Home تجزیہ سرسید تعلیمی انقلاب کے علمبردار-ڈاکٹر ثناء اللہ شریف

سرسید تعلیمی انقلاب کے علمبردار-ڈاکٹر ثناء اللہ شریف

by قندیل

محسن ملک و ملت سرسید احمد خان ہماری زندگی کا وہ اہم ستون ہے جس نے ہندوستانی مسلمانوں کے صد ہا سال سے زنگ آلود ذہن و فکر اور جامد و ساکت وجود میں نئی زندگی اور حرکت و حرارت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ فرماتے ہیں:

’’مسلمانوں کی رائے اور ان کے خیالات ہر ایک امر میں تقلید کرتے کرتے ایسے پست اور پامال ہوگئے ہیں جس کے سبب کسی قسم کی تحریک ان میں نہیں ہوئی۔‘‘

سرسید احمد خان۱۷/اکتوبر۱۸۱۷ء بمقام دہلی پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان دہلی میں شرافت اور علم و فضل کے لحاظ سے ممتاز تھا۔ آپ کے خاندان والوں کے تعلقات انگریزوں اور مغلیہ سلطنت دونوں سے خوشگوار تھے۔ دربار میں آتے جاتے تھے۔ مغلیہ سلطنت کے تعلق سے اچھی رائے قائم نہیں تھی۔بہ قول ممتاز مزاح نگارمشتاق احمد یوسفی:

’’…میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بہادر شاہ ظفر کی سواری نکلتی تو دوسو کبوتروں کی ٹکڑی اوپر ہوا میں سواری کے ساتھ اڑتی ہوئی جاتی اور جہاں پناہ پر سایہ کئے رہتی۔ جب واجد علی شاہ مٹیابرج میں محبوس ہوئے تو اس گئی گزری حالت میں بھی ان کے پاس چوبیس ہزار سے زیادہ کبو تر تھے ، جن کی دیکھ ریکھ پر سینکڑوں کبو تر باز تھے۔

’’’…سلطنت پر زوال کیوں آیا! تیغوں کے سائے میں پلنے والوں کے سروں پر جب کبوتر منڈلانے لگیں تو پھر سواری باد بہاری مٹیا برج اور رنگون جا کر ہی دم لیتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے کبوتر خانے اور واجد علی شاہ نے پری خانے اور کبوتر خانے پر جتنی رقم اور توجہ صرف کی ، اس کا دسواں حصہ بھی اپنے توپ خانے پر صرف کرتے تو فوج ظفر موج بلکہ کبوتر موج کی یہ درگت نہ بنتی کہ ڈٹ کر لڑنا تو درکنار اس کے پاس تو ہتھیارڈالنے کے لئے بھی ہتھیار نہ نکلے۔ ہائے !!۔‘‘(آبِ گم)

۱۸۵۷ء اسی آغاز کا انجام ہے۔ مسلمانوں پر قیامتِ صغریٰ ٹوٹ پڑی۔ یہ ایسا دھماکہ تھا کہ مسلمان تلملا گئے۔ ہزاروںخاندان برباد ہوگئے۔ خون کی ندیاں بہہ گئیں۔سارا دلی اجڑگیا۔ املاک، دولت ، گھرسب کچھ تباہ وبرد ہو گیا۔ سرسیدا اُس شہر کی اجڑی بگڑی بکھری تاریخ دیکھنا ہوتوغالب کے خطوط کا مطالعہ کیجئے۔ وہ شہر کے نقوش دیکھنا ہو توسرسید اور دوسروں کی تحریریں موجود ہیں۔

لال قلعہ ویران ہو گیا۔ جن عورتوں اور دوشیزاؤں کو سورج نے نہیں دیکھا تھا وہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگیں اور ان کا کوئی یار و مدد گار نہیں رہا۔ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو کوئے یار میں دو گز زمین کے لئے ترستے، کڑھتے اور بلبلاتے رہے۔

شیخ امام صہبائی جو ایک جید عالم اور شاعر تھے دو بیٹوں سمیت انہیں گولی سے اڑا دیا گیا۔ ممتاز عالم ِ دین فضل حق خیرآبادی کو انڈیمان بھیجا گیا۔ مصطفی خاں شیفتہ کو قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ اردو اخبار کے مدیر مولانا باقر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔مؤرخ لکھتا ہے دہلی کا ایک بھی صحیح سالم نوجوان پھانسی سے نہ بچا، سارے شہر میں اتنی لاشوں کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ قتل ِ عام ہوا ہے۔

اُس وقت سر سید احمد خاں کی عمرچالیس سال تھی ان کے قریبی رشتے دار بھی مارے گئے۔ والدہ زخمی ہو گئیں اُنھیں پانی تک نہیں ملا اور زخموں کی تاب نہ لاکر اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ غدر نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دھبہ چھوڑا۔برطانیہ سامراج نے سارے ملک کو انتقامی آگ کے شعلوں میں جھلس دیا تھا۔ مسلمانوں میں خصوصی طور پر مایوسی اور سراسیمگی پھیل گئی مگر سرسید کے استقلال میں فرق نہیں آیا۔ وہ فرماتے ہیں:

’’ … موجِ دریا کو سرسے گزرتے ہوئے دیکھا تو دل تڑپ اُٹھا ، زندگی ایک بوجھ بن گئی تھی۔ مجھ کو نہ اپنا گھر لٹنے کا رنج تھا نہ مال و اسباب کے تلف ہونے کا، نہ یہ خیال پیدا ہوا کہ نہایت نامردی اور بے مروتی کی بات ہے کہ اپنی قوم کو اس تباہی کی حالت میں چھوڑ دوں ، اس کے ساتھ مصیبت میں رہنا چاہئے اور جو مصیبت پڑی ہے اس کو دورکرنے میں ہمت باندھنا قومی فرض ہے۔‘‘

لہٰذا سرسید احمد خاں نے محسوس کیا اس تبدیل شدہ حالت میں مسلمانوں کی بقا ان کا اہم مسئلہ تھا۔ اس قدر پیچیدہ سیاسی ماحول میں مسلم قوم کو مزید بگڑنے سے محفوظ رکھنے کی خاطر، ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے قوم کو تعلیم یافتہ ہونا چاہئے کیوں کہ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم نے ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے۔ کسی بھی ملک و قوم کی خوش حالی اور ترقی کا ضامن ہے۔ تعلیم سے ہی زندگی میں حسن اور نکھار آتا ہے۔ شخصیت میں وسعت اور گہرائی آتی ہے۔ مشکل سے مشکل حالات کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے انہوں نے سب سے پہلے رفاہی Rehabilitation کام کیا۔ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔جس کے لیے انھوں نے ’’ اسباب ِبغاوت ہند‘‘ لکھ کر آئینہ دکھایا۔

ان کا بیان ہے:

’’یہ سرکار کا کام تھا کہ وہ کوشش کرے اور رعایا کی ہمدردی حاصل کرے نہکہ رعایا کا فرض کہ وہ حکومت کے لطف و کرم کو حاصل کرنے کی سعی کرے۔ اب برطانوی سرکار کو قائم ہوئے سو سال سے بھی اوپر ہو چکے ہیں لیکن اب تک اس نے لوگوں کے دل نہیں جیتے‘‘۔

یہ صرف ان کی جرأت و ہمت کا ثبوت ہے بلکہ ان کی بصیرت اور سوجھ بوجھ کی بھی روشن دلیل ہے۔ مراد آباد میں۱۸۵۹ء مدرسہ قائم کیا جس میں انگریزی کے ساتھ فارسی ،عربی، سنسکرت، اُردو زبانوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ نا امیدی اور سراسیمگی میں اُمید کے ساتھ علم کی شمع کو روشن کیا اقراء کا پیغام عام کرنے کی ٹھان لی۔ ۱۸۶۳ء میں سائنٹیفک سوسائٹی ( Scientific Society ) کا قیام عمل میں لایا جس کا مقصد دین کے ساتھ عصری علوم کی آگاہی ،تاکہ قوم اس سے استفادہ کرے جس کے لیے وکٹوریہ میموریل اسکول قائم کیا جہاں ریاضی ،کیمسٹری ، تاریخ ، فزکس ، اگریکلچر وغیرہ علوم کی تدریس ہوتی تھی۔ انگریزی کتابوں کا ترجمہ شائع کرنا تاکہ ان علوم کو ہندوستان میں مقبول بنایاجاسکے۔دہلی کالج کے بعد یہ اہم کوشش تھی جو ملکی زبانوں میں مغربی علوم سے مالامال کرنا تھا کیوں کہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے قوم ترقی کرتی ہے ورنہ لوگ اس کے بغیراندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے۔

۱۸۶۶ء میں علی گڈھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ جاری کیا جو صحافت کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا۔ اردو انگریزی میں شائع ہوتا تھا جس کا نصب العین قوم کوحکومت سے قریب کرنا اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا تھا ، سنجیدہ نظریات کو عام کرنا اور تعمیری ادب کو شائع کرنا تھا۔ سرسید کی وفات تک یہ اخبار جاری تھا۔۱۸۶۹ء میں سرسید نے ورنا کیولر یو نیورسٹی کی تجویز پیش کی تاکہ مقامی زبانوں میں تمام علوم کیلئے تعلیم کا نظام قائم کریں لیکن یہ منظور نہ ہو سکا۔محض اس خیال سے کہ معلوم کریں کیا راز پوشیدہ ہے جس سے قوم کی حالت بدل جائے۔

۱۸۶۹ء میں سرسید احمد خان نے انگلستان کا سفر کیا محض اس خیال سے کہ معلوم کرلوں کیا راز پوشیدہ ہے جس سے قوم کی حالت بدل جائے۔اور وہاں کے قیام کے دوران انھوں نے ہر چیز کو غورسے دیکھا ۔وہ کہتے ہیں:

’’جب کبھی عالموں اور مہذب انسانوں کو دیکھتا ، جب کبھی علمی مجالس دیکھے، جہاں کہیںعمدہ مکانات دیکھے جب کبھی عمدہ پھول دیکھے، کھیل کود اور عیش و آرام جلسے دیکھے،یہاں تک کہ خوب صورت شخص کو دیکھامجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور قوم یادآئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں‘‘۔

انگلستان کے قیام کے دوران ولیم میور کی کتابLife of Propet ’’لائف آف محمدؐ‘‘ کا ایک دلیرانہ جواب انہوں نے لکھا پھر ۱۸۷۵ء میں ہندوستان واپس آئے۔ یہاں آکر انہوں نے اپنا مشہور و معروف ماہواررسالہ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا۔ یہ صرف اخبارہی نہیں تھا بلکہ ایک مشن اور تحریک تھا جس کے مطالعہ سے مسلمانان ہند کے خیالات میں ایک انقلاب عظیم رونما ہوا۔ سرسید نے مختلف موضوعات ومسائل پرغور کیا اور اپنے خیالات و افکار کو ربط و تسلسل کے ساتھ عالمانہ، مخلصانہ و دلکش پیرائے میں پیش کیا۔ اس کے ذریعہ اردو زبان وادب کو فروغ ملا، ان کے نظریات کی روشنی میں ایک تحریک چلی، رفقاء ملے جس کو آج تک جاری و ساری رہتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تعلیم کا وہ مرکز و محور جس سے کتنے ہی لاکھوں فرزندانِ توحید وہاں سے فارغ ہوئے، روشن ستارے بن کر چمکے اور اپنی روشنی سے جہاں کو منورکررہے ہیں۔وہ سب سے پہلے تعلیمی مفکر ہیں جنہوں نے اردو زبان کو ابتدائی منزل سے اعلیٰ منزل تک ذریعہ تعلیم بنانے کا خیال پیش کیا۔

۱۸۷۵ء میں اپنے خیالات و نظریات کو عملی شکل کے دینے کے لیے انہوں نے محمڈن اینگلو اوریئنٹل کالج کا قیام عمل میں لایا۔ اسے پھلتا پھولتا اور قومی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔جو آگے چل کر ایک یونیورسٹی کی شکل اختیار کرلی۔ غرض مسلمانوں کی تعلیم کے ہر پہلو پر وہ برابر توجہ کرتے رہے۔اس غرض سے۱۸۸۶ء میںانہوں آل انڈیا مسلم ایجو کیشن کانفرس کی بنیاد ڈالی۔ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں میں نئے خیالات پھیلے، تعلیم کا چرچا ہوا۔ اصلاح معاشرے کی تحریکیں پروان چڑ ھیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ سرسید کا یہ خواب مشرمندئہ تعبیر ہوا۔ ملک کے طول و عرض میں آپ کے افکار کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں کے ذہن و دل میں انگریزی تعلیم کے حصول کا جذبہ اور جدید و نافع علوم کے اکتساب کا ولولہ پیدا ہو گیا۔ کرناٹک بھی اس کا شاہد ہے۔

سرسید احمد خان بہت بڑے محب وطن تھے وہ ہند و مسلم اتحاد کے بڑے حامی تھے انہوں نے ہمیشہ تعصب کو ختم کیا ۔جہاں انھوں نے مسلمانوں کی بھلائی کے لیے سوچا وہیں برادران وطن کو بھی اس گرداب سے نکالنے کی کوشش کی۔ ایک تقریر میں انہوں نے کہا تھا:

’’ہندوستان ہی ہم دونوں کا وطن ہے ۔ ہندوستان ہی کی سیوا سے ہم دونوں جیتے ہیں۔ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے جس کی خوبصورت اور رسیلی آنکھیں ہیں ہندو و مسلمان ہیں۔اگر دونوں آپس میں نفاق رکھیں گے تو وہ ہماری دلہن بھینگی ہوجائے گی اور ایک دوسرے کو بربادکریں گے۔ تو ہ کانی ہوجائے گی۔‘‘

بلاشبہ سرسید احمد خان ملک و ملت کے عظیم قائد اور اتحادو یکجہتی کے علمبردارتھے۔اسی لئے ڈاکٹر علامہ اقبال کو سرسید کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے:

’’سید کی لوح ِ تربت ‘‘ پر ان کے پیغام کو ، اپنے اشعار میں یوں فرمایاہے:

وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لئے اپنی زبان

چھپ کے بیٹھا ہوا ہے ہنگامۂ محشریہاں

وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریرسے

دیکھ! کوئی دل نہ دکھ پائے تری تقریر سے

معروف نقاد و ادیب آل احمد سرور کہتے ہیں:

’’سرسید علی گڑھ ادارے کے بانی ہی نہیں ہندوستان کی ان عظیم شخصیتوں میںسے ہیں جنہوں نے ہماری تاریخ پر ایک غیر فانی نقش چھوڑا۔یقین محکم و عمل پیہم کی وہ زندہ تصویر تھے۔ ان کی یاد کافی نہیں ان کی بلند پایہ شخصیت اور گراں قدر کارناموں کا علم و عرفان ضروری ہے اور آج پہلے سے زیادہ ضروری ہے۔‘‘ بہ قول شاعر:

اجالا جس کے دم سے تھا اندھیرے جس سے لرزاں تھے

اسی شمع فروزاں کی کمی ہے آج محفل میں

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like