Home خاص کالم عامر خان کی فلم "ستارے زمین پر” – فیضان الحق

عامر خان کی فلم "ستارے زمین پر” – فیضان الحق

by قندیل

انسانی ذہن و فکر کے ارتقا کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس نے جسمانی ساخت کی بنیادوں پر پیدا ہونے والے اختلافات کو نئے زاویوں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مختلف نوعیت کے اہل افراد جنھیں اندھا، کانا، گونگا، بہرا، لنگڑا جیسے مجرمانہ القاب سے پکارا جاتا تھا اور نا اہل سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا تھا، مختلف شعبوں میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گذشتہ برسوں میں یہ مسائل مزید سنجیدہ بحث و تحقیق کا موضوع بنے ہیں اور اس کے کار آمد نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔

حالیہ دنوں میں رلیز ہوئی عامر خان کی فلم ’’ستارے زمیں پر‘‘ بھی اسی موضوع پر ایک شاندار فلم ہے۔ یہ فلم 2018 میں رلیز ہوئی ہسپانوی فلم ’’Champions‘‘ کی ریمیک ہے، جسے عامر خان کی سپر ہٹ فلم ’’تارے زمیں پر‘(2007) کا دوسرا حصہ تصور کیا جا رہا ہے۔ موضوع کے اعتبار سےان دونوں فلموں میں کئی مناسبتیں ہیں۔ اول یہ کہ دونوں میں مختلف نوعیت کے اہل بچوں کی نفسیات کے مد نظر طریق تعلیم یا Learning Process کی نئی تصویر پیش کی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ استاد اور شاگرد کے رشتے کو ان دونوں فلموں میں Redefine کیا گیا ہے۔ البتہ دونوں فلموں کو دیکھنے کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ’’تارے زمیں پر‘‘ اور ’’ستارے زمیں پر‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے فلموں کی تکنیک، کہانی، پس منظر اور کردار کی انفرادی پیش کش پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ’ستارے زمیں پر‘ ایک اچھے اور اہم موضوع پر تیار کی گئی کامیاب فلم ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے اس میں موضوع کے ساتھ وابستہ انسانوں کی فطری ہمدردی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم کی کہانی یا پلاٹ خالص روایتی اور فرسودہ ہے، جہاں مختلف جسمانی مجبوریوں کے شکار بچوں کو جمع کرکے باسکیٹ بال کی ایک ٹیم بنائی جاتی ہے۔ ٹیم منتشر اور ناقابل اعتبار ہے، لیکن کوچ(عامر خان) کی کوششوں سے سبھی کھلاڑی متحد اور پر جوش نظر آتے ہیں۔ مختلف کمزوریاں ہی ان کی طاقت بن جاتی ہیں اور بالآخر کوچ کی محنت و لگن سے یہ ٹیم فائنل تک پہنچ جاتی ہے۔ اس سے ملتے جلتے پلاٹ پر بالی ووڈ میں کئی فلمیں موجود ہیں، جن میں چک دے انڈیا، لگان، سلطان، دنگل، بھاگ ملکھا بھاگ، میری کام، اسٹوڈنٹ آف دی ایئر، گولڈ، سورما وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ فلم میں اصل مسئلہ پلاٹ کا نہیں، کرداروں کی نفسیات اور ان کی پیش کش کا ہے۔ اس فلم میں عامر خان کی کوشش مختلف کرداروں کی نفسیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے انھیں کھیل کے لیے تیار کرنا ہے۔ لیکن وہ کوشش کس نوعیت کی ہے، اور فرداً فرداً مسائل کے حل کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا گیا، یہ پہلو مفقود ہے۔ ٹیم میں موجود کھلاڑیوں کے مختلف مسائل اور نفسیات کا علم تو ہوتا ہے، لیکن کوچ کی جانب سے خاص نفسیات سے متعلق کوئی کوشش یا ترکیب نظر نہیں آتی۔ باسکٹ بال کھیلنے میں ان کے مسائل کس طرح رکاوٹ بنتے ہیں اور پھر کون سا طریقۂ کار اختیار کرنے پر وہ رکاوٹ دور ہو جاتی یہ پہلو بھی فلم میں نظر نہیں آتا، جیسا کہ پہلی فلم ’’تارے زمیں پر‘‘ میں ہم سب نے مشاہدہ کیا ہے۔ عامر خان فلم میں بطور کوچ بہت ماہر نظر آتے ہیں، لیکن اس مہارت کی بنیادیں ناپید اور پھسپھسی ہیں۔ محض محبت سے پیش آنا، یا پابندی سے پریکٹس کرانا مذکورہ کرداروں کی نفسیات کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان کا مقابلہ ایسی ٹیموں سے کرایا جاتا ہے جو بالکل صحت مند، چست اور پھرتیلی ہیں۔ ہم سب اچھی طرح واقف ہیں کہ پہلوانی، ویٹ لفٹنگ یا باکسنگ کے لیے کھلاڑیوں کو وزن کیا جاتا ہے اور انھیں اپنے ہم پلہ کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح والیبال، فٹبال، کرکٹ، ہاکی یا باسکٹ بال جیسے دوسرے کھیلوں میں بھی ایک سطح کے کھلاڑیوں کے مابین مقابلے کا رواج ہے۔ ایسے میں ایک نوخیز اور مختلف نفسیات و مسائل کی حامل ٹیم کو عام ٹیموں کے مقابل کھڑا کر دینے کی حکمت عملی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کا مقابلہ بھی انھیں کی طرح کے کھلاڑیوں سے کرایا جاتا یا پھر انھیں کھلاڑیوں سے دو ٹیمیں بنائی جاتیں، دو کوچ ہوتے اور عوام میں یہ پیغام جاتا کہ اب جسمانی طور پر بعض اعتبار سے کمزور بچے بھی کمزور نہیں ہیں، بلکہ ان کی صلاحیتوں کو پہچاننے اور انھیں اسٹیج فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

عامر خان یقیناً ایکٹنگ میں مہارت رکھتے ہیں اور ان کی کئی فلمیں بے مثال اداکاری کا ثبوت ہیں لیکن اس فلم میں وہ کئی مقام پر مایوس کن ادائیگی کرتے ہیں۔ جس نوعیت کے کرداروں کی ذہن سازی ان کا کام ہے وہ خود اس کے شکار نظر آتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں اہلیہ (جینیلیا ڈی سوزا)، ماں اور ہیڈ کوچ سے کیے گئے ان کے مکالمے ہیں۔ ان مکالموں کی ادائیگی میں کچھ تصنع اور اوور ایکٹنگ کے پہلو بھی در آے ہیں۔ ان میں کہیں دھوم 3 تو کہیں PK کا عامر خان جاگ اٹھتا ہے۔ اس کے باوجود عام ناظرین کے لیے عامر خان کا کردار جاذب نظر ہے اور توجہ مبذول کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

فلم کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو کمتر سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ ہر فرد کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں اور مختلف طریقے سے ان کا اظہارہوتا ہے۔ جیسا کہ ٹیم میں موجود ہر کھلاڑی اپنے مسائل کے ساتھ دوسرے اہم کاموں کو بخوشی انجام دیتا ہے اور بعض ایسے منفرد رویوں کا اظہار کرتا ہے جن سے عام انسان خالی یا محروم ہوتا ہے۔ اپنی کمزوریوں کو نظر انداز کرکے خوش رہنے اور دوسروں کو خوش دیکھنے کا جذبہ ایسے کرداروں میں حیرت ناک طور پر پایا جاتا ہے۔ اسی طرح نارمل کیا ہوتا ہے؟ اس کا کیا پیمانہ ہے؟ کون طے کرے گا کہ نارمل کس کے اعتبار سے تصور کیا جائے گا؟ اس قسم کے سوالات انسان کو اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور صداقت کے دعووں پر از سر نو غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ علمی، معاشرتی اور ازدواجی زندگی میں بھی یہ مسائل کس طرح دشواریاں پیدا کرتے ہیں، ان کی تفہیم کی جھلک بھی فلم میں موجود ہے۔

فلم میں کئی مقامات پر تشنگی اور خالی پن کا احساس ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ معاشرتی سطح پر اس فلم سے انسانیت کی تکریم اور مختلف انسانی نفسیات کی تفہیم کا موقع ملتا ہے۔

You may also like