پرنسپل ، سی ایم کالج، دربھنگہ
عالمی ادب میں اولین نوبل انعام یافتہ برائے ادب سلی پرید ہم ایک دانشور ، مفکّر اور مصلح کی حیثیت سے بھی اپنی مستحکم شناخت رکھتے ہیں ۔پریدہم کو 1901میں یہ انعام ملا تھا ۔ اس نے انعام حاصل کرتے وقت اپنے تاثرات میں ایک اہم بات یہ کہی تھی کہ ’’عام فرد بھی خاص لوگوں کی طرح ہی سوچتا ہے۔لیکن عام لوگ اپنی فکر ونظرکی اشاعت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور خاص لوگ اس معاملے میںسنجیدہ ہوتے ہیں‘‘۔ بلا شبہ دنیا کی جتنی بھی عظیم المرتبت شخصیات ہیں ان کی سوانح کے مطالعے سے یہ عقدہ اجاگر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے افکار ونظریات سے نہ صرف عام وخاص کو روشناس کرایا بلکہ ایک حکمتِ عملی کے تحت اس کی معنویت کی قبولیت کے لئے جد وجہد بھی کی ۔سرسید احمد خاں کی حیات کا ایک سرسری جائزہ لینے سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ انیسویں صدی کے جن عظیم دانشوروں اور مصلحین ومفکرین نے اپنے عہد کے بیشمار مسائل کے حل نکالے اور اصلاحی تحریکات کو جلا بخشی، ان میں سرسید احمدخاں کی حیثیت نمایاں ہے ۔ انہو ں نے اپنے علم وحکمت، شعور وآگہی ، بصیرت وبصارت اور دوراندیشی سے کسی خاص طبقے یا خطے کی زندگی میں انقلاب پیدا نہیں کیا بلکہ ایک عہد کی تاریخ بدل دی۔ 1857سے پہلے کے سرسید اور بعد کے سرسید میں نمایاں فرق ہے۔ وہ پہلے حکومتِ برطانیہ کے حامیوں میں تھے اور ان کی فکر ونظر کا دائرہ صرف علم وادب تھا ۔’’جامِ جم‘‘(۱۸۴۰ء)سے ’’تفسیر السموات‘‘(۱۸۹۷ء)اور اس کے بعد تراجم کی فہرست بھی طویل ہے ۔ ان کی ۴۰؍ تصانیف وتالیفات کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ اس دور میں سرسید صرف اور صرف ادب اور تاریخ پر توجہ دے رہے تھے۔ ماضی کی بازیافت ان کے لئے ایک فکری اثاثہ تھا اور ’’آثار الصنادید‘‘(۱۸۴۷ء) اس کی غمّاز ہے۔ سرسید کے تمام علمی وادبی کارناموں کو تین ادوار میں تقسیم کئے گئے ہیں ۔ پہلا دور ۱۸۴۰ء سے ۱۸۴۶ء تک کا ہے جس میں انہو ںنے علمی اور مذہبی کارنامے انجام دئے ہیں۔ دوسرا دور ۱۸۴۷ء سے ۱۸۵۸ء تک کا ہے جس میں ان کی توجہ تاریخ نویسی کی طرف ہوئی ہے اور تیسرا دور ۱۸۵۸ء سے ۱۸۹۷ء تک کا ہے اور اس دور میں انہوں نے تمام علوم وفنون کو اپنے مطالعے کا محور ومرکز بنایا ہے۔انہوں نے بعد کے دنوں میں مغربی تعلیم پر خاصی توجہ دی اور ان کی فکرونظر میں جو تغیر پیدا ہوا وہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کی تابناکی کی مثال ہے ۔واضح ہو کہ وہ اب بھی حکومتِ برطانیہ کے بہی خواہ تھے لیکن قوم وملّت کے دردوغم میں نڈھال بھی رہے ۔ ان کی فکر میں قوم کی تقدیر بدلنے کا واحد نسخہ علم ہے اور بالخصوص جدید علوم سے نونہالِ قوم کی آراستگی ان کی فکر کا حصہ بن جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم وفنون کی طرف قوم کو متوجہ کرتے ہیں ۔ سائنس اور طب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ صنعت وزراعت کی باریکیوں سے قوم کو آگاہ کرتے ہیں ۔مغربی تہذیب وتمدن سے آشنائی کی وکالت کرتے ہیں اور محدود ذہنیت وتنگ نظری سے پاک ہونے کی تحریک بھی چلاتے ہیں۔ میرے خیال میں سرسید برصغیر کے ایسے پہلے مسلم دانشور تھے جنہوں نے قوم کی تقدیر اور تصویر دونوں کو بدلنے کی ٹھانی تھی اور اس کے لیے تعلیم کو نسخۂ کیمیا جانا تھا۔ میرے علم کے مطابق سرسید پہلے شخص تھے جنہوں نے عالمِ اسلام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مغربی علم وفنون سے استفادہ کے بغیر ہم جہانِ علم وہنر میں اپنی شناخت قائم نہیں کر سکتے۔ علی گڑھ میں اسکول کا قیام اور پھر علی گڑھ تحریک کا آغاز اس حقیقت کا بیّن ثبوت ہے۔علامہ شبلی نعمانی نے ’’مقالاتِ شبلی‘‘ میں یہ اعتراف کیا ہے کہ:
’’سرسید کے جس قدر کارنامے ہیں اگرچہ فارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے لیکن جو چیز خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئی ان میں ایک اردولٹریچر بھی ہے۔ سرسید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق وعاشقی کے دائرے سے نکل کر ملکی ، سیاسی ، اخلاقی ، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زورو اثر ، وسعت وجامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کرسکتی ہے کہ خود اس کے استاد یعنی فارسی زبان کو آج تک یہ بات نہیں ہوئی ‘‘۔
مگر افسوس ہے کہ سرسید کے اس ابدی نسخے کو ہم نے فراموش کردیا ۔ ان کے مشن کو آگے نہیں بڑھا یا جا سکا ۔ نتیجہ سامنے ہے کہ وطنِ عزیز ہندوستان کا مسلمان دورِ ترقی میں کس قدر پسماندگی کا شکار ہے ۔سیاسی، سماجی، معاشی ، اقتصادی اور تعلیمی تصویر کتنی بھیانک ہے اس کی عکاسی سچر کمیٹی اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں موجود ہے ۔
بہر کیف!اس وقت میرا موضوع سرسید احمد خاں کا نظریۂ بین العلومی مطالعہ ہے ۔ سرسید احمد خاں علی گڑھ آنے سے قبل ہی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ جب تک ہم بین العلومی مطالعے کو اپنا وطیرہ نہیں بنائیں گے اس وقت تک ہماری فکری ونظری دنیا میں انقلاب نہیں آسکتا ۔ بالخصوص سائنسی ایجادات سے استفادے کے بغیر ذہنی وسعت حاصل نہیں ہو سکتی۔اسی مقصد سے وہ غازی پور میں 15اگست1863کو سائنٹفک سوسائٹی کی داغ بیل ڈالتے ہیں اور اس کی پہلی میٹنگ کی روداد نمبر 6میں درج کرتے ہیں :
’’یہ بات سچ ہے کہ ہندوستان کی زمین کثرتِ پیداواری ملکوں میں مشہور ہے لیکن اگر اس عمدہ زمین میں کاشتکاری قاعدے سے ہو تو اور زیادہ ترقی ممکن ہے ۔ بہت سی اجناس ہندوستان کی پیداوار کی ایسی ہیں جو اور ملکو ں کی اجناس کے مقابلے میں ناقص اور بری ہیں۔ اگر یہاں کے کاشتکار علم فلاحت کی تمام شاخوں سے واقف ہوں تو بلا شبہ یہاں کے اجناس پیداوار بھی اور ملکوں کی اجناس پر سبقت لے جاوے ورنہ ان کی مثال تو ضرورت ہو جاتی‘‘۔
مذکورہ اقتباس پر غور کیجیے تو خود بھی یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سرسید احمد خاں نے علمِ زراعت کے مطالعے کے بغیر یہ بات نہیں کہی ہے ۔ انہوں نے زراعت کے شعبے میں مغربی دنیا میں جو انقلاب آیا تھا اس کا مطالعہ کیا تھا اور پھر وہ چاہتے تھے کہ زراعت کے شعبے میں بھی ہماری پوزیشن مستحکم ہو ۔ ہماری آزادی کے ستّر سال بعد بھی ہم زراعت کے شعبے میں وہ مقام حاصل نہیں کرسکے ہیں جہاں مغربی دنیا پہنچ چکی ہے۔ہمارے سائنس داں سوامی ناتھن نے بھی بارہا اس طرف اشارہ کیا تھا کہ ہمیں اپنی زراعت کو نئی سائنسی تکنیک سے آراستہ وپیراستہ کرنا ہوگا۔ کاش انیسویں صدی کے آغاز میں ہی ہم سرسید کی اس فکر کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیتے۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سرسید نے اپنے ایک انگریز دوست Smith Eldars کوایک خط لکھا تھا اور اس میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ایک ایسی کتاب لکھوائی جائے جوزراعت کے جدید طریقوں پر مبنی ہو ۔ جب ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی اشاعت کا آغاز ہو ا تو اس وقت بھی انہوں نے اپنے رفقاء سے یہ گذارش کی تھی کہ اس میں صرف ادبی مضامین ہی نہیں ہوں بلکہ دیگر علوم وفنون پر مبنی مضامین کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جائے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تہذیب الاخلاق نے نہ صرف اردو میں معیاری صحافت کی بنا ڈالی بلکہ مستقبل میں اردو صحافت کا جو معیار ووقار بلند ہوا اس میں ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ کا مثالی کردار رہاہے ۔ انہوں نے مذہب، سیاست، تاریخ، فلسفہ ، علمِ کلام ، تبصرہ اور تنقید سب کی دنیا بدل ڈالی ۔پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اپنے ایک مضمون میں بجا لکھا ہے کہ’’سرسید میں آدم گری کا حوصلہ بھی تھا اور شیشہ گری کی صلاحیت بھی ‘‘۔سرسید چاہتے تھے کہ ہماری نسل صرف شعروشاعری کی دنیا تک محدود نہیں رہے بلکہ وہ اپنے خطبات ومقالات کے ذریعہ اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ طلباء اپنے تاریخی شعور کو بلند وپختہ کریں ۔ اپنے لیے نئی راہیں تلاش کریں ۔کٹھن مسائل سے مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کریں اور اس کے لیے بین العلومی مطالعے کی وکالت کرتے تھے ۔ سرسید یہ سب ایک پر آشوب دور میں کہہ رہے تھے ۔ ایک طرف مسلمانوں کے اندر حوصلہ بخشنے کا کام کر رہے تھے تو دوسری طرف ان کو ترقی کی واحد کنجی تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ وہ اس وقت کے دیگر سماجی مصلح کے افکار ونظریات کے مطالعے کی بھی وکالت کرتے تھے۔ راجہ رام موہن رائے ، دیانند سرسوتی ، ہریش چندر بھارتندواور کشیپ چند سین جیسے مذہبی اور سماجی مصلح کے افکار ونظریات تک رسائی حاصل کرنے کی اپیل بھی کرتے تھے۔ سرسید نے اپنے ایک مضمون ’’رائے در بابِ تعلیم‘‘ مشمولہ مقالاتِ سرسید میں لکھتے ہیں :
’’ہمیشہ تعلیم سے یہ مقصود رہاہے کہ انسان میں ایک ملکہ اور اس کی عقل اور ذہن میں حدت پیدا ہو تاکہ جو امور پیش آئیں ان کے سمجھنے کی ، بڑائی ، بھلائی جاننے کی اور عجائب قدرتِ الٰہی پر فکر کرنے کی طاقت ہو‘‘۔
سرسید نے ایم اے او کالج کے بنیادی مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے بھی یہ بات کہی تھی کہ :
’’یہ ادارہ مسلمانانِ ہند کی تعلیم، تہذیب وثقافت اور دانشورانہ قیادت کا مرکز بن جائے ۔ یہاں ایسے تربیت یافتہ ذہن تیار ہوں جو آئندہ ملک وقوم کے لئے سرمایۂ فلاح ثابت ہوں ‘‘۔
سرسیدمسلمانوں کو سائنسی تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک مہم چلاتے ہیں اور اپنے رفقاء کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر مسلمانوں کے اندر سائنس کے تئیں ذہنی خدشات وتحفظات کیا ہیں پھر اس کا ازالہ کیا جائے اور اس کے لیے ۱۸۷۰ء میں ’’کمیٹی خواستگارِ ترقی تعلیمِ مسلمانان‘‘ کی تشکیل کرتے ہیں اور مسلمانوں کے نظامِ تعلیم میں تبدیلی کے خواہاں نظر آتے ہیں ۔۱۸۷۲ء میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں ایک اشتہار شائع کیا جاتا ہے اورمدرسۃ العلوم یعنی محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام کی اطلاع دی جاتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے قیام کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کو مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دی جائے ۔ سرسید کے اس مشن کو اس وقت بھی شک وشبہات کی نگاہوں سے دیکھا گیا اور ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی۔ اکبر الٰہ آبادی جیسے شاعر نے بھی انہیں طنز کا نشانہ بنایا اور سرسید مخالف اخباروں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جس میں سرسید کے تعلیمی نظریات پر لعن طعن کئے جاتے تھے ۔ ان اخباروں میں ’’اسٹریچی گزٹ‘‘ (مرادآباد)،’’نورالانوار‘‘ (کانپور)، ’’نجم الاخبار‘‘ (مرادآباد) اور ’’نیو میموریل گزٹ‘‘ (دہلی) شامل تھے۔ لیکن سرسید اپنی دھن کے پکے تھے ، ان کی نگاہوں میں قوم کا مستقبل تھا اس لیے اپنے اوپر لگائے جا رہے مبینہ تمام بہتان تراشی سے بے پرواہ آگے بڑھتے رہے ۔
انہوں نے بین العلومی مطالعے کی اہمیت وافادیت کی نہ صرف تحریری وکالت کی بلکہ عملی طورپر بھی فعال رہے ۔ انہو ںنے اس وقت سائنٹفک سوسائٹی کے زیر اہتمام مختلف موضوعات کی کتابوں کا ترجمہ کرایا اور خود بھی کیا ۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ سرسید احمد خاں کسی یونیورسٹی کے سند یافتہ نہیں تھے۔انہوں نے درس نظامیہ سے تعلیم حاصل کی تھی ۔ باضابطہ انگریزی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اس لیے بعض لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ سرسید کو انگریزی پر عبور حاصل نہیں تھا۔ مگر سچائی یہ ہے کہ سرسید ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے اور علم وہنر کے سیکھنے میں انہوں نے اپنی عمر گذار دی تھی ۔ انگریزی ان کے لیے بیرونی زبان ضرورتھی لیکن جس طرح انہوں نے فارسی اورعربی پر دسترس حاصل کی تھی اسی طرح انگریزی زبان پر بھی دسترس حاصل کرنے میں کامیاب تھے۔ ان کی انگریزی تحریروں اور خطوط کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ انگریزی زبان کے قواعد کی باریکیوں سے کس قدر واقف تھے ۔سائنٹفک سوسائٹی کے زیر اہتمام دو درجن سے زائد انگریزی کتابوں کے تراجم کرائے گئے ۔ ان میں Scott Burnsکی کتاب Modern Farming، سائنس داں ہیرس کی کتاب Electricityاور Todhuntersکی کتاب Menstruationاور Trignomataryکے ساتھ ساتھ Rollensکی Ancient History of Egyptکا بھی ترجمہ کیا ۔ ان کا موقف تھا کہ بین العلومی مطالعے کی بدولت ہی ہم مسلم معاشرے کو باہری دنیا سے آشنا کرا سکتے ہیں اور ان کے ذہن ودل میں یہ سبق بیٹھا سکتے ہیں کہ مختلف علم وفنون حاصل کرکے ہی ہم ایک ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔
مختصر یہ کہ اب فیصلہ تو ہم اور آپ کو کرنا ہے کہ ہم نے سرسید احمد خاں کے افکارونظریات کو اپنی عملی زندگی میں کتنا فی صد شامل کیا ہے۔ گہوارۂ سرسید کے پروردہ کے اوپر تو اوربھی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ سرسید کے مشن کو کتابوں کی دنیا سے باہر نکال کر اجتماعی زندگی کا حصہ بنائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں جو تاریکی ہے وہ اس نور سے منور ہو سکے ۔ عہدِ حاضر میں ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ان سے نجات کا بھی واحد راستہ سرسید کی دکھائی ہوئی راہیں ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ہم اب بھی خوابِ غفلت میں مبتلا ہیں اور دنیا نے ہزارہا میلو ں کا سفر تمام کرلیا ہے ۔سرسید کے تئیں اظہارِ عقیدت کا سب سے بڑا طریقہ یہی ہے کہ ہم سرسید کی سوانح کو صرف ایک کتاب نہ سمجھیں اور ان کے افکار ونظریات کومحض ماضی کا چراغ تصور نہ کریں کیوں کہ ان کی فکر ونظر کی دنیا اتنی وسیع ہے کہ اس میں ہمارے ذہن ودل کی تاریکی کے خاتمے کے لیے ہزارہا نسخے موجود ہیں۔