Home تجزیہ سنہری مسجد پر بُری نگاہ! -شکیل رشید

سنہری مسجد پر بُری نگاہ! -شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

ہندوستان سے مسلم آثار مٹانے کی جو مہم شروع کی گئی ہے اس نے اب مزید بھیانک روپ لے لیا ہے ۔ ہندتوادی ٹولہ اب کسی مسلم عمارت کو ہٹانے کے لیے ، کسی عدالت کی اجازت حاصل کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتا ۔ ویسے بات کسی عمارت کی نہیں ایک مسجد کی ہے ، ڈیڑھ سو سالہ قدیم ’ سنہری مسجد ‘ کی ۔ دہلی میں یہ مسجد سنہری باغ میں سینٹرل سکریٹریٹ کے قریب ہے ۔ ’ نیو دہلی میونسپل کونسل ‘ نے ایک ’ پبلک نوٹس ‘ لگا کر ٹرافک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ’ سنہری مسجد ‘ کو منہدم کرنے کے اپنے فیصلے سے عوام کو آگاہ کرتے ہوئے لوگوں سے اس ضمن میں رائے طلب کی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ ’ پبلک نوٹس ‘ مسلمانوں کو بے چین کرنے والی ہے ، اس لیے عام اور خاص ہر طرح کے مسلمانوں نے ، تنظیموں اور جماعتوں نے میونسپل کے مذکورہ فیصلے کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے ، مولانا محمود مدنی نے وزیراعظم نریندر مودی کو ایک مکتوب بھیج کر یہ مطالبہ کیا ہے کہ میونسپل کو اس طرح کی دل آزار حرکت سے روکا جائے ۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام نے میونسپل کے ذریعے چسپاں کیے گیے ’ پبلک نوٹس ‘ کی جانب سب سے پہلے لوگوں کی توجہ مبذول کرائی تھی ، جس میں یہ تحریر ہے کہ لوگ اس فیصلے پر اعتراضات اور مشورے یکم جنوری ۲۰۲۴ ء تک بھیج سکتے ہیں ۔ دلچسپ امر یہ کہ اس مسجد میں پانچ وقت کی نمازیں ہوتی ہیں ، اور ایک بڑی تعداد میں یہاں نمازی آتے ہیں ، جمعہ کی نماز میں تعداد پانچ سو سے زائد ہوجاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ مسجد اس علاقے کی تہذیب اور تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔ یہ مسجد وقف بورڈ کی اُن ۴۲ املاک میں سے ایک ہے جو ’ سنّی مجلسِ اوقاف ‘ کو واپس لوٹائی گئی تھیں ۔‘ دہلی وقف بورڈ نے مسجد کے انہدام کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی تھی جسے ۱۸ ، دسمبر کو نمٹاتے ہوئے ، دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس پُروشندرا کمار کورو نے کہا تھا کہ چونکہ فریقین مذکورہ معاملے پر بڑی حد تک متفق ہو گیے ہیں ، اس لیے اس کورٹ کو ابھی درخواست پر فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن حکام ’ سنہری مسجد ‘ کے انہدام کی تیاری میں لگ گیے ہیں ! سوال یہ ہے کہ کیسے ایک قدیم مسجد کو ، وجہ چاہے جو ہو ، یا چاہے جو بتائی جائے ، منہدم کیا جا سکتا ہے ؟ اور وہ بھی ایک قانونی مسجد کو ؟ اس سوال کا جواب بس ایک ہی ہے ، مسلم آثار اب ہندتوادیوں کو برداشت نہیں ہیں ۔ حالانکہ مسلم آثار کے بنا چارہ بھی نہیں ہے ! وزیراعظم نریندر مودی یومِ آزادی پر شان سے لال قلعے کی فصیل سے خطاب کرتے ہیں ۔ جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تب انہوں نے بھج شہرمیں ایک مصنوعی لال قلعہ بنوا کر اس کی فصیل سے خطاب کیا تھا ۔ مودی دہلی کی کسی بھی عمارت سے یومِ آزادی کی تقریر کر سکتے ہیں ، لیکن وہ شان وشوکت جولال قلعے کی فصیل سے تقریرکرنے کی ہے ، اس سے وہ محروم رہنا نہیں چاہتے ۔ لال قلعہ مغل فرمانرواشاہ جہاں کاہندو ستان کو دیا ہوا ایک تحفہ ہے ۔ اسی طرح اس ملک میں جو بھی مسلم آثار ہیں وہ ملک کے لیے ایک شناخت اور تحفے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ تاج محل،ہمایوں کامقبرہ،آگرہ کا قلعہ،لکھنؤ کی بھول بھلیاں اورامام باڑے،حیدرآباد کی شاہی مسجدیں اورملک بھر میں پھیلے ہوئے صوفیائے کرام کی زیارت گاہیں ، اور یہ ’ سنہری مسجد ‘ جس کے انہدام کی تیاری کی جا رہی ہے ۔ مسلمانوں نے اگر ہندوستان پر حکومت کی ہے توہندوستان کو بہت کچھ دیا بھی ہے ۔ تعمیراتی،تہذیبی،ثقافتی اورسماجی ہرطور پر اسے مالامال کیاہے ۔ ان آثار سے چھٹکارا نہ آسان ہے اور نہ ہی ممکن ہے ۔ اس معاملے کو مسلم جماعتیں سنجیدگی سے لیں ، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں ، حکام پر دباؤ ڈالیں ، اور وزیراعظم سے ملاقات کریں ، انہیں حقیقت سے آگاہ کریں ۔ حکام کو بھی یہ سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ ایک قانونی مسجد کو منہدم کرنا کوئی کھیل نہیں ہے ، اس لیے وہ اس معاملے کو طول نہ دیں اور ’ پبلک نوٹس ‘ واپس لے لیں ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like