Home تجزیہ صوبائی اسمبلی انتخابات بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے اگنی پریکشا -صفدر امام قادری

صوبائی اسمبلی انتخابات بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے اگنی پریکشا -صفدر امام قادری

by قندیل

شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

پارلیمنٹ انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے جن مشکلوں سے حلیف جماعتوں کی مدد سے تیسری بار اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی، اسی وقت سے اس بات کا اندازہ لگنے لگا تھا کہ اس نام نہاد دنیا کی سب سے عظیم سیاسی قوّت اب ڈھلان پر ہے اور غروب کا وقت بہ تدریج قریب آ رہا ہے۔ سرکار بچا لینا اور جیسے تیسے بنا لینا ایک کام ہے مگر اپنی سیاسی طاقت میں گراوٹ کے آثار جب عوامی سطح پر نظر آنے لگیں تو وقت کی دیوار پر لکھی عبارتوں کو بہ غور ملاحظہ کرنا چاہیے۔ کچھ دنوں پہلے تک یہ بات عام تھی کہ کاکردگی کی سطح پر بھارتیہ جنتا پارٹی جو کچھ کرے، اسے کسی نہ کسی جملے یا نعرے کی بنیاد پر ووٹ لینا آتا ہے مگر اس انتخاب میں یہ متھ ٹوٹ گیا اور سرکار میں قائم رہنے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کو اچھا خاصا پسینا بہانا پڑا۔ کہتے ہیں کہ بہت سارے معاملات میں چندر بابو نائڈو اور نتیش کمار کی وجہ سے پریشانیاں ابھر کر سامنے آتی رہتی ہیں اور یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ یہ حضرات کبھی دھوکا نہ دے دیں اور من پسند موقعے سے سرکار گرا دینے کے لیے کوشاں نہ ہو جائیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو خوب خوب معلوم ہے کہ اتحادی حکومتوں کے کون سے مسائل ہیں۔ اَٹل بہاری واجپئی کے زمانے میں کماری جے للیتا اور ممتا بنرجی کو سنبھالتے سنبھالتے ان کی سرکار اور سیاست کی ساکھ ہمیشہ داؤں پر لگی رہی ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی عام طور پر امیج کی سیاست کرتی ہے۔ کسی قائد کی ایک مخصوص پہچان متعین کر دی جاتی ہے۔ اس میں اپنی اور مخالفین دونوں کے قائدین قابلِ توجہ ہوتے ہیں۔ لال کرشن اڈوانی سخت گیر لیڈر ہیں اور اَٹل بہاری واجپئی لیبرل یا روادار اور نرم خوٗ لیڈر ہیں۔ نریندر مودی کی طاقت بھی امیج تیّار کرکے پہچانی گئی۔ پریس اور میڈیا اور مختلف ایجنسیاں اس کام کے لیے ہمیشہ لگی رہتی ہیں۔ پچھلے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی امیج بلڈنگ دس سال حکومت کرنے کے باوجود اس منزل تک نہیں پہنچا سکی کہ وہ آگے بڑھتے ہوئے نظر آئیں۔ ۲۰۱۹ء میں نہ صرف یہ کہ انھیں ووٹ ملا، سیٹیں بڑھیں بل کہ وہ نئے سنگ ہاے میل نصب کرتے ہوئے نظر آئے مگر اس بار کھیل کچھ بدلتا ہوا نظر آیا اور رفتہ رفتہ ان کی سیٹیں ان کے مخالفین کو ملتی گئیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے گڑھ اتر پردیش میں ہی ان کی حالت پتلی ہوگئی۔ جہاں کانگریس اور سماج وادی پارٹیوں نے انھیں اپنے پسندیدہ صوبے میں پچھاڑ دیے۔

۲۰۲۴ء کے پارلمانی انتخاب کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کا حقیقی امتحان مختلف صوبوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے موقعے سے ہونا ہے۔ ہریانہ اور جمّو کشمیر کے مراحل تو بس اسی مہینے پیشِ نظر ہے لیکن آیندہ مہاراشٹرا، جھارکھنڈ اور دہلی میں انھیں اپنے دنگل میں اترنا ہے۔ سیاسی مشاہدین نے انتخاب کا اعلان اور مہاراشٹرا کا اس فہرست سے وقتی طور پر نکالا جانا یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی صفوں میں خوف اور شکست کے آثار ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ ان پانچوں ریاستوں کے پانچ برس پہلے کے حالات پر نظر کرنے سے بہت ساری باتیں اپنے آپ سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ ہریانہ میں برابری کا معاملہ تھا مگر جیل، کیش اور حکومت کے جبر میں کسی طرح سرکار بنا لی گئی تھی۔ وہ سرکار کئی بار ٹوٹتے ٹوٹتے بچی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنے وزیرِ اعلا کو بھی تبدیل کرنا پڑا مگر ہریانہ میں ہوائیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف بہہ رہی ہیں۔ کُشتی کے کھلاڑی اور ستائے ہوئے لوگ مہینوں بھارتیہ جنتا پارٹی سے لڑتے رہے، کوئی ان کا سننے والا نہیں تھا۔ اب اولمپک کے بعد انھوں نے کانگریس کی رکنیت حاصل کر لی ہے اور اس بات کے کھلے امکانات ہے کہ پورے صوبے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اسپورٹس پالیسی اور خاتون کھلاڑیوں کے ساتھ غیر تعظیمانہ برتاؤ پورے طور پر نامناسب فعل ہے۔ عام آدمی پارٹی سے کانگریس کا اتحاد بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے مشکلات کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے والا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی دوبارہ سرکار بننے سے رہی۔ کارکردگی بھی اوسط سے نیچے تھی اور قومی سطح پر تو اور نقصان ہوا تھا۔ اس لیے ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے سرکار بنانے اور سیاسی اعتبار سے آبرو محفوظ رکھنے کے امکانات معدوم ہیں۔

جمّو کشمیر کی تقسیم در تقسیم اور پانچ برسوں میں میلٹری کے کنٹرول میں رکھنے کے معاملات اتنے شدید ہیں کہ آسانی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے وہاں کوئی نرم گوشہ دکھائی نہیں دیتا۔ الگ لاگ صوبے بنانے سے سے ممکن ہے کہ جمّو اور لیہ لدّاخ کے علاقے میں تھوڑی بہت سیٹیں بھارتیہ جنتا پارٹی کو یقینی طور پر ملیں گی مگر کشمیر میں طرح طرح کی داخلی سازشوں اور حکمراں جماعت کی کارستانیوں سے یہ حالات پیدا ہوں گے کہ وہاں کانگریس اور نیشنل کانفرنس بھارتیہ جنتا پارٹی سے مقابلہ کرکے اسے چارو خانے چِت کرکے رہیں گے۔ اس طرح ہریانہ کے ساتھ ساتھ جمّو اور کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو شیدید نقصان ہونے کے امکانات ہیں۔

مہاراشٹرا میں ہریانہ کے ساتھ ہی الیکشن نہیں کرانے کی واحد وجہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی اپنی سیاسی کارستانیاں ہیں۔ وہاں چنی ہوئی سرکار کو طرح طرح کے گٹھہ جوڑ اور پارٹی تبدیل کرا کر حکومت بنانے کا جو کھیل تھا، ہر انصاف پسند آدمی کو یاد ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے سرکار بنا لی اور جیسے تیسے کرکے اسے منزل تک پہنچا تو دیا مگر اب اسے مختلف طرح کے سوال و جواب میں اترنا ہوگا اور مہاراشٹرا جیسے سیاسی اعتبار سے حساس صوبے میں دوبارہ امتحان دینا انھی سرخیلوں کے سہارے مشکل معلوم ہوتا ہے۔ صاف کہنا چاہیے کہ انتخابات کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے نئی سِرے سے کوئی تیّاری نہیں کی تھی۔ انھیں اس بات کا خوف ستا رہا ہے کہ سرکار تو جیسے تیسیے ہم نے بنا لی تھی مگر دوبارہ سرکار بننے کے آثار نہیں ہیں۔ اس لیے ذرا اور مہلت لے لی جائے۔تین مہینے میں لازمی طور پر جھارکھنڈ میں انتخابات ہونے ہیں۔ پہلے ہمنت سورین کو جیل میں بھیج کر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی تیّاری واضح کر دی تھی مگر وہ بھی جیل سے باہر چلے آئے اور بہت بلندی کے ساتھ اپنی حکومت چلا رہے ہیں اور کہنا چاہیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے الیکشن کے میدان میں مقابلہ کرنے کے لیے خوب خوب تیّار ہیں۔پچھلی بار بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہاں منہ کی کھانی پڑی تھی اور اب کی بار بھی حالات ایسے نہیں ہیں کہ جھارکھنڈ کا انتخاب بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں جیت پائیں، ہمنت سورین ترقی یاتی کاموں اور مقبولِ عام وسائل کا استعمال کرکے بہت تیزی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو جواب دے رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے سازش کرکے جس طرح ’جھارکھنڈ مکتی مورچہ‘ کی پارٹی یا سرکار توڑنے کی کوشش کی، اس سے آخر آخر ہمنت سورین کو ہی فائدہ مل رہا ہے اور یہ ثابت ہو رہا ہے کہ آدی باسیوں کو بھارتیہ جنتا پارٹی ان کا حق دینے سے بہ ہر طور گریز کرتی ہے۔ ہمنت سورین اپنے سیاسی جلسوں میں یہ بات بار بار کہتے ہیں اور اپنے راے دہن دگان کو خبر دار کرتے رہتے ہیں۔ دسمبر کے بعد ملک کے مرکز دلّی میں انتخابات کا موسم آنے والا ہے۔ ارویند کیجری وال اور ان کی پارٹی کے ساتھ جیسا سلوک بھارتیہ جنتا پارٹی نے کیا ہے، سیاسی مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ اس سے عام آدمی پارٹی کی مقبولیت اور ووٹ کی طاقت میں اضافہ ہی ہوگا۔ چھے مہینے میں یہ ہم بہت آسانی سے طے کر سکیں گے۔ اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کے مستقبل کی سیاسی رفتار پر ایک قد غن لگنے والی ہے اگر ہر ریاست میں اسے شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اس کے باوجود اسے اپنی موجودہ طاقت میں تخفیف کا کھلا اندازہ ہو اجائے گا جس طرح ابھی پارلیمنٹ کے انتخاب میں یہ بات سامنے آئی۔ لوگوں کا یہ بھی اندازہ ہے کہ ان پانچ ریاستوں کے انتخابات کی تکمیل تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی ساکھ کم از کم ایک تیہائی کم ہو چکی ہوگی۔ یہی ڈھلان اسے ۲۰۲۹ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو پارلیمنٹ سے باہر کرنے کے راستے پیدا کرے گی۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like