ریسرچ سکالر شعبۂ تاریخ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ
گیل مینو (Gail Minault)ایک معروف تاریخ نگارہیں۔ان کی تحریریں جو کہ کافی وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہیں ہندومسلم ثقافت، سیاست، سیاسی شاعری،تحریک خلافت اور جنوبی ایشیائی مسلم خواتین جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔
ان کا مضمون بہ عنوانSayyid Ahmad Dehlavi and the Delhi Renaissance 1986 میں Robert Eric Frykenbergکی کتاب Delhi Through The Ages میں شائع ہوا۔2009 میں مینو کی ہی کتاب Gender, Language and Learning میں دوبارہ شائع ہوا۔مضمون دہلی کی نشاۃثانیہ(Delhi Renaissance)اور اس سے جڑی کچھ اہم شخصیات جیسے سرسید(98-1817)،ذکاء اللہ (1910-1832)،نذیر احمد(1912-1830)،الطاف حسین حالی(1914-1837)اور بالخصوص سید احمد دہلوی کی دانشورانہ سیرت کو اجاگر کرتا ہے۔ Delhi RenaissanceاورBengal Renaissance کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔
اس مضمون کی مختصر تلخیص و ترجمہ اردو قارئین کے لئے یہاں پیش ہے:
انیسویں صدی دہلی میں فکری اورثقافتی عروج اور مذہبی اصلاح کا دور تھا۔غالب،ذوق اور ظفر جیسے شاعروں کے علاوہ شمالی ہند کی ثقافت پر مغربی اثرات بھی واضح تھے۔انہی مقامی اور مغربی اثرات کے امتزاج کے زیر اثر دہلی میں نشاۃ ثانیہ کا ظہور ہوا۔
مینو کا ماننا ہے کہ مورئخین نے دہلی کی نشاۃثانیہ کا یا تو بنگال کی نشاۃثانیہ سے ناموافق طور پر موازنہ کیا ہے یا پھر یکسر نظرانداز کیا ہے۔دونوں کا موازنہ کرتے ہوئے مینو دہلی اور بنگال کے ثقافتی ماحول میں مماثلت اور تضاد کو اجاگر کرتی ہے۔کلکتہ کی بہ نسبت دہلی میں مغربی تعلیم اورنظریات کا اثر محدود تھا،اسی لئے یہا ں مذہبی اور سماجی اصلاحی سر گرمیاں پرجوش نہ تھیں۔
دہلی میں مغربی تعلیم کیinstitutional foundation 1827 میں دہلی کالج کے انگلش سیکشن کے قیام سے ہوئی۔اگر چہ Boutros اور Sprenger جیسے انگلش پرنسپل اور رام چندراور ذکاء اللہ جیسے مقامی پروفیسرزنے طلباء کو انیسویں صدی کے مغربی سائنس اور ریاضی سے متعارف کرایا تاہم یہاں دیگر مضامین جیسے انگریزی زبان،ادب اور فلسفہ فروغ نہ پاسکے۔بیشتر طلبا نے اردو میڈیم میں عربی اور فارسی ادب کا انتخاب کیا۔ اس کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں:
۱-شمالی ہند میں 1830 کی دہای میں اردو نے فارسی کی جگہ (بطور مقامی انتظامیہ کی زبان)لے لی،اس لئے نوکری حاصل کرنے کے لئے انگریزی زبان اہم نہ رہی۔
۲-بنگالی بھدرلوک،متنوع ذاتوں پر مشتمل ایک ابھرتا ہوا گروہ جوکہ ملازمت کے نئے مواقع تلاش کرنے کلکتہ آیا تھا، اس نے انگریزی زبان اور مغربی خیالات کو پوری شدت کے ساتھ اپنایا۔
۳-اگر چہ سیاسی حقائق بدل چکے تھے،لیکن شمالی ہند کے خواص میں مغل کلچر جیسے ”ذاتی وفاداری“اور ”patron-client-relationship“ جاری رہا۔
۴-شمالی ہند کے مسلمانوں میں ثقافتی اور مذہبی اصلاح کی مقامی جڑئیں (indigenous roots)پہلے سے ہی موجود تھیں۔یہ روایات شیخ احمد سرہندی،عبدالحق محدث دہلوی،اور شاہ ولی اللہ سے قائم تھیں۔
Delhi Renaissanceاور Bengal Renaissance میں کچھ مماثلات بھی واضح ہیں مثلاً تعلیم،مذہبی اصلاح اورسماج میں خواتین کا وقار۔لیکن Delhi Renaissanceتحفظ (preservation)کے ساتھ ساتھ حیات نو(revitalization)کی بھی تحریک تھی،ایسا مینو کا ماننا ہے۔مضمون اس بات کی تردید کرتا ہے کہ دہلی کی نشاۃالثانیہ کا 1857 میں اچانک خاتمہ ہوا؛بلکہ دہلی کے اصلاح پسندوں نے علی گڑھ،دیوبند اورلاہورجیسی جگہوں سے اپنا کام جاری رکھا۔
علاوہ ازیں مصلحین جیسے ذکاء اللہ،نذیراحمد،حالی اور سیداحمددہلوی نے دہلی میں اپنا کام جاری رکھا۔مضمون میں ان کی تعلیمی قابلیت،کیریئر،تصانیف،ادبی اور اصلاحی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
سید احمددہلوی (1918-1846)پر لکھتے ہوئے ان کے نسب، کریرئ اور تصانیف کا جائزہ لیا گیا ہے۔ان کی کتاب ”فرہنگِ آصفیہ“چار جلدوں پر مشتمل ہے(پہلی جلد 1892 میں نظام حیدرآباد کی سرپرستی میں شائع ہوئی تھی)۔ مضمون میں ان کی دیگر تحریریں بھی شامل ہیں، جو دہلی کی ثقافت،زبان،تعلیم نسواں،آداب اور گھریلونظم و نسق کا احاطہ کرتی ہیں۔مینو دہلوی کی کتاب ”انشاء ہادی النسا“(جو1875میں لکھی گئی ہے اوراس میں خواتین کو خطوط نگاری سکھائی گئی ہے)کو انقلابی مانتی ہے؛ کیوں کہ اُس وقت مسلم لڑکیوں کازیادہ لکھنا پڑھنامناسب نہیں سمجھا جاتا تھا۔سید احمد نے 1885 میں خواتین کے لئے ہفتہ وار جریدہ ”اخبارالنساء‘‘شروع کیا،لیکن عوام کے مخالفانہ ردعمل کی وجہ سے اس کو جلدی بند کر دیا گیا۔
خواتین کے لئے ان کی دیگر تحریروں میں ”راحت زمانی کی مزیدار کہانی“،”تسخیرِشوہر“،”اخلاق النساء“،”قصہ مہرافروز“اور ”لغت النساء“شامل ہیں۔ان میں تدریسی مواد کے علاوہ بھرپور نسلی (ethnographic) اور لسانی موادبھی شامل ہے۔سید احمد کی ”رسوم دہلی“کو مینو ایک ثقافتی تحفظ کی تحریر مانتی ہے۔اس میں دہلی کا ہم آہنگ ثقافتی امتیاز (syncretic cultural distinctiveness)نمایاں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مضمون میں Delhi Renaissanceکی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ دہلی کی نشاۃثانیہ ورناکولر میں اوراکثرمقامی اثرات کے تحت ہوئی۔مشیرالحسن کی کتاب ”A Moral Reckoning“(2005)جوکہ انیسویں صدی دہلی کی دانشورانہ تاریخ پر لکھی گئی ہے،ممکنہ طور پر مذکورہ مضمون کی توسیع نظر آتی ہے۔