کیا آپ جانتے ہیں کہ راحت ابرار کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ( اے ایم یو ) کی تاریخ کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاتا ہے؟ یہ لقب انہیں یونہی نہیں مل گیا ہے ، اس کی بنیاد میں اے ایم یو اور اس کے بانی سرسید احمد خاں سے وہ بے پناہ محبت ہے ، جو کسی علیگ ہی کو ہو سکتی ہے ۔ مگر علیگ تو بہت ہیں لیکن ہر علیگ راحت ابرار نہیں ہے ۔ راحت ابرار بننے کے لیے اے ایم یو اور سرسید سے محبت کے علاوہ تحقیق اور سچ کو جھوٹ سے الگ کرنے کا جذبہ بھی درکار ہے ، جو راحت صاحب میں بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے ۔ اے ایم یو اور سرسید پر موصوف کی کئی تحقیقی کتابیں ہیں – اردو اور انگریزی دونوں ہی زبانوں میں – اِن دنوں وہ ، بزبان انگریزی ، ایک کتاب تصنیف کر رہے ہیں ، جس کا موضوع یہ سوال ہے ، کہ کیا اے ایم یو واقعی ایک اقلیتی یونیورسٹی ہے؟ تمہید قدرے طویل ہوگئی ، لیکن یہ بتانا ضروری تھا کہ جس کتاب ’ سرسید کا قیام مرادآباد ‘ کا تعارف کرانا ہے ، اس کے مصنف کی ، اپنے موضوع پر ، مکمل گرفت ہے ۔ یہ کتاب سرسید اکیڈمی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈائرکٹر ، پروفیسر شافع قدوائی کے اس منصوبے کی ایک کڑی ہے ، جِس کے تحت وہ ، سرسید کے قیام والے شہروں پر ، سرسید کے تعلق کی ممکنہ تمام جہات کا احاطہ کرنے کے لیے ، مونو گراف لکھوا رہے ہیں ۔ ’ حرفے چند ‘ کے عنوان سے پروفیسر شافع قدوائی راحت ابرار اور اس مونو گراف کے بارے میں لکھتے ہیں
: ’’ علی گڑھ کی تاریخ کے رمز شناس اور مصنف ڈاکٹر راحت ابرار سے سرسید کے قیام مرادآباد پر مونو گراف لکھنے کی درخواست کی گئی اور سرسید اکادمی ان کی ممنون ہے کہ انہوں نے درخواست قبول کر لی ۔ سرسید اور مرادآباد کے موضوع پر کم لکھا گیا ہے اور جو کچھ لکھا بھی گیا ہے ، اس میں تحقیقی دقت نظری اور دستاویزات سے براہِ راست استنباط کا لحاظ شاذ ہی لکھا گیا ہے ۔ ڈاکٹر راحت ابرار نے اس موضوع سے متعلق تمام معلومات کو تحقیقی نقطہ سے مرتب کیا اور ماہرین سرسید کے تسامحات کو دستاویزی شواہد کے ساتھ نشان زد کیا ۔‘‘
راحت ابرار نے ’ پیش گفتار ‘ میں اِس مونو گراف کے حوالے سے سرسید اکادمی کے قیام کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ سرسید اور علی گڑھ تحریک پر سنجیدہ طریقہ سے تحقیق و تصنیف کے کاموں سے وابستہ اہلِ دانش کا خیال ہے کہ سرسید پر منصوبہ بند طریقے سے تحقیق نہیں کی گئی ۔ یہی سبب ہے کہ ان کی سوانح ، شخصیت اور خدمات کے ایسے متعدد گوشے ہیں جو آج بھی تشنۂ تحقیق ہیں ۔‘‘ وہ پروفیسر شافع قدوائی کے پراجیکٹ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ سرسید اور علی گڑھ تحریک پر تحقیق و تالیف سے وابستہ افراد سرسید اکادمی کے موجودہ ڈائرکٹر پروفیسر شافع قدوائی کے اس فیصلے کا خیر مقدم کریں گے کہ پچاس سال بعد پروفیسر خلیق احمد نظامی کے خوابوں اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے اور تحقیقی نوعیت کے کام کرنے کے لیے منصوبہ بند کوششوں کا آغاز ہوا ہے ۔‘‘ مراد آباد میں سرسید کا قیام ساڑھے تین سال رہا ، یہ سال ، بقول راحت ابرار : ’’ سرسید کی آئندہ زندگی کے لیے بہت ہی انقلابی ثابت ہوئے ، جہاں اُن کے مذہبی ، تعلیمی اور فلاحی اقدامات میں پہلی بار اہم موڑ آیا اور پہلی بار اُنہوں نے مجتہدانہ افکار و اعمال کی تخم ریزی شروع کی اور اسی شہر سے وہ اپنے ہم وطنوں کے لیے ایک نئی منزل کا نشان بھی بنے ۔ علی گڑھ تحریک کے ابتدائی نقوش مرادآباد میں اور ان کے قائم کردہ فارسی پنچائیتی مدرسہ میں ملتے ہیں ۔ یہیں ۱۸۶۱ء میں ان کی رفیقۂ حیات نے ان کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا اور اپنی چوالیس برس کی عمر سے تجرد کی زندگی گزاری ۔ یہی وہ شہر ہے جہاں انہوں نے اپنی پبلک لائف کا آغاز کیا اور پندرہ ہزار سے زائد افراد کو خطاب فرمایا اور اپنی تصنیفی سرگرمیوں سے مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا اور حکمراں طبقہ میں مسلمانوں کے تئیں رائے عامہ کو ہموار کیا ۔‘‘ اُنہوں نے سرسید اکادمی کو دو اہم مشورے بھی دیے ہیں : ’’ میری ناقص رائے میں سرسید اکادمی کی یہ خصوصی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ علی گڑھ تحریک کو نئے زمانے اور اُس کے تقاضوں کے مطابق پیش کرے اور خود طلبائے علی گڑھ میں علی گڑھ تحریک سے ’ احساسِ شراکت اور احساسِ وابستگی ‘ کے جذبے کو فروغ دے ۔‘‘
مونو گراف کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ، پہلے باب کا ؑعنوان ہے ’ سرسید اور ۱۸۵۷ء کے اثرات مرادآباد میں ‘۔ اس باب کو ، تمہید کے بعد ، دو حصوں میں بانٹا گیا ہے ، حصہ ’ الف ‘ کا عنوان ہے ’ مسجد شاہ بلاقی خاں میں ملکۂ وکٹوریہ کے لیے دعا ‘ ۔ راحت ابرار لکھتے ہیں : ’’
غدر میں مرادآباد کے سولہ ہزار آدمیوں نے دہلی کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو جان و مال قربان کرنے کا محضر نامہ بھیجا تھا ۔ پھر یہ محض زبانی جمع خرچ نہیں تھا ، ہزاروں بندگان خدا واقعتاً اس راہ میں شہید ہو گیے ۔ شہر کے دو محلّوں کے نام ان کی مستقل یادگار ہیں ۔ گل شہید ( جہاں پھانسی دے کر مارا گیا ) کٹار شہید ( جہاں تلوار سے قتل کیا گیا ) سرسید جن دنوں مرادآباد میں تھے تبھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی عمل داری ختم ہوگئی اور ہندوستان ملکۂ برطانیہ کے قبضہ میں آگیا جس پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار سرسید نے کیا ۔ مراد آباد کے مسلمان بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے جبر اور مسلم دشمنی سے پریشان تھے ۔ لہٰذا ملکۂ وکٹوریہ کی حکومت میں اُنہیں کچھ بہتر آثار نظر آئے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ بلاقی میں ۲۸ جولائی ۱۸۵۹ء ( بروز جمعرات) کو قریب پندرہ ہزار مسلمانوں کے وہاں جمع ہوئے ، غریبوں اور مسکینوں کو عمدہ کھانا تقسیم کیا گیا ۔ عصر کے وقت سب لوگوں نے شاہ بلاقی کی مسجد میں نماز پڑھی ۔ نمازیوں کی اس قدر کثرت تھی کہ مسجد کے باہر میدان تک جماعتیں کھڑی ہوئی تھیں ۔ نماز کے بعد سرسید نے صحنِ مسجد میں ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر اردو زبان میں ایک مناجات پڑھی جس میں شاندار الفاظ ہیں ، نہ رنگینی ہے ، نہ تصنع ہے ، محض سیدھے سادے الفاظ اور بے ساختہ ہیں ۔ مگر اس کے ہر جملے اور ہر فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تباہی اور بربادی نے اس شخص کے دل میں ایک عجیب بے چینی پیدا کر رکھی تھی ، جو کسی طرح کم نہ ہوتی تھی بلکہ روز بروز زیادہ ہوتی جاتی تھی اور گویا اس بات کی خبر دیتی تھی کہ وہ سرسید کو اخیر دم تک اس چیٹک سے خالی نہ رہنے دے گی ۔‘‘ یہ خطاب ملکۂ وکٹوریہ کے اعلانِ معافی کی شکر گزاری میں تھا ۔ سرسید نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان مزید تباہ و برباد ہوں ۔ اس باب کے حصہ ’ ب ‘ میں سرسید کی چھ تصانیف ’ تاریخ سرکشیٔ ضلع بجنور ‘ ، ’ اسباب سرکشٔی ہندوستان کا جواب مضمون ‘ ، ’ رسالہ خیر خواہان مسلمانان ‘ ، ’ شکریہ مرادآباد کے مسلمانوں کا ‘ ، ’ تاریخ فیروز شاہی کی تصیح ‘ اور ’ تحقیق لفظ نصاریٰ ‘ کا تعارف کرایا گیا ہے ۔
باب دوم ’ علی گڑھ تحریک کی خشتِ اوّل ‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس باب میں ’ مرادآباد کا تحصیلی مدرسہ ‘ کے عنوان سے اس مدرسے کا تعارف کرایا گیا ہے ، جس کے بارے میں راحت ابرار لکھتے ہیں : ’’ دراصل یہ مدرسہ سرسید کی قومی و ملی زندگی کی ابتداء ہے اور تحریک سرسید کا نقطہ آغاز ہے ۔‘‘ اس باب میں کئی اہم باتیں آ گئی ہیں ، جیسے کہ مدرسہ کے خازن ایک ہندو چوبے گردھاری لال تھے ، اور بعد میں سرسید نے علی گڑھ کے کالج کا خازن بھی ایک ہندو شیام بہاری لال ماتھر کو بنایا تھا اور سرسید کے نانا خواجہ فرید الدین نے بھی اپنی جائیداد کا خزانچی ایک ہندو لالہ ملوک چند کو بنایا تھا ۔ اس مدرسہ کو ماہرینِ سرسید نے علی گڑھ تحریک کا خشتِ اول اور رفاہِ عام کے کاموں میں سرسید کی اولین کوشش قرار دیا ہے ۔ اس باب میں فارسی مدرسہ کے نصاب تعلیم پر سرسید کی فارسی زبان کی کتاب ’ کتابِ فقرات ‘ کا تعارف بھی کرایا گیا ہے ۔ اس مونوگراف میں یتیم خانے کے قیام ، ضبط شدہ جائیداد کے لیے اسپیشل کمیشن کی رکنیت ، بیٹی امینہ کی پیدائش اور موت ، اہلیہ کے انتقال ، پرنٹنگ پریس کی خریداری ، گھر کی تلاشی اور علی گڑھ تحریک کی سرگرمیوں کے علاوہ مرزا غالبؔ کے سرسید کے مکان میں آنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ مصنف کے مطابق غالبؔ اور سرسید میں خاندانی روابط تھے ۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں : ’’ جب مرزا سرائے سے سرسید کے مکان پر پہنچے اور پالکی سے اترے تو ایک بوتل ان کے ساتھ تھی ، انہوں نے اس کو مکان میں لاکر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں پر ہر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی ۔ سرسید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اٹھا کر اسباب کی کوٹھری میں رکھ دیا ۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا تو ہہت گھبرائے ۔ سرسید نے کہا : آپ خاطر جمع رکھیے ، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے ۔ مرزا غالبؔ نے اپنی تسکین کے لیے بوتل دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔ سرسید نے انہیں کوٹھری میں لے جا کر بوتل دکھا دی ۔ مرزا صاحب بوتل کو اٹھا کر مسکرانے لگے اور بولے اس میں خیانت ہوئی ہے سچ بتاؤ کس نے پی ہے ۔‘‘
مونوگراف کے آخری باب میں مرادآباد کے، علی گڑھ کالج کے عطیہ دہندگان کا اور بانیٔ درس گاہ کے دور کے ممتاز اولڈ بوائز کا ذکر ہے ۔ کتاب میں کئی نایاب تصویریں بھی شامل کی گئی ہیں ۔ مونوگراف کا انتساب ’ مادر علمی کے درد مند طلبہ ‘ کے نام ہے ۔ مونوگراف 130 صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت 300 روپیے ہے ۔ اسے یونیورسٹی کے ای میل [email protected] پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔