Home ستاروں کےدرمیاں شعرائے مدھوبنی کا مختصر تعارف ۔ حسیب الرحمٰن شائق قاسمی

شعرائے مدھوبنی کا مختصر تعارف ۔ حسیب الرحمٰن شائق قاسمی

by قندیل

قسط (5)

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اردو زبان و ادب کے تحفظ و بقا اور ترویج و اشاعت میں مدارس اسلامیہ کا کلیدی کردار رہا ہے ، ماضی میں جتنے کلاسیکی شعراء گزرے ہیں ، اکثر مدارس کے فیض یافتہ اور پروردہ ہیں ۔ ولی دکنی ہوں یا سراج اورنگ آبادی ، مومن و غالب ہوں یا اقبال و حالی ، ان میں سے ہر ایک کا تعلق مدارس سے رہا ہے ۔ موجودہ دور میں بھی اگر مدارس کے فیض یافتگان اپنی ضیا پاشیوں سے شعری و ادبی افق کو منور کرتے نظر آرہے ہیں تو اس میں کوئی تعجب خیز بات نہیں ، ہماری فارسی اور اردو شعری روایات میں بہت سی شخصیات ایسی ہیں جن کے نام کا سابقہ "مولانا” ہے ۔
شاعری کوئی بری شئی نہیں کہ اس سے کنارہ کشی اختیار کی جائے ، اچھی شاعری کی ہر دور میں پذیرائی ہوئی ہے ، یہ قلبی احساسات اور دلی جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئی ہے ، دور نبوت میں ہمیں اس کی مثال ملتی ہے ۔ اس سلسلے میں ایک اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ حسنہ حسن وقبیحہ قبیح ( جو شاعری اچھی ہے وہ اچھی ہے اور جو قبیح ہے وہ قبیح ہے)اسی اصول کے پیش نظر باذوق علماء ، صلحاء اور اولیاء اللہ نے بھی شاعری کی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اس کو اپنا مقصد نہیں بنایا ۔ خود علمائے دیوبند میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ، حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ شیخ الہند محمود حسن دیوبندیؒ ، مفتی شفیع عثمانیؒ ،قاری صدیق باندویؒ اور قاری محمد طیبؒ صاحبان وغیرھم کے شعری مجموعے کتاب کی شکل میں دستیاب ہیں گوکہ اب کم یاب ہیں۔
یہ تمہید اس لیے کہ آج جن دو شخصیات کا تعارف کروانا ہے وہ مدارس کے فیض یافتگان ہیں اور مدارس کے فارغین کے تئیں آج کے دور کے اکثر پروفیسروں اور ڈاکٹروں کا خیال مثبت نہیں ، جب کہ حقیقت میں یہ لوگ خود اردو کا صحیح تلفظ نہیں جانتے ، کتنے ہی پروفیسروں کو معَزَّزْ کو معَزِّزْ پڑھتے سنا گیا ہے ، شاید آپ نے بھی سنا ہوگا۔ معَزِّز خواتین و حضرات۔
خیر لیجئے! پیش خدمت ہے حضرت مولانا فضیل احمد ناصری عنبر القاسمی اور حضرت مولانا محمد شفیع الرحمن شفیع کا مختصر تعارف ۔

(٩)مولانا فضیل احمد ناصری عنبر القاسمی

مشہور عالم دین ، صاحب طرزادیب و شاعر

فضیل احمد ناصری نام ، عنبر تخلص ، والد گرامی کا نام مولاناجمیل احمد ناصری۔ 13 مئی 1978عیسوی میں اس عالم بے رنگ و بو میں آنکھیں کھولیں ۔ آبائی وطن ناصرگنج نستہ دربھنگہ ہے ، آپ کی پروش و پرداخت آپ کے ننھیال بلہا کمتول مدہوبنی میں ہوئی اور یہی آپ کا وطن ہے ۔
ابتدائی تعلیم والد محترم سے حاصل کی اور حفظ کی تکمیل مدرسہ حسینیہ پروھی پتونا و اسراہی مدھوبنی میں کی ۔مدرسہ دینیہ شوکت منزل غازی پور میں ایک سال حضرت مولانا وقاری شبیر احمد صاحب مدظلہ کے پاس دور کیا پھر ان کے ہمراہ مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ تشریف لے آئے اور فارسی سے عربی چاروں تک مسلسل پانچ سال تک یہاں رہے ، 1996ء میں اعلی تعلیم کے لئے دیوبند کا رخ کیا اور دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے کر 1998ء میں سند فراغت حاصل کی ۔

1999ء سے اپنے تدریسی سفر کا آغاز کیا ، 2003 تک دارالعلوم عزیزیہ میرا روڈ تھانے مہاراشٹر میں اپنی خدمات انجام دیں ، بعدازاں جامعہ دارالقرآن سرخیز احمد آباد گجرات میں 4 سال رہے اور ایک سال احمدآباد ہی کے معروف ادارے جامعہ فیض القرآن میں مشکٰوۃ تک کی کتابیں پڑھائیں ۔
2008ء سے جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند میں تدریس و تنظیم کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔

شعروادب سے دلچسپی بچپن ہی سے رہی ہے ، شاعری کی ابتدا کے متعلق خود لکھتے ہیں ۔
” شاعری کا آغاز ٹوٹے پھوٹے انداز میں یوں تو 1993ء میں ہوا ؛ لیکن اس کی باضابطہ شروعات 1996ء میں مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی پر لکھے گئے مرثیہ سے ہوئی ، اس فن میں بندہ کا حق یہ ہے کہ کوئی بھی استاذ نہیں ، البتہ ایک دو نظم میں ڈاکٹر کلیم عاجز پٹنہ سے اصلاح لی ہے ، اس لیے انہیں اپنا استاذ کہتا ہوں اور مانتا ہوں ” ۔
تقریبا ہر شاعر ابتدا میں مشق سخن کرتے ہوئے حسن و عشق اور لب و رخسار جیسے روایتی موضوع کا انتخاب کرتا ہے ، مولانا فضیل احمد ناصری صاحب کا معاملہ بھی کچھ الگ نہیں ، ابتدا میں خوب غزلیں کہیں ؛ لیکن بعد میں طبیعت صالحیت کی وجہ سے نظم نگاری کی طرف مائل ہوئی اور نظم کہنے لگے ، آپ کی شاعری کا بیشتر حصہ نظموں پر مشتمل ہے ، آپ نے جن اصناف سخن میں شاعری کی ہے ، ان میں غزلوں کے علاوہ حمد ، نعت نظم ، مرثیہ اور قصیدے شامل ہیں ۔
مولانا ناصری صاحب کی شاعری ان کے جذبات کی سچی ترجمان ہے ، تصنع اور بناوٹ سے عاری ، قلب پر جو کچھ گذرتی ہے زبانِ قلم پر بلاتکلف آجاتی ہے۔ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر لکھتے ہیں
"فضیل ناصری محبتوں کے شاعر ہیں ؛ لیکن صرف آنسو بہانا اور آہیں بھرنا ان کا شیوہ نہیں ، وہ اپنے گرد و پیش سے واقف اور ان تلخیوں اور ناہمواریوں سے آگاہ ہیں جن کا درد آج ہر دل میں موجود ہے ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے محبت کی زبان میں سچائیوں اور صداقتوں کو اس خوبی سے سمو دیا ہے کہ ان کی شاعری گئے وقت کی آواز یا گم ہوتی صدا نہیں معلوم ہوتی ، جو کچھ انہوں نے کہا وہ اس دور کے انسان کا المیہ ہے اور جب شاعر کسی المیہ کو احساس و جذبات کی پوری توانائی کے ساتھ بیان کرتا ہے تو بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔”(حدیث عنبر۔ص:٢٢)
ان کے اسلوب و آہنگ اور لفظیات کے حوالے سے مفتی ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ جھارکھنڈ رقم طراز ہیں۔
” ان میں کہیں علامہ اقبال کا اسلوب ، کہیں کلیم عاجز کا آہنگ اور کہیں میر کی لفظیات کا احساس ہوتا ہے اور یہ سب عنبر کے اپنے رنگ و آہنگ سے مل کر نیا سر اور نئی آواز بن جاتے ہیں ، نیا کیف اور نیا سرور پیدا کرتے ہیں اور قاری اس کیف و سرور میں ڈوب کر آخری صفحہ تک مطالعہ کا عمل جاری رکھتا ہے ، یہ مولانا فضیل ناصری کی شاعری کا کمال ہے”۔(حوالہ سابق۔ص:٢٨)
آپ کی تصنیفات میں
” حدیث عنبر ” (اولین شعری مجموعہ)
"آؤ کے لہو رولیں” (شعری مجموعہ)
"ستاروں کی بارات” ( خاکوں کا مجموعہ )
"تفیم المیبذی شرح اردو میبذی”
"تفہیم الہامی شرح اردو منتخب حسامی ”
” پچاسی سالہ فنکار : اپنے آئینے میں( مولانا وحید الدین خان کے افکار کا جائزہ) شامل ہیں ۔ ان میں "حدیث عنبر” کو قبولیت عامہ حاصل ہے۔
آپ علامہ اقبال ایوارڈ اور مولانا سید انظر شاہ کشمیری ایوارڈ سے نوازے جا چکے ہیں۔
آپ کا علمی ، ادبی اور تخلیقی سفر ہنوز جاری ہے ۔ جامعہ امام محمد انور شاہ کشمیری سے نکلنے والے علمی و دینی اور ادبی ترجمان "محدث عصر” کے نائب مدیر ہیں۔
انھوں نے شاعری میں ایک نئی صنف ابجدی نظم کا تجربہ یا یوں کہیے اضافہ کیا ہے ۔

نمونہ کلام

حدیث مرسلاں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا
تیری فطرت ہے افلاکی سراپا آسماں ہو جا

نہ رکھ آلودہ اپنا دامن تقوی عداوت سے
حمیت میں محبت میں جہاں بان جہاں ہو جا

تجھے یزداں نے ابن رحمت عالم بنایا ہے
جہاں تک ہو سکے شفقت میں بحر بے کراں ہوجا

نکل جا اے مسلماں وادی فرقہ پرستی سے
جو ہے مومن تو ہر مومن سے باہم جسم جاں ہوجا

نبوت کی اہانت کا تحمل موت ہے پیارے
نکل کر حلقہءصوفی سے شمشیروسناں ہوجا

نہیں اچھا اچھلنا ایک قطرے پر میاں عنبر
شریعت کی سبھی خم ڈھال لے پیر مغاں ہوجا

آپ کی ذات ستمگر کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پتھر ہیں تو میں سر کے سوا کچھ بھی نہیں

جو پھنسا آپ کی الفت میں کبھی چھٹ نہ سکا
عشق اک موت کے خنجر کے سوا کچھ بھی نہیں

لعل و لب ناز و ادا آپ کے بالائےشعور
قد ترا سرو صنوبر کے سوا کچھ بھی نہیں

آپ آتے ہیں تو آتی ہے گلستاں میں بہار
اور گفتار گل تر کے سوا کچھ بھی نہیں

آپ خوش ہیں تو میرے سامنے فردوس بھی ہیچ
ورنہ پھر غم کے سمندر کے سوا کچھ بھی نہیں

آج تو آپ نگاہوں سے گرا بیٹھے ہیں
کل کو کہیے گا کہ عنبر کے سوا کچھ بھی نہیں

(١٠) مولانا محمد شفیع الرحمان شفیع،بسہا

عالمِ دین ، شاعر ، سماجی خدمتگار

محمد شفیع الرحمن نام ، تخلص شفیع ۔ 9 اگست 1952عیسوی میں بسہا بابوبرہی کے آب و گل میں آنکھیں کھولیں ۔ ابتدائی تعلیم گاؤں ہی میں ہوئی ، اس کے بعد مدرسہ نصرت العلوم نرہیا بازار تشریف لے گئے ، مزید دینی تعلیم کیلئے علاقے کے مشہور و معروف مرکزی ادارے مدرسہ رحمانیہ یکہتہ میں داخل ہوئے ، پھر عظیم آباد کا رختِ سفر باندھا ، بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے عالمیت اور فضیلت کی ڈگری حاصل کی ، بعدازاں پٹنہ یونیورسٹی سے فارسی اور انگریزی میں ایم اے کیا اور بی ایڈ بھی ، ایل ایل بی میں داخلہ لیا مگر بیمار ہونے کے سبب مکمل نہ کر سکے اور وکالت کا خواب خواب ہی رہ گیا۔
خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری سے ملازمت کا آغاز کیا ، پانچ سال وہاں رہے اس کے بعد انگریزی استاذ کی حیثیت سے محمڈن اینگلو عربک اسکول میں تقریبا 31 سال تک اپنی خدمات انجام دیں اور وہیں سے31 اگست 2012 عیسوی میں سبکدوش ہوئے ۔
شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی میں سہرا ، نظم اور غزل لکھ کر کیا۔ عید بقر عید کے موقع سے گاؤں میں ہونے والے مختلف مشاعروں میں شرکت کرتے ، پٹنہ میں ادبی انجمنوں سے وابستہ رہے ۔حلقہءادب اور انجمن اردو ترقی کی سکریٹری ، کئی ایک تنظیم کے بانی اور اردو رسالوں کے مدیر اور معاون مدیر بھی رہے ، بزم پرویز شاہدی ، بزم ثاقب ، ادبی مرکز اور دیگر انجمنوں کے مشاعروں میں برابر شریک ہوتے رہے ، کئی مشاعرے حضرت کلیم عاجز ، ناوک حمزہ پوری ، سلطان اختر رمز عظیم آبادی ، عطا کاکوی اور پروفیسر عبدالغنی کی صدارتوں میں پڑھنے کے مواقع حاصل ہوئے ، سماجی کام میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے ۔ اخیر میں گوشہ نشینی کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیا اور یکسو ہو کر قرآن کریم کا منظوم ترجمہ کرنے لگے ، مفہوم القرآن کے نام سے منظر عام پر لانے کا ارادہ تھا ، کئی پاروں اور سورتوں کا ترجمہ کر چکے تھے ؛ لیکن وقت موعود آ پہنچا اور 28 مارچ 2020ء کو اس دار ِفانی سے دارالبقا کوچ کر گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ڈاکٹر عبدالرافع صاحب ان کی شاعری کے تعلق سے لکھتے ہیں ۔
"ان (مولانا محمد شفیع الرحمن شفیع ) کی غزلیں کلاسیکی شعری روایت کی امین اور جدید شعری روایت کی پاسدار ہیں اور ان دونوں کا حسین امتزاج ان کی انفرادی تشخص کا استعارہ ہے ، انہوں نے قومی اور بین الاقوامی مسائل کے تقریبا تمام پہلوؤں کو اپنی تخلیقات کا حصہ بنایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلامی عقائد ، قرآنیات ، سنت ، روایت ، ثقافت ، سیاست ، جغرافیہ ، عمرانیات ، ماحولیات ،نفسیات ، عام معلومات اور نظام کائنات میں موجود اللہ تعالی کی آیات وغیرہ پر غزلیں ، نظمیں ، قطعات اور رباعیات تخلیق کرکے اپنی علمی بصیرت ، تخلیقی اختراع اور فنکارانہ ہنر مندی کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔”

ان کا شعری مجموعہ ” آبشار نوا ” جو 592 صفحہ اور 484 کلام پر مشتمل ہے ، منصہ شہود پر آ چکا ہے ۔ ڈاکٹر عبدالرافع صاحب اس کے مرتب ہیں۔

نمونہ کلام

شب تاریک کا کھسکا حجاب آہستہ آہستہ
افق پر آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

پڑھی جاتی نہیں دل کی کتاب آہستہ آہستہ
ہوا جس کے سبب خانہ خراب آہستہ آہستہ

شعور زندگانی بھی بصیرت بھی فراست بھی
پڑھو قدرت کی روزانہ کی کتاب آہستہ آہستہ

سبھی کچھ جانتا ہے جو ہے قدرت جس کی ہر شے پر
کرو حاصل اسی سے ہر جواب آہستہ آہستہ

یکایک میکشی سے توبہ کب آسان ہے پیارے
کرو بنت عنب سے اجتناب آہستہ آہستہ

شفیع خوش نوا اب تلخ گوئی سے گریزاں ہیں
مکمل ہو رہا ہے انقلاب آہستہ آہستہ

خوں میرا سر شام چراغوں میں جلے ہے
تاریک پسندوں کو یہی بات کھلے ہے

کس ناز سے پھولوں پہ وہ طناز چلے ہے
مجروح سسکتا ہوا دل پانو تلے ہے

شمشیر درندوں کا کٹا چنگا بھلا ہو
جاں بر نہیں ہوتا ہے جو باتوں سے جلے ہے

احسان مجھی پر وہ جتاتا ہے ہمیشہ
پی پی کے لہو میرے جگر کا جو پلے ہے

اقبال اگر آئے ہے جانے کی رہے دھن
ایک بار زوال آئے تو ٹالے نہ ٹلے ہے

وہ شوخ شفیع آہ نہ فریاد سنے ہے
جو چال چلے ہے وہ قیامت کی چلے ہے

You may also like

Leave a Comment