Home تجزیہ آسام میں چائلڈ میرج روکنے کی مہم-ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

آسام میں چائلڈ میرج روکنے کی مہم-ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

by قندیل

بھارت میں کم عمری کی شادی صدیوں سے ایک سنگین سماجی مسئلہ رہا ہے ۔ ہر سال 15 لاکھ لڑکیوں کی 18 سال سے کم عمر میں شادی ہو جاتی ہے ۔ یونیسیف 2009 کی رپورٹ کے مطابق 20 سے 24 سال کی 47 فیصد خواتین 18 سال سے کم عمر بیاہی گئیں ۔ ان میں سے 56 فیصد دیہی علاقے سے تھیں ۔ دنیا میں ہونے والی کم عمری کی شادیوں میں 40 فیصد یا تیسرا حصہ بھارت کا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق بچپن کی شادیوں کا فیصد خطرناک ہے ۔ جن ریاستوں میں کم عمری کی شادیوں کی شرح 50 فیصد سے زیادہ ہے ان میں مدھیہ پردیش، راجستھان، اترپردیش، آندھرا پردیش، بہار، مغربی بنگال، جھارکھنڈ اور کرناٹک شامل ہے ۔ وزارت صحت و خاندانی بہبود کے ڈسٹرکٹ لیول ہاؤس ہولڈ اینڈ فیسلٹی سروے (DLHS) میں سب سے خراب صورتحال بہار کی بتائی گئی ہے ۔ جہاں 18 سال سے کم عمر کی شادیوں کی شرح 70 فیصد ہے ۔ وہیں ہماچل پردیش 9 فیصد کے ساتھ سب سے اچھی حالت میں ہے ۔ تعلیم اور شہری کاری کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں میں متواتر کمی آ رہی ہے ۔
کم عمری کی شادی کے پیچھے غریبی، ناخواندگی یا تعلیم کی کمی، لڑکیوں کو کمتر یا بوجھ سمجھنا، صنفی امتیاز اور سماج کی دقیانوسی روایات کو ذمہ دار مانا جاتا ہے ۔ لڑکیوں کا عدم تحفظ بھی اس کی بڑی وجہ ہے ۔ تمل ناڈو کے سیلم ضلع میں ذاتی طور پر اس کا مشاہدہ یوا ۔ وہاں اعلیٰ ذات کے لوگوں کے ذریعہ لڑکیوں کو اٹھا لے جانے یا عصمت دری کیے جانے کے ڈر سے دلت اور کمزور طبقات میں بالغ ہونے سے پہلے ہی بیٹیوں کی شادی کرنے کا چلن ہے ۔ سماجی تنظیموں، یونیسیف اور حکومت کی کوشش سے اس میں کم آئی ہے ۔ بچپن کی شادی کا جہاں لڑکی کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے ۔ وہیں زچگی کے دوران موت کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ بچپن میں بیاہی گئی لڑکیاں اکثر گھریلو تشدد، سماجی زیادتی، جنسی استحصال، غریبی، معاشی ترقی کے کاموں سے دوری، بیماری اور صنفی امتیاز کا شکار ہوتی ہیں ۔ ان نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لیے سماجی مصلحین اور تنظیمیں لوگوں کو بیدار کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں ۔ غلام بھارت میں انگریزوں نے کم عمری کی شادیوں پر پابندی کے لئے 1928 میں شاردا ایکٹ نافذ کیا تھا ۔ آزادی کے بعد بھی حکومتیں کم عمری کی شادی کو روکنے کی کوشش کرتی رہی ہیں ۔ پروبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ 2006 اور ترمیمی ایکٹ 2021 اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔
اس کے باوجود ملک کے کئی حصوں میں نابالغوں کی شادی کا رواج اب بھی جاری ہے جسے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور کی جانی چاہئے ۔ لیکن آسام میں بی جے پی حکومت نے بچپن کی شادی کے خلاف جس طرح کی مہم شروع کی ہے ۔ اس نے سماج میں بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے ۔ کم عمری کی شادی کے خلاف ریاست کے دس اضلاع میں 4,004 معاملے درج کیے گئے ہیں ۔ بچوں کی شادی میں شامل ہونے والے 52 قاضی پجاریوں سمیت 2278 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ آسام کے ڈی جی پی جی پی سنگھ نے بتایا کہ سب سے زیادہ گرفتاریاں دھبری، بارپیٹا، کوکراجھار، وشوناتھ ضلعوں میں ہوئی ہیں ۔ پولس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کل آٹھ ہزار لوگوں کی لسٹ ہے ۔ گزشتہ ہفتے آسام کے کئی علاقوں میں خواتین نے اپنے شوہروں اور باپوں کو بچانے کے لیے حکومت کے سامنے محاذ کھولا ہے ۔ لیکن چیف منسٹر ہمانتا بسواسرما نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ ریاستی پولیس کی طرف سے شروع کی گئی بچپن کی شادی کے خلاف مہم 2026 میں ہونے والے اگلے اسمبلی انتخابات تک جاری رہے گی ۔
یہ کاروائی نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی رپورٹ آنے کے بعد شروع ہوئی ہے ۔ رپورٹ سے معلوم ہوا کہ آسام میں زچہ بچہ اموات شرح سب سے زیادہ ہے ۔ اس کی بڑی وجہ کم عمری کی شادی ہے ۔ ریاست میں پچھلے سال 620867 خواتین حاملہ ہوئیں ان میں سے ماں بننے والی 17 فیصد یعنی 104264 نابالغ تھیں ۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد حکومت نے جنوری میں کابینہ میٹنگ میں کم عمر کی شادیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ۔ 3 جنوری سے اس پر عمل شروع ہو گیا ۔ 14 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنے والوں پر پاسکو قانون کے تحت مقدمہ درج ہوگا ۔ 14 سے 18 سال عمر کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنے پر انسداد چائلڈ میرج ایکٹ کے مطابق کاروائی کی جائے گی ۔ وزیر اعلیٰ سرما کا کہنا ہے کہ زچہ بچہ اموات شرح کو کم کرنے کے لیے یہ فیصلہ لیا گیا ہے ۔ رجسٹرار جنرل آف انڈیا کے تازه اعداد وشمار کے مطابق آسام میں زچہ بچہ اموات شرح 195 فی لاکھ ہے ۔ جو قومی اوسط 97 سے بہت زیادہ ہے ۔ شمال مشرق کی ریاستوں میں میٹرنل مورٹلٹی شرح(MMR) دوسری ریاستوں کے مقابلہ زیادہ خراب ہے ۔ 28 نومبر 2022 کے اعداد وشمار کے مطابق کیرالہ واحد ریاست ہے جہاں ایم ایم آر 19 فی لاکھ ہے ۔
یہ صحیح ہے کہ کسی برائی کو ختم کرنے کے لیے سختی برتی جانی چاہیے ۔ لیکن سماجی برائی کو ختم کرنے کے لیے سختی کے بجائے ان کمیوں کو دور کیا جانا زیادہ ضروری ہے جس کی وجہ سے یہ برائی پیدا ہوئی ہے ۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ بے گناہ لوگ بلا وجہ پریشان نہ ہوں ۔ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ آسام حکومت کا موجودہ قدم اسی طرح کی کاروائی ہے ۔ اس نے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے، خواتین کے تعلق سے نظریہ کو بدلنے اور کم عمر کی شادیوں کے متعلق بیداری مہم شروع کرنے کے بجائے پولیس کارروائی کا سہارا لیا ہے ۔ اس کی وجہ سے سینکڑوں شادیاں یا تو منسوخ یا ملتوی ہو گئی ہیں ۔ جو شادیاں پہلے ہو چکی ہیں، جن میں سے کئی خاندان آگے بڑھ چکے ہیں، اس سختی کی وجہ سے ان پر بھی تباہی کے سائے منڈلا رہے ہیں ۔ ضلع کاچھر کی ایک 17 سالہ لڑکی نے خود کشی کر لی کیونکہ پولس کے ڈر سے اس لڑکے نے شادی سے انکار کر دیا جس سے وہ محبت کرتی تھی ۔ ایک اور لڑکی سیما خاتون نے خودکشی کر لی کیونکہ اس کی پہلے شادی ہو چکی تھی لیکن اسے ڈر تھا کہ اس کے والد کو بچپن کی شادی کرنے پر گرفتار نہ کر لیا جائے ۔ ایک جوڑے کا ڈیڑھ ماہ کا بیٹا ہے، آدھی رات کو پولیس شوہر کو گرفتار کرکے لے گئی، جب کہ بیوی اب پریشان ہے کہ چھوٹے بچے کے ساتھ کہاں جائے، کیسے گزارہ کرے ۔ افروزہ نامی خاتون کے شوہر اور والد دونوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اس نے خودکشی کی دھمکی دی ہے ۔ آسام کی ہزاروں خواتین اس وقت اس طرح کے دباؤ سے گزر رہی ہیں ۔ شوہر اور باپ دونوں کی گرفتاریوں کے بعد کئی خواتین شیلٹر ہومز میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئی ہیں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آسام کی 31 فیصد خواتین کی شادیاں کم عمری میں ہوئی ہیں، تو کیا ان 31 فیصد خواتین کے شوہر اور والد کو گرفتار کیا جائے گا؟

سوال یہ بھی ہے کہ جیلوں میں بند مردوں اور بے گناہ عورتوں کو پناہ گزینوں کی طرح مجبور کرنے کے بعد آسام حکومت کس طرح کا معاشرہ بنانا چاہتی ہے ۔ معصوم لوگ جنہیں باپ کی موجودگی میں یتیموں کی طرح رہنا پڑے گا، وہ خواتین جو اب بچپن کی شادی کے بعد قانونی چارہ جوئی میں پھنس جائیں گی، وہ عزت نفس کے ساتھ کیسے زندگی گزار سکیں گی ۔ جن مردوں کو جیل بھیج دیا جائے گا وہ جب بھی رہا ہوں گے، کیا اس کے بعد وہ کبھی عام زندگی گزار سکیں گے؟ جو خواتین شادی شدہ ہیں ان کی شادیاں کیا بچپن کی شادی ثابت ہونے کے بعد منسوخ ہو جائیں گی؟ کیا وہ دوبارہ شادی کر سکیں گی؟ سماجی اصلاح کے نام پر اٹھائے گئے اس ایک قدم کی وجہ سے لاکھوں جانوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے، کیا بی جے پی حکومت کے پاس اس کا کوئی حل ہے؟
وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ وہ صرف 2006 کے انسداد چائلڈ میرج قانون پر عمل پیرا ہیں ۔ لیکن حکومت نے اچانک اس قانون کے نفاذ کی طرف توجہ کیوں کی، جب کہ آسام میں مسلسل دوسری بار بی جے پی کی حکومت ہے ۔ کوئی بھی قانون لوگوں کی بہتری کےلیے ہوتا ہے نہ کہ انہیں پریشانی میں ڈالنے کے لیے یہ کاروائی جس جانبداری کے ساتھ کی جا رہی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ آسام حکومت مسلمانوں کو پریشان کرنا چاہتی ہے ۔ اس سے قبل بھی مسلم آبادی حکومتی فیصلوں کی زد میں رہی ہے ۔ کبھی شہریت کے نام پر تو کبھی مدارس کے نام پر اقلیتی طبقہ کو نشانہ بنایا گیا ۔ اس بار بھی یہی سوال اٹھ رہا ہے کیونکہ گرفتار ہونے والوں میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے ۔ اتوار کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایگزیکٹو میٹنگ میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ آسام پولیس فوری طور پر گرفتاریوں کو روکے ۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ کاروائی کسی خاص مذہب کے خلاف کی جا رہی ہے ۔ اسے غیر جانبدار ہونا چاہیے بچپن کی شادی کے خلاف مہم کے فرقہ وارانہ ہونے کا اندیشہ ہے ۔ آسام حکومت کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے ۔

کم عمری کی شادی امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے، جسے پولیس فورس کے ذریعے ٹھیک کیا جاسکے ۔ یہ سنگین مسئلہ بہت سی سماجی بے ضابطگیوں کا نتیجہ ہے ۔ لڑکیوں کی حفاظت، مذہبی رسومات، ناخواندگی، غربت جیسی بہت سی وجوہات کی وجہ سے لوگ بچپن کی شادی کو قبول کرتے ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ تعلیم، روزگار اور سماجی بیداری کی کوششوں سے ان خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔ یہ ایک طویل عمل ہے، جس کے لیے صبر کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اعتماد حاصل کرنا بھی ضروری ہے ۔ جب لوگوں کو یقین ہو جائے گا کہ ان کی لڑکیوں کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تحفظ کا ماحول ملے گا، انہیں روزگار ملے گا، تو وہ خود اپنے بچوں خصوصاً لڑکیوں کی شادی کرنے میں جلدی نہیں کریں گے ۔ ملک کے کئی حصوں میں کم عمری کی شادیاں اسی طرح کم ہوئی ہیں، یا ختم ہوگئی ہیں ۔ جن ریاستوں میں یہ برائی اب بھی جاری ہے، خود لڑکیاں اور کئی سماجی تنظیمیں اس کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں، جس کے ثمر آور نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ اگر آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسواسرما واقعی کم عمری کی شادی کو روکنا چاہتے ہیں تو انہیں براہ راست پولیس کارروائی کے بجائے دوسرے طریقوں پر عمل کرنا ہوگا، تب ہی صحیح نتائج برامد ہو سکتے ہیں ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment