Home تجزیہ سیتا محفوظ نہیں جہاں رام کا خواب وہاں – ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

سیتا محفوظ نہیں جہاں رام کا خواب وہاں – ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

by قندیل

’بہت ہوا ناری پر اتیاچار‘ نعرے کے سہارے اقتدار تک پہنچنے والی جماعت نے یقین دلایا تھا کہ اب کسی ’دروپدی‘ کا’ چیر ہڑن‘ نہیں ہوگا۔ اگر کوئی اس کی جرا ¿ت کرے گا تو وقت کے گرو درونڑ اور بھیشم پتاماہ آنکھیں موند، مٹھیاں بھینچ کر دیکھتے نہیں رہیں گے۔ نہ ہی کوئی راون کسی سیتا کو اغوا کرنے کی ہمت کرے گا۔ اگر پھر بھی کوئی دراندازی کرتا ہے تو اسے کیفرکردار تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ خواتین میں خود اعتمادی بحال کرنے کےلئے شروع کی گئی حکومت کی’بیٹی پڑھاو ¿ بیٹی بچاو ¿‘ مہم سے بھی عوام میں خواتین کی حالت بدلنے کا بھروسہ پیدا ہوا۔ کیوں کہ خواتین کے خلاف جسمانی و جنسی تشدد، ریپ ملک میں چوتھا سب سے زیادہ عام جرم ہے۔ تحفظ نسواں کے نام پر منتخب ہوئی حکومت میں بھی عورتوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سرکاریں بدلیں، حکام بدلے، پارٹیاں بدلیں، قانون بدلے مگر نہیں بدلے تو خواتین کے
خلاف ہونے والے جرائم کے اعداد وشمار ۔

کٹھوا، مندسور، اناو، سورت، باراں، بلند شہر، میرٹھ، اعظم گڑھ، ہاتھرس، حیدرآباد، بلرام پور ٹھکانوں کے نام بدل جاتے ہیں۔ مگر اسٹوری وہی رہتی ہے۔ ایسے میں بیٹی پڑھاو؟ بیٹی بچاو؟مہم بھی ایک سلوگن بن کر رہ گئی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو جماعت رام کا خواب اور سناتنی تہذیب کی دہائی دے کر یہاں تک پہنچی، اس کے دور حکومت میں بھی عصمت دری کے 91 معاملے یومیہ درج کئے جاتے ہیں۔ یعنی ہر پندرہ منٹ میں ایک واقعہ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد وشمار بھارت کا سر شرم سے جھکاتے ہیں۔ وہیں نیشنل ہیلتھ سروے 15-2016 کی رپورٹ کے مطابق 15 سے 49 سال عمر کی ہر تیسری خاتون کو کسی نہ کسی طرح کے جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان جرائم کو انجام دینے والے 90 فیصد سے زیادہ متاثرہ کے رشتہ دار، پڑوسی یا خاندانی دوست ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو سماج بیٹیوں کو رحم مادر میں مار دیتا ہے، اگر وہ پھر بھی پیدا ہو جائے تو اسے جلا کر، عصمت دری کرکے مار دیا جاتا ہے۔ آنر کلنگ اور جہیز بھی لڑکیوں کی جان لینے کا ایک بہانہ ہے۔ اس میں بیٹی پڑھاو بیٹی بچاو مہم کی درگتی ہونا طے ہے۔ کیوں کہ جب پڑھنے جانے والی بیٹیوں کو غیر سماجی عناصر سے اغوا کرعصمت دری کرنے یا جلا کر مار دینے کا خطرہ ہو تو وہ پڑھیں گی کیسے اور بچیں گی کیسے۔
اتر پردیش میں ہاتھرس کا واقعہ اکیلا نہیں ہے۔ جہاں 14 ستمبر کو 19 سالہ دلت لڑکی کو اعلیٰ ذات کے چار لڑکوں نے اپنی ہوس کا شکار بنایا۔ 31 جولائی کو مظفر نگر میں آٹھ سالہ بچی کا جنسی زیادتی کے بعد قتل، 5 اگست کو خورجہ میں آٹھ سال کی بچی کے ساتھ ریپ کی کوشش میں ناکامی کے بعد قتل، 6 اگست کو ہاپڑ میں 6 سال کی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل اور لکھیم پور کھیری میں 15 اگست کو تیرہ سال کی لڑکی کی عصمت ریزی اور قتل۔ اسی ضلع میں 25 اگست کو ایک عورت کے بے رحمی سے قتل کا واقعہ پیش آیا۔ ہاتھرس کے واقع کے بعد بھی اترپردیش میں کم از کم پانچ معاملے اور ہو چکے ہیں۔ جانکاروں کا ماننا ہے کہ جان بوجھ کر ہاتھرس کے واقع کو طول دے کر میڈیا کی سرخیوں میں رکھا گیا تاکہ کسانوں کا ملک گیر احتجاج اس کے شور میں دب جائے۔ یہ چال کسی حد تک کامیاب بھی رہی، عوام کے درمیان کسانوں کا مسئلہ بڑے پیمانے پر موضوع گفتگو نہیں بن سکا۔ کئی دن کسان ریل کی پٹریوں پر بیٹھے رہے لیکن میڈیا کو ان سے بات کرنے کےلئے ہاتھرس سے فرصت نہیں ملی۔ اخبارات سے لے کر ٹیلی ویژن تک پر ان کو معقول جگہ نہیں مل سکی۔ جبکہ حکومت کسانوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ ان جرائم میں زیادہ تر وہی لوگ ملوث پائے جا رہے ہیں جن کو حکومت کی شہ یا سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔ کلدیپ سینگر کا واقعہ ہو یا کٹھوا کا معاملہ اور اب ہاتھرس کا کیس۔ ان سب میں شری رام کے راستے پر چلنے کا دم بھرنے والی بی جے پی کا رویہ افسوسناک رہا ہے۔ نہ صرف اس کا ’ناری پر اتیاچار‘ نہ ہونے دینے کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہو رہا ہے بلکہ وہ اتیاچاریوں کے بچاو میں کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ سنیاسی سے سیاست داں بنے یوگی جی کی حکومت ہو یا پھر اشوک گہلوت کی۔ آنکڑوں نے سیاست کی پردہ داری کا پردہ فاش کر دیا ہے۔ تشدد، زنا بالجبر اور اغوا کے اعداد وشمار سماج کی کچھ زیادہ ہی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار سالوں میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں 34 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ہائی کورٹوں نے پچھلے چھ ماہ کے جو اعداد و شمار سپریم کورٹ کو دیئے ان کے مطابق اس عرصہ میں ہر مہینے 40 ہزار عصمت ریزی کے واقعات درج ہوئے ہیں۔ یعنی روزانہ 130 خواتین کی چادر عصمت تار تار ہوئی ہے۔ اس حساب سے ہر پانچ منٹ میں ایک خاتون کا جنسی استحصال ہوا۔ جنوری میں آئی این سی آر بی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اتر پردیش خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں ملک میں سب سے آگے ہے۔ قومی سطح پر خواتین کے ساتھ ہوئے جرائم میں 16 فیصد حصہ اترپردیش کا ہے۔ ریاست میں عصمت دری کے 2018 میں کل 4322 معاملے درج ہوئے ہیں ۔
جہاں تک شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کے خلاف جرائم کا معاملہ ہے تو ان میں بالترتیب 2014 سے اب تک 13.9 اور 14.8 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس معاملہ میں اترپردیش کے بعد مدھیہ پردیش اور ہریانہ کا نمبر ہے۔ ایس سی، ایس ٹی کے خلاف بیشتر جرائم ریپ، جنسی حملوں کی شکل میں پیش آئے ہیں۔ 2016 میں خواتین کے خلاف جرائم کے 3 لاکھ 22 ہزار 929 معاملے درج تھے جو تین سالوں میں بڑھ کر 4 لاکھ 5 ہزار 861 تک پہنچ گئے ہیں۔ درج نہ ہونے والے معاملوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔ ملک کی عدالتوں میں عصمت دری کے دولاکھ سے زیادہ مقدمات زیر سماعت ہیں۔ مگر کنوکشن کی شرح صرف 27 فیصد ہے۔ یعنی عصمت دری کے سو معاملوں میں سے 73 ملزم چھوٹ جاتے ہیں۔ تین چوتھائی مجرموں کو سزا نہ دلا پانا ہمارے سماج، سیاسی نظام، عدلیہ و انتظامیہ کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ یہ اعداد وشمار ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ نیو انڈیا کی سوسائٹی اپنی سوچ، ذہنیت اور کرتوتوں میں اتنی ہی قدیم ہے جتنی سو دو سو سال پہلے رہی تھی۔ نابالغ سے ریپ کی سزا بھلے ہی پھانسی کر دی گئی ہے مگر آنکڑے بتاتے ہیں کہ اس قانون کے بننے کے بعد، نابالغوں سے عصمت دری کے واقعات کی تعداد بڑھی ہے۔
بچیوں، عورتوں سے ریپ، حیوانیت اور قتل کے بعد غصہ کا غبار اٹھتا ہے۔ سیاسی بیان آتے ہیں، متاثرہ اور ملزموں کے نام، ذات، مذہب، طبقہ اور سیاسی جماعت سے تعلق کے حوالے سے بحث ہوتی ہے۔ سخت سزا کی مانگ کی جاتی ہے۔ قانون کو عوام کے جذبات کے احترام میں اور سخت کیا جاتا ہے۔ مگر زنا بالجبر کے واقعات میں کمی نہیں آتی۔ حکومت میں بیٹھی سیاسی جماعت ایک نریٹیو سیٹ کرنے لگتی ہے۔ وہیں اپوزیشن میں بیٹھے سیاست داں انصاف کی جنگ لڑنے کے نام پر ایک نئے سیاسی ڈرامہ کے کردار بن کر میدان میں اترتے ہیں۔ سماج مظلومیت کی شکار لڑکی کو شیرنی، بہادر لڑکی اور نربھیا کہہ کر اپنے ناکارہ پن کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ چار، پانچ بھیڑیوں کے نوچنے، جسم کے اعضاءکو کچلنے پر وہ ڈری یا اس نے مقابلہ کیا، منھ بند کرنے اور ہڈیوں کے ٹوٹنے پر اسے کس اذیت سے گزرنا پڑا ہوگا، یہ وہی بتا سکتی تھی ،جو اب ہمارے بیچ نہیں رہی۔ ملک چند روز شور مچانے کے بعد حیوانیت کے اگلے واقع کے انتظار میں آگے بڑھ جاتا ہے۔ مگر زمینی حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔ عوام کی مانگ پر پاسکو قانون تو بنا لیکن وہ مجرموں میں خوف پیدا نہیں کر سکا۔ کیوں کہ اسے لاگو کرنے میں سرکاریں پھسڈی ثابت ہوئیں۔ ایسے معاملوں میں جلدی جانچ پوری کر مجرموں کو سزا دینے کےلئے خصوصی پاسکو کورٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ عصمت دری کے بڑھتے معاملات کو بے روزگاری اور انٹر نیٹ کے غلط استعمال سے جوڑ کر بھی دیکھا جاتا ہے۔ مگر اس بیماری کا علاج سزا کے بجائے سماجی تبدیلی میں تلاش نہیں کیا جاتا۔ جبکہ اسلام نے عرب کی سوسائٹی سے سماجی تبدیلی کے ذریعہ ہی اس بیماری کو ختم کیا تھا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ریپ، عصمت دری اور خواتین کے خلاف جرائم کو سیاسی خیموں میں بانٹ کر، ریاستوں میں تقسیم کرکے سمجھنے اور ذات، مذہب، طبقہ کے چشمہ سے دیکھنے کے بجائے خود سے سوال کریں کہ کیا ہم خواتین کو برابری کا درجہ دلانے ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے اور ایمانداری سے انصاف دلانے کےلئے آگے آنے کو تیار ہیں۔ ان سوالوں کے جواب سے ہی سماج کو تباہی کی طرف جانے سے روکا جا سکتا ہے۔ صرف آٹو رکشہ کے پیچھے ’میرا ایمان مہیلاوں کا سمّان‘ لکھ کر ملک کو اس وبا سے نہیں بچایا جا سکتا۔ سول سوسائٹی کو آگے بڑھ کر سماج کو بدلنے کےلئے کچھ کرنا ہوگا۔ قدرت نے بیٹیوں کو نفرت کےلئے نہیں بلکہ پیار لینے اور پیار دینے کےلئے بنایا ہے۔ ان کے وجود سے کائنات میں رنک ہے۔ ان کی بے حرمتی سے صرف تباہی نہیں آتی بلکہ قدرت کا قہر نازل ہوتا ہے۔ بچیوں کو عزت اور ان کو جائز حق دلانے کا جو منصوبہ اور تجربہ اسلام کے پاس ہے، اس سے ملک کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس سے نہ صرف ملک کو خواتین کے خلاف مظالم سے نجات ملے گی۔ بلکہ رام کے نقش قدم پر چل کر سیتا کی حفاظت کے ذریعہ ملک کا سپر پاور بننے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوگا۔

You may also like

Leave a Comment