نئی دہلی:کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نصف سے زیادہ خواتین کو آن لائن ہراساں یا بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ایک نئے سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے۔ یہ اعدادوشمار ہندوستان میں لڑکیوں کے حقوق اور مساوات کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) پلان انٹرنیشنل کے ذریعہ کئے گئے ایک سروے سے حاصل ہوا ہے۔ آن لائن زیادتی اور ہراساں کرنے کی وجہ سے لڑکیوں کو سوشل میڈیا چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔سوشل میڈیا پر کی جانے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 58 فیصد سے زیادہ لڑکیوں کو کسی نہ کسی طرح کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پلان انٹرنیشنل نے اس سروے میں برازیل، ہندوستان، نائیجیریا، اسپین، تھائی لینڈ اور امریکہ سمیت 22 ممالک میں 15 سے 25 سال کی عمر میں 14000 لڑکیوں اور خواتین کو منتخب کیا۔سروے میں 58 فیصد سے زیادہ لڑکیوں کا خیال ہے کہ انہیں آن لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ پانچ میں سے ایک (19 فیصد) نوجوان لڑکی آن لائن ہراساں ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا کا استعمال روک یا کم کر دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہراساں ہونے کے بعد ہر 10 میں سے ایک (12 فیصد) نے سوشل میڈیا پر اظہار رائے کے انداز کو تبدیل کیاہے۔خواتین پر حملے کے واقعات سوشل میڈیا پر عام ہیں۔ حملے کے واقعات فیس بک پر سب سے زیادہ عام ہیں، جہاں 39 فیصد خواتین نے بتایا کہ انہیں ہراساں کیاگیا۔ دوسری طرف انسٹاگرام پر 23 فیصد خواتین، واٹس ایپ پر 14، اسنیپ چیٹ پر 10، ٹویٹر پر 9 اور ٹک ٹاک پر 6 فیصد خواتین کو بدسلوکی یا ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔سروے کے مطا بق ہراساں کی جانے والی تقریبا نصف لڑکیوں کو جسمانی یا جنسی تشدد کا خطرہ تھا۔ ان میں سے بہت سی لڑکیوں نے بتایا کہ بدسلوکی نے انہیں ذہنی طور پر متاثر کیا اور ایک چوتھائی جسمانی طور پر غیر محفوظ محسوس ہوا۔ پلان انٹرنیشنل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) این برجٹ کے مطابق، سوشل میڈیا پر یہ ہراسانی جسمانی نہیں ہے، بلکہ اس سے خواتین کے اظہار رائے کی آزادی کو خطرہ لاحق ہے۔خاص بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی لڑکیوں کی جانب سے فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ٹویٹر کو ایک کھلا خط لکھا گیا ہے، جس نے سوشل میڈیا کمپنیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ زیادتی کی اطلاع دینے کے لئے زیادہ مؤثر طریقے اپنائیں۔