Home سفرنامہ سر سید کی بگیا میں ۔محمد علم اللہ

سر سید کی بگیا میں ۔محمد علم اللہ

by قندیل

سرسید احمد خاں کے خوابوں کے مرکز ”مدرسۃ العلوم “یا ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی“ کا یہ میرا پہلا سفر نہیں تھا لیکن تن تنہا، آزاد اور اپنی مرضی سے یہ علی گڑھ کا میرا پہلا دورہ تھا۔ میرا اس سے قبل دو مرتبہ علی گڑھ جانا ہوا،ایک مرتبہ جب تحقیقی کام کے سلسلے میں گیا تو وقت بہت کم اور کام بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے سرسید کی بگیا میں’تاکا جھانکی‘ بھی نہیں کر سکا۔ ادھر کام ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ وقت نے اپنے ’ خاتمے‘ کا بگل بجا دیا۔ اس طرح مجھے ادھورا ہی واپس آنا پڑا۔
دوسری بار علی گڑھ جانے کا اتفاق استادِ محترم ڈاکٹر ظفر الاسلام خان (معروف دانش ور، قلم کار، صحافی،مترجم اور مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر) کے ساتھ ایک سیمینار میں شرکت کی غرض سے ہوا۔ اس شام ہم ایک ساتھ علی گڑھ پہنچے۔ سورج تو کب کا غروب ہوچکا تھا۔ ہم جب تک سیمینار ہال میں پہنچے، شام کا جھٹ پٹا، رات کا لبادہ اوڑھ رہا تھا۔ مہمان خانے میں قیام و طعام کا معقول انتظام کیا گیا تھا، مگر وقت تو اس بار بھی ہماری مٹھی سے پھسلا جا رہا تھا۔ وہاں تھوڑی دیر رک کر اسٹریچی ہال پہنچے، جہاں سیمینار ہونا تھا، بلکہ ہو رہا تھا۔
اسٹریچی ہال کو میں مولانا محمد علی جوہر کے حوالے سے جانتا ہوں، جو میری پسندیدہ شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے اپنی قائدانہ زندگی کا آغاز اسی ہال سے تقریر کرتے ہوئے کیا تھا اور تب سے میرے دل میں بھی اسٹریچی ہال کے ڈائس سے تقریر کرنے کی خواہش چٹکیاں لیتی رہی ہے۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ جس نے اسٹریچی ہال میں تقریر کرلی، وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں اور کسی بھی مجمع سے خطاب کر سکتا ہے۔
مگر افسوس! ابھی تک قسمت نے یاوری نہیں کی ہے اور صرف اسی ایک تمنا کے خون ہونے کا غم کیا منایا جائے کہ خونِ تمنا کی داستان بہت طویل ہے۔ میں اپنے دوست کوثر عثمان سے اپنی اس تمنا کا اظہار کر رہا تھا تو استادِ محترم نے میری بات سن لی اور کہنے لگے؛ جاؤ! آج ہی اپنی حسرت پوری کرلو، میں اپنی جگہ تمھیں دے دیتا ہوں۔ مگر میں نے ادب کے ساتھ اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ میں نے سوچا کہ یہ تو مانگے کا اجالا ہوگا، اگر آج میں نے اسٹریچی ہال میں تقریر کر بھی لی، تو دل میں ہمیشہ یہ پھانس اٹکی رہے گی کہ میں نے اپنے بل بوتے پر یہ اعزاز حاصل نہیں کیا اور وہ اعزاز اور کامیابی ہی کیا جس میں اپنا ریاض اور خونِ جگر شامل نہ ہو۔ خیر، اسٹیج نہیں نصیب ہوا تو کیا، اسٹریچی ہال کے سامعین کی فہرست میں تو میں نے اپنا نام درج کروا ہی لیا۔ سیمینار ختم ہوا اور ہم الٹے پاؤں واپس سرسید کی بگیا سے دہلی آ گئے۔
راستے بھر اس مرد درویش کے حدود حرم کے سحر سے باہر نہیں نکل سکے۔ اللہ، اللہ، کیا شخص تھا وہ؟
دو ادوار، اس ایک شخص میں آ کر ضم ہو جاتے ہیں؛ تہذیبوں کے تصادم کے اس دور میں سرسید کی معنویت کی ایک اہم جہت یہ بھی ہے کہ وہ تصادم یا مناظرے کے بجائے مکالمہ اور تہذیبی لین دین کے عَلم بردار تھے۔
میں نے سوچا کہ اس لمبی داڑھی اور اوورکوٹ میں ملبوس پیکر کی’شخصیت اور کارنامے ‘ کا جشن منانے والے ہم جیسے بونے لوگ اس کے کارناموں کا ادراک بھی کتنی نچلی سطح پر آ کر کرتے ہیں۔ جس طرح ظاہر بیں نگاہیں اس ’جوان بوڑھے‘کے ظاہری ڈیل ڈول اور شخصی وجاہت پر جاکر اٹک جاتی ہیں، ویسے ہی ہم میں سے دانش وری کا زعم پالنے والے بھی اس کے ذہن رسا، اس کے طرز فکر اور اس کے تخیل کی پرواز کو چھو نہیں سکتے۔ اور ہاں، اس کی سب سے بڑی دولت، اس کے دل درد مند کو ہم تو کب کا فراموش کر چکے ہیں۔ جس کی حرارت نے نہ جانے کتنے دلوں کو گرما دیا۔ او رچراغ سے چراغ روشن ہوتے رہے۔ مجھے ان سب کا دھیان آیا، شمع کی مرکزیت تو مسلم ہے، پروانوں کے عشق کا بانک پن اور کج کلاہی بھی تو غضب کی تھی۔ کار ایک دھچکے سے رکی اور میں اپنے خیالوں کی دنیا سے لوٹ آیا۔ ہم دہلی پہنچ چکے تھے۔
جب آپ کسی کے ساتھ کہیں جاتے ہیں۔خاص طور پر بڑوں کے ساتھ، تو آپ بہت ساری بندشوں میں بندھ جاتے ہیں۔ آپ چاہ کر بھی بہت کچھ نہیں کر سکتے، کسی کے ساتھ بے تکلفی سے بات نہیں کر سکتے، کھل کر ہنس نہیں سکتے اور آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار بھی نہیں کر سکتے کہ مبادا ہماری یہ حرکت سوئے ادب تصور کرلی جائے اور ہم جیسے نچلے نہ بیٹھنے والے اس کچھ عرصے میں مصنوعی زندگی جینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہاں، بڑوں کے ساتھ کہیں جائیں تو ان سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ بعض لوگ سفر میں سونا، کتاب کا مطالعہ کرنا یا پھر شہروں، گلیوں، کوچوں، سڑکوں، جنگلوں اور آبادیوں کا مشاہدہ کرنا پسند کرتے ہیں۔مجھے بھی یہ چیزیں پسند ہیں، مگر اس کے علاوہ مجھے سفر میں باتیں کرنا یا کسی کے تجربات سے محظوظ ہونا بھی اچھا لگتا ہے، مگر ایسے مواقع کم ہی میسر آتے ہیں۔ تاہم میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے اپنے کئی بزرگوں کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔
یہ سفر بھی ایک تعلیمی اور تحقیقی سفر تھا۔ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مشہور زمانہ’برج کورس‘ اور اس میں شامل طلبہ و طالبات سے ملنے، باتیں کرنے، اس کورس کو سمجھنے اور اس کے روح ِرواں، معروف دانشور اور صاحب قلم ڈاکٹر راشد شاز صاحب سے تبادلہء خیال کے لیے حاضر ہوا تھا۔ دعوت نامہ تو کئی مرتبہ ملتا رہا تھا لیکن ہر مرتبہ کچھ نہ کچھ مصروفیت اور مجبوری ایسی پیش آجاتی کہ کئی اچھے پروگراموں میں چاہ کر بھی شریک نہیں ہو سکا تھا۔ مگراس بار نرم گرم بستر اور صبح کی ٹھنڈک کو شکست دے کر میں سات بجے ابوالفضل انکلیو، اوکھلا سے علی گڑھ کی بس پکڑنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ گو اس کا اظہار تحصیل حاصل ہے مگر سند کے لیے یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس میں کامیابی کا پورا پورا سہرا صرف مجھے جاتا ہے، کسی اور کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ سفر اچھا گزرے اس کے لیے میں نے پہلے ہی الجزیرہ کی پانچ سات دستاویزی فلمیں اور ٹیڈایکس سے اپنی دلچسپی کی کچھ ٹاکس موبائل میں محفوظ کر لی تھیں، ساتھ بیٹری بیک اپ اور موبائل فون دونوں کو رات ہی میں فل چارج کر لیا تاکہ یہ عین وقت پر داغِ مفارقت نہ دے بیٹھیں۔
دہلی سے علی گڑھ تقریباً ‎ ساڑھے چار گھنٹے کا سفر ہے۔ بیچ میں ایک جگہ بس رکی، مسافر تکان دور کرنے کے لیے نیچے اترے، میں بھی ان کے ساتھ نیچے آ یا، چائے پی اور پھر اپنی جگہ آکر جم گیا۔ بس میں بیٹھے بیٹھے کب آنکھ لگی پتا ہی نہیں چلا۔ جب نیند ٹوٹی تو بس علی گڑھ پہنچ چکی تھی۔ اترتے ہی احمد فوزان کو جو برج کورس میں استاد اور سیکرٹری کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، فون کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ ریسیو کرنے کے لیے وہاں پہلے ہی سے موجود ہیں۔ میں ان کے ساتھ، مرکز برائے فروغِ تعلیم و ثقافت مسلمانانِ ہند پہنچا۔’برج کورس‘ بھی اسی عمارت میں چلتا ہے۔ پہنچتے ہی فورا ناشتے وغیرہ کا انتظام کیا گیا۔
استقبالیہ میں ڈاکٹر محمد احمد’معاون رابطہ عامہ افسر برج کورس‘ موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات بہت دل چسپ رہی، دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو رہی، جن میں ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل اور مدارس زیادہ اہم تھے۔ ایک قلم کار کے لیے اس سے بڑی خوشی کی کوئی اور بات نہیں ہو سکتی کہ کوئی اس کی تحریروں کو نہ صرف یہ کہ پسند کرے بلکہ ان کے متعلق سوالات کرے اور ان میں بہتری لانے کے لیے مشورے بھی دے۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر احمد نہ صرف یہ کہ میری تحریریں شوق سے پڑھتے ہیں، بلکہ ان میں زیر بحث موضوعات پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ یہ چیزیں جہاں مجھے حوصلہ دیتی ہیں، وہیں ذمہ داری کا بھی احساس دلاتی ہیں۔
ڈاکٹر راشد شاز صاحب نے ملاقات کے لیے صبح کا وقت دیا تھا اور میں وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا تھا، لیکن جب میں وہاں پہنچا تو وہ کسی اور کام کے لیے کہیں نکل چکے تھے۔ ڈاکٹر احمد کے ساتھ ہماری بہت دیر تک بات چیت رہی۔ دوپہر کا وقت ہو چلا تھا، انھیں گھر کے لیے بھی نکلنا تھا، میں بھی جلد کام نمٹا کر دلی واپس آنا چاہتا تھا کہ اس کی یادیں ان چند گھنٹوں کے فراق ہی میں تڑپانے لگی تھیں۔ احمد فوزان بھی کسی کام سے کہیں جا رہے تھے تو انھوں نے مجھے گیسٹ ہاوس میں آرام کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ میں کون سا تھکا ماندہ تھا کہ آرام کرتا، سو میں اکیلے ہی کیمپس میں چہل قدمی کرنے نکل پڑا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی چار دیواری میں داخل ہوتے ہی تاریخ و ثقافت، ادب و تہذیب، دانش و بینش اور تعلیم و تفکر کا ایک جہان معنی ذہن کے پردے پر نمودار ہوجاتا ہے۔ اس طلسم میں آنکھیں خیرہ، مگر دل روشن ہوئے بغیر نہیں رہتا، جگہ جگہ علم و ادب کی کرنیں بکھری نظر آتی ہیں، ذرہ ذرہ خلوص اور محبت کی داستان سرائی میں محو نظر آتا ہے۔
ابھی میں سڑک پار کر کے چند ہی قدم آگے بڑھا تھا کہ اچانک نعروں کی گونج سنائی دینے لگی۔ مجھے اقبال یاد آ گئے جو طلبا برادری سے شاکی تھے کہ ان کے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں، اور ان کے لیے دعاگو بھی تھے کہ خدا انھیں کسی طوفاں سے آشنا کردے۔ نعروں کی آواز قریب آئی توان کے ساتھ نعرے لگانے والے بھی نمودار ہوئے۔ معلوم ہوا کہ طلبا یونین کا الیکشن قریب ہے۔ امیدواروں کی انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ ابھی ایک جماعت نہیں گزری تھی کہ دوسری جماعت نمودار ہو گئی اور متواتر کئی جماعتیں الگ الگ انداز میں نعرے لگاتی ہوئی نظر آئیں۔ انتخابی جماعتوں کا یہ ہجوم اسٹوڈنٹس یونین ہال کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس میں کوئی جماعت انتہائی سنجیدہ تھی تو کوئی ناشائستہ اور بے ہنگم انداز میں دھماچوکڑی مچاتی اور شور کرتی آگے بڑھ رہی تھی۔ کسی نے اپنی بائک اور گاڑی کے سائلینسر کو کم کر دیا تھا، کہیں گاڑیوں کے دھویں اور ہارن سے فضا مکدر ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ان کے تمام لیڈر شیروانی اور ٹوپی میں ملبوس تھے، جو لکھنوی انداز میں انتہائی متانت کے ساتھ سلام کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ جگہ جگہ لال، پیلے، نیلے، سفید اور مختلف رنگوں کے انتخابی پرزے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔
دوپہر کا وقت بیت چلا تھا اور احمد فوزان کا فون بھی بار بار آ رہا تھا، سو جلدی مرکز لوٹ آیا۔ ادھر مہمان خانے میں کھانا چن دیا گیا تھا۔ روٹی’دال مکھنی‘ اور سلاد پر مشتمل سادہ مگر صاف ستھرا کھانا اچھا لگا، کھانا کھا کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ کچھ طلبا اندر آ کر میرے پاس بیٹھ گئے۔ طلبا سے ملاقات اچھی رہی۔ ان سے اس بات چیت میں جہاں ان کی پریشانیوں کو جاننے کا موقع ملا، وہیں برج کورس کے فوائد اور اس سے طلبا کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات سے اور آنے والی تبدیلیوں سے واقفیت ہوئی۔
جس بات کی مجھے سب سے زیادہ خوشی ہوئی وہ یہ تھی کہ یہاں ہر طالب علم میں کچھ جاننے اور سیکھنے کی لگن اور شوق تھا۔ بیشتر طلبائے مدارس یہاں سے کورس کی تکمیل کے بعد مواقع اور اس مرحلے کے کورسوں میں داخلے اور تیاری کی بابت جاننا چاہ رہے تھے۔ بات چیت کے بعد وہاں سے باہر نکلا تو دیکھا کہ بیشتر طلبا لائبریری یا اپنے کمروں میں محو مطالعہ تھے۔ یہ منظر میرے لیے بہت پرکشش تھا۔ آج ہمارے اداروں میں ذاتی مطالعہ آزادانہ اور ذمہ دارانہ غور و فکر تو جیسے مفقود ہی ہو کر رہ گیا ہے۔
ایک چیز اور جو مجھے یہاں بڑی اچھی لگی، وہ اس کی روایت ہے جو کسی دوسری یونیورسٹی میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملے۔ یہاں کی شرارتیں بھی بہت مہذب اور شائستہ ہوتی ہیں ۔ ان میں مزاح ہوتا ہے۔ پھکڑ یا چھچھورے پن کو ذرا بھی دخل نہیں ہوتا۔ ان شرارتوں سے وہ لڑکے تک لطف لیتے ہیں جن کے ساتھ وہ کبھی کی جاتی ہیں،یہ کمال ہے ۔
برج کورس کے طلبا نے بات چیت میں جہاں اساتذہ اور نظام تعلیم کی تعریف کی وہیں کچھ طلبا نے بتایا کہ انھیں دیگر کورسوں کے طلبا کی طرح کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے کی آزادی نہیں ہے۔ جب میں نے ذمہ داران سے اس بارے میں بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ایسی بات بالکل نہیں ہے؛ ہاں! اس کے لیے وقت متعین ہے۔ ہم طلبا کو زیادہ تر پڑھائی لکھائی میں اس لیے مصروف رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک خاص مقصد سے یہاں آتے ہیں اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ وہ جس مقصد کے لیے آئے ہیں اس کے حصول پر ان کی توجہ زیادہ مرکوز رہے۔ ایک سال کا وقت یوں بھی بہت کم ہوتا ہے اور باہر کا کمپٹیشن بہت سخت ہے، پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مستقل کوئی نہ کوئی تنازع بپا ہوتا رہتا ہے؛ کبھی سیاست کے نام پر تو کبھی کسی اور نام پر اور چوں کہ برج کورس میں پڑھنے والے طلبا سب کے سب مدارس کے فارغ ہوتے ہیں، اس لیے باہر کے لوگ بھی ان پر سخت نظر رکھتے ہیں؛ ان کی چھوٹی غلطی کو بھی بڑا بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ انھیں ان تمام چیزوں سے بچا کر رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، اس لیے ہم طلبا کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ تعلیم پر توجہ دیں اور دیگر مشغولیات میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔
یہاں پر برج کورس کے بارے میں طلبا سے بات چیت میں مثبت اور منفی دونوں قسم کی آراء سامنے آئیں۔ جہاں کچھ طلبا نے اس کورس کی بے انتہا تعریف کی، وہیں کمیوں اور خامیوں کی جانب بھی نشان دہی کی، لیکن مکمل طور پر بغیر تحقیق کے اس بارے میں کچھ بھی تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ ان طلبا اور ان کے سرپرستوں سے جو اس میں داخلہ لینا یا دلوانا چاہتے ہیں، میں یہ ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ فارم پر کرنے سے قبل ایک مرتبہ نصاب وغیرہ کا مطالعہ اچھی طرح کر لینے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں۔ ہمارے یہاں بد قسمتی یہ ہے کہ ہم کہیں بھی داخلہ لینے جاتے ہیں تو اس بارے میں بہت کم جانچ کرتے ہیں، حالاں کہ ہدف اور منزل کا تعین کر لیا جائے تو کسی سے بھی شکوہ یا شکایت کا موقع کم ہی رہ جاتا ہے۔
تقریباً ‎ چار بجے کے قریب برج کورس کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر راشد شاز اوران کی اہلیہ ڈاکٹر کوثر فاطمہ سے ملاقات ہوئی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات کافی بھرپور رہی۔ ٹھنڈ میں خوش ذائقہ دارجلنگ چائے کی سوغات پیش کی گئی اور بات چیت کا سلسلہ چلتا رہا۔ ہماری یہ گفتگو کب شروع اور کب ختم ہوئی پتا ہی نہیں چلا۔ ہماری گفتگو کا محور ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل، سیاست، تعلیم و تعلم اور برج کورس رہا۔ اس درمیان میں نے مطالعہ اور لکھنے کے انداز پر سوالات کیے، جس میں انھوں نے کئی اہم طریقے اور گر کے بارے میں مجھے بتایا۔
یوں تو میرے پاس پوچھنے کے لیے بہت کچھ تھا اور ان کے پاس بھی کہنے کے لیے ڈھیروں باتیں، مگر سرکتے وقت کو قابو میں کرنا ہمارے بس کی بات نہیں تھی، سو نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو کو سمیٹنا پڑا اور مغرب کی اذان کے ساتھ ہم نے مسجد کی راہ لی۔ نماز کے بعد مجھے دہلی کے لیے بھی نکلنا تھا۔ نکلتے وقت ڈاکٹرصاحب نے مجھے ڈھیر ساری کتابوں کے ساتھ رخصت کیا۔ مجھے ان کا یہ انداز بہت اچھا لگا کہ وہ اور ان کی اہلیہ دونوں اپنی کار سے مجھے بس تک چھوڑنے آئے۔
اس بار میں تنِ تنہا تھا تو کسی طرح کا کوئی دباؤ بھی مجھ پر نہیں تھا، میں بہت سارے لوگوں سے مل سکتا تھا، طلبا سے ان کے’من کی بات‘ معلوم کر سکتا تھا، کیمپس میں گھوم پھر کر چشمِ تصور سے سرسید اور ان کے رفقا سے ہم کلام ہو سکتا تھا، لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“۔
ایک مرتبہ پھر وقت کی قلت کی وجہ سے دل مسوس کر رہ گیا۔ علی گڑھ کو اتنی فرصت سے میں نہیں دیکھ سکا جتنی فرصت کے ساتھ میں چاہتا تھا۔ ایک بار پھر شام ہو چلی تھی، بس کے چلنے کا وقت قریب سے قریب تر آ رہا تھا۔ سو میں نے نکلنا ہی مناسب جانا۔ ڈاکٹر شاز اور ان کی اہلیہ نے بہت ضد کی کہ رک جاؤ! کل صبح چلے جانا، مگر مجھے اگلے روز جامعہ، اپنے دفتر میں حاضری بھی دینی تھی۔ سو، ناتمام آرزووں اور حسرتوں کے ساتھ سرسید کی بگیا کو آخری سلام پیش کرتے ہوئے واپس دہلی کی ہنگامہ خیزی کی طرف لوٹ آیا۔
اس مختصر وقت میں علی گڑھ اور جامعہ کے ماحول میں جو فرق میں نے محسوس کیا، وہ یہ ہے کہ علی گڑھ میں زندگی ٹھہری ٹھہری اور سمٹی سمٹی سی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس دہلی میں بہت بھاگم بھاگ اور افراتفری کا ماحول ہے۔ یہاں کی زندگی جمود سے نا آشنا ہے ۔ یہاں حرکت میں برکت ہے اور ٹھہراؤ کی صورت میں زندگی خود کا بوجھ بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتی ۔ سرسید کے اس دیار میں عام ریسرچ اسکالر یا طالب علم سے بھی آپ بات چیت کریں گے تو وہ بہت پرسکون اور مطمئن نظر آئے گا۔ جب کہ دہلی یا جامعہ میں طلبا اپنے کیریئر اور مستقبل کو لے کر بہت متفکر اور مضطرب نظر آئیں گے۔
معاملہ جو بھی ہو میں سمجھتا ہوں ان دونوں اداروں کا ملک و ملت پر بڑا احسان ہے، لیکن آزادی کے بعد سے جس طرح مسلمانوں کے ساتھ عصبیت، بھید بھاؤ اور انھیں حاشیہ پر رکھ دیے جانے کا رویہ اپنایا گیا، یہ ادارے بھی اسی کا شکار رہے اور موجودہ حکومت کی تو یہ دونوں آنکھوں کا شہتیر بنے ہوئے ہیں، جنھیں ان کی ہر ادا میں کجی ہی نظر آتی ہے ۔ یہ دونوں ملک میں اقلیتوں کی تعمیر و ترقی کے لیے بنائے گئے تھے مگر آج ان کے اسی کردار کو ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ جہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں ہے، وہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اقلیتی کردار ختم کرنے کے لیے بی جے پی حکومت نے حلف نامہ داخل کر رکھا ہے۔
ان تمام رکاوٹوں کے باوجود ان دونوں اداروں نے جس انداز میں ملک کی تہذیب، ثقافت، اتحاد و سالمیت اور ان سب سے بڑھ کر جمہوریت کی بقا کے لیے کوششیں کی ہیں، وہ نصیبہ کم ہی اداروں کے حصے میں آیا ہوگا۔ ان ہی کی دین ہے کہ ہم دیہاتی اور پسماندہ علاقوں سے آنے والے لوگ بھی حرف و قلم سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ اللہ ہمارے اس سرمائے کو دشمنوں کی نظر بد سے بچائے۔ آمین !

اظہار تشکر:
تصویر کے لیے پروفیسر غضنفر زیدی، استاد شعبہ فائن آرٹ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا شکریہ جن کی فن کاری کا یہ محض ایک نمونہ ہے۔

You may also like