Home ستاروں کےدرمیاں سرسید احمدخان:ایک بے مثال رہنمائے ملت-شاہ عمران حسن

سرسید احمدخان:ایک بے مثال رہنمائے ملت-شاہ عمران حسن

by قندیل

(مدیر کتابی سلسلہ’ آپ بیتی‘،نئی دہلی)

تاریخ کے ہر دور میں کچھ ایسی شخصیتیں گزرتی ہیں جن کاتذکرہ لوگ بار بار کرتے نہیں تھکتے۔ جن پر کچھ نہ کچھ لکھنے اور بولنے کو دل چاہتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ لکھا اور بولا جاتا ہے اور ہر مقرر ومحرر اپنے علم و عقل اور تجربے کی روشنی میں کچھ نہ کچھ نئی چیزیں دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس سے اس بلند پایہ انسان کی شخصیت مزید نکھر جاتی ہے اور اس کی زندگی کا ایک اور باب روشن ہو جاتا ہے۔ جس سے عام لوگ اپنے علم میں اضافہ کر کے ایک نیا عزم باندھتے ہیں اور گزری ہوئی شخصیت کے قابلِ عمل نقطۂ نظر کو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اُنہی شخصیتوں میں سے ایک بلندترین نام’ سر سید احمد خان‘کا ہے۔ جن کے علم و عمل سے ہر پڑھا لکھا طبقہ واقف ہے۔ جنھوں نے ہندوستانی تاریخ پر زبردست اثرات ڈالے ہیں۔ نہ صرف انھوں نے تاریخ میں ایک مثال قائم کی ہے بلکہ ایک’ بے مثال‘ رہنمائی کی ہے۔ جسے کوئی بھی باشعور انسان فراموش نہیں کر سکتا جنھوں نے برباد شدہ قوم کو راہِ راست پر لانے کے لیے اپنی شخصیت تباہ کر دی، اپنی ذاتی زندگی کو فراموش کر دیا؛اور قوم نے انھیں طرح طرح سے پریشان کیااور ان کے راستے میں کانٹے بچھائے۔

اس کے باوجود وہ ثابت قدم رہے اور اپنے مقصد کو پانے کے لیے مسلسل جدو جہدکرتے رہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ بے شک وہ ایک صاحب ِ بصیرت انسان تھے ، ان کی نگاہ نے اس شمع کو دیکھ لیا تھا، جس کے شائبہ تک سے قوم نا آشنا تھی،مگر افسوس کہ قوم نے ان کو مطلوبہ تعاون نہ دیا۔

یوں تو سرسیداحمدخان کی جانب سے اٹھایا ہوا ہر قدم بامعنی اور اہم تھا، تاہم میں تعلیم کے تئیں ان کے کام کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔سرسیدنے ہندوستانی مسلم معاشرے کی ترقی اور ان میں تعلیم لانے کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔سرسید احمد خان نے اپنی پوری زندگی مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرنے کے لیے وقف کر دی۔جس طرح راجہ رام موہن رائے نے ہندو سماج کی بہتری کے لیے کام کیا اسی طرح سرسید احمد خان نے مسلم سماج کی بہتری کے لیے اہم کردار ادا کیا۔یہ حقیقت ہے کہ سرسید احمد خان نے جدید تعلیم حاصل نہیں کی تھی تاہم انہیں جدید تعلیم کی اہمیت کا احساس تھا۔جدید تعلیم سے دوسرے محروم نہ رہیں، اس کے لیے انھوں نے تعلیم کی شمع روشن کی ۔

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ سرسید احمد خان نہ صرف تعلیم کے میدان میں آگے آئے بلکہ صحافت میں، اردو زبان میں، مسلم معاشرے میں پھیلی برائیوں میں، رسوم و رواج میں، ہرہر معاملات میں سامنے آئے اور مسلم سماج کو درپیش مشکلات و مسائل کو حل کرنے کے لیے تگ و دو کیا۔

سرسید احمد خان کے کام کا اہم مقصد یہ تھا کہ مسلم معاشرے میں جو مایوسی پھیلی ہوئی ہے وہ دور ہو جائے، جو لوگ جذبات میں پھنسے ہوئے ہیں وہ اس سے باہر نکلیں اور عقل مندی سے کام لیں، خود بھی آگے بڑھیں ، دوسروں کو بھی آگے بڑھانے میں مددکریں۔

سرسید احمد خان نے ہندوستانی مسلمانوں کے گھروں میں جدید تعلیم لانے کے لیے اپنی تمام عمر صرف کردی، ان کی کوششوں کے نتائج آج سب کے سامنے ہے۔آج جو مسلم معاشرہ میں تعلیمی رجحان پیدا ہوا ہے، وہ دراصل سرسیدکی پہل کاہی ثمرہ ہے۔

سر سید نے ایک ایسے وقت میں مسلمانوں کی ذہنی اصلاح شروع کی جب کہ ہندوستانی مسلمانوں پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے اور وہ مکمل طور پر سیاسی زوال کا شکار تھے۔ اس وقت مسلم سماج کے لیے نہ کوئی ہدف تھا اور نہ کوئی مقصد ۔

اس وقت سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو ایک ہدف دیا اور وہ ہدف یہ تھا کہ اگر ان پڑھ، پڑھے لکھے ہو جائیں تو وہ اپنے معاشرے کو سنواریں گے اور وہ ایک اچھے شہر ی کی طرح زندگی بسر کریں گے۔ کیوں کہ جو لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہیں وہ معاشرے کے بنیادی مسائل کو نہیں سمجھتے؛اس لیے ان کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ورنہ وہ معاشرے کے لیے کوئی فائدہ مند کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔

اس میں شک نہیں کہ سرسیداحمدخان کی شخصیت جتنی بلند و عظیم تھی؛ اتنی ہی متنازعہ شخصیت بھی رہی اور شاید ہر بڑے آدمی کا یہ مقدر ہوتا ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کی ایک عجیب بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کا کوئی بھی ایسا کام نہ دیکھا گیا ہے جس کی مخالفت خود مسلمانوں نے نہ کی ہو اور یہ بھی وقت کی عجب ستم ظریفی رہی ہے کہ جب بھی کسی قوم میں کوئی مصلح آیا، لوگوں نے ان کی زبر دست مخالفت کی اور تاریخ کا یہ بھی کڑواسچ ہے کہ جس کی مخالفت جتنی زیادہ ہوئی اس کی شخصیت اتنی ہی زیادہ عظیم ہو گئی اور یہ ہی حال سرسید احمد خان کے ساتھ بھی ہوا۔

سر سید احمد خاں جب تک زندہ رہے ان کی زبر دست مخالفت کی جاتی رہی۔ ان کی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے، ان کے منصوبوں کے خلاف سازشیں کی جاتی رہیں۔ کبھی مذہب کی آڑ لے کر اور کبھی قوم وملت کی آڑ لے کر ، کبھی زبان کی آڑ لے کر تو کبھی جدید تعلیم کی آڑ لے کر۔ غرض کہ قوم کے نام نہاد ٹھیکہ داروں کو جس قدر بھی مخالفت کرنے کا موقع ملا، مخالفت کیا۔حتٰی کہ انھیں ملحد و مشرک اور کافرتک کہا گیا۔یہاں تک کہ طنزومزاح کے ممتاز شاعر اکبرالہٰ آبادی نے سرسید احمدخان کا مذاق اُراتے ہوئے کہا تھا:

سید کی داستان کو حالی سے پوچھیے

غازی میاں کا حال ڈفالی سے پوچھیے

تاہم ان کے انتقال کے فور اًبعد یہ صورت حال بدلنے لگی اور دھیرے دھیرے نہ صرف ان کی مخالفت ختم ہو گئی بلکہ ہر طبقۂ فکر نے ان کی عظمت کا اعتراف کر لیا اور انہیں مسلمانان ہند کی نشاةِثانیہ(Renaissance) کا علم بردار سمجھا جانے لگا۔وہی اکبرالہ آبادی جو کبھی سرسیداحمدخان کی مخالفت میں پیش پیش رہے تھے، ا ن کے انتقال کے بعد انھوں نے از خود سرسید کے کام کا’ اعتراف‘ کرتے ہوئے کہا:

ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے

نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں

کہا جو چاہے کوئی میں تو کہتا ہوں کہ اے اکبر

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

سر سیداحمدخان جیسی عظیم المرتبت شخصیت پر بہت کچھ لکھااور تادم تحریر جاری ہے۔ان کی زندگی پر ہزارہا مضامین اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں تحریر کیے گئے ہیں،ہر برس یوم سرسید کے موقع مختلف اخبار و رسائل میں پر ان گوشے اور خصوصی شمارے شائع ہوتے ہیں،سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں اور ان کی کارناموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور نئی نسل کو اس عظیم شخصیت سے متارف کرایا جاتا ہے۔

سرسیداحمدخان کی حیات وخدمات جاننے کا سب سے بڑا ماخذحیات ِجاوید(سالِ اشاعت:1903ء) کو مانا جاتا ہے۔ جس کی تالیف مشہور عالم دین اور شاعرمولانا الطاف حسین حالی (1837-1914) نے کی تھی۔اگرچہ سرسید کی خواہش تھی کہ علامہ شبلی نعمانی ان کی زندگی کو قلم بند کریں مگر علامہ نے سرسید کی ا س پیش کش کو قبول کرنے سے معذرت کرلی، بالآخر مولاناالطاف حسین حالی نے نہ صرف یہ کام انجام دیا بلکہ اس کا حق بھی ادا کردیا ۔

مولانا الطاف حسین حالی کو سرسید کی فکروں کا ترجمان بھی کہا گیا ہے، کیوں کہ انھوں نے سرسید کے افکار کو پھیلانے میں مدد کی۔حالی نے کہا بھی :

بس اب وقت کا حکم ناطق یہی ہے

کہ دنیا میں جو کچھ ہے تعلیم ہی ہے

اس مضمون میں مختصر طور پر سرسیداحمدخان کی زندگی کااجمالی مطالعہ کرنے کی کوشش گئی ہے ، اس امیدکے ساتھ کہ شاید ان کی زندگی کے کچھ گوشوں کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔

سرسید احمد خاں کی پیدائش 17 اکتوبر1817ءکونئی دہلی کے ایک دیندار گھرانے میں ہوئی۔ اس زمانے میں عام طور پر مسلمانوں کے گھروں میں دین کا ماحول تھا،قرآن وحدیث تک رسائی کسی نے کسی اعتبار سے عام لوگوں تک روزانہ ہو جایا کرتی تھی۔

سرسیداحمد خان کے والد کا نام سید میر متقی اور والدہ کا نام عزیز النساءبیگم تھا۔ ان کے والد اس دور کی تیراکی اور تیر اندازی میں نہ صرف ماہر تھے بلکہ وہ اس فن کے استاد کہلاتے تھے۔ اس لیے فطری طور پر سر سیداحمد خان نے بھی اپنے والد سے یہ فن سیکھا۔

جب کہ سرسیداحمد خان کی والدہ ایک مذہبی خاتون تھیں، انھوں نے سر سید کواردو، فارسی اور قرآن مجید کی بنیادی تعلیم خود ہی سکھائی۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے انھیں اساتذہ کرام کے پاس بھیجا۔ ان کے استادوں میں غلام حیدر خاں اور مولوی مخصوص اللہ اورر فیع الدین وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

سرسیداحمد خان پر اپنی والدہ کی صحبت کا اثر زندگی بھر رہا۔ ان کی والدہ نے بچپن ہی سے ان کے مزاج میں مثبت طرزِ فکر بھر دیا۔ ایک مذہبی اور پردہ نشین خاتون ہونے کے ناطے انھوں نے سرسید کو نہ صرف ایک مذہبی انسان بنایا بلکہ سماج کا ایک باشعوراور ذمہ دار شہری بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ جب تک وہ زندہ رہیں؛ وہ سرسید کی رہنمائی کرتی رہیں۔ ان کی وفات غدر کے بعد 1858ءمیں ہو گئی۔

سرسیداحمدخان نے تقریباً 20 سال کی عمر میں اپنی رسمی تعلیم پوری کرلی۔ابھی وہ اپنے پیر پر کھڑے بھی نہیں ہو پائے تھے کہ 1838ءمیں ان کے والد سید میر متقی کا انتقال ہو گیا۔ والد کے انتقال نے انھیں مالی دشواریوں میں مبتلا کر دیا ،کیوں کہ والد کے انتقال کے بعد گھر کے اخراجات کے لیے جاری آمدنی کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ آخر کار انھوں نے انگریزی سرکار میں ملازمت کر لی۔ کچہری میں ایک معمولی کارکن کے روپ میں انھوں نے اپنے کام کی ابتداءکی اور مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے 14د سمبر1841ءکو’ منصف ‘کے عہدے پر فائز ہو گئے۔

سرسید کو تصنیف و تالیف کا شوق ابتدائی زمانے سے ہی تھا اور وہ برابر کچھ نہ کچھ لکھا کرتے تھے۔ ان کی پہلی کتاب فارسی زبان میں’ جام جم‘ کے نام سے1840ءمیں شائع ہوئی۔ ’آثار صنادید‘ ان کی سب سے مشہور کتاب ہے جس کا پہلا ایڈیشن 1847ء میں منظر عام پر آیا۔ جس میں دہلی کی قدیم عمارتوں کا مفصل تذکرہ ہے۔

دفتر کی مشغولیت کے باوجود انھوں نے خود کو تصنیف وتالیف سے تازندگی وابستہ رکھا اور گراں قدر کتابوں کی تالیف کرتے رہے ، اس پر مزید یہ کہ ان کا تبادلۂ بھی برا بر ہو تا رہا۔ اس طرح ان کی عمر کے ابتدائی 40سال بیت گئے۔ وہ اس عمر تک ایک مصنف کی حیثیت سے مشہور ہو چکے تھے، مگر سنہ1857ءکے غدر نے انھیں پوری طرح شہرت عطا کر دی۔

سنہ1857ءکی بغاوت کے بعد انگریزوں کی طرف سے عام ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں کواس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا تھا۔ اس وجہ سے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جانے لگے، اس وجہ سے انگریزی سرکار اور مسلمانوں کے درمیان شدید نفرت کی فضاء پھیل گئی۔

اس سے سرسید پر گہرا اثر پڑا۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ اس کی وجہ سے میں قبل از وقت بوڑھا ہو گیا ہوں۔ حتیٰ کہ ان کے دل میں یہ بھی خیال آیا کہ ہندوستان چھوڑ کر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کسی عرب ملک میں ہجرت کر جائیں۔ مگرحالات سے گھبرانا ،دلبرداشتہ ہونا اور ہمت ہارنا بزدلی کی پہچان ہے بلکہ مشکلات بڑی سے بڑی کیوں نہ ہوں انسان کو اس کاہمت سے مقابلہ کرنا چاہیے ۔ جب سر سیداحمدخان کو بھی اس کا احساس ہوا اور انھوں نے بیرون ملک جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے وطن عزیز ہندوستان میں رہ کر مشکلوں اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے لگے۔

سرسید کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ انگریزی سرکار نے بغاوت کے اسباب سمجھنے میں غلطی کی ہے، وہ وقت بہت نازک تھا اور مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے’ بری‘ کرنا سب سے زیادہ مشکل کام تھا۔ یہاں تک کہ اس وقت مسلمان ہونا بھی جرم سمجھا جانے لگا تھا، کوئی مسلمانوں کی حمایت میں بولنا اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے ہم معنی سمجھتا تھا۔ پھر بھی سرسید گورنمنٹ سروس میں رہتے ہوئے قوم کو اس الزام سے نجات دلانے کے لیے سرپر کفن باندھ کر سامنے آئے اور بغاوت کے اسباب پر لکھنا شروع کیا۔ حتیٰ کہ’اسباب بغاوت ہند‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ کر1860ءمیں شائع کی۔

اس کتاب کے شائع ہوتے ہی وہ انگریزوں کی نظر میں آ گئے۔ یہ کتاب جب ترجمہ ہوکر حکومت کے عہدے داران کے پاس پہنچی تو اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک انگریز مسٹر سسل بیڈن نے کہا کہ’ اس شخص نے نہایت باغیانہ مضمون لکھا ہے،اس سے حسب ضابطہ باز پرس ہونی چاہیے اور اگرکوئی معقول جواب نہ دے سکے توسخت سزا دی جانی چاہیے۔(مقالات حالی،مولاناالطاف حسین حالی، جلد دوم،صفحہ:96)

سسل بیڈن کے برعکس برطانیہ کے مشہور اخبار ہوم نیوز(Home News) نے لکھا کہ سرسیداحمد خان نے جو غدرکے اسباب تحریر کئے تھے،اُن میں بعض نہایت قیمتی اور عمل درآمدکے قابل تجویزیں پیش کی تھیںجو حکام نے کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں کیں۔(مقالات حالی،مولاناالطاف حسین حالی، جلد دوم، صفحہ: 96 )

سرسیداحمدخان نے ’اسباب بغاوت ہند ‘میں اپنی بات مدلل حوالوں کے ساتھ پیش کی تھی،اس لیے انگریز حکومت ان کے خلاف باضابطہ کوئی کارروائی نہ کرسکی اور وہ بدستور اپنا کام کرتے رہے۔

اسی کتاب کی اشاعت کے بعد یہ ممکن ہوا کہ انگریز حکومت کی لیجس لیٹو کاؤنسل میں ہندوستانی شہریوں کو بھی نامزد کیا جانے لگا۔ سنہ 1862ءمیں جن ہندوستانیوں کو لیجس لیٹو کاؤنسل کی ممبری پر نامزد کیا گیا، ان میں مہاراجہ نریندر سنگھ(پٹیالہ)،راجہ دیونارائن سنگھ(بنارس)اور راجہ ڈنکرراؤ(گوالیار)وغیرہ کے نام شامل ہے۔

سر سیداحمدخان جب ملت اسلامیہ کی زبوں حالی کو دیکھتے تو انھیں بہت دکھ ہوتا تھا۔ انھیں اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ روایتی سطح پر کام کرنے سے کام نہیں چلے گا، اس کے لیے کچھ نیا طرز ِ فکر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اِسی بات کے پیش نظر انھوں نے غازی پور میں ایک ادارہ سائنٹفک سوسائٹی قائم کیا جو ان کے تبادلے کے ساتھ ہی غازی پور سے منتقل ہو کر علی گڑھ آگیا۔ اس ادارے کے کئی مقاصد تھے، جن میں سے ایک تھا مغربی علوم کا ہندوستانی زبان میں ترجمہ ۔اسی کے پیش ادارے کی جانب سے سنہ 1866ءمیں اخبار سائنٹفک سوسائٹی جاری کیا گیا۔ جسے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے شہرت ملی۔

اس ادارے کے ذریعہ مغربی علوم کا ہندوستانی زبان میں ترجمہ ہونے لگا، مغربی افکار سے ہمارے درمیان جوبے گانگی تھی، اس بے گانگی کو دور کرنے میں مدد ملی۔

اس سوسائٹی کو مستقل طور پرمنظم انداز میںجاری رکھنے کے لیے سرسیداحمدخان نے ذاتی خرچ سے اس کی ایک علاحدہ عمارت بنوائی ۔نیز اس کو کامیاب بنانے کے لیے ماہانہ اور سالانہ جلسے کا انعقاد کیا جانے لگا۔

سرسیداحمدخان نے مغربی افکار اورطرز ِزندگی کا مشاہدہ کرنے کے لیے برطانیہ کا سفر کیا۔ وہ ہندوستان سے یکم اپریل 1869ء کو برطانیہ کے سفر پر روانہ ہوئے اور 12 اکتوبر1870ء کو واپس ہندوستان لوٹ آئے۔ہندوستان واپسی پر انھوں نے اپنے مشاہدات وتجربات کو قلم بند کیا جو بہت بعد کو ’مسافران لندن‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ ایک بہترین سفرنامہ ہے،جس کا مطالعہ آج بھی دلچسپی اور دل جوئی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس ڈیڑھ سالہ قیام کے دوران انھوں نے وہاں کے کلچر کا بھر پور جائزہ لیا اور اس سفر میں ان کے ذہن میں بہت سے مسائل کا حل نظر آنے لگا اور انھیں ایک طرح سے کام کرنے کا ایک منفرد میدان مل گیا۔

برطانیہ سے واپس آنے کے بعد جب سر سیداحمد خان نے مسلم معاشرے میں علم کی تبلیغ شروع کی تو ان کی مخالفت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ سرسید یوروپی طرز تعلیم کے زبردست حامی تھے۔ اس سلسلے میں ان کے رفیق کار مولانا الطاف حسین حالی نے ایک شعر میں ٹھیک ہی کہا تھا:

حالی اب آؤ پیروی مغربی کریں

بس اقتدائے مصحفی و میر کر چکے

برطانیہ سے واپسی کے دوماہ بعد دسمبر 1870ء میں سرسید نے علی گڑھ سے’ تہذیب الاخلاق ‘نامی رسالہ جاری کیا، جس کے پہلے پرچے میں انھوں نے لکھا کہ اس پرچے کے اجراء سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلائز یشن(civilization) یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جائے تاکہ جس حقارت سے سویلا ئزڈ(civilized) یعنی مہذب قو میں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو اور وہ بھی دنیا میں معزز و مہذب قوم کہلائیں۔

مگر تہذیب الاخلاق کے اجرا کے ساتھ ہی ،اس کی مخالفت شروع ہوگئی۔ ادھر اس کا ایک شمارہ نکلتا اور ادھر اس کا فوراً رد عمل ظاہر کیا جاتا۔ کانپور کے اخبارات مثلاً نور الآفاق، نورالانوار کے علاوہ اسٹریچی گزٹ (مراد آباد)، لوحِ محفوظ (مراد آباد) اور رسالہ اشاعت انسہ (پنجاب) وغیرہ نے اس کی مخالفت میں پیش پیش رہے۔

مگر جب آدمی کسی چیز کو کرنے کی نیت کر لیتا ہے تو ہزار مشکلوں کے باوجود وہ کام انجام دے دیتا ہے، اور یہی طریقہ سرسید نے اختیار کیا۔ گو کہ اس رسالے کا اصل مقصد معاشرتی اصلاح تھا۔ مگر اس کی اشاعت نے زبان و ادب پر بھی گہرے اثرات ڈالے۔

ہر انسان کی ایک مادری زبان ہوا کرتی ہے اور وہ اس سے محبت کرتا ہے، چونکہ سرسید کی مادری زبان اردو تھی، اس لیے وہ بھی فطری طور پر اردو کے خواہاں تھے۔ مرزا غالب کی ایجاد کردہ نثر ( خطوط ) میں جو کمی رہ گئی تھی، اس کمی کو سرسید کی تحریر نے پوری طرح پورا کر دیا۔ انھوں نے نثر کی اصلاح کے ساتھ ساتھ شاعری پر بھی خاصی توجہ دی۔ انھوں نے ایک طرف نثر میں آسان طرز تحریر اپنایا تو دوسری طرف شعراءکرام کو قدیم شاعری ’عشق و عاشقی‘ کے بجائے بامقصد شاعری کی طرف رغبت ولائی، کیوں کہ اس زمانے میں لوگ روایتی شاعری ہی کیا کرتے تھے ، جس میں ہزل گوئی زیادہ ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ نثر کا بھی برا حال تھا۔

آہستہ آہستہ سرسید کی نثر کو بھی معاشرہ میں جگہ ملنے لگی۔ مولانا الطاف حسین حالی نے جب مسدس حالی لکھی تو اس سے سر سید بہت خوش ہوئے اور کہا کہ ایسی ہی شاعری ہونی چاہیے۔

علامہ شبلی نعمانی سرسیداحمد خان نے ہم عصر تھے، مگر وہ ان کے معترف بھی تھے ، وہ اپنے ایک مضمون ’سرسید اور اردو زبان‘ کے تعلق سے لکھے ہیں کہ’سرسیداحمدخان کے جس قدر کارنامے ہیں، اگرچہ رفارمیشن (reformation) اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظرآتی ہے، لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں۔ ان میں ایک ’اردو لٹریچر‘ بھی ہے۔ سرسید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ’ عشق و عاشقی‘ کے دائرہ سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور اور اثر، وسعت و جامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کر سکتی ہے کہ خود اس کے استادیعنی’ فارسی‘ زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں، ملک میں آج بڑے بڑے انشاء پرداز موجود ہیں، جو اپنے اپنے مخصوص دائرۂ مضمون کے حکمراں ہیں لیکن ان میں ہے ایک شخص بھی نہیں جو سرسید کے’ بارِ احسان‘ سے گردن اُٹھا سکتا ہوں، بعض بالکل ان کے دامنِ تربیت میں پلے ہیں، بعضوں نے دور سے فیض اُٹھایا ہے، بعض نے مدعیانہ اپناالگ رستہ نکالا ،تاہم سرسیداحمدخان کی’ فیض پذیری‘ سے بالکل آزاد کیوں کررہ سکتے تھے ۔ (مقالات شبلی ،علامہ شبلی نعمانی، جلددوم ، ادبی، صفحہ:57-58، سنہ اشاعت:1931ء)

سرسید نے اپنی تمام قوت اس میں صرف کر دی کہ انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان میں دوستی ہو جائے۔ اس لیے انھوں نے وہ تمام ذرائع اختیار کیے جس سے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان میں اشتراک پیدا ہو جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے1975ء میں ایک تعلیمی ادارہ’ مدرستہ العلوم‘ قائم کیا؛ جس کا نام اینگلو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج( Anglo-Mohammedan Oriental College) رکھا گیا۔ یہاں ابتداً بارہویں جماعت تک کی پڑھائی ہوتی رہی مگر صرف چند سالوں کے بعدسنہ1881ء تک بی اے اور ایم اے تک پڑھائی ہونے لگی۔یہی وہ ادارہ ہے جو سنہ 1920ء میں انگریزی سرکار کے زمانہ میں ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘کے نام سے ساری دنیا میں متعارف ہوا۔

جیسے جیسے سر سید کام کرنے کے نہج میں تبدیلی لائے تو اسی کے ساتھ مخالفت میں بھی اضافہ ہو تا گیا۔ کالج کے قیام نے تو گویا آگ میں پٹرول کا کام کیا، مگر سرسید ہمت ہارنے والے شخص نہیں تھے کہ جو کسی کی بات میں آکر اپنا کام ترک کر دیں ، وہ کالج کی کامیابی کے لیے دورہ کرتے رہے۔ وہ اس سلسلے میں تقریریں کرتے رہتے ، ایک بار انھوں نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’شاید لوگ میری باتوں کو شیخ چلی کا خواب سمجھتے ہوں، لیکن ہمیں یقین ہے کہ ایک دن آئے گا جب ہم ایم اے او کالج کو آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی عظیم یونیورسٹیوں کی صف میں لا کھڑا کریں گے۔

سرسید کے زمانے میں یقینا یہ شیخ چلی کا خواب تھا، کیوں کہ لوگوں نے حال کو مستقبل پر ترجیح نہیں دی تھی۔ لوگوں کی نگاہ نے حال کو دیکھا تھا، مگر وہ مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کو نہیں سمجھ سکے۔ مگر وقت بدلا اور لوگوں نے دیکھ لیا کہ سر سید کا شیخ چلی والا خواب پورا ہو گیا۔ ایک شخص جو انگریزی نہیں جانتا تھامگر اسی نے ہندوستان میں مسلمانوں کا سب سے بڑا انگریزی ادارہ قائم کیا۔ حتی کہ اس شخص کے علمی کارناموں سے متاثر ہو کر انگریزی سرکار نے انھیں’سر‘ کے خطاب سے نوازا۔ ’سر‘ کے خطاب سے پہلے وہ صرف’ سید احمد خاں‘ تھے مگر سر کے خطاب ملنے کے بعد وہ ’سر سید احمد خاں‘ ہوگئے۔ ایم اے او کالج دن دونی رات چوگنی ترقی کی منازل طے کرتا رہا، یہاں تک کہ سرسید کے انتقال کے صرف 22 سال بعد سنہ 1920ءوہ یونیورسٹی کی شکل اختیار کرچکا تھا۔

آج اسی یونیورسٹی میں ہزاروں ملک و بیرون ملک کے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اپنے مستقبل کو عظیم تر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اورآج بھی ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت کا خواب اپنے بچوں کو اے ایم یو سے تعلیم دلوانا ہے۔

سرسید احمد خان1876ء میں گورنمنٹ سروس سے ریٹائر ہو گئے اور مستقل علی گڑھ میں سکونت اختیار کرلی۔ سرسیداحمدخان کا ایک بڑا کام محمڈن ایجو کیشنل کا نفرنس کا قیام ہے جو کہ انھوں نے ریٹائر ہونے کے دس سال بعد 1886ءمیں قائم کیا۔ اس کانفرنس کے قیام سے مسلمانوں میں تعلیم کا شوق پیدا ہوا۔

سرسیداحمدخان کی زندگی کے آخری ایام کے حالات جان کر دل دہل جاتا ہے۔ ان باتوں کو قلم بیان کرنے سے قاصر ہے۔ مختصر یہ کہ ان کے فرزند جسٹس سید محمود نے ان سے بغاوت کرلی، وہ زبر دستی ان سے کام نکالنے لگے، حتی کہ ان کو گھر سے نکال باہرکیا، آخر کار ان کو ایک دوست کے یہاں قیام کرنا پڑا۔

ایک عظیم رہنمائے ملت اور محسن سر سیداحمدخان زندگی بھر قوم کی خدمت کرتے ہوئے 24 مارچ1898ء کو بیماری میں مبتلا ہوئے اور27 مارچ1898ء کو اس دار فانی کو ہمیشہ ہمیش کے لیے خیر باد کہہ دیا۔28 مارچ 1898 ءکو عصر کی نماز کے بعد یونیورسٹی کی جامع مسجد( علی گڑھ)کے احاطے میں اس نامور بزرگ اور محسن کی تدفین عمل میں آئی۔

سرسید احمدخان کے انتقال کے تعلق سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پراکٹر او ر وارڈن میرولایت حسین (1861-1949)ء نے عجیب و غریب قسم کے انکاشافات کیے ہیں۔ان کی خودنوشت ’آپ بیتی یاایم اے او کالج کی کہانی ‘ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس عظیم الشان انسان کی تجہیز و تکلفین کا خرچ چندہ کر کے پورا ہوا۔ جس کا مکمل خرچ نواب محسن الملک نے ادا کیا۔(دیکھیے ’آپ بیتی یاایم اے او کالج کی کہانی ، میرولایت حسین ، صفحہ:122-124)

سرسیداحمدخان کے انتقال کو ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگراب تک اے ایم یو کے طرز پر دوسری یونیورسٹی کا قیام عمل میں نہ آسکا۔حتیٰ کہ آج بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تعلیمی پسماندگی میں مبتلاہے۔

سر سیداحمدخان کا پیغام 200سال پہلے جس طرح اہم تھا آج بھی اسی طرح اہم ہے۔سرسید کا دور 200 سال پہلے کا ہے، لیکن ان کے الفاظ آج بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے وہ 200 سال پہلے تھے، آج بھی مسلم معاشرہ پوری طرح سے تعلیم یافتہ نہیں ہے، اس کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ صرف ’17ا کتوبر‘کو ’یوم سرسید‘منانے سے کام نہیں چلے گا بلکہ سرسید کے افکار کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ کیوں کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جو اپنے اسلاف کو بھلا ڈالے۔ آج بھی سرسید کی طرح مخالفتوں کے باوجود جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے۔

You may also like