پھر اسے صوفی سے محبت ہوگئی۔ کسی کو بھی اس سے محبت ہوسکتی تھی، وہ ایسی ہی تھی، صبح کاذب کی صبا، جاڑے کی نرم دھوپ، دیر آزردہ رات چڑھنے والا نشہ یا پھر بھور کے سمے تنور سے اٹھنے والی سوندھی مٹیالی خوشبو، جیسے برف زار وادی کے آبشار سے گرنے والا پانی سنگریزوں سے ٹکرا کر، کھلکھلا کر ہنس پڑے اور اپنی راہ چل پڑے۔ وہ پانی تھی صاف شفاف، تھوڑی شیریں تھوڑی سی نمکین۔ وہ سنگریزے کے علاوہ بھلا اور کیا ہوسکتا تھا، وہ سنگریزے سے ٹکرائی، ٹھہر کر، جھجھک کر دیکھا اور پھر کھلکھلا کر اپنی راہ چل پڑی۔وہ بھی چل پڑا۔ اسے کوئی حیرت بھی نہیں ہوئی؛ یوں گویا وہ اسی کام کے لئے پیدا ہوا تھا اور برسوں دھونی رمانے کی تپسیا رنگ لائی تھی یا پھر یوں کہ جیسے روز کے ہونے والے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی تھا۔ تو کیا اس نے کوئی تپسیا کی تھی؟ کیا یہ بھی روز کا ایک کام تھا؟ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ یہ اس کی سب سے بڑی محرومی ضرور تھی لیکن اس کے لئے اس نے کوئی تپسیا نہیں کی تھی، اور کچھ چیزیں تو تپسیاؤں سے بھی حاصل نہیں ہوتیں، انہیں میں سے ایک عشق کا روگ ہے جو بغیر لگائے بھی لگ سکتا ہے، قبل اس کے کہ سانس تھمے، آنکھ جھپکے، واقعتاً دفعتاً۔ اور یوں بھی ہوسکتا ہے کہ ساری عمر کی تپسیا کے باوجود آپ اس کے نرم پھوار لمس سے محروم رہ جائیں۔ اس کا عشق میں مبتلا ہونا کوئی روز کا کام نہیں تھا، یہ اب تک کی زندگی کا سب سے بڑا حادثہ تھا جس نے ہست وبود کے تاروپود کو ادھیڑ کر رکھ دیا اور ایک نئی خلعت فاخرہ سے سرفراز کیا۔ اس نے، جو کہ ہر وقت بے چین و سرگشتہ اور ہر شے سے نالاں و سرگراں سا پھرا کرتا تھا، اب بات بے بات الجھنا بند کردیا تھا۔ خاموش پرسکون سمندر کی طرح ہوگیا تھا جس کے نیچے تہہ بہ تہہ موجیں وصال و فراق کے زمزمے پڑھتی ہیں اور سطح آب کو خبر نہیں ہوتی۔ محفل یاراں ہو یا موسم باراں اب ہر سو وہی جلوہ گر دکھائی دیتی تھی۔وہ جو کہ اپنی رائیگانی و سرگردانی کے لئے ہمہ وقت خالقِ خاکدان کو کوستا رہتا تھا اب اس سے محبت کرنے لگا تھا کہ اگر وہ مجھ پر مہربان نہیں ہوتا تو بھلا عشق کے میکدے کا دروازہ کیوں کھولتا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب دست کرم کشادہ کرنے والے سارے مونس و غم خوار اسے خود ترحمی کا مریض قرار دیتے ہوئے ایک ایک کرکے اپنی کھڑکیاں بند کرتے جارہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ کام دھام کچھ نہیں کرتا ہے صرف اپنا اور حالات کا مرثیہ پڑھتا رہتا ہے، سو اس نے بھی اپنے اور حالات کے رونے کا دھارا ادھر دوسری طرف موڑ دیا۔المیہ یہ تھا کہ ایک طرف کشاکش غم دنیا گل کترنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی اور دوسر ی طرف گلزار وجود و بود میں ساری ضوریزیاں اسی برق وش کی بدولت تھیں۔بہرحال اس نابکار کو کائنات کا ساتواں در وا ہونے پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
کوئی پانچ چھ ماہ تک یہ سلسلہ چلا، دن دن نہیں رہا، رات رات نہیں رہی، صبح و مسا جو کچھ رہا صوفی رہی، جو کچھ گزر رہا تھا شور و خروش اور خیرو شر کے غوغائے رستاخیز سے بے نیاز، صوفیانہ اور کافرانہ گزر رہا تھا۔تاحد نظر ایک سراب، تا حد خیال آبجو۔ اب وہ تھا،صوفی تھی اور درون ذات دھیمی آگ پر سلگتی ہوئی ہزار محرومیاں جو غالباً اکسیر ازل کی منتظر تھیں۔ پھر ایک شفق آمیز شام کاسۂ خواب ٹوٹ گیا، ایک آواز پیدا ہوئی، جلتے توے پر پانی کی بوند گرنے سے پیدا ہونے والی چھن کی آواز جیسی۔
’سُن! ہمارے اس رشتے کا کوئی مستقبل نہیں ہے، اس میں کسی طرح کی کوئی آسودگی نہیں ہے، خلش ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے، میرا شوہر کینسر کا مریض ہے، اس کی دیکھ بھال بھی مجھے ہی کرنی ہوتی ہے، بیٹی ہائی اسکول میں ہے، میں خود ایک کمپنی میں ۹ گھنٹے ملازمت کرتی ہوں۔ ہمارے درمیان دن رات کا فرق ہے، میں فری ہوتی ہوں تو تو بزی ہوجاتا ہے، اب اس سلسلے کو یہیں ختم کرتے ہیں‘۔ اسے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ صوفی سے قبل بھی دو تین تیر خوردہ غزال زخمی روح اور پیاسی انا لئے ہوئے اس کی زندگی میں آئی تھیں، جب ان کی روح مطمئن اور انا سیراب ہوگئی، ذات میں اعتماد کا بانکپن بحال ہوگیا تو واپس اپنے ختن میں چلی گئیں۔ صوفی صاف گو تھی لیکن اس قدر سفاک ناک حد تک، اس کو اندازہ نہیں تھا۔کچھ دن تو بے یقینی میں گذر گئے پھر دن ہفتوں میں تبدیل ہوگئے اور بے یقینی یقین میں بدلنے لگی تو اس نے روزن رفتہ سے دیکھنا شروع کیا۔ پہلی وجہ تو درست تھی کہ وہ سات سمندر پار امریکہ میں رہتی تھی اور وہ شہر آشوب کے مضافات میں جیسے تیسے مرنے میں صرف ہو رہا تھا لیکن یہ بات درست نہیں تھی کہ دونوں کا کوئی مستقبل نہیں تھا، بس یوں کہہ لیں کہ صوفی نے کوشش نہیں کی اور اس نے کوئی زور نہیں دیا۔ سچ بات یہ ہے کہ صوفی نے اس کو زور دینے کی حالت میں رکھا ہی نہیں تھا۔صوفی تعلق کو ایک حد سے آگے نہیں لے جانا چاہ رہی تھی، وہ خوبصورت مستقبل، شادی یا جنسی معاملات سے متعلق گفتگو پر طرح دے جاتی تھی۔پھر اس کا یہ کہنا کہ کوئی آسودگی نہیں ہے، کیا معنیٰ رکھتا ہے، وہ کون سی ایسی آسودگی چاہتی تھی جسے وہ فراہم کرنے سے قاصر تھا، پھر یہ خلش کس چیز کی ہے، کیوں بڑھتی جارہی ہے؟ غلط کہاں ہوا؟ اچانک اس نے اس خوبصورت تعلق کو ختم کیوں کردیا؟ کہیں اس کے شوہر کو پتہ تو نہیں چل گیا؟ ایسے کئی سوالات تھے جن کا جواب سردست اس کے پاس نہیں تھا، یوں تو مطلع بالکل صاف تھا لیکن وہ اتنا قریب آچکا تھا کہ چہرہ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ اس کو اسباب تو کچھ خاص سمجھ میں نہیں آئے سوائے پہلے سے قائم چند مفروضوں کے کہ خود کفیل اور معاشی طور پر آسودہ حال حوّازادیوں کا اس طرح نفسیاتی انتقام لینا ایک عام رویہ بن گیا ہے لیکن صوفی منفی ذہن نہیں رکھتی تھی سو اس نے اپنے اس مفروضے کو باطل قرار دیتے ہوئے اس کی مجبوریوں کو تسلیم کرلیا۔دراصل اس نے صوفی کی مجبوریوں کو نہیں بلکہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیا کہ صوفی کو اس سے محبت نہیں تھی اور اس نے ایسا کبھی کوئی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا۔یہ اس کی اپنی غلطی تھی کہ صوفی کی رفاقت کو وقتی آبسیشن کے بجائے محبت سمجھ بیٹھا تھا۔ اسی نقطے پر آکر وہ منجمد ہوجاتا اور رائیگانی کا احساس نیش عقرب کی طرح ڈنک مارنے لگتا۔ ’تو کیا میں واپس مسترد کیا جاچکا ہوں؟ لیکن کیوں؟ کیا اب میں اس لائق بھی نہیں رہا کہ کوئی مجھ سے محبت کرسکے؟‘ ایسے ہی پریشان کن سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لئے اس نے واپس ماضی کے الاؤ میں دبی راکھ کو کریدنا شروع کیا کہ وہ کون سی ایسی چنگاری تھی جس نے اسے خاک کر دیا۔ اس کا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ دونوں میں سماجی و معاشی تفاوت کی وسیع خلیج ہے اور کامیاب عورت ذہین کے ساتھ ساتھ کامیاب مرد کو پسند کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
یہ سلسلہ سوشل میڈیا پر ایک ادبی گروپ سے شروع ہوا تھا، اس نے کوئی ایک جدید رجحان کی ترجمان غزل پوسٹ کی تھی جس پر نوٹ بھی چڑھا دیا تھا کہ فلاں شعر بیت الغزل ہے۔ گروپ میں خواتین و حضرات ہر قسم کے لوگ تھے لیکن فعال کم ہی تھے جن میں سے ایک وہ بھی تھی۔چونکہ اس کے تعلق سے مشہور تھا کہ وہ بہت گھمنڈی، اکھڑ اور بدمزاج شخص ہے، ہر ایک سے لڑنے جھگڑنے کے مواقع ڈھونڈتا رہتا ہے، اس لئے اس نے وہاں کوئی اعتراض کرنے کے بجائے الگ سے میسج کیا۔
’السلام علیکم! آپ نے جو غزل پوسٹ کی ہے اس میں بیت الغزل کوئی دوسرا شعر بھی تو ہوسکتا ہے، جو شعر آپ کو زیادہ پسند آئے وہی غزل کا سب سے اچھا شعر ہو ایسا ضروری تو نہیں۔دوسری بات یہ کہ یہ طے کرنے کا اختیار آپ کو کس نے دیا کہ فلاں شعر بیت الغزل ہے اور فلاں نہیں، کیا اس طرح آپ اپنی پسند نہیں تھوپ رہے ہیں؟‘
سوال کنندہ کی جرات و بے باکی اور اعتماد سے پر لہجہ بتا رہا تھا کہ اس بار پالا کسی سرپھری، ہٹیلی خاتون سے پڑا ہے۔
’وعلیکم السلام۔ اخلاقاً یہی بات آپ کو وہاں پوچھنی چاہئے تھی جہاں غزل پوسٹ کی گئی ہے‘
’اگر یہاں پوچھ رہی ہوں تو اس کی کوئی خاص وجہ ہوگی، آپ سمجھ سکتے ہیں‘
’ہم صرف اوپینیئن قائم کرتے ہیں، یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ کوئی ایسا ہے تو کیوں ہے، کیوں کہ اس طرح آپ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، آپ بھی وہی کر رہی ہیں۔‘
’آپ ایسے کیوں ہیں، نہ تو یہ میرا مسئلہ ہے اور نہ ہی میں اس کے لئے ذمہ دار ہوں، لیکن آپ رہتے کیسے ہیں یہ ایک سماجی ایشو ضرور ہے۔‘
اس نے اپنے طور پر واضح کرنے کی کوشش کی لیکن وہ قائل نہیں ہوئی اور گفتگو کا رخ بحث کی طرف مڑ گیا جس سے وہ ہمیشہ گریز کرتا تھا۔ رات کے کوئی دو بج رہے تھے اور چونکہ وہ صوفی کی ادبی بضاعت سے واقف نہیں تھا اس لئے جھنجھلا کر جواب دیا ’محترمہ بات یہ ہے کہ کل نہیں پرسوں قربانی ہے اور ابھی تک میں بکرا نہیں لا سکا ہوں، میرے اپنے بہت مسائل ہیں، فی الحال موڈ ٹھیک نہیں ہے‘ یہ کہتے ہوئے اس نے نیٹ بند کردیا یا دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہوگیا،کچھ معلوم نہیں۔ بہر کیف اس کے نزدیک یہ آئی گئی بات تھی کیوں کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کا تعامل عام سا واقعہ ہے۔یوں بھی عورتوں کے تعلق سے منفی و مایوس کن تجربات نے اسے کچھ بے نیاز سا بنا دیا تھا کہ وہ ان کے پیچھے نہیں پڑتا تھا، ٹوہ میں نہیں رہتا تھا، نخرے اٹھانا تو بہت دور کی بات تھی، اور پھر جب دنیا بھر کے مسائل مانند نہنگ منہ کھولے کھڑے ہوں تو یاد داشت کی عمر بھی ڈھلنے لگتی ہے۔ وہ اس حادثے کو تو بھول چکا تھا لیکن صوفی کے ذہن سے محو نہیں ہوا۔ اس کی اپنی مصروفیتیں تھیں،شدید تر، لیکن کچھ باتیں اسے ہانٹ (Haunt) کر رہی تھیں۔ قربانی، بکرا، غربت، ذہانت اور بدمزاجی۔ اس کے دل میں کئی بار خیال آیا کہ گروپ کے کچھ دوسرے معتبر دوستوں سے پتہ کیا جائے لیکن یہ سوچ کر رک گئی کہ کیا معلوم لوگ بات کا بتنگڑ بنانا شروع کردیں، انباکس کردار کشی بہت عام ہے، جب تک آپ کو پتہ چلے گا آپ کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسک چکی ہوگی۔ کوئی پندرہ دن گزرے ہوں گے کہ دیر رات پھر ایک میسج پاپ اپ (Pop up) ہوا۔
’السلام علیکم! اب آپ کا موڈ ٹھیک ہے؟‘
وعلیکم السلام! جی فرمائیں کیسے ہیں آپ؟
’الحمدللہ،اس دن آپ نے اچھا ٹریٹ نہیں کیا، مجھ سے زندگی میں اس طرح کسی نے بات نہیں کی، میں انتظار کرتی رہی کہ شاید بعد میں آپ کوئیapologetical (معذرخواہانہ) میسج کریں‘۔
’جی میں اپنے رویے کے لئے معذرت خواہ ہوں، لیکن اب جو ہے یہی ہے، اگر ’فِلٹرنگ‘ آپ کو پسند ہے تو پھر مجھے کوئی پرابلم نہیں‘ اور یوں گفتگو جس موڑ پر رک گئی تھی وہیں سے واپس شروع ہوئی۔مسئلہ یہ تھا کہ اسے اس کا نام نہیں معلوم تھا اور براہ راست پوچھنا معیوب لگ رہا تھا، اس نے جب حیلے بہانے سے پوچھنے کی کوشش کی کہ آپ کس نام سے لکھتی ہیں؟ شاعری کرتی ہیں؟ کیا تخلص رکھا ہوا ہے اور ہر سوال کا جواب نفی میں ملا تو لازمی ہوگیا کہ براہ راست نام پوچھ ہی لیا جائے۔
اس نے اپنا پورا نام بتاتے ہوئے کہا ’آپ مجھے صوفی کہہ سکتے ہیں‘
’صوفی‘ سنتے ہی وہ چونک پڑا ’واہ، کیا بات ہے،مجھے صوفیز چوائس (Sophie’s Choice) یاد آگئی۔ آپ نے یہ فلم دیکھی ہے؟‘
صوفیز چوائس کا نام سنتے ہی صوفی بھی چونک پڑی۔ کچھ حوالے آدمی کو بری طرح چونکاتے ہیں کیوں کہ وہ نہ صرف تشکیل پزیر مبہم و منفی گمان کو رفع کرتے ہیں بلکہ آدمی کی شخصیت و ذہانت کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔
’میں نے اور میرے ہزبینڈ دونوں نے دیکھی ہے اور کئی بار دیکھی ہے، میرل اسٹریپ ہم لوگوں کی فیورٹ اداکارہ ہے‘
صوفی کو یاد آیا کہ جب وہ دونوں فلم دیکھنے کے بعد شدید ذہنی اضطراب کے عالم میں ایک بدن بنے ہوئے تھے تو اس کے شوہر نے کہا تھا کہ جب زندگی میں اس طرح کبھی ناممکن چوائس کی بات آئے گی تو مجھے معلوم ہے کہ تم مجھے منتخب نہیں کرو گی، تم مجھے ’چوز‘ نہیں کروگی کیوں کہ تم اب اس سے اوپر اٹھ چکی ہو۔
’ اب میں ایک سوال پوچھنا چاہوں گا۔ آشوِز کنسینٹریشن کمیپ میں صوفی اپنے بیٹے کو کیوں منتخب کرتی ہے بیٹی کو کیوں نہیں؟‘
صوفی خود جاننا چاہتی تھی کہ آخر اس کردار نے عورت ہونے کے باوجود بیٹے کی جگہ بیٹی کی قربانی کیوں پیش کی؟ صوفی کو اپنے دونوں بچوں میں سے کسی ایک کی زندگی بچانے کا اختیار دیا گیا تھا، یہ ناممکن چوائس تھی اور اسے دونوں میں سے کسی ایک کو فوراً منتخب کرنا تھا بصورت دیگر دونوں مار دیئے جاتے۔
’ آپ ہی بتائیں کیا وجہ ہوسکتی ہے۔‘
’میرے خیال میں صوفی اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ یہ دنیا اس کی بیٹی جیسی خوبصورت وجود کے لائق نہیں رہ گئی ہے، یہ مرد اساس معاشرے پر اس کا بہت بڑا طمانچہ تھا‘
’ بعض اوقات مجھ کو بھی ایسا ہی لگتا ہے۔مجھے تو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ فلموں کے تعلق سے ہماری پسند کم و بیش ایک جیسی ہے۔ آپ کے بارے میں میرا تاثر صحیح تھا کہ آپ رف (rough) نظر آتے ہیں لیکن ہیں نہیں‘
’ایک بات پوچھوں؟ کیا آپ کی زندگی میں بھی ’صوفیز چوائس‘ جیسا کچھ چل رہا ہے؟
’کیوں؟ آپ اس سوال تک کیسے پہنچے؟ آپ کی زندگی ایسی ہی کچھ ہے کیا؟‘
’یہ میرے سوال کا جواب نہیں‘
’ سب کی زندگی میں صوفیز چوائس جیسا کچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے۔آپ سے بات کرکے بہت اچھا لگا، آپ کے یہاں اس وقت صبح کے پانچ بج رہے ہیں، اب آپ کو سو جانا چاہئے‘
’کوئی بات نہیں۔ کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو‘
آخری جملے نے صوفی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، وہ محو حیرت تھی کیوں کہ وہ بھی ایسے ہی کسی شخص کی تلاش میں تھی جو اس کی وحشتوں کا ساتھی بن سکے اور پھر دونوں ایک دوسرے کی وحشتوں کے اسیر ہو گئے۔ صوفی کی وحشت رومانی شعرو شاعری سے کبھی آگے نہیں بڑھی۔ ایسا نہیں کہ اس کے اندر بدنی خواہشوں کا سرچشمہ سوکھ گیا تھا، وہ اپنی عمر سے دس سال چھوٹی جوان اور ستیزہ خیز تھی لیکن ہر چیز نپے تلے فاصلے پر رکھتی تھی۔ وحشتوں کا یہ سلسلہ جب باقاعدہ شروع ہوا تو صوفی پرت در پرت منکشف ہونے لگی لیکن شرم و آزرم کو برقرار رکھتے ہوئے، اس نے کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ سماجی، معاشی و جغرافیائی ہر اعتبار سے بہتر پوزیشن میں ہے۔بیشتر مشرقی عورتوں کی طرح اسے بھی سسرال کی طرف سے مختلف قسم کی اذیتوں کا سوغات ملا، ساس سسر نے میاں بیوی میں نفاق پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی، بہتان لگائے، کردار کشی کی اور جو سب سے بڑی اذیت دی گئی وہ یہ کہ ۱۴سال تک اپنے گھر میں اردو زبان نہیں بول سکی لیکن کسی بھی دشواری کو اس نے اپنی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا، متانت اور شائستگی کے ساتھ وہ جانب منزل رواں رہی، جد وجہد کے اس کٹھن سفر میں ہر چند کہ وہ اپنی زندگی نہیں جی سکی لیکن اس نے اپنی معصومیت کو مرنے بھی نہیں دیا، اس دوران کئی مہربان ہاتھ آگے بڑھے ، کچھ گربزانِ گیتی ثابت ہوئے، اور کچھ چند ہفتوں کی ہمرکابی کے بعد تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ بقول صوفی’ سب کی اوقات ایک ہفتے میں پتہ چل جاتی تھی‘۔
’صوفی ! بہت تھکی ہوئی لگتی ہے‘
’یہ زندگی کی تھکن ہے رے بابا‘
’اتار دوں؟ ‘
’تو نہیں اتار سکتا، یہ موت کے ساتھ ہی اترے گی ‘
’ایک بار اجازت دے کر تو دیکھ‘
’ایک کو اجازت دی تھی، اس نے اور نڈھال کردیا‘
اس سے آگے وہ کبھی نہیں بڑھنے دیتی تھی، پھر جب اس نے ترک تعلق کا فیصلہ سنایا تو اسے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ وہ بھی اس کے بے رس رویے سے تنگ آچکا تھا اور اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ صوفی اسے محض ایک اچھا آڈینس سمجھتی ہے اور جب ذہن آڈینس تک پہنچا تو یہ ہوا کہ آڈینس تو بہت سارے ہوسکتے ہیں۔
پھر یوں ہوا کہ مہینوں دونوں طرف خامشی رہی، کسی نے کسی کی خبر نہیں لی۔ وہ واپس اپنی دنیا میں لوٹ آیا جہاں بے روزگاری تھی، افلاس کے مارے بچے تھے، ادرک کی طرح پھیلی ہوئی لڑاکو بیوی اور گھر کا بھوکا جہنم۔
’اتنی جلدی اسکول سے کیسے چلا آیا‘ اس کی بیوی نے بڑے بیٹے سے گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
’امی اسکول فیس نہیں بھری ہوئی ہے۔ پرنسپل میم نے اکزام میں بیٹھنے سے منع کردیا‘
بیوی نے اپنے شوہر کی طرف جو ایک کونے میں کچھ کتابیں پھیلائے بیٹھا تھا، دیکھتے ہوئے کہا
’جا، کل سے کوئی کام ڈھونڈ لے، پڑھ لکھ کر تو بھی اپنے باپ کی طرح ہوجائے گا‘۔ اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا کیوں کہ یہ کوئی نئی گالی نہیں تھی، یہی گالیاں اس کے گھر خاندان کے لوگ بھی دیا کرتے تھے۔
وہ سوچنے لگا کہ غیرت مند ہونا، حساس ہونا، خوبصورت ذہن رکھنا یہ سب کتنا بڑا عذاب ہے اگر ان کی تکمیل یا تحفظ کے وسائل نہ ہوں۔ مجھے غیرت مند بنایا اور غیرت کی حرمت کے وسائل سے کنگال رکھا، اب جہاں تہاں یہ سر جھک جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر بچوں کو بھوکا تو نہیں مار سکتا لیکن غیرت کی آبرو کا پاس رکھنے والے آستانے بھی تو ہوں۔ ایک طرف تو وہ کہتا ہے کہ ’انسان کے لئے وہی سب کچھ ہے جو اس نے کوشش کی‘ اور دوسری طرف کہتا ہے کہ سب کچھ ہم نے انسان کی تقدیر میں پہلے سے لکھ دیا ہے۔ پھر یہ جو کروڑوں غیر مسلم بڑی بڑی کمپنیوں، وسیع و عریض بنگلوں اور لگژری گاڑیوں کے مالک ہیں ان کی کوشش ہم سے بہتر ہے یا تقدیر؟ اسی مقام پر آکر اس کے یقین کے پر جلنے لگتے۔ اگر یہ خدا ’اذیت پسند‘ ہے تو یہی سہی۔ بہر حال اسے اتنا تو یقین تھا کہ وہ آدمی کو اس کے نفس کی وسعت سے زیادہ نہیں آزمائے گا یعنی یہ کہ ابھی اس کے نفس کی وسعت کچھ اور ہے۔
جب حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہوجاتے تو اسے صوفی کی یاد آتی تھی، صوفی نے ایک دو بار مدد کی تھی لیکن تعلق منقطع ہونے سے قبل جب اس نے باتوں باتوں میں اسکول فیس بھرنے کی ضرورت کا اظہار کیا کہ صدقہ زکوٰۃ بھی چلے گا تو اس نے صاف لفظوں میں منع کردیا تھا اور اب تو کوئی تعلق ہی نہیں رہ گیا تھا۔ اس نے بچے کو دلاسا دیا اور گھر سے باہر چلا آیا۔ وقت کا کام ہے گزرنا سو گزرتا چلا جاتا ہے، اس کا کوئی گزران نہیں، دن، ماہ اور ماہ سال میں بدل گئے، حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہوئے۔
عید سے دو دن قبل جب موسلا دھار بارش میں میٹرو پکڑنے کے لئے بھاگ رہا تھا تب صوفی کا فون آیا۔ دعا سلام کے بعد اس نے پوچھا۔
’گیس، میں کہاں ہوں؟‘
’کہاں ہے؟ ممبئی میں؟ کب آئی؟‘
’ہفتہ بھر ہوگیا‘
’اور آج فون کررہی ہے؟‘
’ آتے ہی بزی ہوگئی، رمضان، عید کی شاپنگ وغیرہ، یو نو۔ اچھا یہ بتا تونے شاپنگ کی؟‘
’نہیں‘
’کیوں؟‘
’ابھی تنخواہ نہیں ملی ہے، ہوسکتا ہے کل مل جائے‘
’میں کچھ ہیلپ کروں؟‘
’رہنے دے۔ بچوں کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ وہ convenient compartment میں نہیں ہیں، میں نے آئی پیڈ مانگا تھا وہ تو تونے منع کردیا۔‘
’سن۔ آئی پیڈ تیری خواہش تھی، جب تیرے پاس اپنے پیسے ہوں گے تو خواہش پوری کرلینا‘
’یہی تو مسئلہ ہے صوفی کہ خواہش روز کی ضرورت نہیں ہوتی، محرومیاں سلگ کر شرربار ہوتی ہیں تو خواہش جنم لیتی ہے‘
من جملہ دیگر باتوں کے اس نے ملاقات پر زور دیا لیکن صوفی نے کوئی وعدہ نہیں کیا، بس اتنا کہا کہ گھر والے اسے اکیلا نہیں چھوڑتے، پھر بھی وہ کوشش کرے گی۔ گفتگو کچھ سخت کلامی کے ساتھ ختم ہوگئی، عید گزر گئی اور وہ واپس سات سمندر پار چلی گئی۔ اسے دیکھنے، چھونے، ساتھ کافی پینے کے خواب طاق پر پڑے رہ گئے۔ایک سال اور گزر گیا، وہ رابطے میں رہی لیکن برائے نام۔ ایک عید اور گزر گئی پھر ایسے ہی دو سال اور گزر گئے۔ ایسا نہیں ہوا کہ وہ صوفی کو بھول گیا تھا، نہیں، بالکل نہیں، جب وہ جذباتی یا مالی بحران سے دوچار ہوتا تو صوفی سے بات کرنے کے بارے میں سوچتا لیکن پھر خود ہی ارادہ ترک کردیتا اور ڈائری کے اوراق سیاہ کرنا شروع کردیتا۔
’’رات جب دن سے بڑی ہونے لگتی ہے، سانس جب شریانیں پھاڑنے لگتی ہے، جب بارش برستے ہوئے تھک کر رونا شروع کردیتی ہے اور قطرے ہیہات ہیہات کا بین کرنے لگتے ہیں، جب آس پاس کے سارے چہرے ہیکل میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور چلتے چلتے پیر کنکروں سے کھیلنے لگتے ہیں، دماغ ٹھہرنے اور دل بند ہونے لگتا ہے تب موت کی خامشی سنائی دیتی ہے اور جب موت کی خامشی بولنے لگتی ہے تو صوفی چشم تر میں گھومنے لگتی ہے۔‘‘
’ابا جارہے ہیں تمہارے گھر پر، ایک گھنٹے میں پہنچ جائیں گے‘ ایک دن شام پانچ بجے کے آس پاس صوفی کا میسج آیا۔ ’ابا کو گھر پر مت لے جانا، نیچے ہی مل لینا۔‘
’کال کروں؟‘
’سوری، ابھی میں بہت بزی ہوں، فارغ ہونے کے بعد میں خود کر لوں گی‘۔ وہ صوفی کے والد سے ملنے کے لئے مقررہ وقت پر بلڈنگ کے نیچے پہنچ گیا۔ایک گھنٹے بعد واپس میسج آیا۔
’ابا تمہاری بلڈنگ کے نیچے لفٹ کے پاس کھڑے ہیں، تمہارا انتظار کررہے ہیں۔‘
’میں بھی نیچے ہی کھڑا ہوں‘ دراصل وہ نیچے ہی تھا لیکن انتظار کرتے ہوئے گیٹ کے باہر چلا گیا تھا۔
وہ جب اپنی بلڈنگ کے پاس پہنچا تو وہاں ایسا کوئی بزرگ نظر نہیں آیا جس پر صوفی کے والد کا گمان ہوتا، لیکن لفٹ کے پاس پینتس چھتیس سال کی ایک عورت بیٹھی ہوئی ملی۔ وہ دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ صوفی ہے لیکن پھر دماغ نے کہا کہ وہ امریکہ میں بیٹھی ہوئی ہے، یہاں کہاں ہو سکتی ہے اس لئے شدید کنفیوژن کا شکار ہوگیا اور سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھ بیٹھا ’آپ صوفی کی چھوٹی بہن ہیں؟‘
’نہیں، میں صوفی ہوں‘ وہ اٹھ کر گلے ملنا چاہتی تھی، مصافحہ کرنا چاہتی تھی، وہ اٹھی بھی لیکن اس سے قبل کہ برابر کھڑی ہوتی واپس بیٹھ گئی۔
’لیکن تو تو امریکہ میں تھی‘ وہ جھینپتا ہوا، ہونق کی طرح سامنے کھڑ ہوگیا۔ وہ اس پشیمانی میں تھا کہ پہچان نہیں سکا اور جب تک وہ موجود رہی اس پشیمانی سے باہر نہیں نکل سکا۔
’میں تجھے سرپرائز دینا چاہتی تھی۔ کیسا رہا یہ سرپرائز؟‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
وہ صوفی کے بغل میں بیٹھ گیا، کانشیس ہوکر، مغرب کی نماز ہورہی تھی، والد نماز پڑھنے گئے تھے اور دونوں کے پاس نماز ختم ہونے تک کا وقت تھا۔
’اب ایسا بھی سرپرائز نہیں دینا چاہئے کہ آدمی کی جان ہی نکل جائے‘ اس نے دزدیدہ نگاہوں سے صوفی کے سراپا کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’تجھے اچھا نہیں لگا؟‘ اس نے استسقائی آنکھوں سے پوچھا۔
’اس سے زیادہ خوبصورت سرپرائز زندگی میں اور کیا ہوسکتا ہے؟‘
’جب تونے کہا کہ تو بلڈنگ کے نیچے ہے تو میری نگاہ کرسی پر بیٹھے واچ مین پر پڑی۔ یہ تو نہیں ہوسکتا، اتنا دبلا پتلا، سانولا، پستہ قد، منحنی سا، چہرے پر کوئی چمک نہیں۔ پھر تو آتا ہوا دکھائی دیا اور میں پہچان گئی۔ یہ تو ہی ہے۔ منتشرالخیال، الجھا ہوا پریشان سا، فلسفیوں جیسا۔ تو ریئل میں بھی فلسفی ہی دکھتا ہے، سوچتا ہوا، بے پروا سا‘۔
’خود ہی دیکھ لے، کیسا رائیگاں جا رہاں ہوں۔‘
’ تجھے دیکھتے ہی فوراً یہی خیال پیدا ہوا تھا۔‘
جب غیر متوقع طور پر یہ معجزہ رونما ہوا تو اسے صوفی سے اور محبت ہوگئی، جب تک صوفی رہی وہ اس کے سامری سحر سے باہر نہیں نکل سکا، اس نے ایک aura (نور کا ہالہ) محسوس کیا جو اس کی نگاہوں کو بدن کے پار ہونے سے روک رہی تھی۔ صوفی بالکل صوفی نظر آرہی تھی، اپنے وجود کے شرر سے بے خبر۔ سرو قد، خوابشار آنکھیں، چہرے پر مریم جیسی معصومیت جو اس کے باطنی تقدس کا اظہاریہ تھیں۔ اگر وہ چاہتی تھی کہ کوئی اسے اپنی غزل کا موضوع بنائے تو وہ غلط کہاں تھی۔
صوفی واپس چلی گئی اور ساتھ میں سارے خواب بھی۔کسی ریستوران کے سرمگیں کونے میں کافی پینے کا خواب، ساحل کنارے موجوں کے گرم شور میں گم ہونے کا خواب، یا پھر صوفیز چوائس دیکھتے ہوئے ایک بدن ہوجانے کا خواب ۔ وہ سوچنے لگا کہ خدا جب ناراض ہوتا ہے تو وہ آپ کو ناکام عشق کی اذیت میں مبتلا کردیتا ہے اور جب مزید ناراض ہوتا ہے تو اسے ایک ایسے رشتے میں تبدیل کردیتا ہے جسے آپ کبھی own نہیں کرسکتے۔