سخن میں صبح کو ڈھالا تو شب بھرم سے گری
سیاہ صفحے پہ کچھ روشنی قلم سے گری
گِرا دیے تھے اناؤں کے بت اگر ہم نے
تو پھر یہ ہجر کی دیوار کیوں نہ ہم سے گری
میں روشنی سے بھی آگے نکلنے والا تھا
پھر ایک دن مری رفتار ایک دم سے گری
وہ چاندنی جو ستاروں میں بھوک بانٹتی ہے
اک اہتمام سے کل رات کے شکم سے گری
وہ نیستی تھی کہ ہستی خبر نہیں ہے پہ وہ
کبھی وجود سے ٹپکی کبھی عدم سے گری
ستارے ملبے میں سانسوں کو ہار جائیں گے
زمیں فلک پہ کسی دن اگر دھڑم سے گری
میں دل میں سینت کے رکھتا ہوں اس لیے آزر
کہ مجھ کو علم ہے یہ خاک کس قدم سے گری