بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے اقتدار بدر ہونے کے بعد مبصرین مختلف نکات پر بحث کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں نکتہ ’لسانی عصبیت‘ یا زبان کی بنیاد پر وابستگی کا ہے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان مناقشہ کی ابتداءبھی زبان کی ہی بنیاد پر ہوئی تھی۔
حکومت ہند نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں اور خاص طور پر ہندوؤں پر ہونے والے مبینہ حملوں کے تناظر میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت سے سرگرمی کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔ عبوری حکمراں محمد یونس نے جہاں بنگلہ دیش کی ہندو برادری کے درمیان پہنچ کر تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہوئے ان سے معافی مانگی ہے وہیں لوگوں نے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ سے لوٹا ہوا سامان واپس کرنا شروع کردیا ہے۔ تازہ واقعہ یہ ہے کہ خود محمد یونس نے 16 اگست کو وزیر اعظم نریندر مودی کو فون کرکے یقین دہانی کرائی ہے کہ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ہر قیمت پر تحفظ دیا جائے گا۔
میں نے پچھلے ہفتہ عرض کیا تھا کہ روئے زمین پر موجود ہر آمر و جابر حکمراں کے لیے بنگلہ دیش کے واقعات میں جابجا درس عبرت بکھرا پڑا ہے، لیکن اس ایک ہفتہ میں رونما ہونے والے دیگر واقعات اور بنگلہ دیش سے آنے والی دیگر اطلاعات نے مزید کچھ سبق آموز نکات فراہم کیے ہیں۔
بنگلہ دیش کے تازہ احوال نے دنیا جہان میں اپنے ڈنکے خود بجانے والوں کیلئے سُبکی اور خفت کا سامان پیدا کردیا ہے۔ اگر پڑوسی ملکوں کے سیاسی احوال ہماری خارجی پالیسیوں کا رخ متعین کرتے ہیں تو ہمیں پڑوسی ملکوں کے سیاسی احوال سے اپنے اندرونی احوال کا موازنہ بھی کرنا چاہیے۔
انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کے میرے پسندیدہ صحافی ‘شبھ جیت رائے’ اس وقت بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ میں ہیں۔ انہوں نے 11 اگست کو اپنی پہلی رپورٹ میں جو کچھ بتایا تھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسٹوڈینٹس کی جس تحریک کے نتیجہ میں شیخ حسینہ کو اقتدار چھوڑ کر ہندوستان بھاگ کر آنا پڑا وہ تحریک صرف مسلمانوں کی نہیں تھی بلکہ اس میں بنگلہ دیش کے ہندو طلبہ بھی شامل تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریک وزیراعظم کے خلاف تو تھی ہی ساتھ ہی ان کی سیاسی جماعت ’عوامی لیگ‘ کی متشدد پالیسیوں کے بھی خلاف تھی۔
شیخ حسینہ کے فرار کے بعد احتجاجی اسٹوڈینٹس نے عوامی لیگ سے وابستہ لیڈروں کے گھروں پر بھی حملے کیے ۔ یہ سماجی عدم مساوات کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک سیاسی تحریک تھی‘ فرقہ وارانہ تحریک نہیں۔ خاتون قلم کار ’رنکوگھوش‘ نے زبان وثقافت کے تناظر میں بنگلہ دیش کے حالیہ واقعات پر ایک مضمون لکھا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ زبان کی بنیاد پر بنگلہ دیش کے تمام طبقات ایک ہیں‘ یہاں تک کہ ہندوستان کے مغربی بنگال میں بھی وہی مشترکہ لسانی وثقافتی جذبات پائے جاتے ہیں۔ رنکو نے بتایا ہے کہ شیخ حسینہ کا اقتدار ختم ہوتے ہی بلاامتیاز ہر ایک کی زبان پر وہی بنگالی گیت تھا جو تقسیم وطن سے پہلے انگریزوں کے خلاف ’بنگالی ادیب ونغمہ نگار’دیوی جیندر لال‘ نے لکھا تھا۔ رنکو نے مزید بتایا ہے کہ کچھ ثقافتی روایتیں تو ایسی ہیں کہ جن پر ’مذہبی بندشوں‘ سے آزاد ہوکر ہندو اور مسلمان دونوں عمل کرتے آرہے ہیں۔
اب اس تناظر میں دیکھیں تو شیخ حسینہ کے فرار کے بعد رونما ہونے والے توڑ پھوڑ‘ لوٹ پاٹ اور مارپیٹ کے واقعات منفی جوش کا نتیجہ تھے‘ فرقہ وارانہ منافرت کا نہیں۔ لیکن اس کے باوجود کچھ ہندو گھروں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کے واقعات رونما تو ہوئے ہی ہیں۔ اس ضمن میں حکومت ہند نے کھلے طور پر جو تشویش ظاہر کی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اس پر فوراً توجہ دی۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ اس نے ہندوؤں پر ہونے والے ان حملوں سے انکار بھی نہیں کیا۔
محمد یونس نے 8 اگست کو چارج سنبھالا۔ اسی روز وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوؤں پر حملوں کے تعلق سے تشویش ظاہر کی اور اگلے ہی روز 9 اگست کو عبوری حکمراں محمد یونس خود ڈھاکہ کے سب سے بڑے ’ڈھاکیشوری مندر‘ پہنچ گئے اور ہندو رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اسی روز مندروں اور چرچوں پر حملوں کے واقعات کی رپورٹ درج کرانے کے لیے باقاعدہ ایک ’ہاٹ لائن‘ بھی قائم کی گئی۔ محمد یونس نے ہندو مذہبی رہنماؤں سے معافی مانگتے ہوئے انہیں یقین دہانی کرائی کہ انہیں برابر کے حقوق حاصل ہیں اور انہیں انصاف فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’حقوق سب کے مساوی ہیں‘ ہم سب ایک ہیں‘ ہمارے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے‘ ہم سب انسان ہیں اور یہی ہماری قدر مشترک ہے۔ ہمارا ایڈمنسٹریشن اقلیتوں کے عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرنے اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے آپ کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔‘‘
یہ موقع موازنہ کرنے کا نہیں ہے لیکن کیا ہندوستان کے مسلمان 2014 سے اپنے حکمرانوں کے منہ سے اسی طرح کے الفاظ سننے کا انتظار نہیں کر رہے ہیں؟ اس کے برعکس وزیر اعظم نے دوران الیکشن کیا کیا نہیں کہا۔ لیکن ان کے منہ سے ہندوستان کا مسلمان یہ سننے کو ترس گیا کہ حقوق سب کے مساوی ہیں‘ ہم سب انسان ہیں اور یہی ہماری قدر مشترک ہے اور یہ کہ ہمارا ایڈمنسٹریشن اقلیتوں کے عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرنے اور تحفظ فراہم کرنے کےلیے آپ کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
اس کی بجائے وزیر اعظم نے اپنے حامیوں کے درمیان کانگریس پر نشانہ لگاتے ہوئے یہ کہا کہ ’’یہ آپ کا حق چھین کر زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو دیدیں گے‘‘۔ شرپسند ہر معاشرہ میں ہوتے ہیں۔ لیکن حکومتوں کا فرض ان کی سرگرمیوں پر قدغن لگانا ہوتا ہے‘ ان کا ساتھ دینا اور ان کا حوصلہ بڑھانا نہیں۔ ہمیں دکھ ہے کہ ہم بہ حیثیت ملک اس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہے۔
محمد یونس نے ہندو رہنماؤں سے کہا کہ ’ہماری جمہوری خواہشات میں ہمیں ہندو‘ مسلم اور بدھشٹ نظر نہیں آنا چاہیے بلکہ ہمیں فقط انسان نظر آنا چاہیے ‘۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کی جڑ ادارہ جاتی نظام کے اندر ہے‘ اس نظام کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما ’بدھا دیب دھر‘ نے کہا کہ حملوں کے 205 واقعات ہوئے ہیں لیکن مقامی مسلمان ہمارے مندروں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ سب سے بڑے ڈھاکیشوری مندر پر بھی مسلمان ہی پہرہ دے رہے ہیں۔ بدھادیب دھر نے مزید کہا کہ ہندوؤں پر حملوں میں اضافہ کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ زیادہ تر پولیس اسٹیشن خالی پڑے ہیں‘ پولیس اہلکاروں کو اسٹوڈینٹس کے ردعمل کا خوف ہے کیونکہ شیخ حسینہ کی حکومت میں ان پر پولیس نے سخت تشدد برتا اور پولیس کی گولیوں سے درجنوں مظاہرین ہلاک ہوئے۔
ہندو رہنما کی اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو وہاں کی پولیس پر اعتبار ہے کہ مشکل حالات میں وہ ان کا تحفظ کرے گی۔ ایک اور ہندو لیڈر نے کہا کہ ہندوؤں پر حملوں کا ایک سیاسی پس منظر بھی ہے۔ زیادہ تر ہندو گھرانے عوامی لیگ سے وابستہ ہیں‘ اس کے علاوہ کچھ شرپسند عناصر نے پولیس کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاکر لوٹ پاٹ مچانے کی غرض سے ہندوؤں پر حملے کیے اور کچھ واقعات توخود ہندوؤں کی باہمی اور پرانی رقابت کے نتیجہ میں بھی ہوئے۔۔
حکمرانوں اور ان کی پالیسوں کے ستائے ہوئے اسٹوڈینٹس اور نوجوانوں نے ہرچند کہ ایک غیر منظم تحریک شروع کی تھی لیکن شیخ حسینہ کی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کے بعد مظاہرین نے خود کو منظم کیا اور بنگلہ دیش اور خاص طور پر ڈھاکہ کی سڑکوں پر لا اینڈ آرڈر اور ٹریفک نظام سنبھالا۔ یہی نہیں بلکہ وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ سے جو کچھ سامان لوٹا گیا تھا اسے واپس جمع کرنے کی مہم بھی شروع کی گئی۔ شبھ جیت کی رپورٹ کے مطابق تادم تحریر 70 فیصد لوٹا ہوا سامان واپس جمع کرا دیا گیا تھا۔ ایک شخص نے ایک لاکھ ’ٹکا‘ لوٹے تھے جو اس نے واپس کردیے ہیں۔ ایک اور شخص نے کہا کہ وہ ایک بطخ لوٹ کر لے گیا تھا اور اس نے اسے کاٹ کر کھالیا ہے‘ لہذا اب وہ اس کے بدلے رقم جمع کرانے آیا ہے۔
اس تحریک کی سب سے زیادہ متحیر کن بات یہ ہے کہ اس نے چند ہی دنوں میں اتنی ساری اور زبردست تبدیلیاں کر ڈالیں۔ شیخ حسینہ کا تختہ پلٹنے سے لے کر محمد یونس کے عبوری حکمراں بننے تک‘ چیف جسٹس کے استعفے سے لے کر نئے چیف جسٹس کے تقرر تک‘ سب کچھ محض ایک ہفتہ میں رونما ہوگیا۔ اس تحریک کا سبق یہ بھی ہے کہ اپنے ملک کی نوجوان طاقت کو نظر اندازکرنے کا کتنا بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد نے کہا بھی ہے کہ حکومت کو کوٹہ سسٹم کے خلاف بولنا چاہیے تھا اور نوجوانوں اورطلبہ سے بات کرنی چاہیے تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی والدہ نے کس طرز کی آمرانہ حکومت چلائی۔ لیکن جب نظرانداز شدہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر یہ بھی ہوا کہ شیخ حسینہ نے ایک بیان جاری کرکے انصاف مانگا اور کہا کہ 15اگست کو ان کے والد کے یوم وفات پر یک روزہ سوگ کا اعلان کیا جائے۔ لیکن مظاہرین نے ان کی پارٹی کے لوگوں کو ’یوم سوگ‘ منانے نہیں دیا۔
اس قضیہ کا ایک سب سے مشکل اور پیچیدہ پہلو ہندوستان کے ذریعہ شیخ حسینہ کی ’حادثاتی میزبانی‘ کا ہے۔ وہ اپنے دور حکومت میں ہندوستان کی دوست رہی ہیں‘ ایسے میں ہندوستان کا یہ فرض تھا کہ وہ ان کے مشکل وقت میں کام آئے۔ شیخ حسینہ کی آمد اتنی عجلت میں ہوئی کہ ہندوستان کو کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ بظاہر انہیں کوئی بڑا ملک پناہ دینے کو تیار نہیں۔ ملکوں کی سفارتی زندگی میں کبھی یہ موقع بھی آتا ہے کہ فرد اہم نہیں رہ جاتا۔ لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ ایک طرف جہاں شیخ حسینہ کی میزبانی ضروری ہے وہیں بنگلہ دیش کے نئے حکمرانوں سے بھی رسم وراہ ضروری ہے۔ اسی ضمن میں عبوری حکومت کے مشیر برائے امور خارجہ توحید حسین سے ہندوستان کے ہائی کمشنر ’پرنے ورما‘ نے ملاقات کی ہے۔
توحید حسین نے کہا ہے کہ ڈھاکہ نئی دہلی کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے لیکن سرزمین ہند سے جاری ہونے والے شیخ حسینہ کے سیاسی بیانات اس مقصد میں معاون ثابت نہیں ہوسکتے۔ توحید حسین نے ہندوستان کے ہائی کمشنر کو یہ بھی بتایا کہ یہ دراصل بنگلہ دیش کو دوسری بار آزادی ملی ہے اور یہ کہ ہم جلد ہی تمام سیاسی پارٹیوں کو مساوی مواقع فراہم کراتے ہوئے آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کرانا چاہتے ہیں۔ توحید حسین نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کے میڈیا نے یہاں ظہور پزیر ہونے والے فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھاکر پیش کیا ہے اور ایک منصوبہ کے تحت پروپگنڈہ کیا جارہا ہے۔
ہمارے صحافتی اور دانشور طبقات میں بھی حکومت ہند کی تنقید ہو رہی ہے کہ اس کی خفیہ ایجنسیوں نے بنگلہ دیش میں اٹھنے والے طوفان سے صرف نظر کیا اور حکومت کو بر وقت مطلع نہیں کیا۔ صورتحال سے ہم کتنے متاثر ہوئے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 13 اگست تک ہند – بنگلہ دیش سرحد پر تعینات دونوں ملکوں کے سینئر افسر محض تین دنوں میں 83 میٹنگیں کرچکے تھے اور دونوں طرف کی فورسز 204 گشت کرچکی تھیں۔
’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈر اور سابق کابینی وزیر عبدالمعین خان نے کیا درست بات کہی ہے کہ ہندوستان نے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیے تھے۔ یعنی ہندوستان نے شیخ حسینہ پر اتنا اعتبار کیا کہ ایک طرف جہاں یہ سمجھ لیا کہ وہی ہمیشہ اقتدار میں رہیں گی وہیں بنگلہ دیش کی اپوزیشن سے بھی کوئی ربط نہیں رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے بھی یہی سمجھ رکھا ہے کہ ہمیشہ وہی اقتدار میں رہیں گے اور مخالفین ہمیشہ اقتدار بدر رہیں گے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)