Home نقدوتبصرہ سراج زیبائی کی تنقیدی رعنائیاں-حقانی القاسمی

سراج زیبائی کی تنقیدی رعنائیاں-حقانی القاسمی

by قندیل

میرے مطالعاتی محرکات اور ترجیحات میں بیشتر وہی تحریریں شامل ہوتی ہیں جن سے معاصر ادبی صورت حال، نئی تنقیدی تھیوریز و نظریات اور ان شخصیات سے شناسائی کی صورت نکلتی ہو جن کے احوال و آثار سے آگہی کے وسائل و ذرایع محدود ہوں۔ مقام مسرت ہے کہ سراج زیبایی کی کتاب’’لہجوں کی مہک‘‘ حصہ دوم میں ایسے مضامین بھی ہیں جن سے اجنبی، نامانوس تخلیقی چہروں سے شنا سائی کی عمدہ شکل نکل آئی خاص طور پر جنوبی ہند کے فنکاروں کے تعلق سے مضامین نے کتاب سے مطالعاتی رشتہ کو مضبوط کیا ۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مہاتما گاندھی کی’ ہندوستانی‘ سے جن علاقوں کی لسانی، ذہنی اور جذباتی قربت نہ ہو، وہاں ہندوستانی کی ایک شاخ سے غیر معمولی شغف ہو اور اسے احساس و اظہار کا میڈیم بنایا جائے تو بیحد خوشی کے ساتھ فخر کا احساس ہوتا ہے کہ واقعی اردو زبان میں اتنی قوت تسخیر و تاثیر ہے کہ وہ ریگستان کو گلزار بناسکتی ہے، صحرا میں پھول کھلا سکتی ہے، اندھیرے کمرے میں اس کی گونج روشنی پیدا کر سکتی ہے۔وہ زبان کسی بھی دل میں اپنا گھر بنا سکتی ہے، تمل تیلگو ، ملیالم اور کنڑ کی زمین میںبھی محبت کا پودا لگا سکتی ہے۔ اردو زبان کی داخلی قوت کا ہی ثبوت ہے کہ جنوبی ہند میں بھی اردو کا پودا تناور درخت بن چکا ہے اور یہاں بھی اردو شاعروں اورادیبوں کی ایک ایسی کہکشاں ہے جس کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ یہاں کے قلم کاروں نے اردو زبان و ادب کی ثروت میں صرف اضافہ نہیں کیا ہے بلکہ اردو کی شناخت اور تعارف کے دائرہ کو بھی وسیع سے وسیع تر کیا ہے۔ دوسرے لسانی طبقات کو اردو کی عظیم ادبی روایت اور تخلیقی بیانیوں سے تراجم کے ذریعہ متعارف کرایا ہے اور ان زبانوں کے شاہکاروں سے بھی اردو حلقہ کو روشناس کرایا۔ اس کی ایک نمایاں مثال تمل ناڈو کے مختاربدری ہیں جنہوں نے کرشن چندر اور خواجہ احمد عباس کے ناولوں کا تمل میں جہاں ترجمہ کیا وہیں تمل کے شاعر تروولور کے کرل کا’ لفظ لفظ گہر‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا۔حیات افتخار نے تمل شاہکار تروکرول کا نثری ترجمہ کیاتوڈاکٹر سجاد ظہیر نے ملیالم ادب کی تاریخ کو اردو پیرہن عطا کیا۔ یہ لسانی اور ثقافتی تعامل و ترابط کی ایک خوب صورت مثال ہے ۔
سراج زیبائی نے لہجوں کی مہک میں اسی نوع کے جواہر ونجوم سے متعارف کرانے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں جنوبی ہند جن تخلیقی اور تنقیدی ذہانتوں سے ملا قاتیں کرائی گئی ہیںان میں ابن حسن بھٹکلی،نثار احمد نثار، عتیق جاذب، ساحل رشید، سہیل نظام،ستار ساحر، حیات افتخار،سجاد حسین ظہیر اور مختار بدری قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے بیشتر دبستانی تحفظات و تعصبات کے شکار رہے ہیں اس لیے تنقیدی حوالوں یا ادبی تذکروں میںانھیں جگہ نہیں مل سکی۔ سراج زیبائی کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے کہ ان شخصیات پر انہوں نے مضامین لکھے اور ان کے فنی و فکری ابعاد سے روشناس کرایا۔ مذکورہ تمام نام ایسے ہیں جنہیں کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے مختار بدری صرف مترجم نہیں ایک عمدہ شاعراور افسانہ نگار بھی ہیں۔ سراج زیبائی نے ان کی شاعری میں عمدہ امیجری اور پیکر تراسی تلاش کی ہے ۔انہی کا یہ شعر ہے :
پھر ہتھیلی پہ لکیروں کا سمندر دیکھوں
لا تیرا ہاتھ کہ میں اپنا مقدر دیکھوں
مدراس یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر سجاد حسین ظہیر بھی ایک محقق و ناقدہی نہیں بلکہ رباعی کے عمدہ شاعر ہیں۔ ان کی رباعیات میں بھی سراج زیبائی نے پیکر تراشی کی جستجو کی ہے۔ان کی رباعیات پر تنقیدی گفتگو بھی عمدہ ہے۔ ان کے حسن اظہار واحساس کا یہ نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
جیناہے تو بس اپنے ہی بل پر جینا
چمکو نہیں مانگے کے اجالے سے تم
کتنا بھی تمہیں بھوک ستانے لگ جا ئے
پلنا نہیں اوروں کے نوالے سے تم
مدراس کے حیات افتخار بھی ایک اہم ناقد ہیں جنہوں نے علامہ اقبال اور مدراس کے عنوان سے ایک وقیع مضمون تحریر کیا۔ فیض احمد فیض پر لکھا ،تمل ناڈو میں اردو افسانہ پر روشنی ڈالی اور حسن فیاض کی رباعیات کا بھر پورجائزہ لیا۔سراج زیبائی نے ان کی تنقیدی بصیرت کو خوبصورت خراج محبت پیش کیا ہے۔
وانمباڑی کی ادبی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ساحل رشید کو سراج زیبائی نے فراموش نہیں کیا کہ اس شاعر کے اندر بے پناہ اسپارک(Spark) تھا۔ اسی شاعر کا ایک خوبصورت شعر ہے :
تیری بانہوں کا اجالا تیری انگڑائی کا رنگ
جیسے برسات میں جلتا ہوا گھر دیکھا ہے
اسی وانمباڑی کے بزرگ شاعر ہیں نثار احمد نثار مگر تنقید نے ان کے ساتھ بھی تعصب برتا ہے ۔طویل تخلیقی ریاضت کے باوجود انہیں اپنے حصہ کی بھی قدر و منزلت نہ مل سکی۔ سراج زیبائی نے حسن تلافی کی کوشش کرتے ہوئے ان کی تخلیقی ہنر مندی کی ستائش کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ’ شاعری میں آسان لفظیات کے استعمال سے بڑی بڑی باتیں کہہ جانے کا ہنر جانتے ہیں‘۔انہی کا ایک شعر ہے :
ہزار بار قیامت گزر گئی دل پر
خیال دل میں تمہارا جو ایک بار آیا
عتیق جاذب تمل ناڈو سے تعلق رکھتے ہیں۔’ متاع حیات‘ ان کا سرمایہ سخن ہے۔ سراج زیبائی نے ان کے منفرد رنگ شاعری کو سراہتے ہوئے ان کی شعری کائنات کو اپنی تنقیدی لفظیات سے اجالنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ جاذب کی جاذبیت سے بھر پور شاعری کے نمونے بھی پیش کیے ہیں:
غم و غصہ کے طوفانوں کے رخ کو موڑ دیتی ہے
زباں میٹھی اگر ہو تو دلوں کو جوڑ دیتی ہے
ہمیشہ آدمی رکھے زباں کو اپنے قابومیں
زباں کی بے لگامی ہی تو رشتے توڑ دیتی ہے
سراج زیبائی نے ابن حسن بھٹکلی کے شعری اوصاف و کمالات پر بہت اچھی گفتگو کی ہے اور ان کے موضوعاتی اور فکری تنوع کی داد دی ہے۔ ان کایہ شعر تو کسی کو بھی اپنی طرف کھینچ سکتا ہے :
کیا خبر کب سانس کہہ دے زندگی کو الوداع
ہو رہے ہیں حادثات ناگہانی خیر ہو
ڈاکٹر سہیل نظام کی شاعرانہ خوبیوں کی تلاش کرتے ہوئے سراج زیبائی نے ان کے لہجے کی کاٹ اور نشتریت کا سراغ لگا یا ہے۔ دیکھئے کتنا چبھتا ہوا شعر ہے :
ہمدردی کا بھیس بدل کر
قاتل میرے پاس کھڑا ہے
آندھرا پردیش کے محقق ناقد انشائیہ نگار اور شاعر ستار ساحر کی تخلیقی جولانیوں پر روشنی ڈالتے ہو ئے سراج زیبائی نے ان کے لفظیاتی نظام کے حسن کو سراہا ہے۔ سادگی میں پرکاری کا یہ نمونہ دیکھیے :
تم کو جی بھر کے دیکھنے دو نا
میں نے مدت سے کچھ نہیں دیکھا
یہ وہ شعراء ہیں جن کا تعلق جنوبی ہند سے ہے۔ سراج زیبائی نے ان مضامین کے ذریعہ اپنے علاقہ کا قرض اتارا ہے۔ یہ نہ کرتے توشاید ان کی مٹی انہیں معاف نہیں کرتی۔یہ مضامین ہی اس کتاب کی اشاعت کا جواز ہیں اور مطالعہ کا ما حصل بھی۔ یہ تعصبات اورتحفظات کے تار عنکبوت کو توڑنے کا ایک مجاہدانہ عمل ہے۔
سراج زیبائی کا تنقیدی سفر آندھراپردیش، وانمباڑی، چنئی اور مدراس تک محدود نہیں رہابلکہ اپنے مطالعاتی مرکز میں ان شخصیات کو بھی شامل رکھا جن کا تعلق حاشیائی بستیوں سے نہیں بلکہ ادبی مراکز اور دبستانوں سے ہے اور یہ شعر و ادب میں اہم دستخط کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ احمد فراز، ساحر لدھیانوی، مظفر حنفی، جون ایلیا، بشیر بدر ،منور رانا، پروین شاکر، مناظر عاشقہرگانوی یہ وہ نام ہیں جن پر درجنوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ان کے فکر و فن پر کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ان پر لکھی گئی تنقیدی تحریروں میں زیادہ تر تکرار اور اعادہ ہی نظر آتا ہے کوئی نئی جہت اور نیا زاویہ سامنے نہیں آتا۔ سراج زیبائی نے بھی شاید ماقبل کی باتیں ہی دہرائی ہوں مگر انھوں نے اپنے مطالعاتی زاویہ کے انفراد و اختصاص کو برقرا ررکھا ہے اور ان کے تخلیقی محاسن کو اپنے زاویے سے پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔ ان تحریروں میں ان کا اپنا تفہیمی شعور نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان شخصیات پر لکھتے ہوئے ان کے موئے قلم سے بہت سے معنی خیز خوبصورت جملے وجود میں آگئے ہیں۔
سراج زیبائی نے احمد سوز، مشتاق دربھنگوی، ڈاکٹر فریاد آذر، پریم بار برٹنی کے تخلیقی منطقے کی سیاحت کی ہے اور ان کی شاعرانہ خوبیوں کو اپنے تنقیدی پیمانہ پر پرکھا ہے۔ ان حضرات پر لکھا تو گیا ہے مگر بہت کم اس لیے ان پر مزید لکھے جانے کی ضرورت ہے۔
سراج زیبائی صرف شاعر ، ناقداور گیت کار ہی نہیں ہیں بلکہ ایک اچھے مصور بھی ہیں۔ ادب کے جوانب واطراف پر ان کی گہری نظر ہے ان کا مطالعاتی دائرہ بھی وسیع ہے اور معاصر تنقید نگاروں سے زاویہ نظر بھی مختلف ہے’ لہجوں کی مہک‘ ان کے تاثراتی اور تجزیاتی مضامین کا مجموعہ ہے اس میں مختلف لہجوں کی مہک ، مٹھاس، تمکنت، تمازت، جدت وندرت، حدت وشدت ہے۔
سراج زیبائی نے ان مضامین میں مبہم اورژولیدہ تنقیدی زبان استعمال نہیں کی ہے بلکہ اس تنقید میں وہ ترسیلیت ہے جو ہر قاری کواپنی طرف موہ لیتی ہے۔سراج کے خیال میں وضاحت اور زبان میں سلاست ان کے ہر مضمون کو قابل مطالعہ بنا دیتی ہے۔یہ وہ خوبی ہے جو آج کے بہت سے ناقدوں کو نصیب نہیں۔ علیم صبا نویدی نے اپنے بیش قیمت مقدمے میں جن عالمانہ خیالات کا اظہار کیا ہے میں اس کی صد فیصد تائید کرتا ہوں ۔ لہجوں کی مہک ایک عمدہ مونتاژ ہے جس میں مشرق و مغرب، شمال وجنوب کے فنکاروں کو ایک تنقیدی فریم میں جوڑ کر دیکھنے کی بہت خوبصورت کوشش کی گئی ہے۔

You may also like