پیش سے کام لیا تو عوام بالخصوص خواتین نے مورچہ سنبھال لیا لیکن مسئلے کا حل صرف احتجاجی جلوس میں نہیں ہے۔ متحدہ موقف کی ضرورت ہے۔

You may also like

Leave a Comment