سپریم کورٹ نے احتجاج کے عوامی حق کو شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کرکے ایک طرف جہاں عدل وانصاف کی لاج رکھ لی وہیں دوسری طرف بی جے پی کے اُن بد زبان لیڈروں کے منہ پر بھی زوردار طمانچہ رسید کردیا ہے جو CAA, NRC اور NPR کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو منہ بھر بھر کر گالیاں دے رہے تھے اور انہیں وطن دشمن قرار دے رہے تھے۔۔۔۔
لیکن عدالت نے اپنا وہ تبصرہ پھر دوہرایا جو گزشتہ 10 فروری کو اس نے کیا تھا۔۔۔۔ یعنی احتجاج کے لئے عوامی راستہ نہیں روکا جاسکتا۔۔۔۔
عدالت نے مظاہرین سے گفتگو کے لئے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے کی قیادت میں ایک ٹیم تشکیل کردی ہے۔۔۔ سنجے ہیگڑے بہت صاف ستھری شبیہ کے حامل سیکولر انسان ہیں ۔۔۔ اگلی سماعت 24 فروری کو ہوگی۔۔۔
عدالت نے دو باتیں اور کہی ہیں :
ان میں سے ایک بات بعینہ وہ ہے جو اس خاکسار نے 2 فروری کو کہی تھی۔۔۔ عدالت نے کہا کہ مظاہرین اپنا پیغام پہنچا چکے اور شاہین باغ کا مظاہرہ بہت دنوں سے جاری ہے۔۔۔۔
عدالت کے مذکورہ بالا دو سطری تبصرہ کو کئی بار پڑھئے۔۔۔ اس کے بین السطور کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔۔۔۔ اگر جلد نہ سمجھا گیا تو پھر بہت دیر ہوجائے گی۔۔۔ عدالت نے اپنی دوسری بات میں اس کو بھی واضح کردیا ہے۔۔۔
عدالت نے دوسری جو بات کہی ہے وہ ظاہری طور پر کتنی ہی سادہ بات ہو لیکن اپنے معانی ومفہوم کے اعتبار سے وہ بہت تشویشناک ہے۔۔۔ عدالت نے کہا کہ "اگر (ثالثی کی کوشش سے) مسئلہ حل نہ ہوا تو پھر ہم صورتحال سے نپٹنے کے لئے یہ معاملہ حکام پر چھوڑدیں گے۔۔۔۔”
یہ آخری بات اپنے وسیع تر مفہوم میں انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ سپریم کورٹ ہاتھ کھڑے کردے بصیرت کو جگانا پڑے گا۔۔۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)