Home خاص کالم سچ آج کی دنیا میں کہیں بھی نہیں بولا جارہا ہے ـ ابو فہد

سچ آج کی دنیا میں کہیں بھی نہیں بولا جارہا ہے ـ ابو فہد

by قندیل

اگر آپ ایرانی میڈیا سے سعودی عرب کے خلاف کچھ مواد جمع کرتے ہیں تو آپ کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ یہ مواد سوفیصد سچائیوں پر مبنی نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر آپ عرب اور خاص کر سعوی میڈیا سے ایران کے خلاف کچھ مواد (ڈیٹا) جمع کرتے ہیں تو یہ بھی سوفیصد سچائیوں پر مبنی نہیں ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ دونوں جگہ ساری رپورٹنگ، تحقیق اور پیش کش اپنے اپنے ملک اور اپنی اپنی حکومتوں کے فیور میں ہی بنائی اور دکھائی جارہی ہے اوریہ بات اتنی ہی سچ ہے جتنی کسی زندہ انسان کے لیے یہ بات سچ ہوسکتی ہے کہ وہ زندہ ہے، چل پھر رہا ہے اور کھاپی رہا ہے۔
یہ ایک سچائی ہے اور اگر آپ اس سچائی کو یورپ،امریکہ اور ہندوستانی میڈیا میں تلاش کریں گے تو یہ سچائی آپ کے سامنے مزید واشگاف انداز میں ابھر کر سامنے آئے گی کہ میڈیا میں جو کچھ دکھایا اور بتایا جارہا ہے وہ صریح جھوٹ اور پروپیگنڈہ ہے۔
آج کل ٹی وی ڈبیٹ میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے جو ترجمان شامل ہوتے ہیں ، وہ پوری ڈبیٹ میں صرف دو طرح کے ہی استدلال رکھتے ہیں ۔ اول وہ استدلال ،جن سے پارٹی کے کام کو سامنے لایا جاسکے اور دوسرے وہ استدلال جن سے پارٹی لائن کا، کام کا اور طریقۂ کار کا دفاع کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ تیسرا اگر کوئی استدلال ہے تو وہ ترجمان کی اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے ہے۔ باقی کسی بھی پارٹی کے ترجمان کو نہ سچ سے کوئی واسطہ ہے ، نہ ملک کی بہتری سے کچھ مطلب ہے اور نہ ہی عوام سے کچھ غرض۔اسی لیے زیادہ تر ترجمان الزامی جواب سے ہی کام چلاتے ہیں، یہاں تک کہ اگر حزب مخالف کا کوئی ترجمان برسراقتدار پارٹی کے ترجمان کو ملک میں اقلیتوں پر ہورہے جان لیوا حملوں اور ظلم وزیادتی کی یاد دلاتا ہے تو برسراقتدار پارٹی کا ترجمان الزامی جواب کے طورپر جھٹ سے کہتا ہے کہ اورتم نے ستر سالوں میں کتنے دنگے فساد کروائے۔اپنا بھول گئے؟ یہ کہتا ہے کہ تم نے مسجد شہید کروائی تو دوسرا والا جواب دیتا ہے اور تالا کس نے کھلوایا رے بھیا؟ اگر یہ کہے کہ تمہارے دور اقتدار میں ایک لاکھ کسانوں اور مزدوروں نے خود کشی کی ہے تو اس کا جواب ہوگا اور تمہارے دور اقتدار میں تو دو لاکھ لوگوں نے خود کشی کی۔ان میں سے کوئی بھی نہ سچ بولے گا، نہ سچ بولنے دے گا اور نہ ہی سچ کو قبول کرے گا ۔کیونکہ اسے جھوٹ بولنے اور عوام کے سامنے جھوٹ پروسنے کے لیے موٹی موٹی رقمیں دی جاتی ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ ’سچ،آج کی دنیا میں کہیں بھی نہیں بولا جارہا ہے‘۔ اورصرف میڈیا اور سیاست ہی کے تعلق سے یہ بات سچ نہیں ہے کہ وہاں سچ نہیں بولا جارہا ہے بلکہ قومی وملی اداروں، جماعتوں، فرقوں، ملتوں اور افراد کی سطح پر بھی یہ سچ اسی طرح قائم اور ایستادہ ہے کہ وہاں بھی سچ نہیں بولا جارہا ہے۔ اگر بولا جارہا ہے تو بس اتنا ہی جتنے بھر سے لوگوں کی شخصیت کا بھرم قائم رہ سکے۔ ورنہ سچ یہی ہے کہ سچ آج کہیں بھی نہیں بولا جارہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اسلام کا نام لینے والے اور اسلام کی طرف دعوت دینے والے مذہبی ودینی مراکز میں بھی اس سچائی کو کہ ’سچ ،آ ج کی دنیا میں کہیں بھی نہیں بولا جارہا ہے‘ ہر کوئی اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔کیونکہ عصبیتیں ہمارے اداروں میں، خاندانوں میں ،گھروں میں اور دلوں میں موجود ہیں۔ عصبیتیں انسان کے عقل ودل اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیتی ہیں۔اگر آپ مسلم دنیا میں مختلف مسالک کے علماء اور علم برداروں کا لٹریچر پڑھیں گے، خاص کر بعد کے زمانوں میں لکھا گیا لٹریچر ،تو آپ اس سچائی کو پا لیں گے کہ ان میں عصبیتیں پروسی گئی ہیں اور کسی بھی بات کو اس طرح پیش کیا گیاہے کہ سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔جانتے بوجھتے استدلال کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور کسی نہ کسی طرح اپنے مسلک اور فکر کی تائید میں قرآن وسنت کے استدلال کورکھنا ایک کھلا جارحانہ رویہ بن چکا ہے، اب چاہے قرآن وسنت کے استدلال ان کا ساتھ دیتے ہوں یا نہ دیتے ہوں۔ لہذا آپ دیکھیں گے کہ قرآن وسنت سے ایسی ایسی دلیلیں دی گئی ہیں اور تاحال دی جارہی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔
ہمارے اسلامی لٹریچر میں ’مناظرہ‘ کے نام سے بھی ایک بڑا دینی موضوع اور بڑا علمی وعملی میدان ہے اور اس میدان میں بھی بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے ہیں، ان میں سے بعض نے تو ساری زندگی مناظرہ بازیوں میں ہی صرف کی ہے؛لیکن اگر آپ ان کے ذریعے رکھے گئے استدلال کا بغور جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے کسی کے بھی پیش نظر یہ نہیں تھا کہ اسے کسی بھی مسئلے میں ’سچ‘ جاننے کی فکر تھی، بلکہ ان میں سے ہر مناظر کو تحقیق سے پہلے ہی یہ یقین تھا کہ وہی ’سچ‘ پر ہے اور مناظرےمیں اس کے پیش نظر اسی سچ کو دوسرے پر ثابت کرناتھا۔
دیوبند کے دارالافتا کی نظر میں مناظروں میں خیر نہیں، بطور خاص اس وقت جب وہ مسالک کے درمیان ہوں، مگر پھر بھی مناظروں کا بازار تاحال گرم ہے۔

You may also like

Leave a Comment